Wednesday, 29 June 2022

شخص نہیں شخصیت بنیں

  

''شخص نہیں شخصیت بننے کی کوشش کرو کیونکہ ایک شخص تومرجاتا ہے مگرشخصیت زندہ رہتی ہے-'' قائداعظم، محمد علی جناح کا یہ کسی قدر غیر معروف مگر انتہائی شاندار قول ہے -

 

ایک ناموراور قابل قدر شخصیت کون نہیں کہلانا چاہتا جس کو لوگ قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھیں اور عزت دیں- ہوسکتا ہے آپ کسی ادارے، برادری یا جماعت کے سربراہ ہونے کی وجہ سے اپنی ذہانت یا کام کرنے کی صلاحیت یا  معاملہ فہمی یا پھر ان میں سے  کسی ایک یا ایک سے زیادہ قائدانہ صلاحیت کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہوں لیکن ایک مکمل طور پر قابل عزت شخصیت ہونا کچھ اور معنی رکھتا ہے کیونکہ عزت ملتی نہیں کمائی جاتی ہے اس کے لئے بہت سا تردد اور لگن درکار ہوتی ہے اور کچھ لوازمات ایسے ہیں جن کے بغیر ایک مکمل طور پر قابل قدر اور قائدانہ صلاحیتوں   سے لبریز شخصیت نہیں بن سکتی جن میں سے اول درجہ پر آتی ہے :

عبادت و مراقبہ


 دنیا کی سب سے زیادہ اثر روسوخ  رکھنے والی یونانی نژاد خاتون آریاناہفنگٹن جو HuffPostنامی امریکی جریدے کی بانی ہونے کے علاوہ Thrive Globalنامی Think Tankکی بھی بانی ہیں اور ایک نامور مصنفہ اور دانشور بھی مانی جاتی ہیں،نے امریکا میں اپنے سمتھ کالج کے خطاب  میں بتایا کہ  جب انہوں نے شدید ذہنی دباؤ سے ہلکان  ہو کر کئی راتیں جاگنے کی وجہ سے اپنی توانائی ختم ہو تی محسوس کی اور اچانک ایک دن دھڑام سے گر پڑیں  اور انھیں  شدید چوٹیں آجانے کے بعد نروس بریک ڈاؤن کی وجہ سےہسپتال   میں6 ماہ  گزارنے پڑے ، تو انہوں نے  فراغت کے اس وقت میں سوچ بچار سے کام لیا اور پوری تحقیق کے بعد یہ بات سامنے  آئی کہ کامیابی کی عمارت جیسا کہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں ، صرف طاقت اور پیسے کے دو ستونوں پر کھڑی نہیں ہوتی اس کا تیسرا ستون بھی ہے جو ان لوازمات سے مل کر بنتا ہے جنہیں تخیل اور وجدان کی صلاحیت ، عقل کے علاوہ شعور اور دانائی کا ہونا اور اپنے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کی خیر خواہی  اور بہتری چاہنابے حد ضروری ہے - مگراس  سے پہلے اس دانائی کا حصول ضروری ہے اور اس  کے لئے ایک اعلیٰ درجے کے دانائی رکھنے والے وجود یا دانائی کے منبہ سے منسلک ہونا لازمی ہے -

حقیقت آشکار ہونے کے بعد سے آریانہ ہی نہیں ان کی تقلید میں دنیا کے متمول اور مشہور ترین لوگ جیسا کہ  بل گیٹس ، مارنی ابرےمسن جو رئیل اسٹیٹ کی دنیا کا بڑا نام ہے ، نینسی سلوموویٹز جو ''ای ایم اے'' کی سربراہ ہیں، رامانی ائیر جو دنیا کے ایک بہت بڑے مالیاتی ادارے ''دی ہارٹ فورڈ فنانشل'' کے چیئرمین اور سی ای او رہ چکے ہیں اور پھررسل سمنز جو ''ڈیف جیم ریکارڈز کے خالق ہیں'' باقاعدہ اور مسلسل طور پر مراقبہ, استغراق یا دوسرے لفظوں میں عبادت کرنے لگے ہی-جسے  در اصل اب ایک قابل  قدر شخصیت ہونے کی پہلی سیڑھی کے طور پر مغرب کے با اثر ترین حلقوں میں  تسلیم کیا جا چکا ہے -

شائستگی

ایک قابل عزت شخصیت کی دوسری خاصیت اس کی شائستگی کہلاتی ہے - کہا جاتا ہے کہ شائستگی معاشرے کی گاڑی کے پہیوں میں دئیے جانے والے تیل کی طرح ہوتی ہے جس سے وہ بآسانی گھومتے ہیں- اپنے سے عمر میں بڑوں،  بچوں اور خواتین کو جگہ دینا تاکہ وہ پہلےدروازے سے  داخل  ہو سکیں یا ان کے لئے دروازہ کھول دینا اور بیٹھنے کے لئے جگہ خالی کر دینا شائستگی ہے - اپنی گفتگو میں '' برا ئے مہربانی . ازراہ کرم اور شکریہ جیسے الفاظ کا حسب موقع استعمال شائستہ گفتگو کی علامت ہے -

دوسروں کو عزت دینا

شائستگی اور عزت دینے میں تھوڑا فرق ہوتا ہے -اکثر لوگ اس میں فرق نہیں کر پاتے اور کئی بار جنہیں شائستگی اور تمیز داری کا تجربہ نہیں ہوتا اس کو اپنے لئے عزت سمجھ لیتے ہیں اور کئی بار تو اپنی حیثیت سے بڑھ کر خود کو کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں - بہر حال دوسروں کو ان کے مرتبہ کے لحاظ سےعزت دینا بہت اہم بات ہے - جیسا کہ آنکھوں کو بلا وجہ ادھر گھماتے رہنا یا یوں کہئیے کہ دیدے مٹکانا اور منفی انداز میں کسی کی بات کاٹنا ایک غیر مناسب کام ہے جس سے دوسروں کی عزت نہ کرنے کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے - اسی طرح بے توجہی سے کسی بلند مرتبہ شخصیت یا بزرگ ہستی کی بات کو سننا اور گفتگو کے دوران کسی اور کو آواز دینا یا بات کرنے لگ جانا اور معذرت یا اجازت طلب نہ کرنا بھی توہین اوربدتہذیبی  کہلاتی ہے اور دوسروں کی عزت پر حرف کا موجب ہے - اس کے علاوہ بلا لحاظ مراتب براہ راست اپنے  مطلب کے شخص سے بلا کسی مناسب  واسطے اور اجازت  کو بیچ میں شامل کئے  ،رابطہ اورملاقات ،خاص  طور پر جہاں بے تکلفی اور قریبی تعلق یا رشتہ  بھی موجود نہ ہو ،نہایت معیوب حرکت اور صاحب مرتبہ و اخیتار کی توہین سمجھی جاتی ہے-

موثر قوت سماعت

سننے کا عمل ایک دوطرفہ فعال عمل ہے نہ کہ یک طرفہ اور غیر فعال سا کام - بولنے اور کسی قسم کا بھی رد عمل یا جواب دینے سے  قبل سوچ سمجھ کر صورت حال اور سامنے موجود شخص کی حیثیت اور مرتبہ کو سمجھنا ضروری ہے - اکثر لوگ کسی کی بات سن کر اسے اپنی کہانی سنانےمیں جلدی کرنے لگتے ہیں جبکہ ایک اچھا سننے والا اپنے رد عمل میں کچھ سوالات. جن میں مدد اورہمدردی کا جذبہ موجود ہو، کرتے ہوئے مزید تفصیلات جاننے کی کوشش کرتا ہے جس سے کہنے والے کی تسلی اور  تشفی ہو سکے

 

ساتھ دینا اور کام آنا

ایک قابل قدر شخصیت کا حامل  شخص بننے کے لئے آپ کے اندر ہمہ وقت ایک نافع الناس وجود بننے کا جذبہ موجزن رہنا ضروری ہے - ہر بڑے کام کی ابتدا چھوٹی چھوٹی باتوں کی عادت سے ہوتی ہے جیسے کسی کا سامان اٹھانے  میں ساتھ دینا یا کسی کو مصروفیت یا مجبوری میں پانی پلانا یا  کافی لا دینا یا پھر کھانا  کھلا دینا بھی ساتھ دینے اور کام آنےکے ہی زمرے میں آتا ہے  جو آگے چل کر کسی کو خون کا عطیہ دینے تک کی سوچ کو اجاگر کرتا ہے اور دوسرے کےبڑے کاموں میں مدد دینے کی عادت کا پیش خیمہ بن جاتا ہے -

بہانہ تراشی سے اجتناب

آپ کا کوئی بھی عمل در اصل آپ کے انتخاب کا نتیجہ ہوتا ہے جو آپ کی سوچ پر منحصر ہے - اس لئے اپنی سوچ کی خود ذمہ داری لینا ایک  قابل قدر شخصیت کا ہی  خاصہ ہوتا ہے اورایک با عزت انسان  کبھی حالات اور دوسرے کسی شخص کو اپنے کسی ناقص  عمل کا   ذمہ دار نہیں ٹھہراتا - جیسا کہ اگر صبح دیر سے اٹھنے اور کام پر تاخیر سے آنے کی عادت ہو تو بہانے بنانے کی جگہ اپنی کمزوری تسلیم کر لینا اور اس کے ٹھیک کرنے کے  لئے  مشورہ مانگنا بہتر ہوتا ہے -

بغض اور کینہ سے پاک سوچ

بغض اور کینہ صرف اور صرف خود کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے - کسی پر کسی بات پہ غصہ آنے لگے بھی تو وقتی  ہونا چاہئے- خود پر قابو پا کر معاملے کی اصل وجہ کو جاننے اور پھر اس وجہ کو دور کرنے کی کوشش کرنا ہی ایک قابل قدر شخصیت کا کام ہوتا ہے جو کبھی بغض اور کینے کو دل میں جگہ نہیں دیتا - انسان  سے نہیں برائی سے نفرت کرتا ہے -

بہتری اور بھلائی چاہنا

ایک قابل قدر انسان ہمیشہ بھلائی کی خاطر بہتر سے بہتر اور خوب سے  خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے - نہ صرف اپنے لئے بلکہ دوسروں کے لئے بھی خوشگوار تبدیلی اور بہتری کو پسند کرتا ہے اور اس کی ہمیشہ حوصلہ افزائی  کرتا ہے -

امید ہے آپکو کامیابی کا اصل مفہوم سمجھنے میں آسانی ہوئی ہوگی جو صرف ایک قابل قدر اور بھروسہ مند انسان بننے سے ہی دائمی طور پر  ممکن ہے ورنہ ہر دوسرا راستہ عارضی خوشی اور کامیابی کی طرف جاتا ہے - اب تو یہ بات مغربی دنیا کے با اثر اور طاقتور ترین لوگ بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ کردار کی بلندی ہی اصل کامیابی ہے -

ویسے تو یہ بات تو آئین سٹائن کافی عرصہ قبل ہی کہ چکا ہے کہ '' ایک کامیاب انسان کی بجائے ایک قابل قدر انسان بننے کی کوشش کرو-''

 

کاشف احمد

No comments: