Monday 29 July 2019

روئے زمین پر سب سے بڑی طاقت انسانی جذبات ہیں

زمین پر تمام تخلیقات اور ان کی تباہی کا جائزہ لیں تو سب کا سب صرف جذبات اور احساسات کی وجہ سے ہے- یہ جذبات اظہار کو جنم دیتے ہیں اور یہ اظہار ہی ہماری پہچان بھی بنتا ہے - اظہار نہ کرنا بھی اصل میں ایک اظہار ہی ہوتا ہے کہ مجھے کچھ پرواہ نہیں میرے لئے اس سے زیادہ اہم کام اور لوگ موجود ہیں جو میری اولین ترجیح ہیں 

انہی جذبات کے اظہار سے ہم فیصلے کرتے ہیں جو ہماری زندگی کی سمت کا تعین کرتے ہیں زندگی کے تجربات سے جو معنی ہم اخذ کرتے ہیں وہی ہمارے احساسات و جذبات کو تعمیر کرتے ہیں یہی ہم اکثر محسوس کرتے ہیں اور اسی طرح کی شخصیت میں ڈھل جاتے ہیں 

 جس طرح کے جذبات ہم پر اکثر اثر انداز ہوتے ہیں ویسی ہی ہماری اصلیت اور شخصیت ہوتی ہے اور لوگ ہمیں ویسا ہی سمجھتے ہیں - ہم جتنی بھی کوشش کریں جتنا بھی ظاہری بناوٹ سے کام لیں زیادہ دیر تک مضبوط، سچے اور اچھے نظر نہیں آ سکتے - ایک نہ ایک دن کچھ ایسا ضرور ہو جاتا ہے جس سے اصلیت سامنے آ جاتی  ہے - نفسیات کی زبان میں اس کو ہمارے پرسنیلٹی انڈیکیٹرز یا ''کردار نما'' کہتے ہیں 

اسی لئے ہمارا معیار زندگی  اصل میں ہمارا معیار جذبات ہوتا ہے - جس معیار کے ہمارے جذبات اور ان کا اظہار  ہوگا اسی معیار کی ہماری زندگی ہوگی 

خوشی کی خبر یہ ہے کے یہ آپ کا اپنا چناؤ اور پسند ہوتی ہے کہ آپ کسی بھی طرح کہ  تجربے یا تعلق سے کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں - یہ آپ کی اپنی مرضی پر منحصر ہے کہ آپ مثبت پہلو سامنے رکھیں یا منفی - یہ دنیا.. جہاں بہت کچھ ہمارے قابو میں نہیں صرف یہی بات ہمارے قابو میں ہے کہ ہم کسی بھی تجربے اور تعلق کو کیا معنی پہناتے ہیں 

اب یہ آپ کے مکمّل اختیار میں ہے کہ آپ کس چیز پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور اسکا کیا مطلب نکالتے ہیں کیونکہ مطلب نکلنے کی وجہ سے ہی تو دنیا کا ہر چھوٹا اور بڑا  جھگڑا اور تنازعہ جنم لیتا رہا ہے یہاں تک کہ قومیں فرقوں میں تقسیم ہو گیں

Tuesday 16 July 2019

کسی کا دل جیتنے کے لیے پہلے دل ہارنا پڑتا ہے

کہتے ہیں جو پورے دل سے چاہتا ہے وہ بہت ہی مشکل سے ملتا ہے اور اگر کوئی ایسا ہے تو وہی دنیا میں سب سے زیادہ حسین شخص ہے اسکا ہاتھ تھام لو نہیں تو  کیا پتا وہ پھر ملا یا نا ملے  ۔ دلوں پر حکمرانی کرنا ہی اصل کامیابی وکامرانی ہے۔ دل جیتنے کا فن جس کو آگیا سمجھو دنیا اس کی دیوانی ہوگئی۔ اور جو دل جیتنے کے فن سے ناآشنا ہوتا ہے وہ کبھی بھی گوہر مقصود سے ہمکنار نہیں ہو سکتا ہے۔

  تاریخ شاہد ہے کہ بڑے جابر وظالم حاکموں نے زور بازو وقوت لشکر اور ظلم واستبداد کے ذریعہ لوگوں کے جسموں پر اور ظاہری نظلم ونسق پر حکومت تو قائم کرلی مگر جونہی ان کی قوت میں کمی آئی ان کے ستارہ اقبال کو گہن لگ گیا۔ جب بھی قوم کو ان کے ضعف کا احساس ہوا ان کا تختہ پلٹ دیا۔ اسباب صاف ظاہر ہیں کہ قوم بحالت مجبوری ان کی حکومت وحکمرانی برداشت کررہی تھی اور ان کے ظلم واستبداد نے لوگوں کی زبانوں پر مہر لگارکھی تھی۔ لوگوں کے دلوں میں ان حاکموں کے تئیں ذرہ برابر بھی محبت ونرمی کا گوشہ نہیں تھا اسی لیے کہا جاتا ہے کے خوف سے حکمرانی کرنا کوئی حکمرانی نہیں 

مگر حکومت کرنے کی ایک اورغلیظ قسم چالاکی سے حکومت کرنے کی بھی ہوتی ہے جس میں اپنا آپ بہت ہی اچھا بہت ہی پرکشش اور فرشتہ صفت ظاہر کر کے لوگوں کو اپنے پیچھے لگا لینے کے بعد اپنی مرضی کے مطابق ان سے کام نکلوانا اور جیسے چاہنا ویسے ہی الو بنا کر رکھنا ہوتا ہے


یہ طریقہ بہت عرصے سے مغربی طرز حکومت اور نظام میں رائج ہے جس کےبارے میں کہا گیا ہے کے یہ دیکھنے میں بلیوں اور دیگر گوشت خور جانوروں کی طرح نظر آتے ہیں جو گھر میں بہت پالے جاتے ہیں اور ان کے پنجےعام حالت میں بہت نرم اور بے ضرر نظر آتے ہیں مگر کبھی اگر یہ انہی پنجوں میں سے اپنے حملہ آور ہونے والے خطرناک نوکیلے ناخن باہر نکال لیں تو انکی اصل خوفناک شکل سامنے آتی ہے

اسی طرح ان مغربی اقوام کا حال ہے جو اوپر سے بہت خوبصورت نرم خو ہمدرد حساس اور ہر دل عزیز نظر آتے ہیں مگر جب معاملہ ان کے اپنے مفادات پر آنچ آنے کا ہو تو یہ کسی قسم کی سفاکی اور درندگی سے نہیں چوکتے نا لحاظ کرتے کرتے ہیں
یہی سب کچھ تاریخ سے ثابت ہے - ایسٹ انڈیا کمپنی ہو یا دنیا میں بہت ساری اور جگہوں پر اسی قسم کے تاجروں کے بھیس میں چھپے ہوے غاصب اور لٹیرے جو کسی بھی قدرتی اور معدنی ذخائر سے مالامال ملک میں پہنچ کر پہلے وہاں کے لوگوں کو اپنی خوبصورتی نفاست اور بہترین طرز زندگی سے متاثر کرتے رہے اور لوگوں کو اپنی مادی ترقی اور سمجھداری سے مرعوب کر کے دھیرے دھیرے با اثر افراد کو اپنا گرویدہ بنا کرنا سمجھ عوام کو گرویدہ بنا لیا ، (جن میں سے اکثر آج تک ویسے کے ویسے ہی ہیں) اس ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی اور طاقتور بن جانے کے بعد ان سب مخالفین کو نیست نابود کر دیا جو ان کی اصلیت سمجھ گئے تھے کہ یہ صرف انکے قدرتی اور معدنی ذخائر پر قبضہ کا منصوبہ ہے جو مغربی ممالک آج بھی تقریباً ناپید ہیں اور ان کی راہ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی

یہ نا سمجھ عوام آج بھی یہ خیال کرتی ہے کے نو آبادیاتی نظام میں بہت ترقی ہوئی جو دراصل صرف اپنی آسائش اور قدرتی و معدنی ذخائر تک پہنچ کو آسان بنانے کے لئے عمل میں آئ اس کا اعتراف انہی نو آباد کاروں نے بعد میں لکھی جانے والی مغربی محققوں کی کتابوں میں کیا ہے جن پر بعد میں فلمیں بھی بنی
آج بھی ان مغربی طاقتوں سے مرعوب لوگ جو انکی طرز معاشرت کی اندھی تقلید میں فخریہ طور پر لگے ہوے ہیں انہی کی طرح مادی ترقی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں اور اپنے ہی لوگوں کو ظاہری نمود نمائش خوبصورتی اور آسائش کا جھانسا دے کر پہلے انکا دل جیتنے میں لگے رہتے ہیں اور اکثر سادہ لوح افراد انکی بظاھر پیش کردہ آسائشوں اعلیٰ کارکردگی قابلیت اور ہمدردیوں سے مرعوب ہو جاتے ہیں اور ان کے گرویدہ ہوکر اندھی تقلید اور حمایت کرنے لگتے ہیں یہ جانے بغیر کے ان کا مقصد بھی ان ذخائر اور صلاحیتوں پر قبضہ کرنا ہے
جب تک پورے دل سے سچ مچ ہار نہیں جاتے دل جیت لینا ناممکن ہے- وقتی طور پر دکھاوا اور اداکاری یا پھر ظاہری خوبصورتی , پیسہ اور وقتی چاپلوسی والی خدمت اور محنت کام آ تو جاتی ہے مگر بعد میں جب وہ مطلوبہ ہدف یہ سب چھوڑ کر بہتر آسائشیں یا واقعی اصلی جذبے تلاش کر لیتا ہے اور ہاتھ سے دور نکل جاتا ہے, جہاں اسے بہترخدمت زیادہ پیسہ اور چاپلوسی ملنے لگے تو ساری کوششیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور ہاتھ ملتے رہ جانے کے بعد صرف کھسیانی بلی کھمبا نوچتی ہے
مگر اصل حکومت ہار جانے میں ہوتی ہے جیتنے میں نہیں دل ہار کر دل جیتا جاتا ہے جو ان مغرب زدہ ذہنوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتا وہ تو بس اس بات پر پوری تحقیق کرتے ہیں کے فلاں شخص کو ایسا کھانا پسند ہے ایسا لباس اور ایسا رہن سہن تو بس ویسے ہی نظر آؤ اور اسے دکھاؤ کہ یہ دیکھو میری نفاست میرا رہن سہن میرا بناؤ سنگھار جس سے مطلوبہ نتائج نکل آئیں تو بس کام بن گیا -
دائمی حکومت جو دلوں پر قائم رہتی ہے اس کے لئے اپنا فائدہ نہی دیکھا جاتا دل جو کرتا, جو کہتا اور چاہتا ہے, وہ اس کا کر دینا ہوتا ہے جس کو اپنا بنانا ہوتا ہے- اپنی انا اپنی مرضی اور اپنی تمنائیں سب کی سب کچھ اس کے حوالے کرنی ہوتی ہیں بغیر کسی لالچ اور امید کے بس اس کا ہو جانا پڑتا ہے خوشی خوشی زبردستی نہیں اوپر اوپر سے نہیں جو بس دکھاوے کے لئے ہو
اور اپنی لا حاصل نہ پائیدار وفاداری خلوص اور دکھاوے کے جذبات کو اصلی اور خالص ثابت کرنے میں لگ جاتی ہے اور دوسرے کی بیوفائی کم ظرفی اور زیادتی کا رونا ساری عمر رونے کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہتا
کیونکہ دکھاوا تو اپنی اصلیت ظاہر کر دیتا ہے چاہے جتنا بھی چھپاؤ جتنا بھی انکار کرو بہانے کرو یا حقیقت کو توڑ مروڑ کر اپنے حق میں کرنے کی کوشش کرو اور سمجھو کے بیوقوف بنا کر کام چل جاے گا
سواے اس کےکہ ایک اور بیوقوف پھانس لو اور اسے بھی ان ہی ظاہری ہتھکنڈوں کی مدد سے اپنا مداح اور گرویدہ کر کے اپنی معصومیت اور مظلومیت کا رونا روتے ہوے


Monday 8 July 2019

مرد کے رتبہ کی غرض و غایت - قرآن و حدیث کی روشنی میں

پوری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ مرد وعورت کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ نے فرق رکھا ہے، مرد کو جہاں زیادہ جسمانی قوت اور طاقت سے نوازا ہے، وہیں عورت کو رحم دل بنایا ہے۔ جہاں مرد کو اپنے جذبات پر قابو رکھ کر صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت دی ہے، وہیں عورت کو حیض، حمل، ولادت، نفاس اور بچے کو دودھ پلانے کے مشکل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور فیصلہ کرنے کے معاملے میں جانبدارانہ رویہ رکھنے پر انہی وجوہات کی وجہ مجبور  رہتی ہے جو سربراہ بننے کے لئے ایک ناگزیر اور اشد ضرورت ہے ۔ نیز دنیا کے وجود سے لے کر آج تک عملی زندگی میں اور تمام مذاہب میں مردکو عورت پر فوقیت دی گئی ہے، اور اس حقیقت کا انکار کرنا ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مستشرقین اسلامی تعلیمات کے خلاف تو اپنا قلم اٹھانے کی جسارت کرتے ہیں لیکن اپنی مذہبی کتابوں کی تعلیمات کو نظر انداز کرکے مغربی ممالک میں خواتین کے ساتھ کئے جانے والے مظالم سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ حالانکہ عصر حاضر میں الیکٹرونک میڈیا کے ذریعہ معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں کہ مغربی ممالک میں خواتین کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا جاتا ہے۔


مرد وعورت میں تخلیقی وجسمانی وعقلی فرق کی وجہ سے شریعت  نے دونوں کے مسائل میں فرق رکھا ہے۔ یقیناًدونوں میاں بیوی بشریت وانسانیت میں برابر ہیں اور دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں، لیکن شریعت  نے زندگی کے پہئے کو چلانے کے لئے مرد کو فوقیت دی ہے۔ غرضیکہ مرد عورت کا محافظ ونگراں ہے اور مرد کو سربراہی حاصل ہے، ہاں دونوں میاں بیوی میں اپنی اپنی جگہ ایک مستقل حیثیت اور مقام رکھتے ہیں۔


اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: مرد عورتوں پر حاکم ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں۔ جو عورتیں نیک ہیں وہ اپنے شوہروں کا کہنا مانتی ہیں اور اللہ کے حکم کے موافق نیک عورتیں شوہر کی عدم موجودگی میں اپنے نفس اور شوہر کے مال کی حفاظت کرتی ہیں، یعنی اپنے نفس اور شوہر کے مال میں کسی قسم کی خیانت نہیں کرتیں۔ اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو تو (پہلے) انہیں سمجھاؤ، اور (اگر اس سے کام نہ چلے تو) انہیں خواب گاہوں میں تنہا چھوڑدو یعنی ان کے بستر کو الگ کردو، (اور اس سے بھی اصلاح نہ ہو تو)انہیں مارسکتے ہو۔(سورۃ النساء ۳۴) اس آیت میں خالق کائنات نے مرد کو عورت پر فوقیت وفضیلت دینے کی جو   وجہیں ذکر فرمائی ہیں ان میں کہیں یہ وجہ بیان نہیں فرمائی کے اگر مرد قوام یا خرچ کرنے والا نہیں تو حاکم نہیں رہتا اور نہ ہی یہ فرمایا ہے کے اگر مرد عورت کی مرضی کے مطابق خرچ کا انتظام نہ کرے تو عورت کو چاہیے کے وہ خود خرچ کا انتظام کرنے نکل پڑے بجاے اس کے کہ مرد کے لئے ایسے حالات میسر کرے جن سے وہ گھر کا خرچ اٹھانے میں آسانی محسوس کرے خود مرد بننے کی کوشش میں لگ جاے


اللہ تعالیٰ  نے خود مرد کو عورت پر فوقیت دی ہے، لہٰذا  اللہ تعالیٰ کے اس فیصلہ پر راضی رہنا چاہئے۔ غرضیکہ مرد کو عورت پر فوقیت وفضیلت کی پہلی وجہ وہبی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے، وہ جس کو چاہے عطا کرے۔ اور اگر عورت اس بات میں مشکل اور تنگی محسوس کرے تو اسے الله نے علیحدگی اختیار کرنے کا حق دیا ہے- اگر یہ بھی کرنے سے قاصر ہو تو صبر اور دعا سے کام لینے کا حکم ہے بجاے اس کے شوہر کے لئے مزید تکلیف کا موجب بنے اور مسلسل عیب تراشی، بد زبانی، کج بحثی ، لگائی بجھائی اور شوہر کی غیبت اور چغلی سے گھر کے ماحول کو ایسا زہر آلود کردے کے شوہر کے لئے کچھ بھی ڈھنگ کرنا دو بھر ہو جاے


شریعت اسلامیہ میں لڑکی کی شادی سے قبل اس کے تمام اخراجات والد کے ذمہ رکھے ہیں، اور شادی کے بعد شوہر کے ذمہ رکھے ہیں کہ وہ اپنی بیوی کے کھانے، پینے، رہائش اور لباس وغیرہ کے تمام اخراجات برداشت کرے، جیساکہ سورۃ البقرہ ۲۲۳ اور سورۃ الطلاق ۷ میں بیان کیا گیا ہے۔ نیز حضور اکرمﷺ نے حضرت ہند بنت عتبہؓ سے فرمایا تھا،جب انہوں نے اپنے شوہر حضرت ابوسفیانؓ کے متعلق شکایت کی تھی کہ وہ بخیل ہیں اور وہ ان کے اور بچہ کے اخراجات مکمل طور پر نہیں اٹھاتے، ’’تم اپنے شوہر کے مال میں سے معروف طریقہ سے اتنا مال لے لیا کرو جو تمہیں اور تمہارے بچہ کے لئے کافی ہوجائے۔ (بخاری ۔ کتاب النفقات ۔ باب اذا لم ینفق الرجل فللمراۃ ان تاخذ۔۔۔۔۔) یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ اخراجات اٹھنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ جیسے اخراجات بیوی بچے چاہتے ہوں ویسے ہی اخراجات اٹھاے جائیں ورنہ وہ شوہر اور والد کی اطاعت کے پابند نہیں رہتے اخراجات حثیت کے مطابق اسلامی اسصولوں کے تحت اٹھنے کا حکم ہے 


جیساکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ہاں مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فوقیت ہے۔(سورۃ البقرۃ ۲۲۸) یعنی دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہونے کے باوجود زندگی کے سفر میں اللہ تعالیٰ نے مرد کو امیر اور نگراں بنایا ہے اسی لیے اس نے کبھی کسی عورت کو آج تک نبوّت ، خلافت یہاں تک کے امیر جماعت یا صدارت حلقہ کے انتخاب میں بھی شمولیت کا حق نہیں دیا کیونکہ عورت درست فیصلہ کرنے کے معاملے میں جانبدار ہونے سے نہیں رہ سکتی اور ایسا اسکی اوپر بیان کردہ  فطری کمزوریوں کیا وجہ سے ہے جو ہر عورت کی نسوانیت اور صنف نازک ہونے کی پہچان ہے ۔ اس لحاظ سے مرد کو ایک درجہ فوقیت حاصل ہے۔


اس موضوع سے متعلق دو آیات قرآنیہ کا ذکر کرنے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ محسن انسانیت نبی اکرم ﷺکے چند ایسے ارشادات بھی پیش کردوں جن سے ان مذکورہ بالا آیات کی مزید تفسیر ہوتی ہے۔۔۔


رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر عورت نے (خاص طور پر)پانچ نمازوں کی پابندی کی، ماہ رمضان کے روزے اہتمام سے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی اور اپنے شوہر کی اطاعت کی تو گویا وہ جنت میں داخل ہوگئی۔ (مُسند احمد


رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی وخوش ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ (ترمذی۔ باب ماجاء فی حق الزوج) ۔۔۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر میں کسی کو یہ حکم کرسکتا کہ وہ کسی (غیر اللہ) کو سجدہ کرے تو میں یقیناًعورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ (ترمذی۔ باب ماجاء فی حق الزوج) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اگر کسی کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو عورت کو حکم دیا جاتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔۔


سجدہ اطاعت کی انتہائی حالت کا نام ہے اور یہاں بھی کسی قسم کی شرط نہیں رکھی گئی کہ مرد ایسا نا کرے تو اطاعت لازم نہیں یا ویسا کرتا ہو تو اطاعت لازم نہیں صرف اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ شرعی حدود سے باہر کوئی حکم دیا جاے تو اس کی اطاعت  لازم نہیں 


ایک عورت نے نبی اکرم ﷺ سے کہا کہ مجھے عورتوں کی ایک جماعت نے آپﷺ سے ایک سوال کرنے کے لئے بھیجا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم مردوں کو دیا ہے، چنانچہ اگر ان کو جہاد میں تکلیف پہنچتی ہے تو اُس پر ان کو اجر دیا جاتا ہے اور اگر وہ شہید ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے خصوصی بندوں میں شمار ہوجاتے ہیں کہ مرنے کے باوجود وہ زندہ رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی رزق ان کو دیا جاتا ہے، (جیساکہ سورۃ آل عمران آیت ۱۶۹ میں مذکور ہے) ہم عورتیں ان کی خدمت کرتی ہیں، ہمارے لئے کیا اجر ہے؟ تو نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جن عورتو ں کی طرف سے تم بھیجی گئی ہو، ان کو اطلاع کردو کہ شوہر کی اطاعت اور اس کے حق کا اعتراف تمہارے لئے اللہ کے راستے میں جہاد کے برابر ہے، لیکن تم میں سے کم ہی عورتیں اس ذمہ داری کو بخوبی انجام دیتی ہیں۔ (بزاز ، طبرانی) ۔۔۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کے لئے (نفلی) روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ بخاری ومسلم


یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آج کل کی عورت مرد کی جگہ کمانے اور خرچ کا انتظام کرنے تو  نکل کھڑی ہوتی ہے مگر جہاد کرنے کا نام نہیں لیتی دینی کاموں میں خطرات مول لینے کو تیار نہی ہوتی کہ یہ تو مردوں کا کام ہے 


نبوت ورسالت اللہ تعالیٰ کی جانب سے کسی بھی بندہ کو دیا جانے والا سب سے بڑا اعزاز ومقام ومرتبہ ہے۔ انسان اپنی کوشش اورجد وجہد سے اس مرتبہ کو حاصل نہیں کرسکتا۔ یہ مقام صرف اور صرف اللہ کی عطا پر منحصر ہے۔ اور یہ مقام شوہر ہونے سے بدرجہا افضل اور برتر ہے جس میں کہیں بھی صاحب حیثیت یا خرچ کرنے کے قابل ہونے کی شرط نہیں نا ہی خلیفہ بننے کے لئے بہت مالدار ہونے کی شرط ہے- اسی طرح امام چاہے نماز کا ہو یا دعا کروانی ہو ہر جگہ مرد ہی قیادت کے فرائض انجام دیتا ہے چاہے عمر میں اور تجربہ میں کتنا ہی چھوٹا ہو اس کا رتبہ عورت سے زیادہ ہی ہوتا ہے-کیا اگر کبھی گھر میں سب مرد عمر میں چھوٹے یہاں تک کے نا بالغ ہوں مگر نماز کیا امامت جانتے ہوں توعورت کو نماز کی امامت کا حق ہوتا ہے ؟


دنیا کے وجود سے لے کر آج تک اللہ تعالیٰ کا یہ نظام رہا ہے کہ نبوت ورسالت اور خلافت  سے صرف مردوں کو ہی سرفراز کیا گیا ہے، جیسا کہ فرمان الہٰی ہے: اور (اے پیغمبر!) ہم نے تم سے پہلے کسی اور کو نہیں، آدمیوں ہی کو رسول بناکر بھیجا تھا، جن پر ہم وحی نازل کرتے تھے۔ (سورۃ الانبیاء ۷) اسی طرح فرمان الہٰی ہے: اور ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھیجے وہ سب مختلف بستیوں میں بسنے والے مرد ہی تھے، جن پر ہم وحی بھیجتے تھے۔ (سورۃ یوسف ۱۰۹) ۔۔۔ نیز قرآن وحدیث میں کسی بھی جگہ پر کسی بھی عورت کے نبی ہونے کا ذکر موجود نہیں ہے۔ حضرت مریم  کے متعلق بعض حضرات نے اختلاف کیا ہے، لیکن ۱۴۰۰ سال سے امت مسلمہ کے جمہور علماء ومفسرین ومحدثین مذکورہ بالا آیات قرآنیہ واحادیث نبویہ کی روشنی میں یہی فرماتے ہیں کہ کسی بھی صنف نازک کو نبوت ورسالت کی ذمہ داری نہیں دی گئی ۔عورت کی جسمانی وعقلی تخلیق اللہ تعالیٰ نے ایسی کی ہے کہ وہ نبوت ورسالت کی ذمہ داری کو انجام نہیں دے سکتی۔ اور نا ہی کسی سربراہ قائد رہنما صدر یا خلیفہ کے اتنخاب میں حصہ لے سکتی ہے 


مرد کا ایک سے زیادہ شادی کرنا: مرد بیک وقت چار عورتوں سے شادی کرسکتا ہے، جبکہ عورت ایک وقت میں ایک ہی مرد کے نکاح میں رہ سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے: دوسری عورتوں میں سے کسی سے نکاح کرلیا کرو جو تمہیں پسند آئیں، دو دو سے، تین تین سے، اور چار چار سے۔ (سورۃ النساء ۳) مرد کے لئے تعدد ازواج کے جواز کی متعدد وجوہات بھی ہیں لیکن بنیادی طور پر مردو عورت کی تخلیق میں فرق ، نیز خالق کائنات کا فیصلہ ہے جو ہمیں خوشی خوشی تسلیم کرنا چاہئے۔


مرد اپنی بیوی کے بغیر جب چاہے سفر کرسکتا ہے، لیکن شریعت اسلامیہ نے عورت کے سفر کے لئے شوہر یا کسی دوسرے محرم کا ساتھ ہونا ضروری قرار دیا ہے۔ جیساکہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورت، جو اللہ تعالیٰ اور آخر ت پر ایمان رکھتی ہے، کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ محرم کے بغیر ایک دن کی مسافت کے سفر پر جائے۔ (بخاری ومسلم


یہاں یہ بات سمجھ لینا لازم ہے کہ اشد ضرورت اور بحالت مجبوری کے احکامات اور شرعی تشریحات کی روشنی میں سفر کی اجازت مل سکتی ہے جو ناگزیر حالات میں جائز ہے کیونکہ اسلام آسانی کا مذھب ہے مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کے غیر ضروری حالات کو توڑ مروڑ کر اپنے حق میں کر لیا جاے اور یہودیوں کی طرح ہر حکم کا اپنا مطلب اور عمل کرنے کا اپنا طریقہ ایجاد کر لیا جاے  


عورتوں کے لئے پردہ کا حکم: سورۃا لنور ۳۱، سورۃ النور ۶۰، سورۃ الاحزاب ۵۹، سورۃ الاحزاب ۵۳ اور سورۃ الاحزاب ۳۳ نیز حضور اکرم ﷺ کے اقوال کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ عورت کا غیر محرم سے پردہ کرنا ضروی ہے۔ اسی طرح عورتوں کے لئے ہاتھ، پیر اور چہرے کے علاوہ پورا جسم ستر ہے، یعنی شوہرکے علاوہ کسی محرم وعورتوں کے سامنے ان تین اعضاء کے علاوہ کسی دوسرے عضو کا شرعی عذر کے بغیر کھولنا جائز نہیں ہے، جبکہ مرد کی ستر صرف ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے۔


اولاد کی نسبت باپ کی طرف:شرعی قوانین کے اعتبار سے اولاد باپ کی طرف منسوب ہوتی ہے۔ یعنی اولاد کا خاندان وہ کہلائے گا جو باپ کا خاندان ہے


عورت کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے ایسی کی ہے کہ وہ عقل اور دین کے اعتبار سے مرد کے مقابلہ میں ناقص ہیں چنانچہ محسن انسانیت نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عید الاضحی یا عید الفطر کے موقعہ پر عید گاہ تشریف لے گئے، وہاں آپ عورتوں کی طرف گئے اور فرمایا: اے عورتوں! صدقہ کرو، کیونکہ میں نے جہنم میں زیادہ عورتوں ہی کو دیکھا ہے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایسا کیوں ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم لعن طعن کثرت سے کرتی ہو۔ اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔ باوجود عقل ا ور دین میں ناقص ہونے کے، میں نے تم سے زیادہ کسی کو بھی ایک زیرک اور تجربہ کار مرد کو دیوانہ بنادینے والا نہیں دیکھا۔ عورتوں نے عرض کیا: ہمارے دین اور عقل میں نقصان کیا ہے یا رسول اللہ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا عورت کی شہادت مرد کی شہادت کے آدھے کے برابر نہیں ہے؟ انہوں نے کہا : جی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا بس یہی اس کی عقل کا نقصان ہے۔ پھر آپ ﷺ نے پوچھا کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ روزہ رکھ سکتی ہے۔ عورتوں نے کہا ایسا ہی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔ (بخاری ۔ باب ترک حائض الصوم) (وضاحت) بعض خواتین بعض مردوں سے عقل اور دین کے اعتبار سے بہتر ہوسکتی ہیں جیسے امہات المومنین میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی رضی اللہ عنہا ، اور متعدد صحابیات  رضی اللہ تعالی عنہن اسی نترہ حضرت مسیح معود علیہا؛سلام کے متبرک خاندان کی خواتین کس بھی مثالیں موجود ہیں اور اسلامی و جماعتی تاریخ میں بھی خواتین کی مثالیں موجود ہیں - لیکن شریعت کا فیصلہ عام مردوں اور عام خواتین کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے۔


ان مذکورہ بالا مسائل کے علاوہ متعدد مسائل میں شریعت اسلامیہ نے مرد وعورت کے درمیان فرق رکھا ہے، جن کو اختصار کے مد نظر ذکر نہیں کیا ہے، مثلاً مرد جہاد میں شرکت کرتے ہیں، جبکہ عورتوں پر جہاد فرض نہیں بلکہ ان کے لئے گھر میں رہنا (یعنی بچوں کی تعلیم وتربیت کرنا) اور حج کی ادائیگی کو جہاد قرار دیا گیا ۔ مردوں کو حکم دیا گیا کہ وہ پانچوں نمازیں جماعت کے ساتھ مسجد میں ادا کریں جبکہ خواتین کے لئے گھر کو بہترین مسجد قرار دیا گیا


غرضیکہ میاں بیوی بشریت اور انسانیت میں برابری اور دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق کے باوجود جسمانی وعقلی تخلیق میں فرق کی وجہ سے خالق کائنات نے زندگی کے پہئے کو چلانے کے لئے مردکو عورت کا سربراہ ونگراں متعین فرمایا ہے اور مرد کو عورت پر کسی نہ کسی حد تک فوقیت دی ہے۔

Sunday 7 July 2019

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

انسانی تعلقات میں اور رشتوں میں یہ بات اکثر بھلا دی جاتی ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کی پسند اور نا پسند کا ادب کرنا اور عزت دینا ضروری ہے - اگر ہم اس شرط پر کوئی تعلق رکھنا چاہیں گے یا پسند کریں گے کے جس کسی عادت,  چیز, کام یا تعلق کو ہم پسند کرتےہیں, ہمارا قریبی اور عزیز تعلق بھی وہ سب پسند کرے اور ویسے ہی لوگوں سے تعلق رکھے جنکو ہم پسند کرتے ہیں,  تو ہمیں بھی جواباً ویسا کرنے کے لئے تیار رہنا ہوگا ہمیں بھی اسی طرح وہ سب کام, چیزیں, اور لوگ اپنے عزیز یا محبوب کی خاطر اختیار یا ترک کرنے ہونگے  جو اس کی پسند اور نا پسند کے مطابق ہیں 

کیا ہمارے  لئے کوئی تعلق اتنا عزیز ہوسکتا ہے جس قائم رکھنے کی خاطر  ہم ہنسی خوشی اپنے سارے اھم تعلقات چھوڑنے کو تیار ہو جائیں ؟ اپنی ہر عادت ہر کام ہروہ  چیز چھوڑ دیں جو اسے پسند نہیں ؟

کیا کسی کو اتنا بلند مرتبہ دینا ہمارے بس میں ہے ؟ ہم یہ تو ضرور چاہتے ہیں کے ہم سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی انسان ہر اس چیز کو پسند کرے ہر وہ کام سراہے ہر اس شخص کی عزت  کرے اور اہمیت دے جسے ہم چاہتے ہیں اور جیسے ہم چاہتے مگر کیا اسی طرح کیا ہم ہر وہ کام ہر وہ چیز ہر وہ شخص اسی طرح عزیز رکھ سکتے ہیں , پسند کرسکتے ہیں جیسے وہ سخص عزیز رکھتا ہے جس سے ہمیں قربت ، وابستگی یا محبت کا دعویٰ ہے ؟

میرے خیال سے یہی محبت ہے جس میں عزت وابستگی اور قربت سب شامل ہے اگر میں وہی سب بلکہ اس سے بڑھ کر اپنے عزیز کے لئے خیال کروں کے جیسے مجھے کچھ پسند ہے- اسی طرح اسے بھی کچھ پسند ہو سکتا ہے جو ضروری تو نہیں کے مجھے بھی پسند ہو بلکل ویسے ہی کچھ مجھے اگر نا پسند  ہے اور برداشت نہیں کر سکتا تو اسی طرح میرے عزیز کو بھی مجھ میں کچھ ناپسند ہو سکتا ہے- اور یہی تو اصل میں حکم ہے کہ 

تیرا ایمان اس وقت تک مکمل ہی نہیں ہوتا جب تک  تو اپنے بھائی کے لئے (جس کے بھائی ہونے کا دعویٰ تو کرتا ہے) وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے (اوراسی طرح  نا پسند کرے جیسے اپنے لئے نا پسند کرتا ہے ) - وہ قرابت دار وہ عزیز رشتہ دار کیسے ہوا جب تو اس سے تو امید رکھے کے وہ تیری پسند اور نا پسند کی عزت کرے مگر تو اس کی پسند اور نا پسند کی کبھی عزت  نا کرے اور ہمیشہ اس پر اپنی معمولی معمولی پسند اور نا پسند بھی مسلط کرتا رہے صرف اپنے احساس برتری کی تسکین کی خاطر دوسرے کو کم علم نا سمجھ ثابت کرتا رہے 

اس سے  تو امید رکھے کے وہ خوشی خوشی وہ سب ترک کردے جو تجھے پسند نہیں مگر تو کچھ بھی ایسا ترک نہیں کرتا جو اسے پسند نہیں اس سے پوچھتا تک نہیں نا ہی خیال رکھتا ہے کے میں کچھ ایسا تو نہیں کرتا یا مجھ میں کچھ ایسا تو نہیں جو میرے عزیز کو پسند نہیں - پھر اس کا تیرے دل میں کیا رتبہ ؟ کیا قدر اور کیا عزت ہے؟

اب آپ یہ بھی کہیں گے کے ہو سکتا ہے کے وہ چیز یا تعلق حرام اور نقصان دہ ہو جو آپ کے کسی عزیز نے اختیار کر رکھا ہواور اس کا ترک کروانا  لازمی ہو
تو پھر کیا کریں ؟’

اول تو یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ کا واقعی کوئی عزیز آپ کے علم میں آے بغیر 
ایسی عادت یا تعلق میں مبتلہ ہو سکے جو نا جائز یا حرام ہو اور اگر ایسا ہوگیا ہےاور آپ اس کے تدارک میں ناکام رہے ہیں تو یہ آپ کی کمزوری بلکہ مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے اور آپ کے  ذوق تعلقات کو بھی ظاہر کرتا ہے  

 اس بات کا فیصلہ کسی  مستند ذریعے سے ہونا لازمی ہے کے اول تو واقعی کچھ حرام اور نقصان دہ ہے بھی کے نہیں؟ اور اگر ہے تو اس کی اصلاح کے لئے کیا کرنا ضروری ہے؟ کیونکہ اکثر ہم خود ہے منصف خود ہے معالج اور مصلح بن جاتے ہیں اور صورت حال انتہائی بگڑنے کے بعد ہی کسی مستند مسیحا کا رخ کرتے ہیں 

اپنے تعلقات اور رشتوں کی عزت کرنی چاہیے اور ان رشتوں وابستگیوں اور تعلقات کی غیرت ہونی چاہیے کے انکےبارے  میں کوئی بری بات نا کہ سکے - اپنے رشتوں اور تعلقات کو قابل فخر و عزت بنا نا ہمارا کام ہے اسی میں ہماری اپنی عزت اور وقار ہے  نا کہ ان کا تمسخر اور تماشہ بنا ڈالنے میں جس سے لوگ یہ سوچیں کے تم نے آخر ایسے تعلق رکھا ا ہوا ہی کیوں ہے جو اتنا تکلیف دہ ہے کے ہر وقت اس کا رونا روتے نظر اتے ہو 

Monday 1 July 2019

قربانی

ایک مشہور دانشور کا قول ہے: 

قربانی کمزور آدمیوں کا فعل نہیں ہوتا۔ یہ صرف بہادروں کا ہی شیوہ ہو سکتا ہے۔ 

یہ اتنا آسان عمل نہیں ہوتا جیسے اگر تمہیں لگی لگائی پکّی نوکری چھوڑنی پڑ جاے صرف اس لئے کے وہاں اپنے عقائد پر کھل کے عمل نہیں ہو سکتا یا پھر شہر, یہاں تک کے ملک چھوڑنا پڑے کیونکے وہاں تمہیں اپنے عقائد پر عمل کرنے کی آزادی نہیں اس لئے نہیں کے اس ملک میں تمہاری مرضی کا ذریعہ معاش میسر نہیں 

اسی طرح ایسی قربانی بھی کرنی پڑتی ہے کہ جب قریبی رشتہ دارتمہارے زندہ رہنے کے اصولوں کو قبول نہ کریں اور اپنی بدعات اور رسومات سے چمٹے رہیں اور عقائد کو بھی اپنی مرضی سے اپنے حق میں توڑ مروڑ کر ان کا مطلب اپنے حق میں نکالتے  ہوں  بغیر کسی مستند دینی عالم سے پوچھے ہوے یہاں تک کے مستند دینی سخصیت کی بات کا بھی اپنا مطلب ایجاد کریں 

اور تم سٹپٹا کر رہ جاتے ہو ان مسخ شدہ مطالب میں خود کو گھرا ہوا مجبور اور لاچار پا کر کچھ بھی نہ کر پانے کے لائق 

یہ نام نہاد عقائد رکھنے والے جو صرف اپنی مرضی کے مطابق عقائد پر عمل کرتے ہیں اور جو عقائد ان کو سوٹ نہیں کرتے یا تو سرے سے ان پر عمل نہیں کرتے یا پھر ان کو اپنی مرضی کے مطابق توڑ مروڑ کر دوسرے لوگوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں اور اتنے وثوق اور شدت سے اپنے مسخ عقائد کی وکالت کرتے ہیں کے معصوم کم علم ذہنوں کو لگتا ہے یہی سچ ہےکیونکہ اس طرح کرنے سے ایک ساتھ گمراہی اور بیہودگی بھی جاری رہتی ہے اور نیک نامی بھی قائم رہتی ہے-  جب کسی دینی محفل میں جانا ہو تو نیکی کا لبادہ اوڑھ لو اور بڑی بڑی باتیں کرو اور جب دنیاوی محفلیں ہو تو خوب آزاد خیالی کے ساتھ خود کو  سب سے زیادہ اڈوانس , ماڈرن , با خبر اوراپ ڈو ڈیٹ  ثابت کرو دین اور دنیا دونوں میں لاثانی اور بےمثال بنو اور اسی کی ترویج اور تبلیغ زور و شور سے کرو  

ایسے خود ساختہ عقائد بلکہ مسخ شدہ عقائد کے ساتھ ساتھ ان کا پسندیدہ مشغلہ جس پر شدید وعید بھی آئ ہے وہ یہ ہے کہ اپنی پسند کے احکامات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور جو احکامات پسند نہیں ان کو چھپا لیتے ہیں اور ذکر تک نہیں کرتے 

سب سے آسان پہچان ایسے لوگوں کی یہ ہوتی ہے کہ یہ علم ودانش کی محفلوں سے دور بھاگتے ہیں کبھی کسی علمی مذاکرے میں حصّہ نہیں لیتےنا کبھی خود سے اپنا کوئی خیال یا تجزیہ  تحریر کرتے ہیں نا ہی کسی سے اصلاح کروانے کی کوشش کرتے ہیں نہ کبھی کوئی علمی اور ادبی  موضوع زیر بحث لانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ مزید تفصیلات اور خیالات کا اظہار ہو سکے خاص توڑ پر کسی علمی شخصیت کی موجودگی میں تو ہرگز نہیں - جہاں کہیں کسی عالم سے واسطہ پڑنے کا اندیشہ بھی ہو وہاں سے دور بھاگتے ہیں کیونکہ ان کا کام تو صرف منافرت کج بحثی اور کھوکھلی سنی سنائی بات پر اظہار خیال کرنا غیبت کرنا اور اعتراض کرنا ہوتا ہے 

ایسی صورت میں قربانی دینی ہوتی ہے یا تو اپنے اصولوں اور احساسات کو چھوڑ دو جو اصل عقائد سے بندھے ہوے ہیں یا پھر ان نام نہاد پیارے رشتہ داروں کو- کیونکہ رشتہ دار تو وہی ہوتا ہے جو ہو بہو تمھارے عقائد رکھتا ہو تمہارے دین یعنی زندہ رہنے کے طریقے پر عمل پیرا ہو 

ورنہ پھر غزوات میں صحابہ کرام اپنے خونی رشتہ داروں اور قربت داروں کو اپنے ہی ہاتھوں سے قتل نہ کرتے