Friday 27 March 2020

یہ چھوٹے موٹے سادہ سے لوگ


ہم پر کب یہ حقیقت آشکار ہوگی کے مان لینے قبول کا کر لینے اور کبھی کبھی زندگی کو گزرانے نہیں جی لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں
ہم اتنے ڈھیٹ اور اکڑ فوں سے بھرپور ہیں کے کسی نچلے درجے کے انسان یا معمولی حیثیت رکھنے والے شخص یا پھر کم عمر کی بات کو پہلے سے ہی اس کی نا سمجھی اور غلطی تصور کر کے یا تو نظر انداز کر دیتے ہیں یا پھر سرے سے سنتے ہی نہیں اور ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں
زیادہ شور کرے تو کوئی مصروفیت یاد آ جاتی ہے فون جیب سے نکل آتا ہے یا اگر کوئی کم عمر نا سمجھ ہو تو ڈانٹ کر چپ کروا دیتے ہیں زیادہ سے زیادہ کوئی بہلاوا دے کر جان چھڑا لیتے ہیں
کوئی لاکھ کہتا رہے کے تھوڑی فرصت ہمارے لئے بھی نکال لو کبھی کام چھوڑ کر ہمارے ساتھ وقت گزارو مگر ہم بہت ہی اہم اور مصروف نظر آنے   کا ناٹک نہ کریں تو کوئی ہمیں ایک بڑی ہستی یا ا علیٰ درجے کی شخصیت کیسے تسلیم کرے گا؟
ہمارے کسی کو اہمیت دینے اس کی بات سن لینے پھر اس پر غور کرنے اور آخر عمل کرنے کے بھی اپنے ہی کچھ معیار ہیں ... کہنے والا کس عمر کا ہے؟ اس کی مالی حیثیت کیسی ہے  ؟ دیکھنے میں کیسا ہے یا پھر کتنا با اثر اور با اختیار ہے اس بات کا تعین  کرتا ہے کے ہم اس کی بات سن لیں اور برداشت بھی کر لیں پھر غور کریں اور شائد اتنا اھم ہو کے عمل بھی کر لیں
لیکن یہ سب کچھ بھی ہم تب ہی کرتے ہیں جب بات ہمارے مطلب کی ہو یا اس میں کوئی مادی فائدہ مل رہا ہو یا پھر کم از کم کوئی الو سیدھا ہوتا نظر آ رہا ہو ورنہ ہم کیوں سنیں کسی ایرے غیرے کی بات ہماری تو ناک ہی اتنی اونچی ہے کے وہاں تک شائد ہی کسی کی بات پہنچ پاے

یہاں تک کے الله کے کسی فرستادے کی بات پر بھی سو تاویلیں حجتیں اور تنقید جس کو بہت اچھی طرح سے شروع سے جانتے بھی تھے کہ سچا کھرا اور دیانتدار اتنا ہے کے روۓ زمین پر ایسا کوئی نہیں پھر بھی کہتے تھے کے الله کو تجھ جیسا بے حیثیت انسان ہی ملا ہمیں ہدایت دینے کے لئے ؟ اگر الله ہمیں فلاں معجزہ دکھا دے تو شائد ہم مان جائیں یا پھر خود ہم سے ہمکلام ہو جاے آخر ہم صاحب حیثیت ہیں اور اونچی شان ہے معاشرے  میں وہ براہ راست ہمیں کیوں ہدایت نہیں دیتا
پھر جب وہ تمام جہانوں کا ملک جلال میں آ جاتا ہے اس تکبر اور انا کی حد ہو جاتی ہے اور قدرتی آفات سے ان
ا علیٰ درجے کے قابل اور طاقتور ترین لوگوں  کی اصل اوقات ان کے اور دنیا کے سامنے لاتا ہے تو پھر بہت
 فرصت ہو جاتی ہے انکو انسانیت کی خدمت پر غور کرنے سوچنے اور زندگی کو گزارنے کی بجاے جینے کی اور ہر مصروفیت کو بالاے طاق رکھ کر وہ سب کر گزرنے کی جس کا ان کے پاس کبھی وقت نہیں ہوتا تھا
لیکن مانتے پھر بھی نہیں انتظار کرتے ہیں کہ کب یہ عذاب ٹلے اور کب وہ واپس اپنی پرانی نہج پر جا سکیں بس فلحال کسی طرح جان چھوٹ جاے کوئی جگاڑ ہو جاے کوئی بہلاوا کوئی رشوت لگ جاے کسی طرح بس یہ عذاب بھی قابو میں آ جاے بس
ہماری تکبر اور انا کی بلندی اتنی زیادہ ہے کے ہمیں صرف اپنی پسند کے مطابق کوئی اس قابل نظر آتا ہے جسے ہم اس قابل سمجھیں کے اس کو وقت دے سکیں واقعی اس کے ہو سکیں کچھ مانگنے سے زیادہ عطا کر سکیں یہ دیکھے بغیر کے بدلے میں وہ ہمارے لئے کیا کر سکتا  ہے ہم بھی اس کے کام آ سکیں خوشی دے سکیں توجہ اور پیار دے سکیں صرف اس لئے کے یہی تو ہمیں انسان بناتا ہے ایک ایسا انسان جس کو اشرف المخلوقات کی تمام خوبیوں کے ساتھ پیدا کیا گیا جن میں سب سے بڑی اور بنیادی خوبی اس کی معصومیت اور خالص جذبات تھے

بابے کہتے ہیں جب انسان الله کے پاس جاے گا تو وہ کہے گا کے جنت میں جانے کے لئے ایک ہی چیز مجھے واپس کرو اور اندر چلے جاؤ - اور وہ چیز معصومیت اور اخلاص ہے جسے میں نے تمہیں دے کر دنیا میں بھیجا اور تم فطرت سلیم پر پیدا ہوئے
اور انسان کہے گا وہ تو پتا نہیں کہاں رہ گئی میں تو اب بہت عقلمند سمجھدار اور چالاک ہو گیا ہوں معصومیت کا میرے  پاس کیا  کام ؟ وہ تو میں بس کبھی کبھی چھوٹے بچوں سادہ لوح  گنواروں اور جانوروں میں تھوڑی دیر اپنی دل پشوری اور تفریح کے لئے دیکھتا ہوں اور ہنستا ہوں کہ کتنا سادہ اور بے وقوف ہے جو آج کے دور میں اتنا خالص اور معصوم ہے اور ان چھوٹے موٹے سے لوگوں کو بس چھوٹا موٹا ہی دے دلا کر آ جاتا ہوں چاہے وقت ہو یا پھر مال ان کی حیثیت کے حساب سے ان سے سلوک روا رکھتا ہوں
اور وہ دونو جہاں کا ملک کہے گا کہ پھر تو جنت میں نہیں جا سکتا تیرے پاس تو وہ بنیادی عنصر وہ لازمی خصوصیت ہی نہیں رہی جو انسان کو انسان بناتی ہے وہ خالص جذبات وہ معصومیت
اور وہ دونوں جہاں کا مالک کہے گا کہ پھر تو جنت میں نہیں جا سکتا تیرے پاس تو وہ بنیادی عنصر وہ لازمی خصوصیت ہی نہیں رہی جو انسان کو انسان بناتی ہے وہ خالص جذبات وہ معصومیت - جنت تو صرف خالص لوگوں کی ہے جو معصوم اور پیارے ہیں
کاشف احمد
اسلام آباد پاکستان
٢٧- ٠٣ -٢٠١٩

Tuesday 24 March 2020

کہانیاں




یہ کہانیاں ہی تو ہیں جو دراصل ہماری زندگی کو معنی فراہم کرتی ہیں اسے واضح اور آسان بھی کرتی ہیں لیکن جب یہی کہانیاں جو ہم اپنے  بارے میں لوگوں  کو سناتے ہیں ادھوری محسوس ہونے لگیں یا غلط موڑ لیکر کوئی اور ہی معنی اختیار کر لیں توہمارے  ساتھ ساتھ لوگوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے

مشہور سائکو تھراپسٹ اور مصنف لوری گوٹلیب کہتی ہیں ہم سب اپنی اپنی زندگی میں رونما ہونے والی کہانیاں ساتھ لئے پھرتے ہیں - یہ فیصلہ کیوں کیا  وہ چیز پسند کیوں کرلی یا اس شخص کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیوں کیا .... کیا غلط ہو گیا جس سے بہت نقصان ہوا اور کیوں میں نے کسی سے برا سلوک کیا اور کیوں وہ اسی کا حقدار تھا

یہی کہانیاں جو ہم لوگوں کو سناتے ہیں ہماری زندگی کو معنی اور چہرا دیتی ہیں اور کیا آپ  سوچ سکتے ہیں جب ہماری یہ کہانیاں  گمراہ کن غلط معنی اختیار کر لیتی ہیں جب بجاے وضاحت فراہم کرنے لوگوں کو  بند گلی میں لے جاتی ہیں جب کوئی راستہ کوئی چارہ یا حل باقی نہیں رہتا

ہم سمجھتے یہ ہیں کہ ہمارے حالات ہماری کہانی بناتے ہیں- جبکہ تجربے نے ثابت  کیا ہے کہ حقیقت بلکل اس کے  برعکس ہوتی ہے - ہم جس طرح سے اپنی زندگی  لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں دراصل اس طرح سے ہماری زندگی اپنی شکل اختیار کر لیتی ہے-   یہ دراصل ہماری ان کہانیوں کا خطرناک پہلو ہوتا ہے یہی ہمیں تباہی کی  طرف لے جاتا لیکن غور کریں تو یہی دراصل ان کہانیوں کی طاقت بھی تو ہے

اگر ہم اپنی یہ کہانیاں سہی رخ میں تبدیل کر لیں تو ہماری زندگی بھی درست سمت اختیار کر لیتی ہیں آئیے دیکھیں یہ کس طرح ہو سکتا ہے

لوری کہتی ہیں اکثر لوگوں کی کہانیاں صرف ٢ بنیادی عناصر پر مبنی ہوتی ہیں
ان کی کہانی کا سب سے پہلا عنصر آزادی اور دوسرا تبدیلی ہوتا ہے

اگر ہم پہلے آزادی کو دیکھیں تو اس کی مثال کے طور پر ہم اس کارٹون کی مثال کو لے سکتے  ہیں جس میں ایک قیدی بہت  زور زور سے قید خانے کی سلاخوں کو ہلا کر توڑنے کی کوشش میں لگا دکھائی دیتا ہے جبکہ اس کے ارد گرد کوئی دیوار نہیں ہوتی  یا پھر آپ نے دیکھا ہوگا کارٹون میں اکثر ایک کارٹون دوسرے کارٹون پر دروازہ بند کر دیتا ہے جبکہ پورا گھر تباہ ہو چکا ہوتا ہے اور ارد  گرد کوئی دیوار نہیں ہوتی پھر بھی وہ دروازہ پیٹنے لگتا ہےاور چلاتا ہے کہ  مجھے باہر نکالو

یہی ہم سب کرتے ہیں ہم اکثر اپنے آپ کو جذبات کے قید خانے میں اسی طرح بند کر لیتے ہیں اور لوگوں  پر زبردستی یہ  ثابت بھی کرنے لگتے ہیں کہ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا، یا نہیں ہے- ہم جان بوجھ کر  اپنے اس جذبات کے جیل خانے کی گری ہوئی دیواروں کو نہیں دیکھتے نہ اس طرف جاتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کے ایسا کرنے پر بھانڈا پھوٹ جاے گا لوگ ہنسیں گے اور ہمیں وہ کرنا پڑ جاے گا جو ہم کرنا  ہی نہیں چاہتے 

در اصل آزادی کبھی بھی ذمہ داری اور جواب دہی کے بنا نہیں ملتی اور اگر ہم کہانی میں اپنی ذمہ داری قبول کر لیں تو ہو سکتا ہے ہمیں خود کو بدلنا پڑ جاے اسی لئے ہم مڑ کر اس جذبات کے قید خانے کی گری ہوئی دیواروں کوبھی نہیں دیکھتے- دل کا چور ہمیں اندھا بنا  دیتا ہے اپنے پراے کی پہچان کھو جاتی ہے سچا ہمدرد چیخ چیخ کر  بتا رہا ہوتا ہے  کہ ''یہ راستہ ہے نہ سامنے'' مگر ہم نہیں مانتے

اور دوسرا عنصر جسے تبدیلی کہتے ہیں اس کی کہانی عام طور پر اس طرح ہوتی ہے کہ
ایک شخص کہتا ہے میں بدلنا چاہتا ہوں لیکن اس کا اصل مطلب در اصل یہ ہوتا ہے کے اس کی اپنی ہی  سنائی ہوئی اس  کہانی کہ دوسرےکردار  خود کو بدلیں پھر سب ٹھیک ہو جاے گا جو بلکل ایک غیر منطقی بات ہے

کچھ بدل ڈالنا خاص طور پر مثبت طور پر خود کو بدلنا یا کچھ بھی تبدیل کر دینا در اصل حیران کن حد تک ہم سے بہت کچھ کھو دینے یا چھوڑ دینے کا تقاضا کرتا ہے اور وہ کچھ بھی ہو سکتا ہے لوگ ، عادت جگہ یا ملکیت- جس پر ہم اکثر تیار نہیں ہوتے چاہے وہ سب کچھ کتنا ہی نقصان دہ کیوں نہ ہو رہا ہو ، خود کے لئے، یا پھر ارد گرد کے لوگوں کے لئے، ہم اس سے اتنا زور سے چمٹے رہتے ہیں کے کبھی اس کو کھو دینے کا تصور نہیں کر پاتے 

ہم چاہتے ہیں کے ہماری کہانی کے لوگ بدل جائیں ہم نہیں اور اپنی کہانی جو ہم  اکثر دوسروں کو سناتے ہیں اس میں بار بار خود کو اچھی طرح جاننے کے دعوے بھی کرتے ہیں '' مجھے اپنا پتہ ہے''  اور'' میں خود کو جانتا ہوں  یہ خوشفہمی ہمیں اکثر رہتی ہے- جبکہ خود آگہی در اصل خود سے نا واقفیت کا نام ہوتا ہے- تبھی ہم اپنی تلاش میں نکل  سکتے ہیں اور خود کو تلاش کر لیں تو اپنے خالق کو جن سکتے ہیں اپنا مقصد حیات ہم پر واضح ہو جاتا ہے

خود کو جان لینے کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کے خود کو ہم کتنا ننگا کر سکتے ہیں کتنا اپنے خول اتار کر خود کو اصل حالت میں دیکھ سکتے ہیں اور اپنی اوقات پہچان سکتے ہیں تاکہ ہم اپنی زندگی کو جی سکیں نا کہ وہ کہانی جو ہم اپنے آپ کو  سنا کر زندہ رہتے

صرف آپ اپنی کہانی لکھ سکتے ہیں کوئی دوسرا نہیں لکھتا اور اس کے لئے درست لوازمات کی ضرورت ہے جو کہانی کو سہی سمت میں لے جا سکیں اور اس کو خوشگوار اور خوبصورت بنا سکیں - اپنی کہانی کے آپ خود مدیر (ایڈیٹر) بننے کے لئے اور اسے درست سمت میں موڑ لینے لئے آپ کو خود  پر اور معاشرے پر ترس کھانے کی ضرورت ہوتی ہے ؛لیکن  دانائی سے بھرپور انداز میں جس میں خود غرضی  لالچ اور جانبداری  کا شائبہ تک  نا رہے

لوری گوٹلیب اس کو '' چھٹکارے  کے بموں''  کا نام دیتی ہے آپ لوگوں پررحم  کھا کر ان کو اپنی غلط کہانیوں سے نجات ان پر یہ چھٹکارے  کے بم گرا  کر ہی کر سکتے ہیں- انہیں درست سمت میں لے جا کر خود پر بھی رحم کرتے ہیں جو کہ کہانی کی ایڈیٹنگ میں سب زیادہ مشکل کام ہے کیونکہ آپ کو ذمہ داری قبول کرنی ہوتی ہے اور آپ اس کے جواب دہ بھی ہوتے ہیں- لیکن یہی وہ واحد جگہ ہے جہاں
اصل تبدیلی پیدا ہوتی ہے

کیا ایسا ہوسکتا ہے کے آپ اپنی کہانیاں کسی اور شخص کے نقطہ نظر سے لکھنے کی کوشش کریں ایسا کرنا آپ کو ایک بہت وصیح اور زیادہ واضح بلکہ کہیں بہتر منظر کشی فراہم کر ے گا- اسی لئے ماہرین نفیسات ذہنی تناؤ یا ڈپریشن کے شکار لوگوں کو کہتے ہیں کہ آپ خود وہ شخص نہیں بن سکتے جس سے آپ اس حالات میں بات کریں اس لئے آپ کو دوسرا شخص درکار ہے جو آپ کی کہانی سنے بھی اور اس میں حسب ضرورت اور درست  تبدیلی بھی کرسکتا ہو جس پر آپ عمل کریں تو فائدہ حاصل ہو

ڈپریشن ہماری کہانی کو بہت بری طرح مسخ کر دیتی ہے اور ہماری سوچ بہت  تنگ نظر خود غرض اور جانبدار بنا دیتی ہے - ہم ایسا اس وقت  محسوس کرتے جب اکیلے رہ جائیں، تنہائی کا شکار ہوں، یا جب دکھی اور خود کو مسترد کیا گیا محسوس کریں - ہم اس کے نتیجے میں جو کہانیاں  تخلیق کر لیتے ہیں وہ بہت ہی محدود تنگ نظر سوچ کی عینک سے دیکھی ہوئی صورتحال پر مبنی ہوتی ہے

زندگی اس بات کا فیصلہ کرنے کا نام ہے کہ ہمیں کس قسم کی کہانیاں سننی چاہیں اور کونسی نہیں اور کونسی کہانیوں کو فوری ایڈیٹنگ کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے زیادہ کوئی بات اھم نہیں -

ہمارے میعار زندگی کا تعین اس سے ہوتا ہے کہ ہم کیسی کہانیاں سنتے بیان کرتے اور ایڈٹ کرتا ہیں 

کاشف احمد
اسلام آباد پاکستان
 ٢٤- ٠٣ -٢٠٢٠





Friday 13 March 2020

محرومی کی بیماری

محرومی ایک ایسے شدید بیماری ہے جس کا نقصان  خود سے زیادہ لوگوں کو پہنچتا ہے - جب انسان ایک لمبا عرصہ احساس محرومی میں گزارے تو اس کا دل چاہتا ہے کے ہر چیز ہر جذبہ ہر احساس اسے ملے جس کے لئےبرسوں ترستا رہنے سے اس کے اندر شدید اشتہا اور بھوک جاگ گئی ہے
وہ ساری چیزیں اسے چاہیے ہوتی ہیں جو ان آسودہ حال لوگوں کو حاصل ہوتی ہیں وہ سارے لاڈ پیار وہ عیش و آرام وہ چونچلے وہ سب کا خیال رکھنا پوچھنا نخرے اٹھاے جانا سب چاہیے ہوتا ہے پھر جی بھر کے یہ سب ملنے کے بعد وہ شائد خود بھی اس معاملے میں فراخ دلی اور دریا دلی دکھا پائیں لیکن یہ پیاس بجھنے کا نام نہیں لیتی

پھر یہ احساس اور بھی شدت اختیار کر جاتا ہے جب ایک بار آسودگی کی زندگی گزار کر اچانک کسی وجہ سے محرومی کی زندگی گزارنی پڑے وہ بھی ایک لمبا عرصہ

بچے خاص طور پر شدید ذہنی دباؤ کی وجہ سے اکثر بہت ہے خطرناک شخصیت اختیار کر لیتے ہیں اور ہر طرح سے خود کو اس قابل  بنا کر رکھتے ہیں جس سے بظاھر وہ بہت جاذب نظر ہونہار اور با ادب دکھائی دیں اور لوگ ، خاص طور پر وہ لوگ جن تک ان کو رسائی حاصل کرنی ہو ان کو اپنی جانب ایک خاص طرح کی کشش سے کھینچ کر اپنا مقصد پورا ہونے کے بعد غیر ضروری کھلونے کی طرح ایک طرف رکھ کر یا پھینک کر اگلے اس سے زیادہ پر کشش کھلونے کی طرف نکل جاتے ہیں

عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ بظاھر نظر آنے  والی تمام خوبیاں جن کا مقصد صرف دوسروں کو اپنا مداح بنا کر ان کے وسیلے سے وہ سب چیزوں اور جگہوں تک رسائی حاصل کرنا ہوتا ہے جن سے محرومی کا شدید احساس بچپن سے رہا ہوتا ہے پھر اس سے اگلا وسیلہ پھر اس سے اگلا شخص

بلکل ان خطرناک پہاڑی سدا بہار پھولوں  کی طرح جو حسین اور خوشبودار ہوتے ہیں مگر اندر سے انتہائی خطرناک قاتل ان  کا نام کلمیا لاٹفولیا ہے جس کو چھو لینے سے ہی انسان کی حرکت قلب بند ہو جاتی ہے - اسی طرح سے کئی اور اقسام کے پھول اور پودے دنیا بھرمیں پاے جاتے ہیں جو دیکھنے اور سونگھنے میں بہت ہی پیارے ہوتے ہیں مگر در اصل بہت خطرناک

محرومی کی یہ بیماری آدمی کو غلط   فیصلے کرنے پر مجبور کر دیتی ہےیہ بیماری اکثر  معاشی بدحالی اور سخت اور بے رحم ماحول میں لمبا عرصہ رہنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے -یہ بات مشہور ماہر نفسیات ایلس جی والٹن   جو انسانی رویوں کی نیورو سائنس کی ماہر سمجھی جاتی ہیں نے اپنے ایک آرٹیکل میں بتائی جو شکاگو بوتھ ریویو میں شایع ہوا 

وہ لکھتی ہیں کہ محرومی کی زندگی گزارنے والے لوگوں کی زندہ رہنے کی ترجیحات اور اقدار بہت مختلف ہوتی ہیں اور وہ انہی کی وجہ سے اپنے اور لوگوں کے بارے میں فیصلے کرتے ہیں اور مسائل کے حل کو مختلف انداز میں دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں اور ان میں سب کچھ حاصل کرنے کی طلب بہت  زیادہ ہوتی ہے

یہ لوگ اسی مقصد کے حصول کے لئے کسی بھی  طریقہ اور حد سے آگے گزر جانے کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کے لئے وقتی طور پر خود کو ہر دل عزیز بنا لینے کی ہر ممکن کوسش میں لگے رہتے ہیں اور یہ وقتی کوشش لمبے عرصے تک بھی جاری رہ سکتی ہے جب تک ان کا اصل مقصد حاصل نہ ہو جاے یا پھر ان کا بھانڈا نہ پھوٹ جاے

 وہ عام انسانی جذبوں اور احساسات کو صرف اپنے مفاد کے حصول کا ذریعہ  سمجھتے ہیں اور اسی سے تسکین حاصل کرتے ہیں ان میں احساس ندامت رحم دلی دلجوئی وفاداری اور پیار جیسے جذبات یا تو دم توڑ چکے ہوتے ہیں یا پھر اتنے دب چکے ہوتے ہیں کے ان کا خالص  اظہار ان کے لئے نہ ممکن ہوتا ہے

ان کا واحد علاج آسودہ حال پختہ شخصیت اور مثبت سوچ کے حامل اچھے افراد کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزرانے میں ہے جن کے زیر  اثر رہ کر ان کو زندگی کا روشن اور درست پہلو سمجھ میں آنے لگتا ہے اور ان کی اپنی شخصیت میں مثبت تبدیلی اور نکھار پیدا ہوتا ہے ورنہ یہ اپنی طرح کے لوگوں میں رہنے سے اور بھی زیادہ خطرناک ہو جاتے  ہیں اور اس کا نقصان سب سے زیادہ آئندہ نسلوں کے نہ پختہ ذہنوں کو پہنچتا ہے جو ان کی شخصیت کے پوشیدہ خطرناک پہلو کو بھانپ نہیں پاتے اور انکو اپنا خیر خواہ اور ہمدرد سمجھتے ہیں جو انکا بظاھر اوڑھا  ہوا لبادہ ہوتا ہے جس کے یہ اتنے عادی ہو جاتے ہیں کے خود بھی نہیں جانتے کے وہ کتنا خطرناک کام کر رہے ہیں
کاشف احمد
اسلام آباد پاکستان
١٣ مارچ ٢٠٢٠