Monday 20 January 2020

چسکا اور محبت


بہت سی اور قدروں اور اصطلاحات کی طرح محبت بھی اپنے اصلی معنی سے محروم ہوتی جا رہی ہے - لوگ چسکے کو محبت کا نام دینے لگے ہیں - جیسے کسی اچھی ڈش یا گانے کو سن کر آئ لّو دس سونگ کہ دیتے ہیں جس کا مطلب ہرگز محبت نہیں ہوتا بس چسکا ہوتا ہے - اسی طرح انسانوں کے ساتھ رہنے کا چسکا ہوتا ہے - در اصل ہمیں ان سے نہیں ان سے وابستہ چیزوں اور ان کی وجہ سے حاصل ہونے والے فائدوں اور لذّتوں کا چسکا ہوتا ہے اور در اصل یہی وہ ضرورت ہوتی ہے جس کے پورا ہونے کی وجہ سے سے ہم کہتے ہیں آئ لّو دس گائے

ورنہ اگر کبھی اس شخص سے وابستہ چیزوں اور لوگوں کو الگ کر کے دکھا جاے تو اس شخص میں کوئی ایسے بات نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اسے وقت دیا جاے یا اس کی عزت کی جا سکے یا اسے کسی بھی طرح کی اہمیت دی جاے کیونکہ  اس کی شخصیت اور خوبیوں سے کوئی سروکار تھوڑی ہے کس کے پاس اتنا فالتو وقت ہے جو انسان کو سمجھے اور اس کی شخصیت تو سراہے خاص طور پر ایسے انسان کی جو غلطیوں پر روک ٹوک اور سرزنش بھی کر لیتا ہو اور ایک پختہ سوچ کا مالک  ہو جس کو کوئی بیہودہ اور کھوکھلا شوق بھی نہ ہو جیسے آج کل کے مغرب اور سوشل میڈیا زدہ ذہنوں کا ہوتا ہے - پھر اوپر سے وہ انسنیت کی بقا اور بھلائی کا لا حاصل راگ الاپتا رہتا ہو تو اور بھی زیادہ جھکی اور بورنگ محسوس ہونے لگتا ہے

محبت پیار اور یہاں تک کے عشق جیسے نایاب اور مقدس اصطلاحات کے معنی مغرب سے متاثر ذہنوں میں اسی لئے مسخ ہو کر رہ گئے ہیں - بزرگان اور بابے تو محبت کا معنی یہ کرتے ہیں کہ جب کسی کی محبت میں تو خود سے محبت کرنا چھوڑ دیتا ہے تب تجھے محبت ہوتی ہے نہ کہ اپنی ضرورت مجبوری اور چسکے کو پورا کرنے کے لئے اپنی ذات کے فائدے کی خاطر کہے کے مجھے تجھ سے محبت ہے

بلکل اسی طرح حقیقی محبت اور عشق حقیقی کا معنی بزرگان کی نظر میں یہ ہیں کہ جب تو پوری انسانیت سے اتنی محبت کرے کے خود سے محبت کرنا چھوڑ کر ان کی بھلائی اور خدمت میں لگ جاۓ تو یہ عشق حقیقی ہوتا ہے جیسے ہر بڑے انسان نے کیا اور ہر الله کے پیارے کا شیوہ رہا

وہ ساری انسانیت کی بھلائی کے کام میں اتنے سرشار اور اتنے وقف رہتے تھے اور رہتے ہیں کہ انکو اپنی کوئی پرواہ نہیں رہتی جیسے ایدھی صاحب نے جب میٹھادر سے ایک ڈسپنسری اور ایک ایمبولینس سے انسانیت کی بھلائی اور خدمت کا پودا لگایا تھا جو آج ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

آج  ان ایمبولینسز کا نیٹ ورک تقریباً دو ہزار تک پہنچ چکا ہے جبکہ کراچی سے خیبر تک بلکہ ملک سے باہر بھی  ایدھی سینٹرز موجود ہیں۔ فاونڈیشن نے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ترقی کی ہے۔ اسلامی دنیا میں ایدھی فاؤنڈیشن ہر مصیبت اور مشکل وقت میں اہم مدد فراہم کرتی ہے۔ جہاں امداد اور نگرانی ایدھی بزات خود متاثرہ ممالک میں جا کر کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ فاونڈیشن جن ممالک میں کام کر رہی ہے ان میں سے چند نام افغانستان، عراق، چیچنیا، بوسنیا، سوڈان، ایتھوپیا اور قدرتی آفت سماٹرا اندامان کے زلزلہ (سونامی) سے متاثرہ ممالک کے ہیں۔

اگست 2006ء کو بلقیس ایدھی اور کبریٰ ایدھی کی جانب سے ایدھی انٹرنیشنل ایمبولینس فاؤنڈیشن کے قیام کااعلان کیا گیا۔ جس کے تحت دنیا کے امیریاغریب ہویا دنیا کا کوئی بھی ملک امریکا، یو کے، اسرائیل، شام، ایران، بھارت، بنگلہ دیش ہوں میں یہ ایمبولینس بطور عطیہ دی جا رہی ہے اورانہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان ایمبولینس کو 5 سال تک استعمال کرنے کے بعد فروخت کرکے اس کی رقم خیراتی کاموں میں استعمال کریں۔

 لاوارث اور گمشدہ بچوں کو سنبھالنے سے لے کر ڈسپنسریاں، نرسنگ ہومز، شیلٹر ہومز، میت خانے اور لاوارث افراد کی تدفین کے لیے قبرستان ان سب کی بنیاد عبدالستار ایدھی اپنی زندگی میں ہی ڈال گئے تھے۔

انسانوں کی خدمت کے علاوہ جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے اسپتال کا قیام غرض کے خلق خدا کی خدمت کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جو ایدھی صاحب  کی دسترس میں نہ ہو۔

سنہ 1966 میں عبد الستار ایدھی کی جیون ساتھی بننے والی بلقیس ایدھی جب بھی اپنے شوہر کو یاد کرتی ہیں تو ان کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھتا ہے۔ انکو فخر ہے ایک ایسے شخص کی شریک حیات ہونے پر جس کو اصل محبت یعنی عشق حقیقی کا ادرک تھا یہاں تک کہ اس خدمت کی خاطر شروع شروع میں حالات اتنے خراب تھے کے کہا کرتے تھے '' چلو بلقیس میرے ساتھ بھیک مانگنے چلو، میں ان سے کہتی مجھے بھیک مانگنا اچھا نہیں لگتا تو وہ مجھ سے کہتے ارے یہ کوئی بری بات نہیں ہے اس سے انسان میں عاجزی آتی ہے۔'

یہ وہ عظیم انسان تھا جس نے انسانوں کی محبت میں ہر طرح کی تذلیل بھی گوارا کر رکھی تھی اور میری آنکھوں دیکھا واقعہ ہے جب ایدھی صاحب ایک تقریب میں الحمرا لاہور میں مدعو تھے اور کافی دیر تک پہنچے نہیں تو لوگ شور سن کر الحمرا سے باہر نکلے تو وہ سامنے سے گزرنے والی لاہور کی مصروف ترین شاہراہ کے بیچوں بیچ اپنی جھولی پھیلاے بیٹھے تھے اور گاڑیوں کا رش لگا ہوا تھا ان کے پاس اور لوگ پیسے ہی پیسے دیتے جا رہے تھے اور روتے بھی جاتے تھے اس عظیم انسسان کی انسانیت سے انتہائی محبت کا عاجزانہ اظہاردیکھ کر آج بھی میں خود پر قابو نہیں پا سکتا جب یہ منظر ذہن میں گھومتا ہے

عبدالستار ایدھی کی تیسری برسی پر وائس آف امریکہ کی ٹیم جب بلقیس ایدھی سے خصوصی بات چیت کرنے میٹھادر کے مرکزی دفتر پہنچی تو وہ ایدھی صاحب کے اس دفتر میں بیٹھی تھیں جہاں کبھی عبدالستار ایدھی آنے والوں کا استقبال کیا کرتے تھے
ایدھی صاحب کی وفات کے بعد سے ایدھی فاؤنڈیشن کو درپیش چیلنجز کے سوال پر بلقیس ایدھی نے کہا کہ انھیں کسی مسئلے کا سامنا نہیں، ایدھی صاحب اتنا کچھ کر کے جا چکے ہیں کہ اگر کوئی مسئلہ آ بھی جائے تو مسئلہ نہیں لگتا۔ بقول ان کےوہ روشنی کا مینار تھے سب کچھ بنا کر دے گئے۔ ہم نے بس اسے سنبھالنا ہے۔

ایک وہ بھی وقت تھا جب ایدھی صاحب نے اس عظیم کام کی بنیاد رکھی اور بظاھر ایک ناقابل یقین معمولی اور بے وقعت سی شے نظر آتی تھی - عورتیں عام طور پر ایسے موقع پر ساتھ دینے کی بجاے ایسے کاموں سے دور ہی رہنے کا مشورہ دیتی ہیں اور جب مرد باز نہ آے تو برا بھلا کہنے اور لعن تعان بھی کرتی ہیں کیونکہ عورت عارف دنیا ہے اور مرد اگر عارف مولا نہ ہو تو ساری عمر اس کی غلامی سے نہیں بچ سکتا - اور ایدھی صاحب عارف مولا تھے اسی لئے مولا نے انکو نیک اور انسان دوست جیون ساتھی عطا فرمایا جس نے ہر قدم پر ان کا بھروسہ اور یقین قائم رکھا اور بھرپور ساتھ دیا
اسی لئے تو ہمارے آقا و مولا فرماتے ہیں اور  حدیث حسن صحیح ہے۔(باب شوہر پر عورت کے حقوق کے بیان میں جلد دوم، جامع الترمذی ، یہ دنیا ساری کی ساری پونجی ہے (برتنے کی چیز ہے)لیکن ساری دنیا میں سب سے بہترین قیمتی چیز نیک و صالح عورت ہے۔ ۔(باب نیک اور صالح عورت کا بیان، سنن صحیح و نسائی صحیح ،جلد دوم حدیث نمبر ۳۲۴۰)آقا ﷺ نے فرمایا : جس عورت نے اس حال میں انتقال کیا کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہواور خوش ہوتووہ جنت میں داخل ہوگی۔(ترمذی)

ایدھی صاحب مزاج کے کیسے تھے اس پر پرانی باتوں کو یاد کرتے ہوئے بلقیس صاحبہ نے ایک قصہ سنایا۔

''ایک بار میں نے ایدھی صاحب سے پوچھا کہ پاگل خانے میں مرد اتنی بڑی تعداد میں کیوں آتے ہیں؟ تو وہ ہنس کر کہنے لگے کہ تم عورتیں اظہار کر لیتی ہو، اپنے دل کا حال کسی کو کہہ لیتی ہو اپنا غم بانٹ لیتی ہو۔ مرد ایسا نہیں کر پاتا اپنے اندر رکھتا ہے اور پھر اس کا انجام اسی صورت میں سامنے آتا ہے۔''

اتنی گہری سمجھ اور ادراک رکھنے والے عظیم انسان کو نہ صرف انسانیت کے دکھوں کا علم تھا بلکہ ان دکھوں اور بیماریوں کے محرکات کا بھی پورا دراک تھا جب انسان ضبط کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو وہ بیماری بن کر ظاہر ہونے لگتا ہے - ذہنی دباؤ ہے در اصل ہر طرح کی بیماری کی اصل وجہ بنتا ہے

گزرے وقتوں کا ایک اور قصہ بیان کرتے ہوئے بلقیس ایدھی صاحبہ نے بتایا کہ ایک بار ایدھی صاحب کسی لاوارث میت کی وصولی کے لیے اندرون پنجاب سفر پر نکلے۔ راستے میں انھیں کچھ ڈاکووں نے پکڑ لیا، جو کچھ ان کے پاس تھا ان سے لوٹ لیا۔ لیکن جب انھیں معلوم ہوا کہ وہ عبدالستار ایدھی ہیں تو ان سے معافیاں مانگنے لگے، ہاتھ چومے اور سو روپے چندے کے طور پر دیتے ہوئے کہا ''بابا ہم جانتے ہیں کہ جب ہم مریں گے تو، تو ہی ہو گا جو ہمیں دفنائے گا، کیونکہ ہمارے اپنے تو نہیں آئیں گے۔''

بلقیس ایدھی نے کہا کہ ایدھی صاحب کی شخصیت ہر خاص و عام کے لیے باعث عزت رہی۔ جب کراچی میں امن و امان کا مسئلہ درپیش تھا۔ تو کئی لاوارث لاشیں ہمارے رضاکار اٹھا کر لایا کرتے تھے۔ ہم لواحقین کا ایک ماہ تک انتظار کرتے اور پھر تدفین کر دیتے۔

بلقیس ایدھی خود بھی ایک طویل عرصے تک نرسنگ کے شعبے سے وابستہ رہی ہیں، اب بھی میٹھادر کے میٹرنٹی ہوم میں کام کرنے والی نرسوں کے ساتھ ان کا وقت گزرتا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ شیلٹر ہومز میں بزرگوں اور عورتوں کی تعداد میں اضافے پر انھوں نے کہا کہ اب معاشرے میں برداشت ختم ہو چکی ہے۔ جب بوڑھے والدین کو نفسیاتی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں اور اس کا علاج جو ویسے ہی مہنگا ہے تو اولاد مہنگے علاج کی بجائے انھیں ہمارے پاس چھوڑ جاتی ہے۔ یہاں تک کے کی ایسے لوگ بھی گھریلو بد سلوکی سے تنگ ا کر شدید ذہنی دباؤ کی حالت میں ایدھی شیلٹر کا رخ کر رہے ہیں جن میں بڑی تعداد ایسے افراد کی ہوتی ہے جو معاشرتی قدروں اور درست رویوں کے فقدان کی وجہ سے بیماریوں کا شکار ہو کر گھر اور خاندان چھوڑ دیتے ہیں

ان کے بقول، کئی عورتیں اور مرد  گھر کی لڑائیوں سے تنگ آ کر پناہ لینے آ جاتے  ہیں جنھیں ہم سمجھاتے ہیں تو اکثر واپس لوٹ بھی لوٹ جاتے ہیں۔ لیکن اس کی وجہ در اصل وہی غیر مشرقی سوچ ہوتی ہے جو مغربی اقدار سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کا بے جا اور غیر مستند سرپرستی کے بغیر استعمال اور سب سے بڑھ کر مغربی طرز تعلیم کا بے تحاشہ پھیلاؤ اور اعتقاد کی حد تک عمل درآمد ہے

جس کا نتیجہ چسکے اور نشے کی عادت اور محبت پیار اور انسانی جذبات کا استحصال ہوتا ہے اور لوگوں کا مزاج چیزوں سے پیار کرنا  اور لوگوں کا استعمال کرنا بن جاتا ہے جو صرف ذاتی مفاد اور انفرادی مقاصد کے حصول تک محدود ہو کر ہر طرح کے دنیاوی فوائد کے گرد گھومنے لگتا ہے


کاشف احمد
اسلام آباد ، پاکستان
٢٠ جنوری ٢٠٢٠



Friday 10 January 2020

ریچھ کی طرح مت بھینچ



کسی کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے کا کام اپنی بد ترین شکل میں تب سامنے آتا ہےجب ہم اسے بھی پتا نہیں لگنے دیتے کے اس سے کس طرح کا فائدہ اٹھا  رہے ہیں اور کیسے اس کی شخصیت کو مسخ کر رہے ہیں کیونکہ وہ تو کمزور نہ سمجھ اپنی مجبوری کا مارا ہوا بس یہ چاہتا ہے کے اس کی ضرورت جلد سے جلد کسی نہ کسی طرح پوری ہو جاے اور ہم چاہتے ہیں کے ساری عمر یہ ہمارا محتاج بن کر رہے ہمارے ارد گرد چکر لگاتا رہے اور دیوانہ بنا رہے

جیسے ایک نشہ بیچنے والا چاہتا ہے کے ہمیشہ اس کا گاہک اسی کا پکّا گاہک بنا رہےاس لئے  پہلے اسے مفت میں نشہ فراہم کرتا ہے بہلا پھسلا کر راضی کرتا ہے کہ  اسی میں اس کی نجات ہے اور ہر تاویل اور  دلیل سے خطرناک برائی کو اچھائی میں بدل دیتا ہے  یہاں تک کے خود بھی نہیں جانتا کے وہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے کسی دوسرے کو شکار بنا رہا اور لوگوں کے سامنے خود کو اس کا سب سے بڑا ہمدرد ثابت کرنے میں لگا رہتا ہے اور اپنی اس ضرورت کو پورا کرنے کی خاطر خود کو بھی ایک مہان ہمدرد سمجھ رہا ہوتا ہے دراصل خود کو بھی بیوقوف بنا رہا ہوتا ہے

یہ نشہ صرف ایک موذی نشہ نہیں  ہوتا ہے ایسے بہت سے اور نشے بھی ہیں-  جیسے دولت کا نشہ طاقت کا نشہ توجہ اور سستی آسان شہرت کا نشہ یہاں تک کے پیار کا نشہ جس میں انسان خود تو کوئی محنت نہیں کرنا چاہتا وقت دینا نہیں چاہتا سیدھا راستہ لمبا اور کٹھن ہونے کی وجہ سے نا ممکن مان کر شارٹ کٹ تلاش کرتا ہے کے شائد کوئی خاص انگوٹھی کوئی قیمتی قمیض  یا پرفیوم یا پھر کوئی خاص طرح کا ڈرنک یا کھانا اسے لوگوں کی توجہ اور تحسین کے قابل بنا کر ہر دل عزیز بنا دے گا اور جب ایسا نہیں ہوتا تو کسی ایک پر ہی اکتفا کر لیتا ہے جو اس کی کمزوری بھانپ کر اس کی طلب دیکھ کر چپکے سے اپنے پاس بلا کر اس کی کمزوری کا علاج اس گھٹیا نشے میں دکھا کر اپنا رسیا بنا لیتا ہے جس سے دونوں کا ہی کام چل جاتا ہے


ہر دل عزیز ہونا اور آنکھ کا تارا ہونا صرف کسی ایک خاص شخص کے لئے کیوں؟  وہ بھی کسی دوسرے کو پتا لگے بغیر ؟ - آدمی اگر ہر دل عزیز اور پسندیدہ ہوتا ہے تو ہر جگہ ہوتا ہے ہر ایک کو پسند آتا ہے نہ کہ صرف ایک خاص شخص کو بس  مائیں بھی اکثر ایسی ہی خطرناک عادت کی مالک ہوتی ہیں وہ اپنے بچے کو اتنا سر چڑھا لیتی ہیں اتنا لاڈ پیار اتنی توجہ دیتی ہیں کے ان کی برائی بھی نظر انداز کر دیتی ہیں کمزوری کو بھی معصومیت کہتی ہیں اور قوت فیصلہ اور حوصلہ کی کمی کو بھی ان کی سادگی کہ کر لوگوں کو مجبور کرتی ہیں کے ان کی طرح ان کے بچے کو سر پر چڑھا لیا جاے مگر جب یہی بچہ زندگی کے اصل امتحان میں بری طرح فیل ہو جاتا ہے جب اسے خود اپنی ذمہ داری نبھانی ہوتی ہے اور جواب دینے پڑتے ہیں اور وہ ماں ان کی جگہ یہ کام نہیں کرسکتی تو وہ وہ بری طرح ٹوٹ جاتا ہے - تباہ ہو ہو جاتا ہے  اور بیماری کا شکار ہو کر کئی بار مستقل بستر سے لگ جاتا ہے   

یا پھر زمانے کی نا انصافی ظلم اور سفاکی کو مورد الزام ٹھہرا کر بندوق  اٹھا لیتا ہے جو یا تو دوسرے معصوموں کی موت کی وجہ بنتی ہے یا پھر صرف اپنی موت کی- اور ہم پھر بھی اس کی وجہ نہیں جانتے کہ یہ شخص در اصل دنیا کا سامنا کرنے کے قابل نہیں چھوڑا گیا  تھا - بچپن سے اسے بہت آسانی سے پیار توجہ اور آسائش ملنے کا عادی بنا دیا گیا - شروع سے ہی اس کو نازک مزاجی اور شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ بغیر قابلیت  کے ملتے رہے اور اس کی طبیعت میں نازک مزاجی اور حساسیت حد سے زیادہ بڑھ گئی اور اس پر بھی انکو مزید سرپر  بیٹھا کر رکھا گیا یہاں تک کے جب کسی سمجھدار شخص نے انکو مضبوطی اور جوانمردی کا سبق دینے کے لئے تھوڑی مشکل اور سختی کا تجربہ کروانا چاہا تو وہی ماں اور وہی نشہ لگانے والے بھاگے آے اس کو بچانے اور بلکل اس ریچھ کی طرح کس کے سینے سے لگا لیا جس نے اپنے بچے کو اسی طرح بھینچ کر مار ہی ڈالا تھا
کاشف احمد
اسلام آباد پاکستان
١٠ جنوری ٢٠١٩

Thursday 2 January 2020

ایک عالم کے قلم کی سیاہی شہید کے خون سے زیادہ قیمتی ہے۔


سلیم گیلانی کی ایک کتاب ’’بلالؓ‘‘ جو پہلی بار 1994ء میں شائع ہوئی۔ حضرت بلالؓ پر لکھی گئی یہ سحر انگیز کتاب ان کتابوں میں سے ایک ہے جو روحانی مرہم جیسے مقام کی حامل ہوتی ہیں۔ سیدنا بلالؓ کے حوالہ سے سلیم گیلانی لکھتے ہیں’’ابو بکرؓ بولے ’’بلالؓ! اگر میں تمہیں ایک قلم بنا دوں تو کیا تم لکھنا سیکھنے کی کوشش کرو گے؟یہ سوال ایسے پوچھا گیا جیسے بالکل بے ارادہ ہو۔ جیسے میرے لئے اس کا سننا بھی ضروری نہیں تھا حالانکہ یہی نادانستہ سوال میرے لئے غلامی سے قطعی نجات کا پیش خیمہ بنا۔

غلامی سے اصل رہائی میں نے ابوبکرؓ کی تربیت سے ہی پائی، ان کی اس رقم سے نہیں جس سے انہوں نے مجھے خرید کر آزاد کیا تھا۔ گویا مجھ پر ابوبکرؓ کا حقیقی احسان وہ تھا جو انہوں نے مجھے دیا، وہ نہیں جو انہوں نے میرے لئے دیا۔ابوبکرؓ کی رہبری اور نگرانی میں، میں لکھنا پڑھنا سیکھ گیا۔ میں سیاہی بنانے کے لئے نیل کے پتے لاتا تھا اور پھر مغرب سے فجر تک انہیں پانی میں بھگوئے رکھتا۔ پھر صبح انہیں خوب اچھی طرح کوٹتا اور کوٹ کوٹ کر سیاہی بنا لیتا۔ میں کھال پر لکھتا تھا، درختوں کی چھال پر لکھتا تھا۔ بھیڑ کے کندھے کی سوکھی ہڈی پر، گیلی مٹی پر، راکھ پر، پتھروں پر غرض ہر اس چیز پر لکھتا تھا جس پر لکھا جا سکتا تھا۔ چلتے پھرتے میں ہوا میں بھی انگلیوں سے کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا تھا۔

ہر روز ابوبکرؓ مجھے تھوہر کا ایک نیا قلم تراش کر کے دیتے تھے۔ اب ان کی صبح کا معمول کچھ یوں ہو گیا تھا۔ پہلے نماز، پھر قلم اور پھر بکریوں کا دودھ دوہنا۔میں لکھنے بیٹھتا تو اکثر وہ میرے پیچھے آکھڑے ہوتے۔ مجھے لکھتے دیکھتے رہتے اور میری اصلاح کرتے۔ ایک دن انہوں نے مجھے عنترہ کی نظمیں لا کر دیں جنہیں میں نے پہلے ایک ایک لفظ اور پھر ایک ایک مصرعہ کر کے زور زور سے پڑھنا سیکھا۔ عنترہ صحرائوں کا شہزادہ تھا۔ اس کے عظیم کارنامے، یکہ و تنہا کئی کئی حریفوں سے لڑ کر داد شجاعت وصول کرنے کی داستانیں، اس کی بھلائی اور نیکیوں کے قصے، مہمان نوازیوں کی کہانیاں، عبلہ سے عشق کے افسانے اور عبلہ کی محبت میں ڈھلی ہوئے اس کے رومانی اشعار زبان زدعام تھے۔ عنترہ اپنے عہد کا افسانوی کردار تھا۔ اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ نہ شمشیر زنی میں نہ شاعری میں۔ مجھے اس کا ہر مصرعہ مبہوت کر دیتا تھا۔ یہ اس کی شاعری کی عظمت کا تقاضا تھا لیکن میرا اس سے ایک تعلق یہ بھی تھا کہ عنترہ بھی میری طرح حبشہ کی ایک غلام عورت کا بیٹا تھا۔ایک دن ابوبکرؓ باہر سے آئے تو بہت ہی خوش تھے۔ میں اپنے لئے سیاہی بنا رہا تھا۔مجھے سیاہی بناتے دیکھ کر اور بھی خوش ہوئے انہوں نے جلدی سے آگے بڑھ کر میرے سیاہی سے داغدار ہاتھ پکڑ کر چوم لئے۔’’بلالؓ! تمہیں پتہ ہے آج رسول ؐ اللہ نے کیا فرمایا؟‘‘ابوبکرؓ میرا ہاتھ پکڑے پکڑے مجھے ایک گدھے کے پاس لے گئے اور بیٹھنے کو کہا اور پھر ساتھ ہی خود بھی بیٹھ گئے۔ جو خبر وہ لے کر آئے تھے، اس کے لئے اتنا اہتمام تو ضروری تھا۔ جب ہم بیٹھ گئے تو انہوں نے کہا’’عالم کے قلم کی سیاہی، شہید کے خون سے زیادہ قیمتی ہے، بلالؓ! یہ رسولؐ اللہ کے الفاظ ہیں۔‘‘میں اٹھا اور میں نے اپنے دونوں ہاتھ سیاہی کے برتن میں ڈبو دیئے۔ پھر ہاتھ باہر نکالے اور بہت دیر تک انہیں دیکھتا رہا۔ سیاہی پر سیاہی!‘‘   آپ سب کو یاد ہو گا کہ غزوئہ بدر کے کچھ قیدیوں کو مسلمان بچے پڑھانے کے عوض رہائی مل گئی تھی تو کیا ان کفار نے مسلمان بچوں کو کوئی ’’دینی علم‘‘ پڑھایا ہو گا؟سبق صرف اتنا ہے کہ علم کا تعلق براہ راست خالق کی تخلیق سے ہے، مالک کی ملکیت سے ہے، رازق کے رزق سے ہے کہ ہوا بھی تو رزق ہے۔نیوٹن جس نے کشش ثقل صرف دریافت کی تھی، ڈھونڈی تھی، کھوجی تھی، تلاش کی تھی’’بنائی‘‘ نہیں تھی۔ پھر اس کے بعد ہم تک یہ دریافت قلم کی طاقت سے ہی تو پہنچ پائی اور اس کے بعد نہ جانے کتنی مزید ایجادیں ممکن ہو سکیں اور بنی نو انسان کا کتنا فائدہ ممکن ہوا

’’ایٹم‘‘جیسا حقیر ترین ننگی آنکھ سے نظر نہ آنے والا ذرہ توانائی کا طوفان ہے، یہ ’’پہیلی‘‘صرف بوجھی گئی تھی اور کچھ بھی نہیں۔خلاء سے متعلق علوم بھی ’’دین ہی کا حصّہ ہیں ‘‘کہ خالق وہی ہے جس نے دین کو ہمارے زندہ رہنے کا طریقہ کہا اور اس ہی زندہ رہنے کے طریقے یعنی نظام ہستی پر ہر انسان کا حساب ہوگا نہ کہ کسی مذھب کی تختی پر جس پر ہم خود کو مسلمان ، عیسائی ، یہودی یا پھر دہریہ بنا لیتے ہیں وہی خالق ہے  جس کے بارے مظفر وارثی نے کہا تھا’’کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے‘‘کیا نظام ہستی سے باہر کوئی شے ہے؟ ..... جیالوجی ’’اراضیات‘‘ کا علم ہے تو یہ ارض و سما کس کی رضا ہے؟ پہچان کی حد تک تو درست جیسے باقی علوم کو مختلف عنوان دے دیئے جاتے ہیں لیکن کوئی کنفیوژن باقی نہ رہے۔

لیکن عالم دراصل بنی نو انسان کی بھلائی کے لیے کام کرتا ہے دانا وہی ہے جو نیک ہے اور نیک لوگ ہی دراصل دانائی رکھتے ہیں - وہ سب جو بظاھر دانا نظر آتے ہیں لیکن ان کا علم انسانوں کی بھلائی  کے لئے نہیں یا پھر صرف اور صرف اپنی بھلائی اور کمائی کے لئے ہے وہ نا تو عالم کہلا سکتے ہیں نہ ہی ان کے قلم کی سیاہی شہید کے لہو سے قیمتی ہو سکتی ہے

 فرمایا ’’بے شک تم غالب آؤگے اگر تم مومن ہو‘‘اور علم و دانائی مومن کی ہی گمشدہ میراث ہے اور علم صرف علم ہوتا ہے۔دنیا میں غلبہ کی جنگ ہے اور حریفوں سے ہمارا مقابلہ دینی ہی نہیں بظاہر غیردینی علوم کے میدان میں بھی ہے - تو چلو اٹھائو قلم کہ قلم کی سیاہی تو شہید کے خون سے بھی زیادہ قیمتی ہے

کاشف احمد
اسلام آباد پاکستان
جنوری ٢٠٢٠