Thursday 6 August 2020

ربا ربا مینہ برسا ، .....بنجر دل نے.... پانڑ یں لا

 

یہاں کامیابی  کا ایک راز ہے  بس ....مزہ

لوگوں کو مزہ چاہیے ...انکو مزہ دو 

بہتر زندگی گزارنا مت سکھاؤ

جاہلوں میں رہنے سے آدمی کی زندگی عذاب ہوجاتی ہے - جہالت سے فرار حاصل کرنا ہی در اصل نجات ہے  کیونکہ ایک جاہل سے بحث کرو گے تو وہ تمہیں اپنے ساتھ   اپنے جہالت  کے گٹر  میں اتار لے جاے گا  اور تم لاکھ کوشش کر لو بچ نہیں پاؤ  گے - یا پھر ذہنی مریض بن کر باقی زندگی گزارنی پڑے گی اگر زندہ بچ گئے

 

ڈگری دراصل اس بات کا ثبوت ہوتی ہے کہ کسی شخص نے کتنی جماعتیں پڑھ رکھی ہیں تاہم کسی بھی ڈگری میں یہ نہیں لکھا جاتا کہ امتحان پاس کرنے کے بعد اس شخص کو ”با شعور“ بھی سمجھا جائے ۔تعلیم یافتہ اور با شعور ہونے میں اتنا ہی فرق ہے جتنا ان پڑھ اور جاہل ہونے میں۔جس طرح یہ ضروری نہیں کہ بی اے پاس شخص با شعور بھی ہوبالکل اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ رسمی تعلیم سے نابلد شخص جاہل ہو۔

 

کیا علم والے  اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں ؟ لیکن نصیحت صرف عقلمند لوگ ہے حاصل کرتےہیں - بے شعور لوگوں میں باشعور انسان اس طرح ہوتا ہے جیسے صحرا کی ریت میں پانی- اسی لیے ہمیشہ  سے ہدایت  کی جاتی ہے کہ جاہلوں  سے مت الجھا کرو - اور ایسے لوگوں  سے کنارہ کشی اخیتار کرو جو کسی نہ کسی بہانے علم و شعور اور ہدایت  کے خلاف  باتیں کریں اور اس کا مذاق اڑائیں یا پھر حکمت سے ان کادور دور کا واسطہ بھی نہ ہو اور لغو گوئی دنیا داری اور صرف چیزوں ، لوگوں یا پھر معمولی  اور سطحی گفتگو   کرنا ان کا معمول ہو

 زیادہ تر لوگ صرف مزیدار کہانی ، خبر اور گفتگو پسند کرتے ہیں جس میںلچھےدار باتیں بنا بنا کر کچھ سنسنی کچھ مزاح چاہےوہ بیہودہ  ہی کیوں نہ ہو ، شامل ہو - انہیں اس کے علاوہ ذرا سا بھی  سنجیدہ یا تھوڑا بہت بھی  شعور جگانے والا موضوع  پسند نہیں ہوتا - مجبوراً اگر ایسی کسی جگہ بیٹھنا پڑ جاے تو کچھ دیر تو شائد بہت تحمل اور خوش اخلاقی  کا مظاہرہ  کریں لیکن زیادہ دیر ان سے ایسی صورت حال اور ایسا شخص برداشت نہیں ہوتا اور کسی نہ کسی بہانے کھسک  جانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور ایسا کچھ ہو نہ سکے تو اآس پاس کے جاہلوں  سے بات شروع کر دیتے ہیں یا پھر جیب سے فون یا کچھ اور نکال کر بظاھر مصروف نظر آنے  لگتے ہیں یا پھر بہت غور سے سننے کا بہانہ کر کے اپنے مطلب کی کسی سوچ میں گم ہو جاتے ہیں - کچھ لوگ تو اونگھنے اور سونے سے بھی گریز نہیں کرتے 

لیکن یہی لوگ ایک باشعور  شخص  سے امید رکھتے ہیں کے وہ انکو پوری تفریح اور مزہ فراہم کرے اور ان کی بے سروپا لغو گفتگو اور حرکتوں میں پوری دلچسپی  لے اور بھرپور ساتھ دے - جب یہ باشعور شخص زیادہ  دیر  ایسا نہ کرسکے تو اس کے خلاف  ہر طرح کا جاہلانہ حربے کا استعمال ہوتا ہے  اور گھٹیا دلائل  کا استعمال  کر کے  آخر کار جہالت کے گڑھے میں اتا ر لیا جاتا ہے-یہاں تک کا اگر وہ کوئی تھوڑا بہت  علم رکھنے والا اور ذرا سا بھی با شعور انسان ڈھونڈھ کر اس سے گفتگو کرنے میں وقت صرف کرنے لگے تو ان جاہلوں کو کھٹکنے لگتا ہے  -پھر اس کی کسی نہ کسی بات یا عادت یا چال چلن پر اعتراض  ڈھونڈھ کر اس کی کردہ رکشی کرنے کا پرانا حربہ  استعمال  کیا جاتا ہے جو سب زمانوں کے جاہلوں  نے ہر باشور اور دانا انسان کے ساتھ کیا - کیونکہ اعتراض کرنا تو دنیا کا سب سے آسان کام ہے اور یہ اعتراض دنیا  کے بہترین انسانوں پر بھی کئے گئے ،یہاں تک کہ مکمل ترین شخصیت کے حامل انسان کو بھی نہیں چھوڑاگیا ، بلکہ اب تک نہیں چھوڑا جاتا

 

اسی لئے جاہلوں سے کنارہ کشی اخیتار کرنے کی ہدایت ہے کیونکہ علم و شعور کے بیج  بنجر  ,  پتھر دلوں اور منجمد قسم کے دماغوں پر پھنکنے کا صرف نقصان ہوتا ہے - ان بیش  قیمت بیجوں کی اہمیت صرف زرخیز اور نرم دلوں اور غیر منجمد فعال ذہنوں کو ہی معلوم ہوتی ہے اور وہی ان کے اصل حقدار ہیں

 

کاشف  احمد ،
 اسلام آباد ، پاکستان 

Sunday 2 August 2020

ہم بحیثیت قوم شرمندہ کیوں ہیں ؟

 سامراجیت کے علمبردار اور ان کے اتحادی ایک عرصے سے نو آبادیاتی  نظام کو دنیا کے سادہ لوح  انسانوں پر مسلط  کرتے کرتے آخر جب اس کو براہ راست  مزید نہیں چلا سکے تو کوئی نیا حربہ ڈھونڈنے لگے  جس سے بلواسطہ  طور پر اس نظام کو جاری رکھا جاے اور بظاھر بہت  ہی  کارآمد اور فلاحی دکھائی دینے والے نظام کے پیچھے ان کا سامراجی چہرہ چھپا رہے - اس کے لئے انہیں اپنے سامراجی اور نو آبادیاتی حصہ داروں اور مددگاروں کی مدد اور پراپیگنڈہ بھی درکار رہا جس سے وہ دنیا کی آبادی کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہیں- اور یہ دھول اتنی مہارت سے جھونکی جاتی رہی ہے کہ  ہم آج تک یہ سوچ ہی نہیں سکے کے ہمیں در اصل دوستی کے نام پر دشمنی  کر کے بھی خود ہی کو قصور وار ثابت کیاجانا در اصل ایک چال ہے جس کے نتیجے میں ہم خود  سے ہی ناراض اور شرمندہ رہتے  آے ہیں


بدقسمتی ہے کہ انیس سو اکہتر سے لے کر اب تک ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ملک ٹوٹ گیا لیکن ہماری جھوٹی انا آج بھی قائم ہے، ملک ٹوٹ گیا، ملک بنانے والے روتے روتے آنسو بہاتے دنیا سے چلے گئے لیکن ہم ملک سنبھالنے اور بزرگوں کے خواب کو تعبیر دینے کے بجائے دو دو اینٹ کی مسجد بنانے میں مصروف ہیں۔ تقسیم کے وقت ہمیں ہندوؤں اور سکھوں نے لوٹا تقسیم کے بعد ہم اپنوں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں۔ تقسیم کے وقت ہمیں غیر مسلموں نے مذہب کے نام پر کاٹا آج اپنے ہی مذہب کے نام پر ایک دوسرے کو کاٹ رہے ہیں، تقسیم کے وقت ہجرت کرنے والوں پر مظالم ڈھائے گئے آج اپنے ملک میں گھر سے نکلتے ہیں تو راستے میں لٹ جاتے ہیں راستے میں بچتے ہیں تو گھر واپسی پر زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم ہو چکے ہوتے ہیں۔ تقسیم کے وقت کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمنوں نے ہجرت کے وقت دشمنی نبھائی اور آج بھی انکی طرف سے دشمنی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ دشمن آج بھی ہمارے پیچھے ہیں اب وہ سرحد پار سے ہی کارروائیاں نہیں کرتا بلکہ ہمارے اندر بھی اس کے نمائندے موجود ہیں جو وقتاً فوقتاً کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ یہ ملک میں سیاسی عدم استحکام، انتشار، دہشت گردی سمیت دیگر مسائل میں بھی ان دشمنوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ کلبھوشن جادھو اسکی بڑی مثال ہے۔ انیس سو اکہتر کے بعد دوہزار سولہ میں دشمن نے ہمارے مستقبل پر حملہ کر کے ایک مرتبہ پھر دشمنی نبھائی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے ان سانحات سے کیا سیکھا ہے۔ کیا ہم دشمنوں کا مقابلہ اس شدت کے ساتھ کر رہے ہیں جس شدت سے حملے ہو رہے ہیں یا پھر ہم مصلحتوں کا شکار ہیں، تقسیم ہیں اور اپنے اپنے مفادات کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ دشمن پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔

 

ان لوگوں سے پوچھیں جو پاکستان کے لیے سب کچھ لٹا کر یہاں پہنچے، جو بے سروسامانی کے عالم میں پاکستان پہنچے، جنہوں نے خون کے دریا عبور کیے، جنہوں نے عزتوں کی پامالی برداشت کی، جنہوں نے گھر بار چھوڑا، گردنیں کٹوائیں، معصوم بچوں کے لاشے دیکھے۔ افسوس وہ نہ رہے جنہوں نے اس ملک کو قائم کرنے میں حصہ ڈالا، ان کے بعد جو آئے ہیں انکی بھوک ہی ختم نہیں ہو رہی، کوئی عزت اور شہرت کا بھوکا ہے تو کوئی دولت کا بھوکا ہے۔ کسی کو حکومت کا لالچ ہے تو کوئی جاگیریں بنانا چاہتا ہے۔ اس دوڑ میں کسی کو ملک کی فکر ہے نہ قوم کی۔ سرمایہ داروں کو اپنی سرمایہ کاری عزیز ہے تو جاگیر داروں کو جاگیر سے محبت ہے اور سیاست دانوں کو صرف اپنی حکومت سے غرض ہےاور ان کے دیکھا دیکھی ہمارا قومی مزاج بھی اسی طرح کا خود غرض اور لالچی ہو گیا ہے - ہر ایک کو بس اپنی یا زیادہ  سے زیادہ اپنے خاندان کی فکر ہے - اپنا کام چلتا ، بھاڑ میں جاے جنتا  ہی اصل پالیسی بن کر رہ گئی ہے ۔ اسی دوڑ میں ملک دولخت ہوا، اندرونی طور پر ہم تقسیم در تقسیم ہوتے چلے گئے، صلاحیتوں کے اظہار کے یکساں مواقع ناپید ہوتے گئے، پیسہ مطمع نظر بن گیا، رواداری کہیں دور بہت پیچھے رہ گئی، بزرگوں کی قربانیوں کو بھلا دیا گیا، آزادی کی قدر و قمیت کو نظر انداز کر دیا گیا، میرٹ اور انصاف کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ سطحی صلاحیتوں کے حامل افراد کا ریاستی وسائل پر قبضہ ہوا اور آج اس کے تباہ کن نتائج ہم بھگت رہے ہیں۔ ملک قرضوں میں جکڑا گیا، ہزاروں ارب کے قرضوں میں پھنسے ہوئے، امپورٹ خطرناک حد تک بڑھ گئیں اور ایکسپورٹ خطرناک حد تک کم ہوتی چلی گئیں۔ ہم نے اداروں کی تعمیر کیا کرنا تھی ہم تو انسانوں کی تعمیر میں ہی ناکام رہے۔ ہم نے بیرونی دشمن کا سامنا کیا کرنا ہے ہم تو اپنے اندر کے دشمن کا مقابلہ نہیں کر پائے۔ آسان پیسے کے پیچھے بزرگوں کی قربانیوں کو بھلایا تو وقتی آسائش کے لیے اپنی نسلوں کا مستقبل گروی رکھ دیا۔ ستم یہ ہے کہ آج بھی اسی راستے پر دوڑے چلے جا رہے ہیں۔

 

ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہمارا ملک تھا ہم اسے سنبھالنے میں ناکام رہے، دوسرا بڑا اثاثہ ملک کے نوجوان تھے آج تک وہ آگے بڑھنے کے لیے سمت کے متلاشی ہیں، ملک ٹوٹ گیا اور ہمارا نوجوان انتہا پسند ہوتا جا رہا ہے یا و خودکشی کر رہا ہے یا دشمن کے بہلاوے میں آ کر نشے کی لعنت میں مبتلا ہو گیا ہے چاہے وہ مروجہ قسم کا پینے یا سونگھنے کا نشہ ہو یا پھر سوشل میڈیا کا  نشہ ، کام ایک ہی کر رہا ہے ، بے حس  اور سفّاک معاشرتی اقدار اور اخلاق کا باغی بنا رہا ہے , اس سے بڑی ناکامی کیا ہو سکتی ہے کہ ہم خود سے ہی شرمندہ ہیں ۔ ملک ٹوٹنے جیسے بڑے سانحے سے بھی ہم سبق حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ ہم اپنے دشمن کو ہی نہیں پہچان سکے اور نہ ہی اس کی وجہ دشمنی کی تہہ تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکے باوجود اس کے کہ ہمیں ہمارے بزرگوں، مفکرین اور دانشوروں نے بار بار اپنی تحریروں اور ادبی بیٹھکوں میں یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ ملک کو دو لخت کرنے کے وقت سے لے کر اب تک دشمن ہماری صفوں میں اتحاد ، یگانگت  اور محبت کا خاتمہ چاہتا ہے اور اس کے لئے ہر حربہ استعمال کر رہا ہے چاہے وہ  منفی

نفرت انگیز تحریریں ہوں ، یا تقریر ، یا پھر میڈیا   کے ذارئع سے ہمارے اخلاق اور اقدار کی پامالی  اور ان کے خلاف جھوٹی آزادی کے نام پر بد دلی  اور نفرت جگانے کا کام ہو یا پھر جعلی ویب سائٹس  سے منفی پراپرگنڈا جو قومی تشخص  کو مسخ کر دیتا ہو اور جو ہمیں  اپنے آپ سے ہی شرمندہ کرتا رہے یا پھر فرقہ وارانہ فسادات اور دہشت گردی  ہو سب ہمارے دشمن کی ہی ناپاک چالیں ہیں مگر ہم نہیں مانتے نہ دشمن کو پہچانتے ہیں - ملک  کو دو لخت کرنا سب سے بڑا سبق اور مثال تھی لیکن ہم آج بھی اسی دشمن کے آگے بچھے بچھے جاتے ہیں دوستی کے راستے تلاش کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے ازلی دشمن کے ساتھ مقابلہ کی تیاری کرنے کے بجائے آپس میں الجھ الجھ کر وقت ضائع کیا ہے۔ دوسری طرف دشمن اپنی طاقت میں اضافہ اور ہمیں نقصان پہنچانے میں مصروف ہے ۔ مسئلہ کشمیر کو صرف پاکستان کا مسئلہ سمجھنے کا خمیازہ مسلم امہ کو بھگتنا ہو گا اور اس مسئلے پر بھارتی جارحیت کے خلاف اپنے ردعمل کو صرف بیانات تک محدود کرنے کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہو گا۔ کشمیر لاک ڈاون سقوط ڈھاکہ کے بعد دشمن کا دوسرا بڑا وار ہے۔ بابائے قوم نے اسے شہ رگ قرار دیا تھا۔ ہمارا ازلی دشمن شہ رگ پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے اور ہم اس انتظار میں ہیں کب انسانی حقوق کی تنظیموں کا دبائو بڑھے گا اور بھارت کشمیر سے انسانیت سوز کرفیو اور لاک ڈاؤن کا خاتمہ ہو گا۔ کیا ایسا ممکن ہے؟؟؟؟

 


حالیہ  وبا کے پھیلاؤ  نے تو یہ بات پوری  طرح  ثابت کر دی ہے کہ دشمن صرف ہمارا ہی نہیں پوری دنیا کا دشمن ہے - جو گزشتہ  تین صدیوں سے کبھی کسی بہانے سے جنگ مسلط کر کے فوائد حاصل کرتا رہا ہے تو کبھی معاشی بحران اور کساد بازاری مسلط کر کے  دنیا کو تباہی اور اقتصادی بدحالی پر مجبور کرتا آیا ہے - یہ وبائیں بھی کوئی قدرتی آفت نہیں بلکہ خود ساختہ بیماریوں  میں سے ایک ہے جو  گزشتہ  صدی  میں سوائن فلو  کے نام سے پھیلی جا چکی ہے - اسی جیسی اور بھی کی مہلک بیماریاں حیاتیاتی ہتھیاروں  کے طور پر کام کرتی آئی  ہیں


اس بار اس وبا کو پھیلانے کا مقصد انسانوں کو آپس  کے میل جول سے روک کر ان کی ذہنی اور روحانی موت  کو ممکن بنانا ہے-انسان ایک معاشرتی  حیوان ہے اور اس کی ذہنی اور روحانی ترقی اور نشونما  کا دارومدار انسانوں سے میل جول پر منحصر  ہے  اور بہت سے لوگ جو مقید رہنے کے عذاب کو جھیل نہ پائیں ان کی موت تو اس بیماری کے حملے سے ہی ہو تی جا رہی ہے - دراصل انسانوں کو ٹیکنالوجی ، انٹرنیٹ اور مشینوں  پر انحصار کرنے اور انہی پر اپنی زندگی کا دارو مدار رکھنے پر مجبورکرنے  کا اس سے بہتر طریقہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا  کہ ان کو وبا سے خوفزدہ کر دیا جاے جو باہمی میل جول سے  پھیلتی ہے تاکہ وہ ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل  دنیا  کے عادی بن کر  ایک تو انسانی اقدار اور آداب معاشرت  سے دور ہو ہو جائیں اور پھر  مردم بیزاری  کی وجہ سے ان میں کسی قسم کی تخلیقی صلاحیت باقی نہ رہے  اور وہ بھی ایک بہترین غلام یعنی مشین  کی طرح سوچنے  اور کام کرنے لگیں - بے حس  اور جذبات سے عاری جن کو کچھ

بھی کر گزارنے اور سامنا کرنے سے فرق نہیں پڑتا - پھر اس سے سب سے بڑا فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کے انسان کو با آسانی  ٹریک کیا جاسکتا ہے اور ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا سکتی ہے  کیونکہ ایک تو وہ بہت شوق سے ٹیکنالوجی اپنا کر موبائل فون اور دوسری ایسی ڈیوائسوں  سے با آسانی  ٹریک ہوتا ہی رہتا ہے لیکن اب  ڈیجیٹل  چپ  کی مدد سے آدھا  انسان  اور آدھا مشین  بننے  کے شوق میں اور آسانی سے ٹریک  ہونے لگے گا اور مستقل طور پر ہر کام مشین اور انٹرنیٹ  کے استعمال  سے کرنے کی وجہ سے مکمل طور پر نظر میں رہے گا - جس سے ان کی دلچسپیاں ، پسند  نا پسند  اور شوق معلوم کر  کے اسے ایک بہت اچھا گاہک اور اپنی مرضی کے مطابق خریدار  بنایا جا سکتا ہے لیکن اس کو محفوظ  معاشرے  اور سیکورٹی میں آسانی کا نام دے کر میٹھی گولی  دے دی جاے گی

اس کے لئے مصنوعی  خطرناک  اور نفرت انگیز حالات  کا ڈھونگ بھی کافی عرصے سے اسی لئے رچایا جا رہا  ہے  تاکہ سب اپنے آپ کو غیر محفوظ ہی محسوس کرتے رہیں اور آسانی سے ہر ننی ٹیکنالوجی سیکورٹی کے نام پر تسلیم کر کے اپنا لیں

 

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کب تک اپنے ازلی دشمن کو نظر انداز کرتے رہیں گے اور خود کو ہی قصور وار قرار دیتے جائیں گے - کب تک ہم خود کو کوستے رہیں گے برا بھلا کہیں گے اور پاکستانی ہونے پر شرمندہ رہیں  گے جو دشمن چاہتا  ہے ، کب تک اس کی حقیقت سے آنکھیں چراتے رہیں گے۔ ہم اپنے سب سے بڑے دشمن کو جتنی جلدی جان لیں اور وجہ دشمنی کو سمجھ جائیں گے اتنا ہی ہمارے لیے بہتر ہو گا۔


اور ہمیں جدید ٹیکنالوجی اور آلات کا درست استعمال  کرنا بھی سمجھ میں آ جاے  گا جو ہماری معاشرتی  اقدار اور عقائد کے مطابق ہو اور انہی کی ترویج  و اشاعت  میں مدد گار اور ہم آہنگ ہو - ایسا تبھی ممکن ہوگا جب ہم خود سے اور اپنے لوگوں انکی زبان و ثقافت  اور عقائد پر شرمندہ ہونے کی بجانے واقعی پیار کرنا سکھ لیں گے اور ان کو  فخر سے اپنا کر اسی کو پنا شعار بنا لیں  گے  چاہے میڈیا اور  اس سے متاثرہ  ذہن اور سامراجی سوچ کے حامی اس کے خلاف اکسانے پر  کتنا بھی زو ر  لگائیں  ہم یہ چیلنج  قبول کریں گے اوراس سوچ کا بھرپور  مقابلہ کریں گے



کاشف ، احمد  اسلام آباد ، پاکستان