Tuesday 30 June 2020

کامیابی کی عمارت کا تیسرا ستون

 

آپ اکثر سنتے ہونگے کہ بظاہر بہت کامیاب دکھائی دینے والے لوگ جن کے پاس طاقت اور پیسے کی کمی نہیں ہوتی وہ بھی ایک خالی پن بےچینی اور اضطراب کا شکار رہتے ہیں - کچھ کرنے کو نہیں ملتا کیونکہ سب کچھ تو حاصل کر لیا اور نیا کیا کریں

 دنیا کے دولت مند اور طاقتور ترین ملکوں میں جہاں مادی خوشحالی کی شرح بہت بلند ہوتی جا رہی ہے وہاں مایوسی اتنی بڑھ چکی ہے کہ یورپ میں خودکشی کی سالانہ سطح میں 45 فیصد اضافہ ہو چکا ہے

 اس کی کیا وجہ ہے ؟  ، بظاھر تو مغربی ممالک کے لوگ اتنے خوشحال ہیں پھر خوش کیوں نہیں ؟ جب کہ غربت کے با وجود تیسری دنیا کے ممالک میں خوشی کا تناسب کہیں اوپر ہے - حال ہی میں اقوام متحدہ کے ایک سروے کے مطابق پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں خوشی کے تناسب میں سب سے اوپر ہے

 عجیب بات لگتی ہے ...یہی بات نروس بریک ڈاؤن تک پہنچنے کے بعد آریانا ہوفنگٹن نے اپنے سمتھ کالج کے خطاب  میں کہی جب انہوں نے شدید ذہنی دباؤ سے ہلکان  ہو کر کئی راتیں جاگنے کی وجہ سے اپنی توانائی ختم ہو جانے کے بعد اچانک ایک دن گر جانے اور شدید چوٹیں آجانے کے بعد دریافت کی

 آریانا کا شمار دنیا کی کامیاب ترین خواتین میں ہوتا ہے وہ امریکا کے  مقبول اور کامیاب ترین جریدے ہف پوسٹ کی مالک ہونے کے علاوہ میڈیا کی کامیاب ترین شخصیت مصنف اور دانشور بھی ہیں - وہ کہتی ہیں کہ اس تلخ ترین تجربے کے بعد بستر پر لیٹے کافی دن انہوں نے اس بات پر غور کیا کہ آخر کونسی چیز ہے جس کی انکے اور ان جیسے بظاہر کامیاب ترین لوگوں کے پاس  شدید کمی ہے

اور انہوں نے آخر دریافت کیا کہ کامیابی کا مطلب پچھلی کئی صدیوں سے ہم نے سکیڑ کر بس پیسے اور طاقت تک محدود کر رکھا ہے جبکہ  کامیابی کی اس عمارت کے صرف یہ دو ہی ستون نہیں ہوتے ایک تیسرا ستون جسے ہم یکسر نظر انداز کرتے چلے آئے ہیں جو در اصل ہماری اصل خوشحالی کا راز یعنی ہماری الہام و وجدان کی صلاحیت ہمارے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے کی طاقت ہے جس سے ہم علم و ہنر سے کہیں آگے بڑھ کر  اپنے لئے ایک گہری دانائی حاصل کرتے ہیں جس کے بغیر ہمیں اطمینان حاصل نہیں ہو سکتا  

وہ اپنی مشہور زمانہ کتاب '' تھرائو'' میں مزید لکھتی ہیں کہ کامیابی کی عمارت طاقت اور پیسے کے صرف دو ستونوں پر زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی ادھر ادھر جھولتی رہتی ہے اور آخر ایک دن دھڑام سے نیچے گر جاتی ہے جیسا میرے ساتھ ہوا - جب تک یہ تیسرا ستون شامل نہ کیا جاے کامیابی کی عمارت مضبوطی سے اپنی جگہ قائم نہیں کی جا سکتی

 الہام و وجدان جس کو انگریزی میں '' انٹوی شن''  کہا جاتا ہے ہمارے ضمیر کو تندرست و توانا رکھنے اور اس کو موثر رکھ سکنے  کا نام ہے جو ہمیں اندرونی آگاہی سے روشناس کرواتا ہے اور اصل دانائی کا حامل کرتا ہے- جس کے لئے ایک ہی بہترین ذریعہ ہے ''مراقبہ یا استغراق - ''اسی لئے آج کے دور کے کامیاب ترین سربراہان اور کاروباری افراد باقاعدہ طور پر استغراق  اور مراقبہ کرے لگے  ہیں جن میں نمایاں افراد بل گیٹس ، مارنی ابرےمسن جو رئیل اسٹیٹ کی دنیا کا بڑا نام ہے ، نینسی سلوموویٹز جو ای ایم اے کی سربراہ ہیں ، رامانی ائیر جو دنیا کے ایک بہت بڑے مالیاتی ادارے دی ہارٹ فورڈ فنانشل کے چیئرمین اور سی ای او رہ چکے ہیں اور پھر رسل سمنز جو ڈیف جیم ریکارڈز کے کاخالق ہیں .....ہیں شامل ہیں

 ان کے علاوہ بہت سے اور کامیاب ترین اور اپنے شعبے کے ماہر ترین لوگ کہتے ہیں کے ان سے اسی ذہنی دباؤ کی وجہ سے کئی بار بہت مہلک غلطیاں سرزرد ہوتی رہی ہیں یہاں تک کے دنیا کے بڑے تھنک ٹینک بھی یہ فاش غلطیاں کرنتے ہیں جیسے

 لوگوں سے میل جول اور بات چیت میں برا رویہ اختیار کر لینا

 لوگوں سے ایک پائدار مضبوط تعلق قائم رکھنے میں ناکامی

 خود کو اکثر نا قابل پہنچ بنا لینا

 اپنی فطری استعداد بڑھانے پر توجہ نہ دینا

 باقاعدگی  سے کارکردگی کا تجزیہ  نہ کرنا

 جذبات و احساسات کا بلکل لحاظ نہ کرنا  

 تنازعات کی صورت میں  نہایت غیر موثر انداز میں برتاؤ کرنا

 بہتر تبدیلی کے بر وقت فیصلے نہ کرنا ..جس  کی وجہ سے کوئی بھی ادارہ تباہ ہو جاتا ہے

 لوگوں کو خدشات و خطرات سے منع کرنا اور  ہمت دکھانے سے روکنا

 لوگوں کی بہترین  کارکردگی کی اصل وجہ پیسے کو سمجھنا جبکہ اس کی اصل وجہ عزت ، حوصلہ افزائی اور ستائش ہوتی ہے

 لوگوں پر منتظم بن کر انہیں بے جا کنٹرول کرنے کے اوچھے ہتھکنڈے آزمانا بجائے ایک رہنما کی طرح اپنی مثال قائم کرنے حوصلہ دینے اور جوش و جذبہ پیدا کرنے کے ..لوگ اس قسم کے منتظمین سے شدید نفرت  کرتے ہیں جو انکو انسان کی جگہ مشین یا جانور سمجھتے ہیں

 یہی وہ فاش غلطیاں ہیں جن کا شکار ہو کر اکثر سربراہان اور کاروباری  مالکان اپنے کاروبار کو بھی تباہ کر لیتے ہیں اور آخر نروس بریک ڈاون کا شکار ہو جاتے ہیں جس کا حل آخر آریانا ہوفنگٹن نے دریافت کیا اور اب دنیا کے بہت سے دوسرے بڑے سربرہان اور بڑے کاروبار کے مالکان نے اپنا لیا ہے جسے خود کو ایک بڑی دانائی کی  طاقت کے ممبہ سے منسلک کر کے اپنے الہام و وجدان کی صلاحیت کو بڑھاتے ہوے علم و ہنر کو دانائی میں تبدیل کرنا کہتے ہیں جسے دوسرے الفاظ میں مراقبہ اور عبادت بھی کہا جاسکتا ہے

  

 

کاشف احمد

اسلام آباد ، پاکستان 

Monday 22 June 2020

اقوال سقراط

 

اپنے آپ کے بارے میں سوچو، اور خود کو جانو۔

 

خوشی کا راز وہ نہیں جو تم دیکھتے ہو۔ خوشی زیادہ حاصل کرنے میں نہیں، بلکہ کم میں لطف اندوز ہونے میں ہے۔

 

سب سے مہربانی سے ملو۔ کیونکہ ہر شخص اپنی زندگی میں کسی جنگ میں مصروف ہے۔

 

ایک مصروف زندگی کے کھوکھلے پن سے خبردار رہو۔

 

اصل ذہانت اس بات کو سمجھنا ہے کہ ہم زندگی، دنیا اور اپنے آپ کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔

 

بے قیمت انسان کھانے اور پینے کے لیے جیتے ہیں، قیمتی اور نایاب انسان جینے کے لیے کھاتے اور پیتے ہیں۔

 

علم کو دولت پر فوقیت دو، کیونکہ دولت عارضی ہے، علم دائمی ہے۔

 

سوال کو سمجھنا، نصف جواب کے برابر ہے۔

 

اگر تم وہ حاصل نہ کر سکے جو تم چاہتے ہو تو تم تکلیف میں رہو گے۔ اگر تم وہ حاصل کرلو جو تم نہیں چاہتے تو تم تکلیف میں رہو گے۔ حتیٰ کہ تم وہی حاصل کرلو جو تم چاہتے ہو تب بھی تم تکلیف میں رہو گے کیونکہ تم اسے ہمیشہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔

 

تبدیلی فطرت کا قانون ہے۔

 

میں ایتھنز یا یونان سے تعلق نہیں رکھتا، بلکہ دنیا کا شہری ہوں۔

 

حیرت، ذہانت کا آغاز ہے۔

 

موت شاید انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔

 

تمہارا دماغ سب کچھ ہے۔ تم جو سوچتے ہو، وہی بن جاتے ہو۔

 

میں اس وقت دنیا کا سب سے عقلمند آدمی ہوں، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔

 

سقراط کے خیالات کی وجہ سے نوجوان اس کے پاس کھنچے چلے آتے - جس کی وجہ سے یونان کے بر سر اقتدار طبقے کو محسوس ہوا کہ اگر سقراط کا قلع قمع نہ کیا گیا تو انہیں بہت جلد نوجوانوں کی بغاوت کا سامنا ہوگا۔

 

چنانچہ انہوں نے اس پر مقدمہ درج کر کے اسے موت کی سزا سنا دی۔ اس وقت سزائے موت کے مجرم کو زہر کا پیالہ پینے کے لیے دیا جاتا تھا۔

 

زہر پینے کے بعد سقراط نے نہایت آرام و سکون سے اپنی جان دے دی۔

 

وہ اپنے بارے میں کہتا تھا، ’میں کوئی دانش مند نہیں، لیکن ان احمق لوگوں کے فیصلے سے دنیا مجھے ایک دانش مند کے نام سے یاد کرے گی

 

زہر کا پیالہ پینے کے بعد اس نے کہا، ’صرف جسم مر رہا ہے، لیکن سقراط زندہ ہے

 


Sunday 21 June 2020

میں تعلیم کے نہیں اسکول ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے خلاف ہوں

ان نام نہاد تعلیمی اداروں کے خلاف ہوں جو تعلیم کے نام پر کاروبار چلاتے ہیں علم بیچتے ہیں- وہ اسکول کالج اور یونیورسٹیاں جو انسان کو انسان کی جگہ فیکٹری کارکن ایک غلام بنا کر اس کی سوچ کو محدود اور تخلیقی صلاحیت سے محروم کر رہی ہیں

تخلیق ، ، فن جمالیاتی ذوق حساسیت ، جوش اور جذبہ  جو غیر ممکن کو ممکن میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور تخلیق انسان کا بنیادی عنصر ہے اور پیدائشی طور پر انسان کی فطرت میں رکھا جاتا ہے یہ ادارے تعلیم کے نام پر انسان کو ان سب طاقتوں سے محروم کرنے میں لگے ہوئے ہیں

میں ہی نہیں ہر قابل قدر شخصیت  کا یہ کہنا ہے چاہے وہ ونسٹن چرچل ہو ، آئنسٹائن ہو یا پھر بل گیٹس ، سٹیو جابز  ، ماہر فیوچرسٹ الون ٹافلر،  سائمن سینک  یا پھر اس دور کے سب سے بڑے ماہر تعلیم اور اس شعبہ  میں انقلاب برپا کر  دینے والے سر کین رابن سن جنہوں نے اپنے شہرہ آفاق ٹیڈ ٹاکس اور دیگر تقاریر اور تحریکات سے دنیا کو تعلیم کی اصل روح سے روشناس کروایا ہے

تعلیم بنا تربیت کے بالکل  نہ مکمّل بلکہ خطرناک ہو جاتی ہے جیسے آدھا سچ تباہ کن ہو جاتا ہے بالکل  اسی طرح جیسے ایک نہایت اثر انگیز تقریر کسی شعلہ بیان کے منہ سے نکل کر تباہی پھیلا سکتی ہے وقتی جوش تو پیدا کر سکتی ہے لیکن دائمی اثر اور کامیابی اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک اس شعلہ بیانی کے ساتھ تقریر کرنے والے کا اپنا کردار  اور عمل بھی شامل نہ ہو جس کے اثر سے لوگ تقلید کر سکیں اور تربیت یافتہ ہو سکیں

اسی لیے میں کہتا ہوں کہ موٹی ویشن  یعنی کسی کام کی تحریک پیدا کرنا بالکل  ویسے ہوتا ہے جیسے آپ کسی کو برائی پر اکسا کر خود بیچ میں سے نکل جاتے ہیں کیونکہ آپ نے درست طریقہ کار اختیار کرنے کی تربیت نہیں دی اور مستقل طور پر اچھا کام اپنا لینے کا راستہ نہیں دکھایا جو صرف اور صرف آپ کے طرز عمل سے سیکھا جا سکتا ہے کیونکہ لوگ آپ کی نصیحت سے نہیں آپ کی  شخصیت سے سیکھتے ہیں اور اس کے نمایاں پہلو سے اثر لیتے ہیں اور تقلید کرتے ہیں کیونکہ کوئی بھی اپنی شخصیت کو زیادہ دیر چھپا نہیں سکتا یا بناوٹ سے زیادہ دیر کام نہیں چلا سکتا ہے کیونکہ کب تک وہ وقت کی پابندی ، سچائی اصول پسندی کا ناٹک ہر ایک کے  سامنے ہر وقت کر سکتا ہے ؟ کبھی نہ کبھی تو بھانڈا پھوٹ ہی جاتا ہے اور ساری شعلہ بیانی اور چرب زبانی دھری کی دھری رہ جاتی ہے - موٹی ویشن نہیں انسپریشن اصل چیز ہوتی ہے 


جتنی بھی کوشش کر لیں جتنا بھی کسی کے دماغ میں ٹھونس دیں اور وہ جتنے اچھے نمبر بھی لے آے وہ ایک اچھا انسان اور بہترین پیشہ ور ماہر نہیں بن سکتا جب تک آپ کے طرز عمل اور کردار کا اس پر اثر قائم نہ ہو اور آپ سے مستقل طور پر وابستہ رہے اور اس بات پر فخر کرے اور لوگوں کو بتا سکے کہ وہ ایک ایسے اتالیق اور استاد سے وابستہ ہے جس نے اس کی شخصیت بدل کر رکھ دی اور اب وہ صرف انجینئر ، ڈاکٹر یا کسی اور فن کا ماہر بنا نہیں واقعی ایک ماہر ہو گیا ہے وہ بس بنا ہوا نہیں ہے واقعی اچھا انسان اور ماہر فن بھی ہے

 

میں اسی لئے چاہتا ہوں کے آپ جب اپنے بچے کو کسی ادارے کے حوالے کریں تو بہت اچھی طرح تسلی کر لیں کہ وہ ادارہ اور اس کی انتظامیہ اور خاص طور پر وہاں تعلیم دینے والے لوگ واقعی وہی ہیں جس کا وہ دعوی کرتے ہیں -ان سے پوچھیں کہ  ان کے طالب علم اور شاگرد اچھے نمبر لینے کے علاوہ کس کس جگہ پر عملی میدان میں مصروف ہیں اور کتنا نام پیدا کیا ہے - کیونکہ کسی تعلیمی ادارے کی اصل اہمیت اور قدر اسی بات سے ہو سکتی ہے کے وہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے اس میدان میں کیسی کارکردگی دکھا رہے ہیں جس کی تعلیم حاصل کی ہے

پھر سب سے بڑھ کر یہ کے وہاں تعلیم دینے والوں کا اپنا تعلیمی اور عملی معیار کیسا ہے کتنے نامور یا کم از کم مستند ہیں اور کتنا خود کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھے ہوے ہیں اور اس کے لئے باقاعدہ ریفرشر کورس کتنے کرتے ہیں اور کتنی تحقیق کر رہے ہیں کتنے بااخلاق اور قابل بھروسہ ہیں اور اس بات پر کتنا زور دیتے ہیں کہ  بچوں میں بنیادی اخلاق کی تربیت کتنی ہے اور اگر نہیں ہے تو اس پر کتنا زور دیتے ہیں کیونکہ سب جانتے  ہیں کہ ایک با اخلاق قابل بھروسہ اورمعتبر  شخص ہی دراصل زندگی کے ہرشعبہ میں  عقلمندی اور امیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے اور اگر ایک تعلیمی ادارے میں ہمدردی سچائی ، وفاداری ، ادب لحاظ حفظ مراتب  ، ملنساری ، مہمان نوازی، وقار، رواداری ، جیسے بنیادی اخلاق موجود نہیں تو ان پر زور کیسے  دیا جا سکتا ہے

اپنے بچوں کو ایسے ادارے اور افراد کے حوالے کرنا کہاں کی عقلمندی ہے  جس میں بنیادی تعلیمی معیار اور جدید مستند اور محفوظ ترین ہونے کے علاوہ بچوں کی شخصیت کے نکھار کی بجاے اسے مسخ کئے جانے کا خطرہ ہو اور وہ اپنی بنیادی انسانی خواص احساسات ، جذبات اور صلاحیتوں سے محروم ہو جاے وہ بھی پیسے خرچ کر کے

آپ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وہاں کوئی خطرناک سرگرمی یا اس پر اکسانے والا ماحول تو نہیں ؟ اور اگر ہے تو وہاں کے استاد اور انتظامیہ کیا انتظام کر رہے ہیں ؟کیونکہ ایک لمبے عرصے سے اب تو ہر تعلیمی ادارے میں بےچینی الجھن پریشانی اور دباؤ کی فضا طالب علموں کو انتہا پسندی کی طرف لے جا رہی ہے جس کا نتیجہ نشہ، ، خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعیات اور دہشت گردی کی صورت میں نکل رہا ہے اور حکومت ، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ہائر  ایجو کشن کمیشن کی سر توڑ کوششیں بھی بار آور ثابت نہیں ہو رہیں یہاں تک کہ ان تعلیمی اداروں کا اپنا میعار اتنا گر چکا ہے کہ ملکی امتحانوں جیسا کہ سی ایس ایس اور دیگر پیشہ وارانہ امتحانوں میں انہی اداروں کے فارغ التحصیل نو جوان ٢ فیصد سے زیادہ کامیاب نہیں ہو رہے

لیکن اس کا حل کیا  ہے ؟ خاص طور پر جو لوگ اب ان اداروں میں تعلیم پر مجبور ہو چکے ہیں وہ کیا کریں ؟ اس کا حل صرف یہ ہے کہ اپنے بچے کو شروع ہی سے مستند اور معتبر ماہر کی  نگرانی و سرپرستی فراہم کرنے کی کوشش کریں خود بھی اپنے ماحول میں پیشہ ورانہ طور پر مستند افراد کو شامل کریں جو بااخلاق اور معتبر ہوں اور ہر مرحلے میں آپکی اور آپ کے بچوں کی رہنمائی کر سکیں ایسا کوئی بھی ہو سکتا ہے ضروری نہیں کہ  اس کے لئے آپ کو بہت دور تک رسائی کرنی پڑے پیسہ خرچ   ہو  مشکل اور تردد کا سامنا کرنا پڑے- یقیناً اگر کوئی قریبی رشتہ دار نہیں تو دور کا جاننے والا ضرور ہوگا جس کو اگر آپ اپنے روزانہ کے معمول میں نہ سہی مگر باقاعدگی سے اپنے سماجی تعلق میں شامل کر سکتے ہیں - اپنی سماجی سرگرمیاں اور رابطے اچھی شخصیت اور با کردار افراد میں رکھئے جو اپنے فن کے ماہر ہوں اور اگر ممکن نہ ہو تو کیرئر کونسلر یعنیپیشہ اختیار  کرنے اور کامیابی سے چلنے کے ماہرین سے رابطہ کریں اور ان کی مدد حاصل کریں

اپنی اولاد کی اہمیت اور قدر پہچانئےان کا  صحیح معنوں میں خیال اور دھیان رکھنا بے حد ضروری ہے -   بہتر اور محفوظ مستقبل کی خاطر آپ کو تردد اور قربانی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آپ سے اس کے بارے  میں ضرور پوچھا جاے گا - کسی چیز، شخص اور کام  کی اصل قدر و قیمت بہت کم لوگ ہی  جانتے ہیں کیونکہ آج کی مادی دنیا میں ہمارا دھیان اور خیال بلکہ ترجیح کچھ اور ہو گئی ہے

کہتے ہیں اپنی وفات سے قبل، ایک والد نے اپنے بیٹے سے کہا،" میری یہ گھڑی میرے والد نے مجھے دی تھی۔ جو کہ اب 200 سال پرانی ہو چکی ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ یہ میں تمھیں دوں کسی سنار کے پاس اسے لے جاؤ اور ان سے کہو کہ میں اسے بیچنا چاہتا ہوں۔ پھر دیکھو وہ اس کی کیا قیمت لگاتا ہے۔"

 

بیٹا سنار کے پاس گھڑی لے گیا۔ واپس آ کر اس نے اپنے والد کو بتایا کہ سنار اسکے 25 ہزار قیمت لگا رہا ہے، کیونکہ یہ بہت پرانی ہے۔

والد نے کہا کہ اب گروی رکھنے والے کے پاس جاؤ۔ بیٹا گروی رکھنے والوں کی دکان سے واپس آیا اور بتایا کہ گروی رکھنے والے اس کے 15 سو قیمت لگا رہے ہیں کیونکہ یہ بہت زیادہ استعمال شدہ ہے۔

اس پر والد نے بیٹے سے کہا کہ اب عجائب گھر جاؤ اور انہیں یہ گھڑی دکھاؤ۔ وہ عجائب گھر سے واپس آیا اور پرجوش انداز میں والد کو بتایا کہ عجائب گھر کے مہتمم نے اس گھڑی کے 8 کروڑ قیمت لگائی ہے کیونکہ یہ بہت نایاب ہے اور وہ اسے اپنے مجموعہ میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔

اس پر والد نے کہا،" میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ صحیح جگہ پر ہی تمھاری صحیح قدر ہو گی۔ اگر تم غلط جگہ پر بے قدری کئے جاؤ تو غصہ مت ہونا۔ صرف وہی لوگ جو تمھاری قدر پہچانتے ہیں وہی تمھیں دل سے داد دینے والے بھی ہوں گے۔ اسلئے اپنی قدر پہچانو، اور ایسی جگہ پر مت رکنا جہاں تمھاری قدر پہچاننے

والا نہیں۔"

غور کیجیے

 

کاشف احمد

اسلام آباد پاکستان 

Sunday 14 June 2020

وتایو فقیر


سندھ میں کئی صدیوں پہلے ایسا لوک کردار گزرا ہے جو آج سندھ لوک ادب کا اہم حصہ ہے اور اس کی حکایتیں، کہاوتیں اور قصے کہانیاں سندھی معاشرے میں ضرب الامثال بن چکی ہیں۔ اس میں اپنا ایک الگ مزاج رکھنے والا وتایو فقیر ہے، جن کی ظرافت کے چرچے سندھ کے کونے کونے میں آج بھی لوگ دل چسپی سے سنتے ہیں۔ وتایو فقیر ایک لازوال کردار ہے، جس نے اپنی ظرافت اور محبت کی خوشبو سے سندھ کے کونے کونے کو معطر کیا ہے۔

یہ وہ فقیرانہ شخصیت ہے جس نے لوگوں کو اپنی مجذوب کیفیت میں بھی لوگوں کو محبت، امن اور عقلمندی کا درس دیا۔ وتایو فقیر نے اپنی روز مرہ زندگی میں اپنی کہانیوں اور قصوں سے سندھ کے لوگوں کو فیض پہنچایا۔ خاص طور پر سندھ کے بڑے اہل علم وتایو فقیر کی کہانیوں سے مستفید ہوئے۔ وتایو فقیر کوئی بھکاری نہیں تھے۔ یہاں فقیر سے مراد ہے صوفی، درویش، دنیا داری سے بے نیاز شخص۔ نفس کو نیچا دکھانے کے لیے وہ طرح طرح کی تدابیر اپناتے تھے۔

جس طرح ترکی کا ملا نصیر الدین اپنے گدھے پر سفر کرتے کرتے لطیف پیرائے سے حکمت اور رمز کے موتی لٹاتا تھا۔ اسی طرح سندھ کا وتایو فقیر بھی گاؤں گاؤں گدھے پر گھومنے والا ایک جیتا جاگتا کردار تھا۔ ایسا کردار جو خدا سے لاڈ بھی کرتا ہے اور جھگڑتا بھی ہے

اس کے علاوہ وتایو فقیر کو شیخ چلی اور بیربل سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ کچھ لوگ وتایوفقیر کے وجود کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک وتایو فقیر ایک خیالی کردار ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وتایو فقیر کا وجود تھا۔ اس کی مثال اس کی باتیں، حرکات و سکنات، حکایتیں اور قصہ کہانیاں آج تک زبان زد خاص و عام ہیں۔

 

وتایو فقیر کے چند قصے قارئین کے لیے پیش خدمت ہیں

  ایک رات جب شدید ٹھنڈ تھی۔ وتایو کی ماں نے وتایو سے کہا، کہ تم رب کے بہت قریب ہو ۔ تم خدا سے کہو کہ وہ جہنم سے تھوڑی سی آگ ہمیں دے دے ، جس سے ہم جیسے غریب لوگ اس شدید سردی سے اپنا بچاو کر سکیں ۔ وہ تمہاری بات نہیں ٹالے گا

اس پر وتایو نے اپنی ماں سے کہا

ماں ! جہنم میں آگ نہیں ہے ۔ وہاں جو بھی جائیگا اپنی آگ ساتھ لے کر جائے گا

 

اللھم اجرنی من النار ۔

وتایو فقیر صوفی، درویش تھے، نفس کو نیچا دکھانے کے لیے وہ طرح طرح کی تدابیر اپناتے تھے۔ ایک دفعہ دسترخوان پر مختلف اقسام کے طعام سجائے گئے۔ مشروب، مٹھائیاں، پھل وغیرہ۔ وتایو فقیر اپنے نفس سے مخاطب ہوئے بتا نفس تجھے کیا کھانا ہے۔ تجھے کیا پینا ہے؟ دیکھ لے دنیا بھر کے طعام تیرے آگے سجے ہوئے ہیں۔ مشروب، پھل اور مٹھائیاں ہیں، بتا تجھے کیا چاہیے۔ وتایو فقیر نے جیب سے سوکھی روٹی کا ٹکڑا نکالتے، پانی میں بھگوکر نوالہ منہ میں ڈالتے اور کہتے جاتے’’کھا میرے نفس کھا، اس سے لذیذ کھانا تو نے آج تک نہیں کھایا ہوگا، کھا سوکھی روٹی کھا۔‘‘ ایک روز نفس نے وتایو فقیر سے کہا ’’عید آنے والی ہے، تو مجھے قیمتی کپڑے پہنا۔‘‘ وتایو فقیر قیمتی ملبوسات لے آئے اور ویرانے کی طرف

نکل گئے

راستے میں انہیں ایک مسکین چرواہا ملا، وتایو فقیر نے ایک لباس چرواہے کو دے دیا، نفس چیخ پڑا ’’یہ کیا کررہے ہو وتایو!‘‘ وتایو نے اسے جواب نہیں دیا۔ ویرانے کی طرف جاتے ہوئے انہیں جو بھی خستہ حال ملا اسے ایک جوڑا لباس دیتے گئے۔ حتیٰ کہ وتایو فقیر کے پاس کپڑے کا صرف ایک جوڑا رہ گیا جو انہوں نے نے پہن لیا۔ نفس نے ہنس کر کہا ’’میں سمجھ رہا تھا کہ تم کپڑوں کا آخری جوڑا بھی کسی غریب کو دے دوگے چلو تم نے میری ایک خواہش تو پوری کی ہے۔‘‘ نفس کی بات سن کر وتایو فقیر رک گئے۔

جوڑا بھی کسی غریب کو دے دوگے چلو تم نے میری ایک خواہش تو پوری کی ہے۔‘‘ نفس کی بات سن کر وتایو فقیر رک گئے۔ انہوں نے ادھر ادھر دیکھا۔ انہیں پھٹے پرانے کپڑوں میں ایک مجذوب دکھائی دیا۔ وتایو نے اپنے تن سے قیمتی لباس اتارا اور مجذوب کو پہنا دیا اور مجذوب کے پھٹے پرانے کپڑے خود پہن لیے

 وتایو فقیر کے گاؤں میں شادی کی تقریب تھی۔ وہ بھی شادی کی دعوت میں جا پہنچے۔ انہیں دیکھ کر میزبانوں نے کہا فقیر آپ باہر بیٹھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وتایو فقیر پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ میزبانوں نے انہیں اندر جانے سے روکتے ہوئے کہا کہ اندر خاص مہمان ہیں۔ وتایو فقیر نے کہا کہ مجھے دعوت دی گئی ہے، میں کیوں اندر نہ جاؤں، مگر انہیں اندر نہیں جانے دیا گیا۔ وتایو فقیر واپس آئے اور دھوبی کے پاس پہنچے، اس سے کہا، ’’آج کوئی نئے صاف کپڑوں کا جوڑا تو دو، مجھے ایک دعوت میں جانا ہے۔‘‘

دھوبی نے ایک اچھا نیا جوڑا نکال کر انہیں دے دیا۔ اب وتایو فقیر نیا جوڑا اور پگڑی پہن کر اسی شادی دوبارہ پہنچ گئے۔ سب نے استقبال کیا۔ اب جب کھانا لگا تو تب سب لوگ کھانا کھارہے تھے مگر وتایو فقیر نے سارا کھانا کپڑوں پر گرادیا اور ساتھ کہتے گئے،’’میرے کپڑوں کھانا کھاؤ اور کھاؤ۔‘‘ یہ منظر سب لوگ حیرانی سے دیکھ رہے تھے۔ وہ وتایو کے پاس آئے اور کہا کہ جناب! آپ کپڑوں کو کیوں کھانا کھلارہے ہیں؟ یہ کپڑے کھانا نہیں کھاتے۔ تب وتایو فقیر زور زور سے ہنسے اور کہنے لگے،’’میں تو پہلے بھی آیا تھا لیکن آپ لوگوں نے مجھے اندر نہیں آنے دیا اور واپس بھیج دیا۔ اب میں انہی کپڑوں کی وجہ سے تو اندر آیا ہوں اسی لیے ان کپڑوں کو کھانا کھلارہا ہوں۔ مگر یہ کھانے کھاتے ہی نہیں اب انسان کی عزت تو نہیں ہے عزت ان کپڑوں کی ہے۔‘‘

 ایک بار وتایو فقیر مسجد میں وعظ کی مجلس میں بیٹھے تھے۔ مولوی صاحب کہہ رہے تھے کہ رزق کا وعدہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے، وہ اپنے مخلوق کو ہر حالت میں روزی پہنچاتا ہے۔ وتایو اچانک اٹھے اور جنگل کی جانب چل دیے۔ بڑے سے درخت پر چڑھ کر بیٹھ گئے اور سوچا کہ میرے نصیب میں جو رزق ہے وہ تو یہیں مل جائے گا۔ دو دن اور ایک رات گزر گئی، دوسری رات ہونے کو آئی تو درخت کے نیچے شکاریوں کے ایک گروہ نے آکر ڈیرا لگایا، کھانا پکایا اور کھانے سے قبل انھوں نے اپنے نوکر سے کہا کہ ایک پلیٹ قریبی گاؤں میں جاکر کسی مسکین کو دے کر آؤ، پھر سب کھانا کھاتے ہیں۔ یہ دیکھ کر وتایو سے رہا نہ گیا اور انہوں نے کھانسنا شروع کردیا۔ شکاریوں نے وتایو کو نیچے بلایا اور پوچھا کہ کیا بھوکے ہو؟ اس پر وتایو نے کہا کہ دو دن سے کچھ نہیں کھایا۔ شکاریوں نے مسکین والی پلیٹ وتایو کو دی اور وتایو نے اپنا پیٹ بھرا۔ واپس اپنے گاؤں پہنچے تو ماں نے پوچھا تم کہاں غائب تھے؟ بولے، دیکھنے گیا

تھا کہ مولوی صاحب سچ بول رہے ہیں یا جھوٹ؟ ماں نے پوچھا پھر کیا دیکھا؟ وتایو فقیر بولے بول تو سچ رہا تھا لیکن کھانسنا پڑا۔ تب جاکر پیٹ کی آگ بجھی

ایک مرتبہ خربوزے بیچنے والا آواز لگاکر لوگوں کو متوجہ کررہا تھا۔ وتایو کا بھی دل خربوزہ کھانے کو چاہا۔ انہوں نے اﷲ کے نام پر خربوزہ مانگا تو بیچنے والے نے ایک چھوٹا سا خراب اور پُھسپھُسا خربوزہ دے دیا۔ وتایو نے پھر جیب سے ایک پیسے کا سکہ نکال کر دیا تو اس نے دوسرا اچھا سا بڑا اور میٹھا خربوزہ اٹھاکر دیا۔ وتایو نے دونوں دانے ہتھیلیوں پر رکھ کر ہاتھ اوپر اٹھائے اور آسمان کی طرف منہ کرکے بولے،’’اپنے نام پر ملا ہوا خربوزہ دیکھ اور ایک پیسے میں خریدا ہوا خربوزہ بھی دیکھ۔ ایک پیسے کی قدر دیکھ اور اپنے نام کی بھی قدر دیکھ۔‘‘

وتایو فقیر ایک مقام سے گزر رہے تھے جہاں کسی دولت مند نے ضرورت مندوں کے لیے بڑے پیمانے پر طعام کا بندوبست کر رکھا تھا۔ میزبان نے فقیر کے فقر، درویشی کو دیکھ کر فیصلہ کیا کہ کھانے کی تقسیم اسی بزرگ کے ہاتھوں سے ہو۔ وتایو نے لوگوں سے پوچھا کہ کھانا خدا کے طریقے سے بانٹوں یا انسانوں کی طرح؟ لوگوں نے فوراً جواب دیا ’’خدا کے طریقے سے بانٹو۔‘‘ سیکڑوں لوگ مجمع میں کھانے کے منتظر تھے۔ وتایو نے کھانا بانٹنا شروع کیا۔ انہوں نے کھانے سے بھری ایک پلیٹ ایک شخص کو تھمائی، چند کو آدھی پلیٹ کھانا دیا، ایک کے حوالے باقی تمام دیگیں کردیں۔ کسی کو دھکے دیے تو کسی کو ڈانٹا بھی اور کسی کو تو کھانا دینے سے صاف انکار کردیا۔ جب کھانا ختم ہوگیا تو لوگوں نے ان سے شکایت کی کہ یہ کیا طریقہ ہے یہ کیسی تقسیم ہے لوگ بھوکے رہ گئے ہیں۔ وتایو مسکرائے اور بولے ’’میں نے پوچھا تو تھا تقسیم انسانی طریقے سے کروں یا خدا کے طریقے سے؟ میں نے وہی کیا جو آپ لوگوں نے کہا تھا۔ آپ لوگوں نے کہا تھا خدا کے طریقے سے۔ مجھے تو خدا کا یہی طریقہ نظر آتا ہے۔ یعنی خدا کسی کو کم دیتا ہے کسی کو زیادہ دیتا ہے۔ کسی کو دھکے ملتے ہیں تو کسی کو کچھ بھی نہیں ملتا۔ اب مجھ سے کیسی شکایت۔‘‘ یہ کہا اور مسکراتے ہوئے اپنے راستے پر چل دیے

 

[ایکسپرس نیوز کی ایک کہانی سے اقتباس ]

 

کاشف احمد

اسلام آباد پاکستان