Tuesday 24 March 2020

کہانیاں




یہ کہانیاں ہی تو ہیں جو دراصل ہماری زندگی کو معنی فراہم کرتی ہیں اسے واضح اور آسان بھی کرتی ہیں لیکن جب یہی کہانیاں جو ہم اپنے  بارے میں لوگوں  کو سناتے ہیں ادھوری محسوس ہونے لگیں یا غلط موڑ لیکر کوئی اور ہی معنی اختیار کر لیں توہمارے  ساتھ ساتھ لوگوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے

مشہور سائکو تھراپسٹ اور مصنف لوری گوٹلیب کہتی ہیں ہم سب اپنی اپنی زندگی میں رونما ہونے والی کہانیاں ساتھ لئے پھرتے ہیں - یہ فیصلہ کیوں کیا  وہ چیز پسند کیوں کرلی یا اس شخص کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیوں کیا .... کیا غلط ہو گیا جس سے بہت نقصان ہوا اور کیوں میں نے کسی سے برا سلوک کیا اور کیوں وہ اسی کا حقدار تھا

یہی کہانیاں جو ہم لوگوں کو سناتے ہیں ہماری زندگی کو معنی اور چہرا دیتی ہیں اور کیا آپ  سوچ سکتے ہیں جب ہماری یہ کہانیاں  گمراہ کن غلط معنی اختیار کر لیتی ہیں جب بجاے وضاحت فراہم کرنے لوگوں کو  بند گلی میں لے جاتی ہیں جب کوئی راستہ کوئی چارہ یا حل باقی نہیں رہتا

ہم سمجھتے یہ ہیں کہ ہمارے حالات ہماری کہانی بناتے ہیں- جبکہ تجربے نے ثابت  کیا ہے کہ حقیقت بلکل اس کے  برعکس ہوتی ہے - ہم جس طرح سے اپنی زندگی  لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں دراصل اس طرح سے ہماری زندگی اپنی شکل اختیار کر لیتی ہے-   یہ دراصل ہماری ان کہانیوں کا خطرناک پہلو ہوتا ہے یہی ہمیں تباہی کی  طرف لے جاتا لیکن غور کریں تو یہی دراصل ان کہانیوں کی طاقت بھی تو ہے

اگر ہم اپنی یہ کہانیاں سہی رخ میں تبدیل کر لیں تو ہماری زندگی بھی درست سمت اختیار کر لیتی ہیں آئیے دیکھیں یہ کس طرح ہو سکتا ہے

لوری کہتی ہیں اکثر لوگوں کی کہانیاں صرف ٢ بنیادی عناصر پر مبنی ہوتی ہیں
ان کی کہانی کا سب سے پہلا عنصر آزادی اور دوسرا تبدیلی ہوتا ہے

اگر ہم پہلے آزادی کو دیکھیں تو اس کی مثال کے طور پر ہم اس کارٹون کی مثال کو لے سکتے  ہیں جس میں ایک قیدی بہت  زور زور سے قید خانے کی سلاخوں کو ہلا کر توڑنے کی کوشش میں لگا دکھائی دیتا ہے جبکہ اس کے ارد گرد کوئی دیوار نہیں ہوتی  یا پھر آپ نے دیکھا ہوگا کارٹون میں اکثر ایک کارٹون دوسرے کارٹون پر دروازہ بند کر دیتا ہے جبکہ پورا گھر تباہ ہو چکا ہوتا ہے اور ارد  گرد کوئی دیوار نہیں ہوتی پھر بھی وہ دروازہ پیٹنے لگتا ہےاور چلاتا ہے کہ  مجھے باہر نکالو

یہی ہم سب کرتے ہیں ہم اکثر اپنے آپ کو جذبات کے قید خانے میں اسی طرح بند کر لیتے ہیں اور لوگوں  پر زبردستی یہ  ثابت بھی کرنے لگتے ہیں کہ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا، یا نہیں ہے- ہم جان بوجھ کر  اپنے اس جذبات کے جیل خانے کی گری ہوئی دیواروں کو نہیں دیکھتے نہ اس طرف جاتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کے ایسا کرنے پر بھانڈا پھوٹ جاے گا لوگ ہنسیں گے اور ہمیں وہ کرنا پڑ جاے گا جو ہم کرنا  ہی نہیں چاہتے 

در اصل آزادی کبھی بھی ذمہ داری اور جواب دہی کے بنا نہیں ملتی اور اگر ہم کہانی میں اپنی ذمہ داری قبول کر لیں تو ہو سکتا ہے ہمیں خود کو بدلنا پڑ جاے اسی لئے ہم مڑ کر اس جذبات کے قید خانے کی گری ہوئی دیواروں کوبھی نہیں دیکھتے- دل کا چور ہمیں اندھا بنا  دیتا ہے اپنے پراے کی پہچان کھو جاتی ہے سچا ہمدرد چیخ چیخ کر  بتا رہا ہوتا ہے  کہ ''یہ راستہ ہے نہ سامنے'' مگر ہم نہیں مانتے

اور دوسرا عنصر جسے تبدیلی کہتے ہیں اس کی کہانی عام طور پر اس طرح ہوتی ہے کہ
ایک شخص کہتا ہے میں بدلنا چاہتا ہوں لیکن اس کا اصل مطلب در اصل یہ ہوتا ہے کے اس کی اپنی ہی  سنائی ہوئی اس  کہانی کہ دوسرےکردار  خود کو بدلیں پھر سب ٹھیک ہو جاے گا جو بلکل ایک غیر منطقی بات ہے

کچھ بدل ڈالنا خاص طور پر مثبت طور پر خود کو بدلنا یا کچھ بھی تبدیل کر دینا در اصل حیران کن حد تک ہم سے بہت کچھ کھو دینے یا چھوڑ دینے کا تقاضا کرتا ہے اور وہ کچھ بھی ہو سکتا ہے لوگ ، عادت جگہ یا ملکیت- جس پر ہم اکثر تیار نہیں ہوتے چاہے وہ سب کچھ کتنا ہی نقصان دہ کیوں نہ ہو رہا ہو ، خود کے لئے، یا پھر ارد گرد کے لوگوں کے لئے، ہم اس سے اتنا زور سے چمٹے رہتے ہیں کے کبھی اس کو کھو دینے کا تصور نہیں کر پاتے 

ہم چاہتے ہیں کے ہماری کہانی کے لوگ بدل جائیں ہم نہیں اور اپنی کہانی جو ہم  اکثر دوسروں کو سناتے ہیں اس میں بار بار خود کو اچھی طرح جاننے کے دعوے بھی کرتے ہیں '' مجھے اپنا پتہ ہے''  اور'' میں خود کو جانتا ہوں  یہ خوشفہمی ہمیں اکثر رہتی ہے- جبکہ خود آگہی در اصل خود سے نا واقفیت کا نام ہوتا ہے- تبھی ہم اپنی تلاش میں نکل  سکتے ہیں اور خود کو تلاش کر لیں تو اپنے خالق کو جن سکتے ہیں اپنا مقصد حیات ہم پر واضح ہو جاتا ہے

خود کو جان لینے کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کے خود کو ہم کتنا ننگا کر سکتے ہیں کتنا اپنے خول اتار کر خود کو اصل حالت میں دیکھ سکتے ہیں اور اپنی اوقات پہچان سکتے ہیں تاکہ ہم اپنی زندگی کو جی سکیں نا کہ وہ کہانی جو ہم اپنے آپ کو  سنا کر زندہ رہتے

صرف آپ اپنی کہانی لکھ سکتے ہیں کوئی دوسرا نہیں لکھتا اور اس کے لئے درست لوازمات کی ضرورت ہے جو کہانی کو سہی سمت میں لے جا سکیں اور اس کو خوشگوار اور خوبصورت بنا سکیں - اپنی کہانی کے آپ خود مدیر (ایڈیٹر) بننے کے لئے اور اسے درست سمت میں موڑ لینے لئے آپ کو خود  پر اور معاشرے پر ترس کھانے کی ضرورت ہوتی ہے ؛لیکن  دانائی سے بھرپور انداز میں جس میں خود غرضی  لالچ اور جانبداری  کا شائبہ تک  نا رہے

لوری گوٹلیب اس کو '' چھٹکارے  کے بموں''  کا نام دیتی ہے آپ لوگوں پررحم  کھا کر ان کو اپنی غلط کہانیوں سے نجات ان پر یہ چھٹکارے  کے بم گرا  کر ہی کر سکتے ہیں- انہیں درست سمت میں لے جا کر خود پر بھی رحم کرتے ہیں جو کہ کہانی کی ایڈیٹنگ میں سب زیادہ مشکل کام ہے کیونکہ آپ کو ذمہ داری قبول کرنی ہوتی ہے اور آپ اس کے جواب دہ بھی ہوتے ہیں- لیکن یہی وہ واحد جگہ ہے جہاں
اصل تبدیلی پیدا ہوتی ہے

کیا ایسا ہوسکتا ہے کے آپ اپنی کہانیاں کسی اور شخص کے نقطہ نظر سے لکھنے کی کوشش کریں ایسا کرنا آپ کو ایک بہت وصیح اور زیادہ واضح بلکہ کہیں بہتر منظر کشی فراہم کر ے گا- اسی لئے ماہرین نفیسات ذہنی تناؤ یا ڈپریشن کے شکار لوگوں کو کہتے ہیں کہ آپ خود وہ شخص نہیں بن سکتے جس سے آپ اس حالات میں بات کریں اس لئے آپ کو دوسرا شخص درکار ہے جو آپ کی کہانی سنے بھی اور اس میں حسب ضرورت اور درست  تبدیلی بھی کرسکتا ہو جس پر آپ عمل کریں تو فائدہ حاصل ہو

ڈپریشن ہماری کہانی کو بہت بری طرح مسخ کر دیتی ہے اور ہماری سوچ بہت  تنگ نظر خود غرض اور جانبدار بنا دیتی ہے - ہم ایسا اس وقت  محسوس کرتے جب اکیلے رہ جائیں، تنہائی کا شکار ہوں، یا جب دکھی اور خود کو مسترد کیا گیا محسوس کریں - ہم اس کے نتیجے میں جو کہانیاں  تخلیق کر لیتے ہیں وہ بہت ہی محدود تنگ نظر سوچ کی عینک سے دیکھی ہوئی صورتحال پر مبنی ہوتی ہے

زندگی اس بات کا فیصلہ کرنے کا نام ہے کہ ہمیں کس قسم کی کہانیاں سننی چاہیں اور کونسی نہیں اور کونسی کہانیوں کو فوری ایڈیٹنگ کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے زیادہ کوئی بات اھم نہیں -

ہمارے میعار زندگی کا تعین اس سے ہوتا ہے کہ ہم کیسی کہانیاں سنتے بیان کرتے اور ایڈٹ کرتا ہیں 

کاشف احمد
اسلام آباد پاکستان
 ٢٤- ٠٣ -٢٠٢٠





No comments: