Sunday 27 May 2018

Toxic

جب کوئی زہریلا انسان آپ کو قابو کرنے میں ناکام ہو کر لوگوں کی رائے کو آپ کے بارے میں بدلنے لگے تو اپنے بارے میں  یہ بری معلومات نہ انصافی محسوس ہوتی مگر اس سب سے اونچا ہونا سیکھو اور یقین رکھو لوگ سچ کو آخر پہچان لیتے ہیں جیسے  آپ  نے پہچان لیا
Omnibus

Friday 11 May 2018

تعلیمی نظام اور مسلمانوں کے مسائل


مسلمانوں کی پہچان اسلام سے ہے لہٰذا جب بھی اس عنوان سے گفتگو کی جائےگی تواِس حقیقت کو پیش نظر کرکے ہی کی جائےگی کہ اس ملت کے کسی بھی مسئلہ کا حل قرآن وسنت کی روشنی میں ہوگا ۔ ہمارے ملک عزیز میں مسلمانوں کے بہت سے مسائل ہیں مثلاً آئے دن فسادات کا مسئلہ ، سرکاری محکموں میں مسلمانوں کے بحالی کا مسئلہ ، زبان وثقافت کے ’’تحفظ کا مسئلہ ، دین میں آئےدن چھیڑ چھاڑ کا مسئلہ ، تعلیم یافتہ بلخصوص نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں پھنسانے کا مسئلہ وغیرہ وغیرہ ۔ یہ تمام مسائل اس وجہ سے وجود میں آئیں ہیں کہ مسلمان دین حق کے پیرو ہیں ، دین مصطفیٰ کے علم بردار ہیں ۔ لہٰذا مسلمانوں کے کسی بھی مسئلہ کو اسلام کے تناظر میں سوچنے اور سمجھنے کی کوشش کرنی ہوگی اوراس کا حل بھی اسلامی ہی ہوگا


مسلمانوں کا مسئلہ تعلیم ایک نازک اور پیچیدہ مسئلہ ہے ۔ قوموں کے عروج و زوال میں تعلیم کا ہی رول تھا اور آج بھی ہے لیکن افسوس کہ مسلمانوں کی اکثریت اس اہم فریضہ سے بالکل غافل ہے ۔ انہیں نہ تو اپنے حال کی فکر ہے اورنہ اپنے نونہالوں کے مستقبل کی ۔ تعلیم ہی نوجوانوں کو ملت کی شاندار روایات کا امین اوراس کی تہذیب وثقافت کا پاسدار بناتی ہے اورمسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اس پرکبھی بھی سنجیدگی سے غور وخوض نہیں کرتے مسلمانوں کے ایک بڑے گروپ پر تو تعلیم برائے معاش کا نظریہ غالب ہے ۔ یہ گروپ بچوں کو اس لئے پڑھاتے ہیں کہ وہ بڑا ہوکر خوب روپیہ پیسہ کمائے اور پُر لطف زندگی بسر کرے ۔ آخرت کووہ خدا پر چھوڑدیتے ہیں

یہ صورت حال انتہائی تشویشناک اور پریشان کن ہے ۔  ان پر جومصیبت آنے والی ہے اور تعلیم کاجو نظریہ ان کی نئی نسلوں پر تدریجاً تھوپا جارہا ہے اس کی نہ توانہیں خبر ہے نہ فکر- اس مسئلہ کا حل صرف اورصرف بیداری اور مسئلے کی پوری سمجھ بوجھ اور شعور میں ہے جو اسلامی طرز تعلیم اور تربیت میں موجود ہے

اسلامی نظریہ یہ ہے کہ انسانوں کواس طرح کی تعلیم دی جائے کہ وہ علم حاصل کر کے  نیابت الٰہی کا فریضہ ٹھیک ٹھیک طورپر انجام دے سکیں ساتھ ہی اپنے معاشی  اورسماجی زندگی سے بھی اچھی طرح عہدہ برآ ہوسکیں ۔ اسلامی نظام تعلیم ان کے ذہنوں میں اس تصور کی پرورش کرتا ہے وہ اس دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ ایک ذمہ دار زندگی کے حامل ہیں اور آخرت میں اپنے کئے کا حساب دینا ہے ۔ اسلامی نظام تعلیم اُن کے اخلاق وکرد ا ر کی بہترین تربیت کرتا ہے اوران کو ایک خاص مقصد اورنصب العین کے لئے تیار کرتا ہے تاکہ وہ اسلام کی دعوت کو لے کر اُٹھیں اور اِ س دین کوبحیثیت نظام زندگی دنیا میں قائم کریں یا اس کو غالب کرنے کی کوششیں کریں

اسلامی تعلیم یہ چاہتی  ہے کہ لوگ دنیا کے معاملات سے الگ تھلگ نہ رہیں ، صوفی ودرویش نہ بن جائیں ۔ وہ مسجد اور خانقاہوں میں دنیا سے بے نیاز ہوکر گوشہ نشین نہ بنیں بلکہ وہ دنیا کے معاملات کوہاتھ میں لے کر حسن وخوبی کے ساتھ چلا سکیں۔ پوری انسانیت کے فلاح وبہبود کے لئے کام کریں۔ زندگی کے ہر شعبہ میں وہ انسانوں کی صحیح رہنمائی کرسکیں۔ زندگی کے اجتماعی ہنگاموں میں پورےاعتماد اور قوت کے ساتھ قدم رکھ سکیں ۔ مختصر یہ کہ اسلامی نظام تعلیم کا مقصد طلبہ وطالبات کوذہنی ،جسمانی ، علمی اور عملی حیثیت سے ایسی تربیت دیتا ہے کہ وہ اسلام اورانسانیت کے لئےخادم بن سکیں دنیا کی رہنمائی اپنے ہاتھوں میں لے سکیں ۔ دنیا کے مسائل اورمشکلات کا حل پیش کرکے اقوام عالم کے امام بن سکیں

آج کل کے مدارس  میں جونصاب چل رہا ہے وہ حالات اور ضروریات کے مطابق نہیں ہیں کیونکہ موجودہ نصاب ایک دفاعی قسم کا نصاب ہے جو طلبہ کو دفاعی سوچ دیتا ہے اور یہ سوچ  دین ودنیا کی تفریق کی وجہ سے ہوئی ہے ۔ اِن مدارس نے اسلام کے بر خلاف اُس تصور کوقبول کرلیا ہے کہ دین الگ ہے اوردنیا الگ ہے ۔ موجودہ تعلیم گاہیں صرف انفرادی مذہب کی تعلیم دیتی ہیں اجتماعی معاملات جیسے سیاسی اخلاقی اورتمدنی ، سماجی اورعمرانی مسائل سے طلبہ وطالبات کو بالکل بے تعلق رکھا جاتا ہے

ان مدارس میں طلبہ وطالبات کودور حاضر کے تقاضوں کے تعلق سے تعلیم بھی  نہیں مل رہی ہے حالانکہ اسلام اِن تمام علوم وفنون کی ترغیب دیتا ہے جو اسلام کے مقاصد کوپورا کرنے میں معاون اورمددگار ثابت ہوں ۔ جدید فلسفہ حیات، فلسفہ تاریخ ، فلسفہ سیاسیات، فلسفہ معاشیات ، فلسفہ سائنس وغیرہ کے علوم سے ان کو باخبر ہونا چاہیے ۔ ان کے کھوکھلے پن اوراُن کی خرابیوں وکمیوں کوان پر واضع ہونا چاہیے ۔ اسلامی تصورات کے ساتھ ان کا تقابلی مطالعہ ہونا چاہیے ، اسلامی نظام کی جدوجہد میں اس طرح کی تعلیم طلبہ وطالبات میں اسلامی عقائد ونظریات کی برتری کا پورا شعور پیدا کرے گی  ۔ طالب علموں  کو یہ باتیں اس طرح پڑھائی جائیں کہ وہ ان پر اسلام کی حقانیت واضع کردیں  ۔ انہیں اس بات کا یقین محکم ہو کہ اسلام ہی وہ طرز فکروعمل ہے جواِس کائنات کے خالق کی عطا کردہ ہے اسی میں پوری انسانیت کے دکھوں کا علاج ہے اسلام کے علاوہ دوسرے نظام توانسان کے بنائے ہوئے ہیں اور اِن میں کوئی بھی نظام انسانوں کو اس کے دکھ کا درماں نہیں بن سکا

یہ بات بڑے افسوس کی ہے کہ ان درسگاہوں میں ان علوم کا  مطالعہ تو بہت دورکی بات ہے اُنہیں ان  کی زبان اور اُن کی اصطلاحات سے بھی آگاہ نہیں کیا جاتا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اِن درسگاہوں سے فارغ التحصیل طلبہ وطالبات کی ایک بہت بڑی تعداد بُری طرح احساس کمتری کا شکار رہتی ہے  اور عملی دنیا کے لئے محض شئے بے کار بن کر رہ جاتی  ہیں ۔ ان کی زندگی کسی نہ کسی درجہ میں با شعور اور مالی طور پر مستحقم افراد سے مرعوب ہو کر  گزرتی ہے ۔ معاشی میدان ان کے لیے تنگ ہوجاتا ہے

موجودہ تعلیمی نظام میں جہاں بعض خوبیاں ہیں وہیں اس کی خامیاں اتنی زیادہ ہیں کہ اس کی پوری افادیت پر پانی پھرجاتا ہے آج انسان کا علم اتنی ترقی کرچکا ہے کہ ترتیب کے ساتھ مطالعہ و تحقیق کے لیے اس کو کئی شعبوں میں تقسیم کردیا گیا ہے ، علم تاریخ ، علم عمرانیات ، علم جغرافیہ ، علم معاشیات ، علم تمدن، علم کیمیا، علم ریاضی ، علم طبیعات ،علم النباتات، علم الحیوانات، علم فلکیات وغیرہ وغیرہ ۔ یہ تمام شعبے معلوم و معرو ف ہیں۔ اِن کا مطالعہ اوراِن سے استفادہ کرنا ضروری ہے ۔ ہر طالب علم کواس کا مطالعہ کرنا چاہیے اورایک مسلم طالب علم کواس کا مطالعہ کرنا اورابھی زیادہ ضروری ہےکیونکہ اس نے  اِن علوم کی تحصیل کے بعد اِن علوم کو اسلام کا کلمہ پڑھانا ہے ۔

یہ علوم اسلام کی اساسی تعلیم کی افادیت کے پڑھانے میں مددگار بنتے ہیں اور ان کو تقویت پہنچاتے ہیں ۔ لہٰذا اِن کا حصول لازمی ہے مگر اس بات کوخصوصی طور پر پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ان علوم کی تربیت وتدوین اس گروہ کی طرف سے کی گئی ہے جو خدا بیزار نہیں اوراسے خدا پرستی کے نقطۂ نظر سے مرتب کیا گیا ہے ۔

بہت غور کرنے کی بات ہے کہ گزشتہ پانچ چھ سو برسوں میں انسان کوجس قدر معلومات حاصل ہوئیں ہیں اوران کومرتب کرنے اور ان سے نتائج اخذ کرنے کا سارا کام خدا ناشناش یا مذہب بیزار لوگوں نے کیاہے جس کے نتیجہ میں آج کا علم انسان کے لئے مفید ہونے کے بجائے مجموعی حیثیت سے مضر ثابت ہورہا ہے ۔ رائج الوقت نظام تعلیم سے فارغ ہونے والے طلبہ وطالبات خدا کے باغی بن جاتے ہیں، مذہب دشمن بن جاتے ہیں۔ اخلاقی قدروں کوپامال کرنے لگتے ہیں ۔ اس گمراہی کے اسباب ان  کے مضامین میں نہیں بلکہ وہ بنیادی واساسی افکار ونظریات ہیں جن پر عصری تعلیم کا ڈھانچہ تیار کیا گیا ہے ۔ مذکورہ بالا نظام تعلیم کے پس پُشت جو تصورات (Ideologies) کام کررہے ہیں وہ انسانیت کے لیے سخت تباہ کن اورفساد فی الارض پیدا کرنے والے ہیں۔ جب سے دنیا نے ان کو اختیار کیا ہے وہ فتنہ وفساد کا گہوارہ بن گئی ہے

جدید تعلیم کی بنیاد الحاد اور دہریت (AETHISM)ہے جس کا مطلب ہے کہ پوری کائنات اتفاقیہ (ACCEDENTAL) وجود میں آگئی ہے ۔ اس کے بنانے والے کا کوئی وجود نہیں ہے اور اگر ہے بھی توہماری زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس لیے ہمیں زندگی کے معاملات میں خدا کو شامل کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ تصورات ، (BELIVIES) انتہائی تباہ کن ہیں جوجدید تعلیم کی افاد یت کوبرباد کرتے ہیں  ۔ یہ تصورات انسانوں کے ذہن کوبگاڑ کر رکھ دیتے  ہیں  ۔ انسان سوچنے لگتا ہے کہ ہمار ے اوپر کوئی بالا تر ہستی نہیں جو ہماری پوچھ گچھ کرے ۔ لہٰذا اس تصورات کا انسان پرلے  درجے کا خود غرض بن جاتا ہے من مانے طریقہ سے زندگی گزارنے کا عادی ہوجاتا ہے اور خواہشات نفس کے پیچھے دوڑنے لگتا ہے۔ خداسے رشتہ توڑنے کےبعد اس کا رشتہ شیطان سے جڑجاتا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کی زندگی میں ہرطرح کی شطنیت (DEVILISHNESS)آجاتی ہے۔ جدید تعلیم کی دوسری بنیاد مادہ پرستی (MATEREALISM)پر ہے جوآخرت پسندی کی عین ضد ہے اس سے آدمی مکمل دنیا پرست بن جاتا ہے ۔ جدید تعلیم کا یہ تصور کہ ہماری زندگی بس اسی دنیا تک محدود ہے مرنے کے بعد مٹی میں مل جاتا ہے سڑ گل کر فنا ہوجانا ہےاس زمرہ میں آتا ہے ۔ جون مسفلذ (JOHN MASFIELD)کی وہ نظم تو آپ نے پڑھی ہوگی جس کا عنوان ہے (Eat Drink and Be merry)  کھاؤ ، پیو اور مزہ کرو، اس تصور کا حاصل آدمی یہ سوچتا ہے کہ ہم زندگی کا بھرپور مزہ لوٹیں زیادہ سے زیادہ داد عیش کریں - جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی دنیا کی لذّت اوراسکی رنگینیوں پر بھوکے کتے کی طرح ٹوٹ پڑتا ہے-  عیّاشی کے اڈے قائم ہوتےہیں ۔ شراب وکباب کے دور چلتے ہیں ۔ بازاروں میں بہو بیٹیاں فروخت ہوتی ہیں۔ رشوت کا بازار گرم ہوتا ہے ۔ خود غرضی کی وَبا پھوٹتی ہے ۔ آدم کے بیٹوں میں خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے ۔ ظلم ایک کھیل وتماشہ بن جاتا ہے ۔ آج کی دنیا اس کی جیتی جاگتی تصویر ہے ۔ 

دوسری جنگ عظیم کے دوران جب یہ خدشہ ہوا کہ  لندن پر جرمنی بمباری کرسکتا ہے توموت کے خطرے میں وہاں کےباشندوں(نوجوانوں ، مردوں اورعورتوں ) کو خدا یاد نہیں آیا بلکہ شراب وکباب یاد آیا اورزیادہ عیاشی میں غرق ہوگئے یہی وجہ ہے کہ آج ہر طرح کے اسکینڈل کی خبریں جو اخبار ورسائل کی زینت بنتے ہیں ان میں ان پڑھ لوگ کم ملوث ہوتے ہیں اور جد ید تعلیم کے حضرات زیادہ شامل ہوتے ہیں۔

جدید تعلیم کی تیسری بنیادمفاد پرستی (UTILITARIANSIM)پر ہے اس مفروضے کے مطابق اخلاق،روحانیت  اور زندگی کی مستقل قدروں (COMMON VALUES)کی موجودہ نظام تعلیم میں کوئی جگہ نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ مغرب نے جس نظام تعلیم کوفروغ دیا ہے اس نے تو یونیورسٹیز کوبھی بحران میں مبتلا کردیا ہے ۔ پروفیسر ٹائیس لکھتے ہیں ’’موجودہ تعلیم نے اپنے آپ کو ماضی کے روحانی ورثے سے الگ کرلیا ہے اورا س کا مناسب متبادل تلاش کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پڑھے لکھے افراد بھی زندگی کی اقدار کے صحیح احساس سے عاری ہیں۔‘‘جدیدتعلیم سے آراستہ لو گ  ہر چیز کو افادی نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں ۔ ہر کام میں مادی فائدہ  تلاش کرتے ہیں۔ اخلاق ان کے لیے بالکل ایک بے معنیٰ چیز بن کر رہ جاتا ہے ۔ 

ایسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ آدمی عیّار اورمکّار بن گیا ہے ۔ لوگوں کو دھوکہ دینا ایک ہنربن گیا ہے ۔ فریب سے کام نکالنا آدمی کا خاصہ بن گیا ہے ۔ طلبہ وطالبات میں بد اخلا قیو ں کے واقعات روزانہ اخبار ورسائل میں نظروں سے گزرتے ہیں ۔ طلبہ چوری وڈکیتی سے لے کر قتل و غارت گری اور سر بازار زناتک جیسے جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں۔ عیش پرستی ، بے راہ روی اور اباجیت کا شکار بن رہے ہیں ۔ اساتدہ والدین اوردیگر بزرگوں تک کا احترام نہیں کرتے۔ امتحان میں چھڑے دکھا کر جوابات نقل کرتے ہیں ۔غرض کوئی ناکردی ایسی نہیں کرتے ہوں جوطلبہ کونہ کرنی چاہیے  اوروہ مجسم تخریب بن چکے ہیں۔

جدید تعلیم کی چوتھی بنیاد وطن پرستی (NATION WORSHIP) ہے جس کا آج کل ملک میں بہت چرچا ہے ۔ طلبہ وطالبات کے ذہن میں یہ بیٹھا یا جاتا ہے کہ ہمیں اپنی قوم کا ساتھ دینا ہے خواہ وہ ناجائز پر ہی کیوں نہ ہوں۔ مکاولی کا یہ تصور اورمقولہ My Nation Right OR    Wrongپر عمل کریں اور کرایا جائے۔ اس تصور نے عالمی برادری کومختلف خانوں میں تقسیم کردیا ہے نتیجہ یہ ہے کہ قوموں اورملکوں سے بھائی چارگی ، امداد و اعانت کے بجائے دشمن اورتعصب پیدا ہوگیا ہے ماضی میں جو دو عظیم جنگیں ہوئیں ہیں وہ کسی مذہب کے نام پر نہیں ہوئیں ہیں بلکہ قوم پرستی کے سبب ظہور پذیر ہوئیں اور اس کا انجام سب کے سامنے ہے وہیں اگر ایک خدا ، ایک انسان اورایک خدا ئی کا ضابطہ کا تصور پیش کیا جاتا توانسانوں میں تعصب ختم ہوتا ۔

جدید تعلیم کی پانچویں بنیاد ڈاروینزم (DARWINISM)پر ہے ۔ یہ نظریہ انسانوں کودرندہ صفت بنادیتا ہے ۔ اس نظریہ کی تباہ کن تفصیلات سے قطع نظر فی الوقت Survival For The Fittest کے نظریہ کوہی اگردکھا جائے تو اس کا خلاصہ یہ ہے کہ زندہ رہنے کا حق صرف اس کوہے جو سب سے زیادہ طاقتور ہے ۔ اس فلسفہ نے آج اتنی ترقی کرلی ہے کہ لوگ عام طور پر ہی سمجھنے لگے ہیں کہ فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کمزور اور طاقتور زندہ ہیں اُن کا ماننا ہے کہ ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کوکھا جاتی ہے ۔ اس فلسفہ کی ترویج اوراشاعت سے پہلے ایک قوم دوسری قوم پر ظلم کرکے اپنے ظالم ہونے کا احساس کرلیتی تھی مگر اب ڈارون کے اس نظریہ نے لوگوں کوسمجھا دیا کہ جس چیز کو تم ظلم کہتے ہو وہ ظلم نہیں ہے بلکہ عین تقاضائے فطرت ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان نے غیر ملکوں پر حملہ کیا ۔ روس نے چیچنیا اور افغانستان پر حملہ کیا برطانیہ نے ناگالینڈ پر حملہ کیا - یہ سب ان ہی  باطل تصورات کا نتیجہ ہے جہاں انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی ۔

اس وضاحت سے آپ نے سمجھ لیا ہوگا کہ عصری تعلیم (Modern Education)کے خطرات کیا کیا ہیں ایمان کے لٹ جانے یااس میں تشلیک (Making Sceptical)پیدا ہوجانے کے بعد خطرہ کس حد تک بڑھ جاتاہے ۔ اخلاق برباد ہوجاتے ہیں سیرت وکردار بگڑ جاتے ہیں ۔ انسان حرص وہوس کا غلام بن جاتا ہے ۔ یہ سب  خطرات اِن مضامین میں ہیں جوان اداروں میں پڑھائے جاتے ہیں بلکہ یہ ان بنیادی افکارو نظریات میں ہیں جن کی بنیاد پر اِن مضامین کی تعلیم دی جاتی ہیں ، اگر یہ مضامین اسلامی افکار ونظریات جیسے توحید، رسالت ، آخرت، وحدت آدم، اخلاقی اور  مستقل اقدار وغیرہ ) کی روشنی میں بنائے جائیں اور پڑھائے جائیں تویہ سارے خطرات کم سے کم ہوجائیں گے اور اس سے نکلنے والے افراد صالح ، نیک اورباکردار ہوںگے جوسماج کے لیے ایک نعمت(Boon/Blessing)ہو ںگے-

مسلمانوں کے تعلیم کا مسئلہ ان ہی  وجوہات سے بڑا نازک بن جاتا ہے ۔ اگر اپنی دینی مدارس میں جاتے ہیں تودنیا تو  کیا خود اسلام کےلئے  بیکار بن جاتے ہیں اور اگر جدید اسکول وکالج کا رخ کرتے ہیں تودین وایماں سے دور ہوجاتے ہیں ۔ اخلاق بگاڑ کے شکار بن جاتے  ہیں اس بنیا دی مسئلہ کوحل کئے بغیر ہم ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے اورنہ یہ ممکن ہے کہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر پیچھے رہیں۔ اس مسئلہ کا حل جتنا جلد ممکن ہو نکالنا ہوگا ۔ بد سے بد تر اورصبر آزما حالات میں بھی ہمیں اپنے خداپر اعتماد کرکے نبرد آزما ہونا ہوگا راستے نکالنے ہوں گے۔

 مسلمانوں کے ماضی کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو وہاں دینی اوردُنیوی تقسیم نہیں ملتی- ایسی کوئی تفریق نظر نہیں آتی ، ماضی میں مسلمان ہر علم کے شیدائی تھے ۔ ایک طرف قرآن ، حد یث، تفاسیر، فقہ، عقائد وغیرہ علوم حاصل کرتے تھے تودوسری طرف اس کے ساتھ ساتھ مذکورہ علوم کی رو شنی میں سائنس ، جغرافیہ ، طب ، ریاضی، کیمیا، طبیعات ، نجوم وغیرہ وغیرہ علوم بھی حاصل کیا کرتے تھے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ ساتویں صدی سے سترہویں صدی تک دنیاکے تمام علوم پر جوکام ہوا اوران میں بے انتہا ترقی بھی ہوئی ۔ ان صدیوں میں جوایجاد اورانکشاف ہوئے ان کے امام صرف اورصرف مسلم علماء ہی تھےجیسے جن درس گاہوں سے امام غزالی ، امام رازی، امام تیمیہ جیسے جلیل القدر علماء نکلے انہیں در س گاہوں سے جابر بن حیاۃ، فارابی، ابن القیم ، ابو علی سینا ، البیرونی وغیرہ وغیرہ جیسے بلند پایہ سائنسدان اورمحقق بھی پیدا ہوئے ۔ اگر خدا اعتمادی اور خود اعتمادی پیداہوئے توآج بھی مسلمانوں کے وہ دور واپس آسکتے ہیں ۔ آج بھی مغرب کی لائبریری ہماری تصانیف سے بھری پڑی ہیں

   مسلمان طلبہ وطالبات کے تعلیم کے تئیں زبان کا مسئلہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے یعنی یہ کہ بچوں کوتعلیم کس زبان میں دی جائے ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ مادری زبان کے سوا کسی اور زبان کو تعلیم کا ذریعہ بنانا نہ صرف غیر فطری ہے بلکہ دینی نشو نما کے لیے مضرہے ۔ مادری زبان کے ذریعہ ہی خیالات میں صحت اور صفائی پیدا ہوسکتی ہے ۔ ہماری  مادری زبان تو خاص اردو ہے اور اردوکے ساتھ حکومت کا جو رویہ ہے وہ ہم سب کومعلوم ہے ۔ لہٰذا ہمارے سامنے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ مسلمان طلبہ وطالبات کو اردو زبان میں کس طرح تعلیم دی جائے آج کل نصابی کتاب کا اردو میں حصول کس حد تک مشکل ہے

 تعلیمی اداروں میں نہ تواسلام نظر آتا ہے اورنہ  اردو میں تعلیم دی جاتی ہے۔ توزبان ہے اورنہ اسلام (مذہب)اگروہاں کچھ ہے توصرف روزی روٹی کاذریعہ ۔پیٹ کی آگ بجھانے کا ایک ذریعہ۔ ان اداروں میں کام کرنے والوں  کی اکثریت اوران کو چلانے والے دونوں ابھی پیٹ سے اوپر نہیں اُٹھ سکے۔ دماغ ودل تک تو ان کی رسائی ہوہی نہیں سکتی۔ بہرحال مسلم طلبہ وطالبات کو اگر  مادری زبان میں تعلیم دی جائےتو ساتھ ہی ساتھ اُن کو ، انگریزی  اورعربی میں بھی مہارت حاصل کرنی ہوگی- اسلام کی زبان تو عربی ہے ا س کا سارا سرمایہ عربی میں ہے معارف  کی کنجی قرآن وحدیث ہے جوعربی میں ہے ۔ عربی کی واقفیت کے بغیر ہم دین سے کلی طور پر واقف نہیں ہوسکتے۔ اس طرح فی زمانہ انگریزی زبان جدید علوم کی کنجی ہے اگر ہم جدید علوم کے ماہر بننا چاہتے ہیں توانگریزی زبان ضرورت ہے ۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو ایک مسلم طالب علم کوسہ 3 لسانی فارمولہ پر عمل کرنا ہوگا یعنی عربی ، اردو ، اورانگریزی جویقیناً ایک امر مشکل ہے ماہرین تعلیم کو ایک ایسا نصاب تیار کرنا ہوگا جومسلم طلبہ وطالبات کی اس ضرورت کوپورا کرے ۔ اِن تینوں زبانوں  کے حصول کے لیے پرائمری ، اپرپرائمری اورمڈل اسکول تک کوئی دو زبان مکمل کردی جائیں  جس میں ایک مادری زبان ہو، ہائی اسکول تک  اِن کوتینوں زبانیں آجانا چاہیے کیونکہ چھٹی کلاس سے سبجکٹ میٹر آنا شروع ہوجاتا ہے

مسلمانوں  کواپنی نئ نسلوں کی تعلیم کے مسائل پر فوری طورپر نہایت مؤثر اور نتیجہ خیز  انداز میں اقدام کرنے کی ضرورت  ہے ۔ اس راہ میں ہلکی سی غفلت و لاپرواہی بھی آئندہ نسلوں کی مذہبی ، اخلاقی ، اقتصادی اور ثقافتی تباہی کا سبب ہوگی جس کی علامتیں صبح آزادی سے ہی واضع طور پر سامنے آرہی ہیں اور جب تک نظام تعلیم میں تبدیلی روننما نہیں ہوتی تب  تک ہمیں اپنی نی نسل کو حکما اور دانشور بزرگان جو جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی علوم سے بھی آراستہ ہوں اور اپنے عمل سے ایک نیک اور  مکمل انسان ثابت ہوتے ہوں ، وابستہ کرنا پڑے گا

اپنے ارد گرد نگاہ ڈالیں تو آپ کو ایسے دانشور اور نیک افراد کی زیادہ کمی نظر نہیں آے گی جو جدید علوم سے بھی آراستہ ہیں - خدارا ان سے خود بھی وابستگی اختیار کریں اور اپنی نسلوں کی ان سے وابستگی بھی یقینی بنائیں
 آئیے ایک نئے دور کا آغاز نئے جذبوں سے کریں -اللہ  تعالی  ہماری کوششوں میں کامیابی  دے اور ہمارےارادوں  میں پختگی عطا فرماتے ۔ آمین ثم آمین


Thursday 3 May 2018

Truth to be accpeted

“When you find no solution to a problem, it's probably not a problem to be solved, but a truth to be accepted.”
جب کسی مسلۂ کا کوئی حل نہ مل رہا ہو ، تو غالباً اس جگہ حل تلاش کرنے کی نہیں سچ کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے
Omnibus