Saturday 30 May 2020

بھوک... جذبہ اور توفیق


وہ روزانہ  آتی تھی میرے کلینک پہ

سب سے آخری سیٹ پر بیٹھ جاتی۔۔۔۔۔

اور اپنی باری کا انتظار کرتی رہتی۔۔۔۔۔

اپنے سے بعد میں آنے والوں کو بھی پہلے چیک اپ کرانے کے لیے اپنی جگہ دے دیتی

اور کھسکتی ہوئی وہیں  آخری سیٹ پر پہنچ جاتی

عورتیں اپنی بیماریاں بتاتی تو وہ غور سے سُن رہی ہوتی، اور ان سے سوال جواب بھی کرتی۔۔۔۔

عمر کوئی پینتیس چالیس کے لگ بھگ ہو گی۔۔۔کپڑے قیمتی نہیں مگر صاف ستھرے ہوتے تھے۔

میں ملک کا مشہور ڈاکٹر رحمان شاہ ہوں۔۔۔۔۔۔دن میں  سرکاری اسپتال میں ہوتا ہوں، اور شام میں

اپنے پرائیویٹ کلینک پر ۔۔۔۔رات گئے تک بیٹھتا ہوں،

میری پریکٹس خوب چلتی ہے ۔۔۔ لوگ کہتے ہیں ،،اللہ نے میرے ہاتھ میں شفا رکھی ہے ۔

 میری فیس عام آدمی کی پہنچ سے دور ہے،

میرا گھر میں انتظار کرنے والا کوئی نہیں ہے.اس لئے میرا زیادہ وقت کلینک پر ہی گزرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔

بیوی دو سال پہلے فوت ہو چکی ہے۔۔۔۔۔جبکہ بیٹیوں کے فرائض میں ادا کر چکا ہوں،دونوں اپنے گھروں میں آباد ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ بلا ناغہ تقریباً ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ کلینک پر بیٹھتی اور پھر چلی جاتی،

بغیر چیک اپ کراۓ۔۔۔۔۔اور دوا لیے

آج میں نے ارادہ کیا کہ اُسے پوچھوں گا کہ وہ کیا کرنے آتی ہے؟؟؟؟

 

بی بی۔۔۔آپ آئیں۔۔۔۔میں نے اپنے مریضوں  کو دوسری طرف بٹھا کر اُسے اشارہ کیا۔۔۔۔

وہ ہونق سی میری طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔۔

جی! میں آپ کو ہی بُلا رہا ہوں۔۔۔۔آئیں اب آپ کی باری ہے،

وہ اُٹھی اور تقریباً گھسٹتے ہوۓ قدموں سے میرے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔۔۔۔

بیٹھیں۔۔۔۔ وہ نہ چاہتے ہوۓ بیٹھ گئی

جی بتائیں ۔۔۔کیا مسلہ ہے؟ اس نے گلا صاف کیا اور نپے تلے لہجے میں بولی،

ڈاکٹر جی،  آپ بہت بڑے ڈاکٹر ہیں۔۔۔۔۔میں  غریب عورت آپکی فیس نہیں دے سکتی، اور

میں یہاں اپنا علاج کرانے نہیں آئی۔

تو پھر یہاں کیا کرنے آتی ہیں؟ ڈاکٹر صاحب

میں پیراں گوٹھ میں رہتی ہوں ۔۔۔۔۔۔وہاں کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔۔۔۔

ایک حکیم تھا ۔۔۔وہ بھی مر گیا۔۔۔۔۔پچھلے دنوں بستی میں ہیضہ پھوٹ پڑا۔۔۔۔کئی ماؤں کی گود اُجڑ گئی۔۔۔۔کیونکہ ہمارے 

گوٹھ میں کوئی ڈاکٹر نہیں ، میری شانو بھی مر گئی، اسی بیماری کی وجہ سے ۔۔۔۔۔۔وہ رونے لگی۔۔۔۔۔

مجھے لگا وہ مجھے بستی کے لوگوں کے علاج کے لیے اصرار کرے گی ،مگر میرے پاس نہ تو وقت تھا اور نہ ہی جذبہ۔۔۔میں کیسے اپنا چلتا ہوا کلینک چھوڑ کے اُسکے ساتھ اسکی بستی کے لوگوں کا علاج کرنے چلا جاتا؟؟؟؟

اسی خدشے کے پیش نظر میں نے پہلے ہی صاف جواب دینا مناسب سمجھا۔۔۔

دیکھو بی بی !

اس میں میرا کوئی قصور نہیں اگر وہاں کوئی ڈاکٹر نہیں یہ میری نہیں  حکومت کی ذمہ داری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اور میں اس سلسلے میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا،براۓ مہربانی میرا وقت ضائع نہ کریں۔۔۔۔

میرا غرور اور تکبر میرے لہجے سے چھلک رہا تھا،

 

اس جہانِ کے فانی ہونے کا ادراک تمام مخلو قات میں سے صرف نوحِ انسان کو ہے۔۔۔۔مگر پھر بھی اسکی  بھوک۔۔۔بے قابو ہے.چاہے وہ دولت کی ہو یا کسی اور ۔۔۔۔۔۔چیز کی.

میرے مریض میرا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔۔میں نے جان چھڑانے کی غرض سے  زرا غصیلے لہجے میں کہا

بی بی !جب کوئی بیماری نہیں ۔۔۔کوئی کام نہیں تو یہاں کیا کرنے آتی ہو؟ میرا کتنا ٹائم ضائع ہو گیا تمہاری وجہ سے۔۔۔۔

اس نے چند ثانیے میرے چہرے کو دیکھا، اسکے چہرے پہ حیرانی صاف پڑھی جا رہی تھی، شائد اسے مجھ جیسے اعلٰی درجے کے ڈاکٹر سے ایسے گھٹیا پن کی اُمید نہیں تھی، وہ گویا ہوئی

 

ڈاکٹر جی۔۔۔۔آپکے پاس جو مریض آتے ہیں میں اُن سے باتوں باتوں میں اُن  کی بیماری کے متعلق  پوچھتی ہوں۔۔۔۔


 

جو دوائی آپ ان کو تجویز کرتے ہیں اُسکا نام  بھی پوچھ لیتی ہوں۔۔۔۔۔۔

اسطرح روز ایک دو مریض سے میری بات ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھر جا کے میں بیماری اور دوائی کا نام کاپی میں لکھ لیتی ہوں ۔۔۔۔۔پوری پانچ جماعتیں پاس ہوں ۔۔۔۔۔۔

پھر اگر بستی میں کوئی بیمار ہو جاتا  ہے تو میں بیماری کے حساب سے آپکی بتائی ہوئی دوائی انہیں لا دیتی ہوں ۔۔۔۔۔میری شانو تو مر گئی مگر میں کسی اور کی شانو کو مرنے نہیں دوں گی ..

یہ کہ کر وہ تو کلینک سے چلی گئی۔۔۔۔

مگر میری اعلٰی تعلیم اسکی پانچ جماعتوں کے سامنے ہیچ ہو گئی تھی۔۔۔۔

 

 میری بھوک  مر گئی!

 

کافی جذباتی کہانی  ہے لیکن اس سے سیکھا کیا ہے ؟

 

کسی بھی ہنر اور فن کو سیکھنے کے لئے بھی  اتنا ہے جنون اور سچا جزبہ درکار ہوتا ہے - پھر کوئی ادارہ اور اس کی شرائط , کوئی سالوں پر محیط  وقت اور پیسہ درکارنہیں ہوتا - اسی بھرپور اور  خالص جذبے کی طاقت سے ناممکن  ممکن ہو جاتا ہے , کوئی بھی ایک کار آمد اور فائدہ مند انسان بن سکتا ہے اور یہ جزبہ یا تو حالات زبردستی پیدا کر دیتے ہیں یا پھر نیکی کی توفیق مل جاتی ہے  

توفیق جو در اصل فضل سے ملتی ہے اور جو فطرت کی بنیادی طور پر اچھا  ہونے کے بنا کبھی حاصل نہیں ہوتی 

 

ہاں ایسا ہوتا بہت کم ہے... لیکن عظیم لوگ اور عظیم کام بھی بہت کم ہوتے ہیں

 

  

کاشف احمد

Wednesday 20 May 2020

خوبصورت ترین شے کو بھی نا پسند کرنے والے

 

دنیا میں ہر  خوبصورت ترین شے کو نا  پسند کرنے والے ہوتے ہیں - آپ کسی بھی ہر دل عزیز ویڈیو یا آرٹیکل یا پھر کوئی بھی شاندار سپیچ یا خطاب انٹرنیٹ پر دیکھ لیں , اس کو  پسند کرنے والوں  کی تعداد چاہے کروڑوں میں ہو لیکن چند لوگ ایسے بھی ضرور ہونگے جو اس نہایت شاندار اور فائدہ مند پوسٹ کو بھی  نا پسند کریں گے اور اس پر  منفی تبصرہ کریں گے


حیرانگی ہوتی ہے کہ ہر اچھی چیز ، انسان یا جگہ کو کوئی نا کوئی ضرور برا کہتا ہے کسی کو آم جیسا پھلوں کا بادشاہ بھی نا پسند ہے تو کوئی چاکلیٹ پسند نہیں کرتا اور کسی نا کسی کو کہیں پر آئس کریم بھی نا پسند ہوتی ہےاسے بد نصیبی نہ کہاجاے تو اور کیا کہا جاے ؟ لوگ جو شاندار نہایت سود مند چیزوں کے فائدوں اور ا علی لذت سے محروم ہیں بد نصیب ہی  تو ہیں 

اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جب لوگ  لگاتار اپنے قویٰ کا استعمال کرنا چھوڑ دیں تو ان میں وہ حس ہی باقی نہیں رہتی جس سے وہ مدھر اور کانوں میں رس گھولنے والی آواز کو محسوس کر سکیں یا کسی نظارے یا ذائقے کا صحیح لطف اٹھا سکیں ہم جانتے ہیں کہ   اگر لمبا عرصہ کسی  جسمانی عضوکا استعمال ترک کر دینے سے وہ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اسی طرح انسان ہونے کی کی جو خاص صلاحیت عطا کی گئی جس کو سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کی صلاحیت   کہا جاتا ہے اسے لمبا  عرصہ درست حد تک استعمال  نہ کیا جاے ، جتنا کے اس کا حق ہے یعنی اگر غور کرنے کو اس گہرائی تک نہ لے  جایا جاے جہاں تخلیق کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور انسان خود سے کوئی فن پارہ تخلیق کرنے لگتا ہے تو اس کی محسوس کرنے  اور  غور کرنے کی طاقت بس سطحی حد تک رہ جاتی ہے جو عام طور بس  دوسرے جانداروں کی سطح کے برابر ہی ہوتی ہے جبکہ انسانی حسیات اور چیز کی باریکیوں پر غور کرنے اور سمجھنے کی صلاحیت دیگر جانداروں سے کہیں زیادہ ہے صرف ظاہری سطح تک نہیں

 

 انسان جب غور کرنے اور سوچنے کی طاقت  سے محروم رہتا ہے ،  چاہے اس کی وجہ کوئی بھی ہو ، وہ اپنے قویٰ کا درست اور بہترین استعمال کرنے سے بھی محروم ہو جاتا ہے - دل مردہ ہو جانے یا بنجر ہو جانے کی وجہ یہی ہے کہ انسان کے پاس سوچنے  اور غور کرنے اور درست راہ اختیار کرنے کی صلاحیت نہیں رہتی ورنہ انسان کو جو دل و دماغ عطا ہوے  ہیں اس کو اپنے ارد گرد ہوتے ہوئے واقعات و مظاھر اور رویے دیکھ کر خود ہی ودرست راہ اختیار کر لینی چاہیے 

 

لیکن ایسا نہیں ہوتا بلکہ    اکثر لوگ اسی سطحی سوچ کے نتیجے میں  اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر بجاے اپنا اخلاقی معیار اور خدمت میں بہتری لانے کے مد مقابل کی کمزوریوں اور کمیوں کو اس کی بہت بڑی برائیاں بتا کر نا پختہ ذہنوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں جو در اصل بذات خود ایک عارضی کامیابی تو ہو سکتی مستقل حل کبھی نہیں اور یہ حربہ در اصل میڈیا کا ایجاد کردہ ہے جو با اثر حکومتی طبقہ کا آلاے کار ہونے کی وجہ سے مخالفین کی کردار کشی کو اپنا اولین فرض سمجھتا ہے

 

لیکن یہ بات کم لوگ جانتے ہونگے کہ کسی کی شخصیت آپ کے بتانے سے ہرگز ظاہر نہیں کی جا سکتی اور نا ہی  کسی  کے کردار کے بارے میں آپ کے خیالات کو حرف آخر تسلیم کیا جاتا ہے کیونکہ کسی بھی شخصیت کو جانچنے کا معیار ہمیشہ سے اس کے ساتھ معاملات اورتعلقات اور واسطہ پڑنے کے تجربات سے متعین ہوتا ہے

 

آپ کسی دکاندار کی ایمانداری دور سے سن کر اس کی دکان پر ایک بار جا تو سکتے ہیں لیکن واسطہ پڑنے کے بعد ہی اس کے کردار کے بارے میں  درست فیصلہ کرتے ہیں - انسان کی شخصیت در اصل زیادہ دیر چھپ کر رہ ہی نہیں سکتی - کیونکہ کوئی کب تک ایمانداری کا ناٹک کر سکے گا ؟ کبھی نا کبھی اس سےتعلق رکھنے والوں کو پتا تو چل جاے گا کہ در اصل کتنا ایماندار اور با اخلاق انسان ہے

انسان ایک جذبات والی مخلوق ہے - یہی فرق ہے ہم میں اور دوسری مخلوقات میں اور جذبات ہی ہم سے دنیا کا ہر کام کرواتے ہیں - آپ لوگوں سے جو رویہ اختیار کرتے ہیں یا ردعمل کا اظہار کرتے ہیں اس کی وجہ بیرونی عوامل سے کہیں زیادہ آپ کی اپنی شخصیت اور کردار ہوتا ہے

 لوگ عام طور پر خود کو اسی طرح سے ظاہر کرتے ہیں جیسا وہ خود کے بارے میں محسوس کرتے ہیں - اس لئے جیسے وہ آپ کی طرف دیکھتے ہیں یا پھر بات کرتے ہیں اس کی وجہ آپ نہیں بلکہ ان کی اپنی شخصیت ہوتی ہے وہ جیسے خود کو سجھتے ہیں ویسے ہی لوگوں سے اکثر  پیش آتے ہیں   اور  یہ ضروری نہیں کے ان کے اپنے بارے میں خیال سو فیصد درست بھی ہو  

بہر حال ان ہی سے مل کر انسان کا کردار بنتا ہے جس کو وہ جتنی بھی کوشش کر کے چھپا نہیں سکتا اور اس کے کردار پر اثر انداز ہونے والے عوامل میں سے  سب سے پر اثر داستان گوئی ہے یعنی کہانی سنانے کا عمل

 

یہ ایک ایسا طاقتور عمل ہوتا ہے جو شخصیت کی بنیاد مضبوط کرتا ہے اور لوگوں کے اپس میں مضبوط اور پائیدار تعلقات  کے قیام میں اہم کردار  ادا کرتا ہے -

 

اب تو کاروباری اور اقتصادی ترقی اور فروغ کے لئے بھی داستان گوئی اور کہانی سنانے کو بہت اہمیت حاصل ہو چکی ہے - کہانی ہمارے دل و دماغ میں جذباتی  محرکات پیدا کرتی ہے اور  ہمدردی، رحم دلی  اور لوگوں کے کام آنے  کا احساس جگا سکتی ہے- اسی لئے بچوں کو پر تشدد پروگرام اور فلموں سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ وہ اس قسم کی کوئی کہانی اور کھیل نہ دیکھیں جس سے  انکی شخصیت پر برا اثر ہو

 

ایک اچھی پر اثر کہانی لوگوں  کو طاقتور مثبت جذبات سے بھرپور شخصیت میں بدل سکتی ہے  جس سے انکا دنیا کو دیکھنے کا انداز یکسر بدل جاتا ہے کیونکہ کہانی کا مختلف موڑ اور واقعات لوگوں  کے دل دماغ پر گہرا اثر ڈالتے ہیں اور ہمارے تخیلات کو تخلیقی عمل تک پہنچتا دیتے ہیں

 

ایک بھرپور اثر انگیز کہانی انسانی محسوسات اور جذبات کو سامنے رکھتے  ہوئے تخلیق کی جاتی ہے جس میں لوگوں کے لئے سبق آموز حقیقت کو پیش کی جاتا ہے جو  جس سے انسانی کردار کی تعمیر میں مدد ملتی ہے

یہی وجہ ہے کہ بچپن سے جو کہانیاں ہم سنتے ہیں چاہے واقعی وہ ایک کہانی کے زمرے میں آتی ہوں یا نہیں پھر بھی وہ ہماری شخصیت کی بنت اور کردار کی تعمیر میں بنیادی حیثیت  کی حامل ہو تی ہیں -کیونکہ واقعات اور حالات اور رویوں سے تو ہر شخص کا واسطہ پڑتا ہے  - جس طرح کے و واقعات اور حالات  سے لوگوں کا شروع سے واسطہ  پڑتا ہے اسی طرح کی ان کی شخصیت اور ان کی پسند اور نا پسند ہو جاتی ہے جو عام تو پر کسی بہت اچھی اور خوبصورت چیز یا انسان کو بھی ناپسند  کر سکتی ہے

 

کاشف احمد

اسلام آباد پاکستان

٢٠-٠٥ -٢٠٢٠


Tuesday 5 May 2020

کچھ چیزیں دور سے ہی اچھی لگتی ہیں



کچھ چیزیں  جتنی دور سے اچھی لگتی ہیں قریب جا کر  ان کے ساتھ رہ کر کچھ وقت بتا کر ان میں وہ بات نہیں رہ جاتی  - جیسے چاند کو دور سے دیکھنے پر ہے وہ خوبصورت نظر  آتا ہے لیکن قریب جا کر اس میں وہ بات نہیں رہتی

ایسے ہی کبھی کبھی  بس کچھ چیزیں ہی نہیں لوگ اور جگہیں بھی ہوتی ہیں - لیکن یہ ضروری نہیں کہ قریب سے دیکھنے پر کوئی برائی سامنے آ  جاتی ہے یا کچھ غلط ہو جاتا ہے بس شائد ہماری بصیرت اس کے مطابق نہیں ہوتی یا پھر وہ ہمارے لئے نہیں بنا ہوتا جو دور سے بہت  جاذب نظر اور حسین لگتا ہے

کبھی کبھی ہم دور کے ڈھول سہانے  والی مثال کا بھی تجربہ کر لیتے ہیں اور اکثر قریب جا کر جب وہ ویسا نہیں سنائی دیتا جیسا دور سے بھلا لگا کرتا تھا تو اس ڈھول کا قصور سمجھ بیٹھتے ہیں یا پھر بیچارے ڈھولچی کا - جبکہ نا تو یہ قصور ڈھول  کا ہے نا ڈھولچی کا یہ تو بس ہماری سننے کی صلاحیت   ہوتی ہے جو ایک خاص دوری سے اسے مدھر محسوس کر رہی ہوتی ہے اور قریب سے وہی مدھر  آواز ہمیں بری لگنے لگ جاتی ہے کیونکہ  ہماری سننے کی صلاحیت اتنے قریب سے اسی آواز کو ویسے محسوس نہیں کر پاتی

اس میں کچھ غلط ہرگز نہیں ہوتا بس ہم سمجھ نہیں پاتے کہ کبھی کبھی فاصلہ اور صورت حال ہمارے لئے خاص معنی رکھتی ہے جس طرح ہماری شخصیت منفرد تخلیق کی گئی ہے اسی طرح کے لوگ چیزیں اور جگہیں ہمیں راس آتی ہیں بلکل اسی طرح جیسے ہمیں زمین پر رہنے کے لئے تخلیق کیا گیا ہے اور ہم زمین کے مخصوص ماحول اور حالات میں ہی زندہ رہ سکتے ہیں ویسے ہی ہمیں خوش اور مطمئن زندگی کے لئے اپنی شخصیت سے مطابقت رکھنے والے حالات درکار ہوتے ہیں

اس میں کسی جگہ ، شخص یا چیز کا قصور کم ہی ہوتا ہے - ضروری  تو نہیں کہ بظاہر کسی  ہمارے طرح کے انسان کو جو راس آ گیا ہو وہ ہمیں بھی راس آ جاے - یہی تو فرق ہوتا اور یہی انفرادیت ہے اور یہی اس  خالق کائنات  کی تخلیقات کا حسن ہے کہ اس نے ہر ایک انسان کی شخصیت کے مطابق اس کے حالات لوگ اور چیزیں تخلیق کی ہیں

یا یوں کہ لیجئے کے ہمیں کچھ خاص طرح کی چیزوں ، لوگوں اور جگہوں کے لئے تخلیق کیا ہے - ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کتنا خود کو ان  چیزوں لوگوں اور جگہوں کے مطابق  تیار کر سکتے ہیں  جن سے ہمیں واسطہ پڑتا ہے یہ وہ صلاحیت ہوتی ہے جس کو گیلی مٹی کی صلاحیت کہتے ہیں

یہ گیلی مٹی جس سے انسان کے تخلیق ہوئی ہے اس کی خصوصیت میں جذب کرنے، لچک  اور ڈھلنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور جتنا زیادہ یہ صلاحیت ہوتی ہے اتنا زیادہ ہی وہ انسان کہلانے کے قابل ہوتا ہے -  کچھ لوگوں میں یہ صلاحیت بلکل نہیں ہوتی کچھ میں تھوڑی اور کچھ میں جذب کرنے ، لچک اور ڈھل جانے کی صلاحیت بہت زیادہ بھی ہوتی ہے  

لیکن ضروری نہیں کے انسان کسی چیز کو قریب  سے دیکھ کر اس میں وہ بات محسوس نہ کرے اور اسے یکسر ترک کر کے آگے بڑھ جاے- ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کے بس دوبارہ سے وہی فاصلہ قائم کر کے وہی  خوبصورتی  برقرار رکھے جیسے پہلے ہوا  کرتی تھی

بس اس بات کا بروقت فیصلہ کر لینا ہی دانائی کہلاتی ہے کہ یہ چیز دور دور سے ہی اچھی رہے گی اور یہ قریب جا کر بھی حسین نظر آئے گی  یا پھر اور بھی زیادہ خوبصورت لگنے لگے گی

لیکن یہ بھی تو بہت اچھی بات ہے کے ہر چیز ایسی نہیں ہوتی بس کچھ ہی چیزیں دور سے اچھی لگتی ہیں اور قریب جا کر وہ بات نہیں رہتی شائد اسی لئے اکثر لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں اپنی سمجھ بوجھ اور دانائی کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر اس چیز ، رشتے , تعلق یا جگہ کو قصور وار ٹھہراتے ہیں

جیسے لوگ جب کسی جگہ کی چکاچوند سے متاثر ہو جانے کی وجہ سے ہر ممکن کوشش کرنے کے بعد وہاں پہنچ جاتے  ہیں اور پھر کچھ عرصہ وہاں گزار لینے  کے بعد محسوس کرتے ہیں کہ جیسا وہ سمجھتے تھے کہ وہ جگہ بہت اچھی ہوگی اور زندگی کو مزید خوبصورت اور کامیاب بنا ڈالے گے ویسا ہرگز نہیں ہے  یا پھر وہ جگہ اتنی بھی اچھی  نہیں  جتنا سوچا تھا

وہ خواب جب بظاھر  پورے ہو جاتے ہیں، جن کو لے کر اتنا لمبا سفر کیا تھا تو ویہ حقیقت آشکار  ہوتی ہے  کہ  ان خوابوں  کی جتنی قیمت چکائی  ہے  ضرورت سے  کہیں زیادہ تھی- بلکل ویسے ہی کوئی تعلق یا پھر رشتہ جو بہت چاؤ سے قائم کیا ہوتا ہے  اس کے ساتھ وقت گزارنے کے بعد   لگتا ہے کہ در اصل وہ ویسا نہیں تھا جیسے  دور سے دکھتا تھا  یا پھر ویسا  نہیں رہا جیسا سوچ کر وہ تعلق  قائم کیا  تھا

در اصل زندگی بے نقص  اور بالکل مکمل ہونے کا نام نہیں یہ تو اپنی نا مکمل حیثیت میں  ہی خوشی خوشی قبول کر لینے کا نام ہے اور اس خاص طرح کے ادھورے پن کو ساتھ لے کر چلنے اور اسی سے  لطف اٹھانے کا فن سیکھ لینے کا نام بھی ہےلیکن یہ ادھورا پن بس کچھ خاص طرح ہی ہو تو بہتر ہے جسے ساتھ لیکر چلا جا سکتا ہو - یہاں شخصیت کے جھول یا کردار کے ادھورے پن کا ذکر نہیں ہو رہا

اس سب کے بر عکس ایسا بھی تو ممکن ہے کہ دور سے بظاہر غیر خوشنما معمولی چیز جس میں کوئی چکا چوند  بھی نہ  ہو ، قریب سے دیکھنے پر اچھی لگنے لگے -  بظاہر  پہلی بار میں کچھ تکلیف دہ  سمجھے جانے والے نئے  ذائقے در اصل لذیذ ثابت ہونے لگیں - کچھ لوگ جو پہلے قابل توجہ یا دلچسپ محسوس نہ ہوتے ہوں  وہ  قریب جانے پر اچھے لگنے لگیں جیسے ایک بار گھر میں بجلی کی خرابی کے ساتھ  جب انٹرنیٹ بھی بند ہو گیا تو بچوں نے کچھ وقت گھر والوں کے ساتھ گزار کر دوستوں کو حیران ہو کر بتایا کے یار میں گھر والوں کے ساتھ بیٹھا رہا اور وہ تو کافی اچھی لوگ ہیں 

جب ایک نا پختہ ذہن یا کوئی بچہ کسی ذائقے سے نا واقف ہوتا ہے  تو اسے ہم نئے  ذائقوں اور لذّتوں سے متعارف کرونے کے لئے کافی جتن کرتے ہیں تاکہ اسے اعلی لذتوں اور اس کی عمر کے مطابق خوراک کی عادت ہو سکے - اسی طرح نئی چیزوں اور جگہوں کا سیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے بالکل ویسے ہی اگر ہمیں اچھے اخلاق و آداب سے متعارف نہ کروایا جاے، نیکی کی عادت نہ ڈالی جاے تو شخصیت کا ادھورا پن اورکردار   کی کمی بہت تکلیف دہ اور کبھی تو نا قابل برداشت ہو جاتی ہے
کاشف احمد
اسلام آباد پاکستان
٠٥-٠٥ -٢٠٢٠