Saturday, 21 December 2019

شدّت اور مقدار کا فرق


مقدار جتنی بھی بڑھا لی جاے ...چاہے وہ کسی بھی چیز کی ہو یا باتوں کی - کبھی بھی اثر قائم نہیں کر سکتی نہ ہی فائدہ مند ہو سکتی جب تک اس میں شدّت شامل نہ کی جاے - جذبات کی آنچ کے زیادہ اور کم ہونے سے ہی در اصل تعلقات میں مضبوطی اور پائداری آتی ہے

لیکن یہ شدّت جب تک خود کو ظاہر نہ کرے ، چاہے گفتگو ہو یا پھر تاثرات  ہوں ، ہم کبھی بھی اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکتے  اور اگر حاصل کر بھی لیں تو کچھ ہی وقت  رہ سکتا ہے پھر اس کا اثر اور فائدہ ختم ہو جاتا ہے

شدت ہی در اصل اپنے  صحیح اور غلط استعمال کی وجہ سے نقصان اور فائدہ کی موجب بنتی ہے اور فائدہ ہو یا نقصان جب شدّت کے نتیجے میں ہوگا تو ہمیشہ پائدار ہوگا - لیکن کیونکہ ہم اکثر منفی اطراف میں زیادہ مائل ہو جاتے ہیں اس لئے شدّت کے صرف منفی پہلو کو جانتے ہیں اور مخالفت کرتے ہیں

یہ بات بہت قابل غور ہے  کہ شدّت جذبات کا اظھار بھی موقع محل اور صحیح وقت کا تقاضا کرتا ہے بلکل ویسے ہی جیسے صحیح وقت پر نہ کی گئی  بات یا عمل جو بے محل بھی ہو برائی بن جاتی ہے اور درست وقت اور موقع پر بظاھر برائی نظر آنے والا  عمل نیکی بن جاتا ہے

جیسے اگر نفلی روزہ اس وقت رکھ لیا جاے جب مشقت اور ہمّت کی ضرورت ہو اور انسان کو الله کی عطا کردہ طاقت کے استعمال کے لئے توانائی  کی اشد ضرورت ہو تاکہ وہ کسی کی مدد کر سکے اور جان بچا سکے تو ایسی   نیکی بھی نہ قابل قبول بلکہ گناہ بن جاتی ہے جب زبردستی جانتے بوجھتے ہوے ایسا کیا جاے - جانتے بوجھتے ہوے اگر بیماری کی حالت میں نفلی روزہ رکھ لیا جاے جس سے بیماری کی شدّت میں اضافہ ہونے کا قوی امکان ہو تو بھی یہ نیکی نہیں گناہ کے زمرے میں آتا ہے

بلکل ایسے ہی کسی کو گولی لگنے کے لازمی امکان سے بچانے کے لئے اگر گڑھے میں دھکا دے دیا جاے جہاں اسے گولی سے کم نقصان ہو تو بظاھر برائی نظر آنے والا یہ عمل بھی نیکی بن جاتا ہے

یہی حال شدّت کا استعمال کا ہے - جب ہم  موقع محل کے ساتھ اس کا درست استعمال کرتے ہیں ، جیسے اپنے مولیٰ کے حضور گڑگڑانے سے لے کر کسی بھی صاحب قدرت و اختیار کے سامنے درخواست کرانے تک تو اس کا اثر بہت جلد اور پائدار ہوتا ہے - بلکل اسی طرح دلائل اور سرزنش بھی موقع محل اور درست طریق پر ہونا اتنا ہی لازمی ہے جتنا ہمدردی اور پیار کا صحیح طریق اورموقع محل سے ہونا

لیکن اس کے لئے بھی چند شرائط کا پورا ہونا لازمی ہے جس میں سے ایک بڑی شرط صبر و برداشت کی ہوتی ہے - ہم اپنے صبر و برداشت کے موقع محل اور ترجیح سے پہچانے جاتے ہیں اور صبر و برداشت کو ہرگز بزدلی اور کمزوری کی حالت میں صبر و برداشت نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی ہم اپنی کمزوری اور بزدلی کی پردہ پوشی کے لئے صبر و برداشت کا نام لے سکتے ہیں - یہ تو پوری طاقت اور قدرت کے ہوتے ہوے کسی بلند مقصد کی خاطر خود کو روکے رکھنے کا نام ہے

ہمیں یہ سننے کو ملتا ہے کہ غصہ بہت بری چیز ہے اس  سے بچنا چاہیے اور زیادہ غصہ  میں آنے والا آدمی پسند نہیں کیا جاتا جبکہ ہمارے سامنے ایسی نایاب مثالیں بھی پائی جاتی ہیں جن میں کچھ ہستیوں نے اپنے غصّے کو سمت اور موقع محل دیکھ کر چنلائز کرنے میں مہارت حاصل کی تو دنیا حیران رہ گئی

جیسے ایک بار  حضرت عمر رضی الله عنہ سے کسی نے پوچھا کے خلافت کے بعد آپ کی طبیعت میں غصہ نہیں رہا جس کو تمام عرب جانتا تھا تو آپ نے فرمایا غصہ ابھی بھی ہے لیکن شریعت کے تابع ہو گیا ہے یعنی بلکل ویسے ہی جیسے حضور نبی کریم “ﷺ نے فرمایا  کہ پہلوان یا طاقتور وہ نہیں جو کسی دوسرے پہلوان کو پچھاڑ دیتا ہے طاقتور وہ ہے جو اپنے غصّے پر کابو پا سکتا ہے

یہ دجل ہی ہے جو ہمیں ہمارے اصل سے دور لے جا کر ایک اچھا خریدار بنا ڈالتا ہے جو ہر وقت پیسہ کمانے اور اسے خرچ کرنے کے نت نئے طریقوں پر غور کرنے پر مجبور کرتا رہتا ہے - ہمیں اس رجحان پر مائل کرنے کی خاطر کئی طرح کی شعبدہ بازی سے کام لیا جاتا ہے یہ شعبدہ بازی چاہے مداری یا سنیاسی دکھائیں یا پھر سیاست دان ، کاروباری حضرات ، یا پھر مذھب کا لبادہ اوڑھ کے رکھنے والے شعبدہ باز - ان کا اصل مقصد انسان کی کم علمی اور دانائی کے شدید فقدان کو قائم رکھنا اور اس سے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا ہی ہوتا ہے کیونکہ جب تک آدمی ضعیف الاعتقاد نہیں ہوگا اس ان کی دکان کیسے چمکے گی ؟

شعبدہ چاہے مداری کا ہو جس کو آج کے ماڈرن دور میں الوزنسٹ بھی کہتے ہیں ، یا کسی اور ماہر علوم و سیاسیات کا اس کے اثر میں بڑے بڑے لکھ پڑھ سکنے والے اپنے آپ کو تعلیم یافتہ سمجھنے والے بھی آجاتے ہیں اور پھر اس کی وقالت بھی پر زور انداز میں کرتے ہیں


یہاں کابو پانے کی نصیحت ہے نا کہ سرے سے ختم کردینے کی - ہمیں حکم غیض و غضب میں حواس کھو دینے سے بچنے کا ہے - جان بوجھ کر حواس کھو دینا ویسے بھی حرام ہے چاہے وہ نشے کی حالت ہو یا غصّے کی دونوں  صورت میں انسان آپے سے باہر ہو کر نقصان کا موجب بنتا ہے

احکامات ہوں یا اصطلاحات ان کو درست تناظر میں سمجھنے کا نام ہی در اصل وہ چیلنج ہے جس کا مقابلہ کرنا اس دور کا جہاد ہے - اقدار عقائد اور اصطلاحات کے جو بگڑے ہوے،  یہاں تک کے مسخ شدہ معنی اس دور میں رائج ہو چکے ہیں یہی وہ دجل ہے جس کے خاتمے کے لئے ہمیں اب تو کھڑے ہونا چاہیے-

کاشف احمد
اسلام  آباد ، پاکستان
٢١ -١٢ -٢٠١٩