ہمارے
بابا سائیں نور والے فرماتے ہیں کہ اللہ کی آواز سننے کی پریکٹس کرنی چاہئے، جو
شخض اللہ کی آواز کے ساتھ اپنا دل ملا لیتا ہے، اسے کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں
رہتی۔ کسی نے بابا جی سے پوچھا کہ ”اللہ کی آواز کے ساتھ اپنا دل ملانا
بھلا کیسے ممکن ہے؟“
تو جواب ملا کہ ”انار کلی بازار جاؤ، جس وقت وہاں خوب
رش ہو اس وقت جیب سے ایک روپے کا بڑا سکہ (جسے اس زمانے میں ٹھیپہ کہا جاتا تھا)
نکالو اور اسے ہوا میں اچھال کر زمین پر گراؤ۔ جونہی سکہ زمین پر گرے گا، تم دیکھنا
کہ اس کی چھن کی آواز سے پاس سے گزرنے والے تمام لوگ متوجہ ہوں گے اور پلٹ کر زمین
کی طرف دیکھیں گے، کیوں؟ اس لئے کہ ان سب کے دل اس سکے کی چھن کی آواز کے ساتھ ”ٹیون اپ“ ہوئے ہیں۔ لہٰذا اب یہ تمہاری مرضی ہے
کہ یا تو تم بھی اپنا دل اس سکے کی آواز کے ساتھ ”ٹیون اپ“ کر لو یا پھر اپنے خدا کی آواز کے ساتھ
ملا لو“
بابا جی کا بیان ختم ہوا تو نوجوانوں کے گروہ نے ان کو گھیر
لیا اور سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ کسی نے پوچھا ” سر! ہمیں سمجھائیں کہ ہم کیسے اپنا دل
خدا کے ساتھ ”ٹیون اپ“ کریں کیونکہ ہمیں یہ کام نہیں آتا؟“ اشفاق صاحب نے اس بات کا بھی بے حد
خوبصورت جواب دیا، فرمانے لگے”یار ایک بات تو بتاؤ، تم سب جوان لوگ
ہو، جب تمہیں کوئی لڑکی پسند آ جائے تو تم کیا کرتے ہو؟ کیا اس وقت تم کسی سے
پوچھتے ہو کہ تمہیں کیا کرنا چاہئے؟ نہیں، اس وقت تمہیں سارے آئیڈیاز خود ہی
سوجھتے ہیں، ان سب باتوں کے لئے تمہیں کسی گائڈینس کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ اس میں
تمہاری اپنی مرضی شامل ہوتی ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ جب خدا کی بات آتی ہے تو تمہیں
وہاں رہنمائی بھی چاہئے اور تمہیں یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ خدا کے ساتھ اپنے آپ کو” ٹیون اپ “کیسے کرنا ہے؟
از اشفاق احمد
دلوں پر یہی زنگ وقتاً فوقتاً صاف کرتے رہنا ضرور ہوتا ہے کیسے
؟ اس کے لئے ایک واقعہ اور سنئیے:
موٹرسائیکل ایک لیٹر میں پینسٹھ سے ستر کلومیٹر چلتی تھی۔
اچانک اس کی ایوریج خراب ہو گئی اور پینتالیس چھیالیس پہ آ گئی. دو تین مکینکس کو
دکھانے کے باوجود معاملہ قابو میں نہ آیا.
پھر ایک مکینک نے اپنی بے بسی کا اعتراف کرتے ہوئے ایک سنیئر
موسٹ کی طرف ریفر کر دیا.
چنانچہ بائیک وہاں لے جائی گئی۔ اس نے ساری بات سنی اور
" چھوٹے "کو آواز دی.
"چھوٹے" سے چھوٹا پیچ کس منگوایا.
کاربوریٹر سے ایک پیچ کھول کے "چھوٹے" کو کہا کہ
اسے بف لگا کے لاؤ.
وہ پانچ منٹ میں بف لگا کے لے آیا۔ مکینک نے پیچ اسی جگہ پہ لگا دیا اور کہا کہ جاؤ.
ان شاءاللہ مسئلہ حل ہو جائے گا.
پیسے بھی اس نے کچھ نہ لئے.
چند دن بعد نوٹ کیا توموٹر سائیکل پھر تقریبا ستر کلومیٹر
پہ آگئی تھی-
میں شکریہ ادا کرنے کے لئے گیا تو پوچھا کیا فالٹ تھا؟
مکینک بولا
" کاربن آ گیا تھا "
صرف کاربن آ جانے سے اتنا اثر پڑا؟
جی ہاں۔۔۔
جب ہم دماغ زیادہ اور دل کم استعمال کریں تو دِلوں پر بھی
کاربن آجایا کرتا ہے.
تب دِل کسی نیکی، بھلائی اور بہتری کی طرف مائل نہیں ہوتا.
اس کی وجہ صرف ہمارا اپنی ذائقے اور لطف محسوس کرنے کی حس
کا غیر ترقی یافتہ رہ جانا ہوتا ہے جسے انگریزی میں Taste Development کہتے ہیں - جیسے
چھوٹے بچے بڑھتی عمر کے ساتھ دودھ چھوڑ کر نرم غذا لیتے ہیں اور پھر دلیہ یا سریلیک
کھانےلگتے ہیں اور دھیرے دھیرے عمر کے ساتھ دیگر مختلف کھانوں کا ہم انھیں تجربہ
کرواتے ہیں نئی نئی ڈشز ٹرائی کرتے ہیں - ان کی ذائقے کی حس کو ترقی دیتے ہیں یعنی
Taste Development
کرتے ہیں -
کیا آپ اپنی روز مرہ غذا میں سریلیک کھانا پسند کریں گے ؟
وہی غذا جو بچے کھاتے ہیں؟ آپ کی ذائقے کی حس ترقی یافتہ ہے Taste Develop ہو چکا ہے، اس لئے آپ نچلے درجے
کے ذائقے نہیں اپنا سکتے - اسی طرح دوسری جانب آپ کسی چھوٹی عمر کے بچے کو بریانی یا
حلیم نہیں کھلا سکیں گے- کیونکہ اس کی ذائقے کی حس ابھی غیر ترقی یافتہ ہے یا اس
کا Taste
ابھی Develop
نہیں ہوا -
اس کے لئے ذائقے اور لطف کو ترقی دینا اس کی فائن ٹیوننگ
کرتے رہنا ضروری ہوتا ہے، اعلی لذات کی عادت ڈالنی پڑتی ہے - اس کے لئے چاہے کافی
زیادہ تردد بھی کرنا پڑے بچوں کو دودھ چھڑوانا پڑتا - اکثر لوگ دودھ پیتے بچے اسی
لئیے بھی رہ جاتے ہیں کہ ارد گرد کا ماحول انکو محفوظ رہنے اور تکلیف اور تردد سے
دور رہنے کا اتنا زیادہ سبق پڑھاتا ہے کہ وہ شخصیت میں پختگتی اور کردار میں مضبوطی
کی تکلیف ہی نہیں اٹھاتے- ماہرین کے مطابق ہمارا دماغ بھی ہمیں خطرے اور مشکل کام
سے محفوظ رکھنے کے لئے ڈیزائن ہوا ہے- تبھی تو اچانک کبھی کسی گرم یا جلتی ہی سطح
پر ہاتھ یا پاؤں چھو بھی جاے تو اسی وقت ہٹا لیتے ہیں اور سردیوں میں صبح صبح رضائی
سے باہر آنا تقریباً نا ممکن ہو جاتا ہے -
اس لئے وہ لوگ جن کی لطف اندوز ہونے کی حس غیر ترقی یافتہ
ہے وہ اکثر سنجیدگی سے بھاگتے ہیں ،ادبی اور فلسفیانہ محلفلوں کو بورنگ سمجھ کر
سوچتے رہتے ہیں کہ یہ بوڑھے لوگ اتنی فرسودہ چیزیں کیوں پسند کرتے ہیں؟ ، کلا سیکی اور عارفانہ کلام کیوں پسند ہیں ؟ اتنی بورنگ کتابیں
پڑھتے ہیں - دنیا میں ہر ایک کی اچھائی اور نیکی، بہتری اور بھلائی کیوں چاہتے ہیں
اور بورنگ محفلوں میں ان کا دل کیسے لگتا ہے ؟ عبادت اتنا دل لگا کر کیسے کر لیتے
ہیں ؟
در
اصل انسان اگر اپنی فائن ٹیوننگ کرواتا رہے، انہی بزرگان میں اٹھنا بیٹھنا جاری
رکھے، اور وقتاً فوقتاً ان کی بورننگ باتیں سنا کرے اور کچھ کتابیں بھی پڑھ لیا
کرے تو اس کے دل کا زنگ صاف ہوتا رہتا ہے- یہ عادتیں دل کے لئے زنگ کش ، اینٹی رسٹ
کا کام کرتی رہتی ہیں -دوسری صورت میں زنگ آلود ہو کر دل بیمار ہو جاتا ہے اور پھر
اسے ایک بیمار شخص کی طرح کبھی بھی اعلی لذات کا ذائقہ اچھا نہیں لگتا یا پھیکا
اور بورنگ لگتا ہے جیسے بیماری میں انسان کے منہ کا ذائقہ تبدیل ہو جاتا ہے اور
اسے میٹھی چیز بھی کڑوی لگتی ہے اسی طرح -
شروع
میں ہی اگر ساتھ ساتھ اس فائن ٹیوننگ کی عادت رہے تو ذائقہ ، لطف اور شوق وقت کے
ساتھ ساتھ ترقی پاجاتے ہیں بعد میں بہت مشکل ہو جاتی ہے کبھی کبھی بہت رگڑائی کرنی
ہوتی ہے اور پھر زنگ آلود دلوں کی صفائی کرنا بہت وقت لیتا ہے- بس اگر زیادہ بیمار
ہو کر ناکارہ نہ ہو چکے ہوں تو ....
ربا
ربا مینہ برسا ،
بنجر
دل نے پانی لا
(حضرت
سلطان باہو)
کاشف
احمد