Monday, 8 August 2022

فائن ٹیوننگ


ہمارے بابا سائیں نور والے فرماتے ہیں کہ اللہ کی آواز سننے کی پریکٹس کرنی چاہئے، جو شخض اللہ کی آواز کے ساتھ اپنا دل ملا لیتا ہے، اسے کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں رہتی۔ کسی نے بابا جی سے پوچھا کہ اللہ کی آواز کے ساتھ اپنا دل ملانا بھلا کیسے ممکن ہے؟تو جواب ملا کہ انار کلی بازار جاؤ، جس وقت وہاں خوب رش ہو اس وقت جیب سے ایک روپے کا بڑا سکہ (جسے اس زمانے میں ٹھیپہ کہا جاتا تھا) نکالو اور اسے ہوا میں اچھال کر زمین پر گراؤ۔ جونہی سکہ زمین پر گرے گا، تم دیکھنا کہ اس کی چھن کی آواز سے پاس سے گزرنے والے تمام لوگ متوجہ ہوں گے اور پلٹ کر زمین کی طرف دیکھیں گے، کیوں؟ اس لئے کہ ان سب کے دل اس سکے کی چھن کی آواز کے ساتھ ٹیون اپہوئے ہیں۔ لہٰذا اب یہ تمہاری مرضی ہے کہ یا تو تم بھی اپنا دل اس سکے کی آواز کے ساتھ ٹیون اپکر لو یا پھر اپنے خدا کی آواز کے ساتھ ملا لو

بابا جی کا بیان ختم ہوا تو نوجوانوں کے گروہ نے ان کو گھیر لیا اور سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ کسی نے پوچھا سر! ہمیں سمجھائیں کہ ہم کیسے اپنا دل خدا کے ساتھ ٹیون اپکریں کیونکہ ہمیں یہ کام نہیں آتا؟اشفاق صاحب نے اس بات کا بھی بے حد خوبصورت جواب دیا، فرمانے لگےیار ایک بات تو بتاؤ، تم سب جوان لوگ ہو، جب تمہیں کوئی لڑکی پسند آ جائے تو تم کیا کرتے ہو؟ کیا اس وقت تم کسی سے پوچھتے ہو کہ تمہیں کیا کرنا چاہئے؟ نہیں، اس وقت تمہیں سارے آئیڈیاز خود ہی سوجھتے ہیں، ان سب باتوں کے لئے تمہیں کسی گائڈینس کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ اس میں تمہاری اپنی مرضی شامل ہوتی ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ جب خدا کی بات آتی ہے تو تمہیں وہاں رہنمائی بھی چاہئے اور تمہیں یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ خدا کے ساتھ اپنے آپ کوٹیون اپ کیسے کرنا ہے؟

از اشفاق احمد

 

دلوں پر یہی زنگ وقتاً فوقتاً صاف کرتے رہنا ضرور ہوتا ہے کیسے ؟ اس کے لئے ایک واقعہ اور سنئیے:

 

موٹرسائیکل ایک لیٹر میں پینسٹھ سے ستر کلومیٹر چلتی تھی۔ اچانک اس کی ایوریج خراب ہو گئی اور پینتالیس چھیالیس پہ آ گئی. دو تین مکینکس کو دکھانے کے باوجود معاملہ قابو میں نہ آیا.

پھر ایک مکینک نے اپنی بے بسی کا اعتراف کرتے ہوئے ایک سنیئر موسٹ کی طرف ریفر کر دیا.

چنانچہ بائیک وہاں لے جائی گئی۔ اس نے ساری بات سنی اور " چھوٹے "کو آواز دی.

"چھوٹے" سے چھوٹا پیچ کس منگوایا.

کاربوریٹر سے ایک پیچ کھول کے "چھوٹے" کو کہا کہ اسے بف لگا کے لاؤ.

وہ پانچ منٹ میں بف لگا کے لے آیا۔ مکینک نے پیچ اسی جگہ پہ لگا دیا اور کہا کہ جاؤ.


ان شاءاللہ مسئلہ حل ہو جائے گا.

پیسے بھی اس نے کچھ نہ لئے.

 

چند دن بعد نوٹ کیا توموٹر سائیکل پھر تقریبا ستر کلومیٹر پہ آگئی تھی-

 

میں شکریہ ادا کرنے کے لئے گیا تو پوچھا کیا فالٹ تھا؟

مکینک بولا

 

" کاربن آ گیا تھا "

 

صرف کاربن آ جانے سے اتنا اثر پڑا؟

 

جی ہاں۔۔۔

 

جب ہم دماغ زیادہ اور دل کم استعمال کریں تو دِلوں پر بھی کاربن آجایا کرتا ہے.

تب دِل کسی نیکی، بھلائی اور بہتری کی طرف مائل نہیں ہوتا.

اس کی وجہ صرف ہمارا اپنی ذائقے اور لطف محسوس کرنے کی حس کا غیر ترقی یافتہ رہ جانا ہوتا ہے جسے انگریزی میں Taste Development کہتے ہیں - جیسے چھوٹے بچے بڑھتی عمر کے ساتھ دودھ چھوڑ کر نرم غذا لیتے ہیں اور پھر دلیہ یا سریلیک کھانےلگتے ہیں اور دھیرے دھیرے عمر کے ساتھ دیگر مختلف کھانوں کا ہم انھیں تجربہ کرواتے ہیں نئی نئی ڈشز ٹرائی کرتے ہیں - ان کی ذائقے کی حس کو ترقی دیتے ہیں یعنی Taste Development کرتے ہیں -

 

کیا آپ اپنی روز مرہ غذا میں سریلیک کھانا پسند کریں گے ؟ وہی غذا جو بچے کھاتے ہیں؟ آپ کی ذائقے کی حس ترقی یافتہ ہے Taste Develop ہو چکا ہے، اس لئے آپ نچلے درجے کے ذائقے نہیں اپنا سکتے - اسی طرح دوسری جانب آپ کسی چھوٹی عمر کے بچے کو بریانی یا حلیم نہیں کھلا سکیں گے- کیونکہ اس کی ذائقے کی حس ابھی غیر ترقی یافتہ ہے یا اس کا Taste ابھی Develop نہیں ہوا -

 

اس کے لئے ذائقے اور لطف کو ترقی دینا اس کی فائن ٹیوننگ کرتے رہنا ضروری ہوتا ہے، اعلی لذات کی عادت ڈالنی پڑتی ہے - اس کے لئے چاہے کافی زیادہ تردد بھی کرنا پڑے بچوں کو دودھ چھڑوانا پڑتا - اکثر لوگ دودھ پیتے بچے اسی لئیے بھی رہ جاتے ہیں کہ ارد گرد کا ماحول انکو محفوظ رہنے اور تکلیف اور تردد سے دور رہنے کا اتنا زیادہ سبق پڑھاتا ہے کہ وہ شخصیت میں پختگتی اور کردار میں مضبوطی کی تکلیف ہی نہیں اٹھاتے- ماہرین کے مطابق ہمارا دماغ بھی ہمیں خطرے اور مشکل کام سے محفوظ رکھنے کے لئے ڈیزائن ہوا ہے- تبھی تو اچانک کبھی کسی گرم یا جلتی ہی سطح پر ہاتھ یا پاؤں چھو بھی جاے تو اسی وقت ہٹا لیتے ہیں اور سردیوں میں صبح صبح رضائی سے باہر آنا تقریباً نا ممکن ہو جاتا ہے -

 

اس لئے وہ لوگ جن کی لطف اندوز ہونے کی حس غیر ترقی یافتہ ہے وہ اکثر سنجیدگی سے بھاگتے ہیں ،ادبی اور فلسفیانہ محلفلوں کو بورنگ سمجھ کر سوچتے رہتے ہیں کہ یہ بوڑھے لوگ اتنی فرسودہ چیزیں کیوں پسند کرتے ہیں؟ ، کلا سیکی اور عارفانہ کلام کیوں پسند ہیں ؟ اتنی بورنگ کتابیں پڑھتے ہیں - دنیا میں ہر ایک کی اچھائی اور نیکی، بہتری اور بھلائی کیوں چاہتے ہیں اور بورنگ محفلوں میں ان کا دل کیسے لگتا ہے ؟ عبادت اتنا دل لگا کر کیسے کر لیتے ہیں ؟

 

در اصل انسان اگر اپنی فائن ٹیوننگ کرواتا رہے، انہی بزرگان میں اٹھنا بیٹھنا جاری رکھے، اور وقتاً فوقتاً ان کی بورننگ باتیں سنا کرے اور کچھ کتابیں بھی پڑھ لیا کرے تو اس کے دل کا زنگ صاف ہوتا رہتا ہے- یہ عادتیں دل کے لئے زنگ کش ، اینٹی رسٹ کا کام کرتی رہتی ہیں -دوسری صورت میں زنگ آلود ہو کر دل بیمار ہو جاتا ہے اور پھر اسے ایک بیمار شخص کی طرح کبھی بھی اعلی لذات کا ذائقہ اچھا نہیں لگتا یا پھیکا اور بورنگ لگتا ہے جیسے بیماری میں انسان کے منہ کا ذائقہ تبدیل ہو جاتا ہے اور اسے میٹھی چیز بھی کڑوی لگتی ہے اسی طرح -

 

شروع میں ہی اگر ساتھ ساتھ اس فائن ٹیوننگ کی عادت رہے تو ذائقہ ، لطف اور شوق وقت کے ساتھ ساتھ ترقی پاجاتے ہیں بعد میں بہت مشکل ہو جاتی ہے کبھی کبھی بہت رگڑائی کرنی ہوتی ہے اور پھر زنگ آلود دلوں کی صفائی کرنا بہت وقت لیتا ہے- بس اگر زیادہ بیمار ہو کر ناکارہ نہ ہو چکے ہوں تو ....

 

ربا ربا مینہ برسا ،

بنجر دل نے پانی لا

(حضرت سلطان باہو)

کاشف احمد


Saturday, 16 July 2022

شوق, دلچسپی ، اور مداومت

 

شوق یا ہیجان یا پھر جوش جسے انگریزی میں passion بھی کہا جاتا ہے، ایک بڑھا چڑھا کر پیش کی ہوئی اصطلاح ہے جس کا استعمال یا یوں کہ لیں غلط استعمال کر کے لوگوں ، خاص طور پر نوجوانوں میں کچھ ایسا کر گزرنے کا جذبہ ابھاراجاتا ہے جو  ان کے اپنے فائدے سے زیادہ مفاد پرست ، ناجائز منافع حاصل کرنے کے خواہش مند نام نہاد  ماہرین اور پیشہ ور افراد کو فائدہ دیتا ہے -

یہ انسان کی پہچان سے اسے دور لے جانے والی بات ہے - انسان ہونا کوئی معمولی بات نہیں اشرف المخلوقات خالق کی سب سے افضل تخلیق ہے  آپ بہترین صورت میں پیدا کئے گئے ہیں مگر صرف اپنی بہترین حالت خاص خاص موقعوں پر ہی کیوں ظاہر کرتے ہیں ؟ جیسے کوئی انٹرویو ہو یا پھر کسی شادی پر جانا ہو تو بہترین حالت میں آتے ہیں اور بہترین انداز میں لوگوں سے پیش آتے ہیں... بس ؟ عام طور پر اسی بہترین حالت کو اپنا کر کیوں نہیں  رکھتے ؟

مگر ہر انسان کی فطرت کا ایک تاریک پہلو بھی ہوتا ہے اور وہ تاریک پہلو عام طور پر ظاہر نہیں ہوتا ، جسےظاہر ہونے کے لئے کسی نہ کسی محرک کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر انسان کے ارد گرد کا ماحول ان محرکات کو پیدا ہونے دے تو وہ تاریک پہلو اکثر ظاہر ہوتا رہتا ہے اور کبھی کبھی شخصیت پر اتنا چھا جاتا ہے کے روشن پہلو دکھائی ہی نہیں دیتا -

اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ایسے انسان کی شخصیت کا روشن یا درخشاں پہلو مر چکا ہے یا کبھی تھا ہی نہیں - وہ تو بس ارد گرد سے متاثر ہو کر ان محرکات کے زیر اثر تاریک پہلو ہی اتنا زیادہ نمایاں ہو چکا ہوتا ہے اور قائم رہتا ہے کہ روشن پہلو سامنے آ نے کا موقع نہیں ملتا - کہتے ہیں دولت انسان کو بدلتی نہیں بلکہ اس کی اصلیت کو مزید واضح اور نمایاں   کر دیتی ہے - یہ اصلیت در اصل ہے کیا ؟ شخصیت کے تو دو پہلو ہیں درخشاں اور تاریک اور ان کا ظاہر ہونا تو حالات پر منحصر ہے یا محرکات پر -

انسان کا اصل تو وہ فطرت سلیم ہے جس پر ہمیشہ قائم رہنا ہی در اصل اس کا امتحان ہوتا ہے - چاہے حالات اور محرکات کچھ بھی ہوں دولت مند ہو یا غریب ، تندرست ہو یا بیمار یا پھر  کسی معذوری کا شکار ہو - یہی فطرت سلیم ہے جس پر اسے قائم رہنے کا حکم ہے اور وہ انسان ہی کیا جسے بیرونی حالات و واقعات بدل کر رکھ دیں - یا وہ وقتی شوق اور جوش کی وجہ سے اپنے اصل سے دور ہوتا چلا جائے - 

 


شخصیت میں پختگی بھی در اصل اسی کا نام ہے کہ بیرونی حالات اور محرکات اس کی اصل حالت ، یعنی فطرت سلیم سے نہ ہٹا سکے - جو در اصل اس کی شخصیت کا وہ روشن پہلو ہے جس کو ہر وقت ہر حالت میں نمایاں اور غالب رہنا چاہئے - صرف خاص خاص موقعوں پر کیوں ؟ ہمیشہ کیوں نہیں ؟

اسی لئے یہ وقتی جوش اور شوق جنکو passion کہا جاتا ہے در اصل بے فائدہ اور نقصان دہ  ثابت  ہوتے ہیں- یہی بات اب دینا کے مایہ ناز اقتصادی ماہرین اور سرمایہ کار بھی تسلیم کرتے ہیں جیسے کہ مشہور کاروباری سرما یہ کار فرم Andreessen Horowitz  کے مالک  Horowitz نے ایک بار یہ بات  اپنے سامعین کو حیران کرتے ہوئے کہی کہ کبھی اپنا شوق پورا کرنے یا passion کے پیچھے بھاگنے کی کوشش مت کرو - وقتی نفسانی جوش در اصل نقصان دہ چیز ہے اور آج کل کے اشتہارات فلمیں اور خبریں اسی کو  ابھارنے کا  کام کر رہے ہیں اور دنیا کی ہر کاروباری فرم اپنی مارکٹنگ کی حکمت عملی اسی کے گرد تیار کرتی ہے -

 

اسی لئے اکثر یہ شوق اور passion واضح طور پر جاننا بھی مشکل ہے اور اپنی ترجیحات کا تعین بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ کونسا شوق پہلے پورا کرنا ہے کونسا بعد میں مگر آسان بات یہ ہوتی ہے  کہ کام وہ کرو جن میں تم خود کو بہترین سمجھتے ہو اور دو سروں سے زیادہ اچھے طریقے پر سر انجام دے سکتے ہو اور لوگ تمہارے اس کام کی تعریف بھی کرتے ہوں -

شوق اور وقتی جوش اتر جانے کے بعد بدل بھی جاتے ہیں جیسے اگر اپنی مرضی کی نوکری یا کام مل جانے پر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آئندہ پانچ سال میں وہی کام اچھا بھی لگتا رہے گا ؟اور پھر جس چیز کا آپ کو شوق ہے ، ضروری نہیں کہ وہ اچھے طریقے سے کر بھی سکتے ہو - ایک اچھا گلوکار بننے کا شوق ہونا اور بات ہے اور اچھا  اور نامور گلوکار بن جانا اور بات -

پھر جوش میں کر اپنا شوق پورا کر لینا ایک خود غرضانہ سی سوچ ہے جو بس ذاتی مفاد کو ترجیح دیتی ہے اور  بلآخر بے اطمینانی کے ساتھ  اضطراب کو جنم دیتی ہے- کیونکہ جب اجتماعی بہتری اور بھلائی کی سوچ نہیں ہوتی تو معاشرے میں تنہائی اور اضطراب بڑھنے لگتا ہے - نفسا نفسی کا عالم ہوتا ہے اور ذہنی بیماریاں جنم لیتی ہیں جو انتہا پسندی کو جنم دیتی ہیں -

دوسروں کی بھلائی اور ان کا ساتھ دینا اور ساتھ لے کر چلنا ہی در اصل فطرت سلیم اور انسان کی شخصیت کا درخشاں پہلو ہے - جب ہم اپنے پیاروں کا ہاتھ بٹانے لگتے ہیں اور مل کر ایک مقصد کو ساتھ لے کر کچھ ایسا تعمیر کرنے لگتے ہیں جس میں اجتماعی بھلائی شامل ہو تو ہمیں اطمینان حاصل ہوتا ہے اور ایک دائمی خوشی ملتی ہے –

اپنے شوق اور جوشوں کو فطرت سلیم کے مطابق ڈھالنے کی مشق کر تے رہنا چاہیے - جو شوق اس کے مخالف ہو اسے ترک کر دینا ہی شخصیت کے  در اصل بہترین اور درخشاں پہلو نمایاں کرتا ہے اور انہیں مضبوطی سے قائم رکھتا ہے - کبھی کبھی ہم سمجھتے ہیں کہ دل ہمیں ایسا کر نے  پر مجبور کر رہا ہے جو ٹھیک نہیں- در اصل وہ دل نہیں وہ تو شخصیت کا تاریک پہلو ہے اور دماغ میں ہر طرف سے مستقل طور پر بمباری کی جانے والی معلومات ہیں جو نفسانی جوشوں کو ابھارنے اور خرچ کرنے پر مجبور کرنے کے لئے لگاتار اشتہارات اور دیگر خبروں اور فلموں سے انسانی ذہن کو مفلوج بنا کر رکھتی ہیں -

تبھی ہم اپنی خود غرضانہ ترجیحات کو اکثر مصروفیت کا نام دے کر با آسانی خود کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں جب کہ ہمارے پاس توجہ اور وقت اپنی ترجیحات اور ان کے لئے جو اپنے ہوتے ہیں، ہمیشہ ہوتا ہے - اپنے وہ ہوتے ہیں جن کے لئے نہ صرف ہم وقت نکال لیتے ہیں بلکہ وقت ایجاد بھی کر لیتے ہیں پھر وہ چاہے لوگ ہوں، کام یا پھر کوئی مشغلہ، وہی ہماری توجہ کا مرکز اور وقت کا بہترین مصرف ہوتاہے - ہمارا اپنا در اصل وہ ہوتا ہے جس کا ایمان ، یقین ،شوق اور ترجیحات اگر بالکل ہماری طرح نہیں تو کم از کم ہمارے جیسی ضرور ہوتی ہے اور اس میں کسی کا رشتے دار ہونے یا نہ ہونے کی بھی کوئی شرط نہیں ہوتی-

انہی ترجیحات کو فطرت سلیم کے مطابق ڈھالنا ہی در اصل ہمارا امتحان ہے اور اپنے نفسانی جوشوں اور وقتی شوقوں کو ترک کرتے رہنا ضروری ہے -

اس لئے کام  وہ کرنا چاہئے جسے بہتر اور اچھے طریقے سے کر سکتے ہو اور دوسروں کے کام آنے والی چیز  بھی ہو - اسی میں مستقل  مزاجی اور مداومت اخیتار کرنا بہت ضروری ہے یہی ہمارے خالق کی  ہم سے اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے امید بھی ہے اور ہدایت بھی کہ جو کام بھی کرو مداومت سے کرو کبھی کبھار کی نیکی اور عبادت بھی کسی کام کی نہیں  چاہے کتنا بھی دل لگا کر کرو اگر کبھی کبھار ہی کرنی ہے تو بے فائدہ ہی رہے گی- فطرت سلیم کو قائم رکھو اور شخصیت کا روشن پہلو نمایاں کر کے رکھو، مزید نکھار پیدا کرتے رہو اور ماحول کا اثر نہ ہونے دو -  اس کی خاطر چاہے ماحول ترک کرنا پڑے ، لوگ چاہے جتنے بھی قریبی کیوں نہ ہوں، اگر ان کے ساتھ شخصیت کا تاریک  پہلو ہی  اجاگر ہوتا ہے تو ان سے علیحدہ ہو جانا ہی بہتر ہے صرف شکایت برا ئے شکایت کوئی چیز نہیں، صرف  خبر رسانی کرتے رہنا، برائی کی تشہیر کرنا اور کچھ نہ کرنا تو ناشکری کے ساتھ ساتھ خود کو آسان ہدف یا ایک تختہ مشق ظاہر کرنے کی کوشش ہوتی ہے- یا تو صورت حال کو بدلنا چاہیئے، یا پھر کنارہ کشی اخیتار کر لینی ہوگی اور اگر دونوں کام ممکن نہیں تو پھر صبر اور دعا کے ساتھ فی الحال خاموش رہ کر حالات سے سمجھوتہ بہتر ہے  -- اپنے ارد گرد اور روابط میں مثبت اور اچھی  فطرت کے لوگ تلاش کر کے ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا بہت ضروری ہے جن کو اپنے اچھے کاموں میں مداومت حاصل ہو، صرف نیک بنے ہوئے نہ ہوں واقعی نیک ہوں -جوواقعی اشرف المخلوقات ہوں ایسے انسان مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں اور اسی لئے میں بھی کہتا ہوں کہ اکثر  لوگ ضروری کاموں سے وقت نکال کر کبھی کبھی جی اٹھتے ہیں  اور جو در اصل انسان ہیں وہ زندگی سے وقت نکال کر ضروری کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں -

 کاشف احمد

Wednesday, 29 June 2022

شخص نہیں شخصیت بنیں

  

''شخص نہیں شخصیت بننے کی کوشش کرو کیونکہ ایک شخص تومرجاتا ہے مگرشخصیت زندہ رہتی ہے-'' قائداعظم، محمد علی جناح کا یہ کسی قدر غیر معروف مگر انتہائی شاندار قول ہے -

 

ایک ناموراور قابل قدر شخصیت کون نہیں کہلانا چاہتا جس کو لوگ قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھیں اور عزت دیں- ہوسکتا ہے آپ کسی ادارے، برادری یا جماعت کے سربراہ ہونے کی وجہ سے اپنی ذہانت یا کام کرنے کی صلاحیت یا  معاملہ فہمی یا پھر ان میں سے  کسی ایک یا ایک سے زیادہ قائدانہ صلاحیت کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہوں لیکن ایک مکمل طور پر قابل عزت شخصیت ہونا کچھ اور معنی رکھتا ہے کیونکہ عزت ملتی نہیں کمائی جاتی ہے اس کے لئے بہت سا تردد اور لگن درکار ہوتی ہے اور کچھ لوازمات ایسے ہیں جن کے بغیر ایک مکمل طور پر قابل قدر اور قائدانہ صلاحیتوں   سے لبریز شخصیت نہیں بن سکتی جن میں سے اول درجہ پر آتی ہے :

عبادت و مراقبہ


 دنیا کی سب سے زیادہ اثر روسوخ  رکھنے والی یونانی نژاد خاتون آریاناہفنگٹن جو HuffPostنامی امریکی جریدے کی بانی ہونے کے علاوہ Thrive Globalنامی Think Tankکی بھی بانی ہیں اور ایک نامور مصنفہ اور دانشور بھی مانی جاتی ہیں،نے امریکا میں اپنے سمتھ کالج کے خطاب  میں بتایا کہ  جب انہوں نے شدید ذہنی دباؤ سے ہلکان  ہو کر کئی راتیں جاگنے کی وجہ سے اپنی توانائی ختم ہو تی محسوس کی اور اچانک ایک دن دھڑام سے گر پڑیں  اور انھیں  شدید چوٹیں آجانے کے بعد نروس بریک ڈاؤن کی وجہ سےہسپتال   میں6 ماہ  گزارنے پڑے ، تو انہوں نے  فراغت کے اس وقت میں سوچ بچار سے کام لیا اور پوری تحقیق کے بعد یہ بات سامنے  آئی کہ کامیابی کی عمارت جیسا کہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں ، صرف طاقت اور پیسے کے دو ستونوں پر کھڑی نہیں ہوتی اس کا تیسرا ستون بھی ہے جو ان لوازمات سے مل کر بنتا ہے جنہیں تخیل اور وجدان کی صلاحیت ، عقل کے علاوہ شعور اور دانائی کا ہونا اور اپنے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کی خیر خواہی  اور بہتری چاہنابے حد ضروری ہے - مگراس  سے پہلے اس دانائی کا حصول ضروری ہے اور اس  کے لئے ایک اعلیٰ درجے کے دانائی رکھنے والے وجود یا دانائی کے منبہ سے منسلک ہونا لازمی ہے -

حقیقت آشکار ہونے کے بعد سے آریانہ ہی نہیں ان کی تقلید میں دنیا کے متمول اور مشہور ترین لوگ جیسا کہ  بل گیٹس ، مارنی ابرےمسن جو رئیل اسٹیٹ کی دنیا کا بڑا نام ہے ، نینسی سلوموویٹز جو ''ای ایم اے'' کی سربراہ ہیں، رامانی ائیر جو دنیا کے ایک بہت بڑے مالیاتی ادارے ''دی ہارٹ فورڈ فنانشل'' کے چیئرمین اور سی ای او رہ چکے ہیں اور پھررسل سمنز جو ''ڈیف جیم ریکارڈز کے خالق ہیں'' باقاعدہ اور مسلسل طور پر مراقبہ, استغراق یا دوسرے لفظوں میں عبادت کرنے لگے ہی-جسے  در اصل اب ایک قابل  قدر شخصیت ہونے کی پہلی سیڑھی کے طور پر مغرب کے با اثر ترین حلقوں میں  تسلیم کیا جا چکا ہے -

شائستگی

ایک قابل عزت شخصیت کی دوسری خاصیت اس کی شائستگی کہلاتی ہے - کہا جاتا ہے کہ شائستگی معاشرے کی گاڑی کے پہیوں میں دئیے جانے والے تیل کی طرح ہوتی ہے جس سے وہ بآسانی گھومتے ہیں- اپنے سے عمر میں بڑوں،  بچوں اور خواتین کو جگہ دینا تاکہ وہ پہلےدروازے سے  داخل  ہو سکیں یا ان کے لئے دروازہ کھول دینا اور بیٹھنے کے لئے جگہ خالی کر دینا شائستگی ہے - اپنی گفتگو میں '' برا ئے مہربانی . ازراہ کرم اور شکریہ جیسے الفاظ کا حسب موقع استعمال شائستہ گفتگو کی علامت ہے -

دوسروں کو عزت دینا

شائستگی اور عزت دینے میں تھوڑا فرق ہوتا ہے -اکثر لوگ اس میں فرق نہیں کر پاتے اور کئی بار جنہیں شائستگی اور تمیز داری کا تجربہ نہیں ہوتا اس کو اپنے لئے عزت سمجھ لیتے ہیں اور کئی بار تو اپنی حیثیت سے بڑھ کر خود کو کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں - بہر حال دوسروں کو ان کے مرتبہ کے لحاظ سےعزت دینا بہت اہم بات ہے - جیسا کہ آنکھوں کو بلا وجہ ادھر گھماتے رہنا یا یوں کہئیے کہ دیدے مٹکانا اور منفی انداز میں کسی کی بات کاٹنا ایک غیر مناسب کام ہے جس سے دوسروں کی عزت نہ کرنے کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے - اسی طرح بے توجہی سے کسی بلند مرتبہ شخصیت یا بزرگ ہستی کی بات کو سننا اور گفتگو کے دوران کسی اور کو آواز دینا یا بات کرنے لگ جانا اور معذرت یا اجازت طلب نہ کرنا بھی توہین اوربدتہذیبی  کہلاتی ہے اور دوسروں کی عزت پر حرف کا موجب ہے - اس کے علاوہ بلا لحاظ مراتب براہ راست اپنے  مطلب کے شخص سے بلا کسی مناسب  واسطے اور اجازت  کو بیچ میں شامل کئے  ،رابطہ اورملاقات ،خاص  طور پر جہاں بے تکلفی اور قریبی تعلق یا رشتہ  بھی موجود نہ ہو ،نہایت معیوب حرکت اور صاحب مرتبہ و اخیتار کی توہین سمجھی جاتی ہے-

موثر قوت سماعت

سننے کا عمل ایک دوطرفہ فعال عمل ہے نہ کہ یک طرفہ اور غیر فعال سا کام - بولنے اور کسی قسم کا بھی رد عمل یا جواب دینے سے  قبل سوچ سمجھ کر صورت حال اور سامنے موجود شخص کی حیثیت اور مرتبہ کو سمجھنا ضروری ہے - اکثر لوگ کسی کی بات سن کر اسے اپنی کہانی سنانےمیں جلدی کرنے لگتے ہیں جبکہ ایک اچھا سننے والا اپنے رد عمل میں کچھ سوالات. جن میں مدد اورہمدردی کا جذبہ موجود ہو، کرتے ہوئے مزید تفصیلات جاننے کی کوشش کرتا ہے جس سے کہنے والے کی تسلی اور  تشفی ہو سکے

 

ساتھ دینا اور کام آنا

ایک قابل قدر شخصیت کا حامل  شخص بننے کے لئے آپ کے اندر ہمہ وقت ایک نافع الناس وجود بننے کا جذبہ موجزن رہنا ضروری ہے - ہر بڑے کام کی ابتدا چھوٹی چھوٹی باتوں کی عادت سے ہوتی ہے جیسے کسی کا سامان اٹھانے  میں ساتھ دینا یا کسی کو مصروفیت یا مجبوری میں پانی پلانا یا  کافی لا دینا یا پھر کھانا  کھلا دینا بھی ساتھ دینے اور کام آنےکے ہی زمرے میں آتا ہے  جو آگے چل کر کسی کو خون کا عطیہ دینے تک کی سوچ کو اجاگر کرتا ہے اور دوسرے کےبڑے کاموں میں مدد دینے کی عادت کا پیش خیمہ بن جاتا ہے -

بہانہ تراشی سے اجتناب

آپ کا کوئی بھی عمل در اصل آپ کے انتخاب کا نتیجہ ہوتا ہے جو آپ کی سوچ پر منحصر ہے - اس لئے اپنی سوچ کی خود ذمہ داری لینا ایک  قابل قدر شخصیت کا ہی  خاصہ ہوتا ہے اورایک با عزت انسان  کبھی حالات اور دوسرے کسی شخص کو اپنے کسی ناقص  عمل کا   ذمہ دار نہیں ٹھہراتا - جیسا کہ اگر صبح دیر سے اٹھنے اور کام پر تاخیر سے آنے کی عادت ہو تو بہانے بنانے کی جگہ اپنی کمزوری تسلیم کر لینا اور اس کے ٹھیک کرنے کے  لئے  مشورہ مانگنا بہتر ہوتا ہے -

بغض اور کینہ سے پاک سوچ

بغض اور کینہ صرف اور صرف خود کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے - کسی پر کسی بات پہ غصہ آنے لگے بھی تو وقتی  ہونا چاہئے- خود پر قابو پا کر معاملے کی اصل وجہ کو جاننے اور پھر اس وجہ کو دور کرنے کی کوشش کرنا ہی ایک قابل قدر شخصیت کا کام ہوتا ہے جو کبھی بغض اور کینے کو دل میں جگہ نہیں دیتا - انسان  سے نہیں برائی سے نفرت کرتا ہے -

بہتری اور بھلائی چاہنا

ایک قابل قدر انسان ہمیشہ بھلائی کی خاطر بہتر سے بہتر اور خوب سے  خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے - نہ صرف اپنے لئے بلکہ دوسروں کے لئے بھی خوشگوار تبدیلی اور بہتری کو پسند کرتا ہے اور اس کی ہمیشہ حوصلہ افزائی  کرتا ہے -

امید ہے آپکو کامیابی کا اصل مفہوم سمجھنے میں آسانی ہوئی ہوگی جو صرف ایک قابل قدر اور بھروسہ مند انسان بننے سے ہی دائمی طور پر  ممکن ہے ورنہ ہر دوسرا راستہ عارضی خوشی اور کامیابی کی طرف جاتا ہے - اب تو یہ بات مغربی دنیا کے با اثر اور طاقتور ترین لوگ بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ کردار کی بلندی ہی اصل کامیابی ہے -

ویسے تو یہ بات تو آئین سٹائن کافی عرصہ قبل ہی کہ چکا ہے کہ '' ایک کامیاب انسان کی بجائے ایک قابل قدر انسان بننے کی کوشش کرو-''

 

کاشف احمد