Thursday 30 April 2020

ایک مکمل تخلیق ہے



کسی بھی عورت کو مرد کی توثیق درکار نہیں

بلا شبہ وہ خود ایک مکمل تخلیق ہے

عظیم اور شاندار خواتین صرف لڑکوں کی سوچ کے  لئے کوئی  مسلہ ہو سکتی ہیں ، مردوں کے  لئے تو یہ ایک  فرحت انگیز پر ولولہ احساس کا باعث ہوتا ہے

بہت سے نا پختہ سوچ رکھنے والے مرد خواتین کو قابو  میں رکھنے کی سوچ کے ساتھ کوئی رشتہ استوار کرتے ہیں کیونکہ سوچ کی گہرائیوں میں در اصل  وہ خود کو اس عورت کے قابل نہیں سمجھتے

اسی لئے وہ عورت کو زیر نگیں رکھنے   کی گھٹیا کوششیں اور   حربے آزماتے رہتے ہیں

 اسی لیے شائد اب یہ تعجب کی بات نہیں رہی کہ عورتیں سنگل رہنا چاہتی ہیں اور تنہا زندگی گزارنے کو ترجیح دیتی ہیں

ایک عورت صرف ایک ایسے مرد کی موجودگی میں خود کو محفوظ اور پر سکون سمجھتی ہے جو اپنے قدرتی مردانہ قویٰ کا اصل مخزن اور مقصد جانتا ہو اور انکی ایک  درست سمت رکھتا ہو

وہ مرد پر اعتماد با حوصلہ ہو اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے بے خوف ہو

اس کی زندگی میں جیسے بھی حالات ہوں وہ ہمیشہ پرامید اور مثبت رہتا ہو تو ایسے مرد کا  ساتھ  سکون کا باعث ہوتا ہے اور تحفظ کا احساس دلاتا ہے جو یقیناً ایک عورت کے لئے  طمانیت کا باعث ہوتا ہے  

ایک مرد کی شخصیت کے  معیار  کا تعین اس کے اپنے  اور اپنے خاندان کے لئے اسکی  مستقبل کی  سوچ سے ہوتا ہے اور ان خابوں سے جو اکثر ان کے لئے دیکھتا ہے

یہ ایک مرد ہی کا مضبوط کردار ہی ہوتا ہے جس کے نتیجے  میں اس کا خاندان ایک محفوظ پر سکون ماحول میں اپنے مستقبل کے خابوں کو  حقیقت میں بدل پاتا ہے اور یہ ایک لائق سربراہ کی رہنمائی سے ہی ممکن ہے

عورت اکثر خود اپنی حفاظت بھی کر سکتی ہے لیکن جب وہ مرد موجود ہو تو اسے ایسا کرنے  ضرورت نہیں ہوتی اور وہ اپنی نسوانی صلاحیت ایک بہتر مقصد کی خاطر بروۓ کر لا سکتی ہے

لیڈیز !!!
''  بہادر جواں مرد اور مضبوط چمکیلے زرہ والے نائٹس مر نہیں گئے''. اب بھی موجود ہیں - بس آپ نے ساتھی چننے کا وہ اعلیٰ میعار اتنا  گھٹا دیا ہے کہ اب زیادہ تر یہی  بچگانہ اور ناپختہ سوچ رکھنے والے کاٹھ کے الو ہی  دکھائی دیتے ہیں
اور شائد یہی مردانگی کا میعار بنتا جا رہا ہے
صرف ایک اصل  عورت ہی وہ سب کچھ  میز پر لا سکتی ہے, جس کے لائق ایک اصلی مرد ہوا کرتا ہے  


کاشف ¬

Wednesday 22 April 2020

سائیبورگ - مصنوعی اور قدرتی ذہانت کا امتزاج


   



انسان نے جب پہیہ  ایجاد کیا  تو اسے شائد معلوم نہیں تھا کہ یہ مشینوں کی ایجاد کی طرف اس کا پہلا  قدم ہوگا - مشین چاہے کوئی بھی ہو اس کا مقصد انسان کی صلاحیت رفتار اور آسودگی میں اضافہ ہوتا ہے - مشین  چاہے کسی سادہ استعمال کے آلے جیسے چاقو یا چھری یا لباس میں لگائی جانے والی کوئی چین یا زپ کی طرح ہو یا پھر زیادہ پیچیدہ طور پر تیار کردہ کوئی گاڑی یا پھر حساب کتاب میں مدد دینے والا کوئی کیلکولیٹر ہو ، یہاں تک کے کوئی کمپیوٹر ، مقصد ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ انسان کی  صلاحیت ، کارکردگی کی رفتار اور آسودگی میں اضافہ کیا جاے اور اگر یہی مشینیں یا ان میں موجود ان کی بنیادی کارکردگی کا جوہر جیسے مائکرو. پروسیسر  اگر ایک آلے یا گیجٹ  میں استعمال ہونے کی بجاے انسانی جسم سے ایسے منسلک ہو جائیں کے وہ جسم کا حصّہ بن جائیں تو ایک مشین کی صلاحیت اور ذہانت انسانی ذہانت کو چار نہیں چوالیس چاند لگا سکتی ہے 



کسی بھی بیرونی آلے یا عضو کا انسانی  جسم میں لگا دیا جانا کوئی نیا تصور نہیں ہے اسی ٹیکنالوجی کی ترقی یافتہ  شکل یا یوں کہ لیجئے کمپیوٹر  کی دنیا سے منسلک شکل کو ماہرین نے اب مزید بہتر بنا دیا ہے اور ویسے بھی سائی بورگ کوئی نیا یا اچھوتا تصور نہیں - ہم سب ہی در اصل ان سب مشینوں یا گیجٹس  کا استعمال  کرتے ہوئے اپنی لکھنے  پڑھنے ، رابطے , تفریحی سرگرمیوں اور کام  کی صلاحیت میں  اضافہ کرتے ہیں - یہ ایک طرح سے خود کو سائی بورگ بنا لینے کے مترادف ہی تو ہوتا ہے 

دور جدید کی حیرت انگیز ایجادوں میں سے ایک ایجاد آر ایف آئی ڈی چپ کی ایجاد ہے یہ مخفف ہے  ریڈیو فریکوینسی آئی ڈینٹفکشن کا  جس کی مدد سے چھوٹے سائز کی ڈیوائس یا چپ اور انٹینا کو کسی بھی چیز یا شخص کی شناخت کی معلومات محفوظ کرنے کے بعد اس سے منسلک کر دیا جاتا ہے جس نکے بعد کسی بھی شناختی دستاویز جیسے سوشل سیکورٹی ، قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی ضرورت نہیں رہتی اور ہر اس جگہ جہاں اس قسط کی شناخت کی ضرورت ہوتی ہے وہاں بس شناخت کے سکینر با آسانی کسی کو بھی شناخت کر لیتے ہیں 

یہ بلکل ویسے ہی کام کرتا ہے جس طرح دوکانوں  اور شاپنگ مالز میں موجود اشیا کی خریداری کے دوران ان کی پشت پر موجود ایک بار کوڈ کو کیش کاؤنٹر پر ایک بار کوڈ ریڈر پڑھ لیتا یا کریڈٹ کارڈ کی پشت پرموجود ایک سیاہ پٹی کو کارڈ سوائپنگ مشین یا اے ٹی ایم  پڑھ لیتی ہے  - فرق صرف یہ ہے کہ آر ایف آئی ڈی چپ کو کافی فاصلے سے پڑھ لیا جاتا ہے اور اس صدی کے اوائل میں ہی امریکا میں  انسانوں میں آر ایف آئی ڈی چپ منسلک یا امپلانٹ کئے جانے کی منظوری دے دی گئی تھی  یہ ار ایف آئی ڈی چپ ابتدا  میں دو سو ایم بھی معلومات کا ڈیٹا محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے 

 وہ وقت آن پہنچا  ہے  جب انسان ہاتھ کے اشاروں سے مختلف کمپیوٹر یا موبائل فون ایپس  ، نقوش ، تصاویر ، ویڈیوز یہاں تک کے عبارت بھی اپنے سامنے فضا میں معلق کر کے    کنٹرول کر سکتا ہے اس  ٹیکنالوجی کو مائکرو. سوفٹ نے ہالو لینز کا نام دیا ہے اور اس سے بھی آگے ایسی ٹیکنالوجی کو انسپائر کہا جاتا ہے- مگر یہ بھی ابھی تک انسان کا بیرونی طور پرعلیحدہ  کسی ڈیوائس یا گیجٹ کا جدید استعمال  ہے جیسے  ہم کوئی فون ،  لیپ ٹاپ یا کیلکولیٹر الگ سے   استعمال کرتے ہیں اور وہ ہمارے جسم اور دماغ میں امپلانٹ یا منسلک نہیں ہوتا ۔ 

انیس سو نواسی   میں برطانوی خبر رساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں سپر ہیومنز ’’سائیبورگ‘‘ کا نام پہلی مرتبہ استعمال کیا جب مشہور فلم '' سائی بورگ '' سینما میں نمائش کے لئے پیش ہوئی ۔ آئی بی ایم کے ہرسلی انوویشن سینٹر کے سینئر موجد جان میک نمارا کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک ایسی انسانی نسل پیدا ہوگی جنہیں آدھا انسان ،آدھی مشین کہا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دو دہائیوں کے دوران ہونے والی ترقی انسان کو شعور اور آگہی کی بلندیوں پر لے جا چکی ہے جس کی مدد سے اب کمپیوٹر پروسیسر انسانی دماغ سے منسلک کیا جاسکتا ہے 

اور وہ دن دور نہیں جب انسان کمپیوٹر کی تمام صلاحیتیں بغیر کسی بیرونی گیجٹ یا مشین کی مدد سے براہ  راست اپنے ہی دماغ میں استعمال  کر سکے گا بلکل ویسے ہی جیسے کسی موبائل یا لیپ ٹاپ میں آپ آپریٹنگ سسٹم اور دوسری ایپس اور پروگرام انسٹال کر کے موثر طور پر استعمال کرتے ہیں ویسے ہی انسانی دماغ میں پروسیسر منسلک ہونے کے بعد کر پائیں گے 

ماہرین کا کہنا ہے کہ جس تیزی کے ساتھ مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کے شعبے میں ترقی ہو رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں  انجکشن کے ذریعے انتہائی باریک پروسیسر جسم میں شامل کر کے انسانوں کو زبردست طاقت مہیا کی جاسکے گی ۔ جس سے وہ ’’سپرمین‘‘ بن جائینگے۔ مصنوعی ذہانت کی حامل باریک مشینیں جنہیں نینومشینز کہا جاتا ہے ایسی ہی ہوں گی جیسے موجودہ دور میں جسم میں مختلف امپلانٹس لگائے جاتے ہیں

میرا ماننا ہے کہ آجکل کی وبا در اصل انسان کو اس جدید ٹیکنالوجی یعنی مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کی جانب توجہ مرکوز کرنے اور اس کے استعمال کو جلد از سیکھنے کی طرف مجبور کرنے کے لئے آئ ہے کیونکہ صنعتی انقلاب کا وقت اب اپنے آخری دموں پر ہے-اور جلد ہی مروجہ معاشی ترقی کے وسائل اور طریقے متروک اور غیر ضروری ہو جائیں گے  جس کے بعد انسان کے پاس موجودہ  طرز زندگی کو جلد از جلد ترک کر کے مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کے دور میں داخل ہونا ہے تاکہ ان حالات میں اپنی زندگی کو بہتر طور پر ترقی کی جانب گامزن رکھ سکے 

کاشف احمد 
اسلام آباد ، پاکستان 
٢١- ٠٤-٢٠٢٠ 

Tuesday 21 April 2020

کچھ وقت دو



جب بھی آپ الجھتے ہیں ، اس کا مطلب ہے کہ آپ کچھ نیا سیکھنے جارہے ہیں

الجھن میں رہنا ٹھیک بات ہے ۔
الجھنیں ہی تو دنیا کی تمام وضاحتوں  کا راستہ ہوتی ہیں ۔

بعض اوقات زندگی کوئی  معنی فراہم  نہیں کرتی  اور کائنات کی اسکی وضاحت کرنے کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔

صرف آپ کا دل ان چیزوں کو جانتا ہے جن  کی  آپ کے ذہنوں کے پاس  اکثر وضاحت نہیں ہوتی  اور جب تک آپ ان کو دونوں کو ساتھ لے کر نہیں چلتے تب تک آپ کو کبھی سکون نہیں ملے گا۔

آپ کو پہلی بار کوشش کرتے وقت  سوچنے سمجھنے کی ضرورت زیادہ نہیں ہونی چاہیے ۔

ناکام ہونا بھی  ٹھیک ہوتا  ہے!
ناکامی در اصل  آپ کا وہ  موقع ہے جس سے  آپ پہلے سے زیادہ دانشمندانہ آغاز کرتے ہیں ۔

خود کو وقت دیں  ~.

زیادہ تر لوگ اپنے آپ پر کچھ کر گزرنے کے لئے  دباؤ ڈالتے ہیں ، جبکہ اپنی  سوچ کی  گہرائی میں دراصل  وہ اس کے لئے تیار نہیں ہوتے  یا ایسا نہیں چاہتے ہیں۔

کیونکہ بس ایک  خوف  کارفرما ہوتا ہے ۔

لوگوں کی بہت ساری پریشانیوں کی وجہ یہ ہے کہ وہ ''نہ'' کہنے کے مقابلے میں ہاں میں ہاں زیادہ جلدی ملاتے ہیں   
نہ کا مطلب نہ ہے ہوتا ہے- اس کی جگہ '' شائد ...  یا پھر ''دیکھتے ہیں''   کبھی نہیں کہنا چاہیے

آپ کو اس سے زیادہ اور کچھ بھی کمزور نہیں بناتا کہ آپ  اس بات سے انکاری ہو جائیں کہ آپ واقعتا کون ہیں
اس کے بارے میں فکر مت کریں کہ دوسروں کو کیا لگتا ہے کہ آپ کو کیا کرنا چاہئے!

جو ان کے لئے مناسب ہے ضروری نہیں  وہ آپ کے بھی  مناسب  ہوگا کیوں کہ ہر ایک کا اپنا سفر اور راستہ ہوتا ہے۔

انسانی  فطرت کی تخلیق   خدا کا فن ہے اور یہ فطرت  معصومیت اور  سادگی سے ہی  خوش ہوتی ہے  !

جب بھی آپ کو الجھن ہو ، "پانی ٹھہرنے دو! تبھی تمھیں اپنے وجود کے  آئینہ دار چاند اور ستارے نظر آئیں گے۔ رومی

بس کچھ وقت دو خود کو

کاشف احمد
اسلام آباد ، پاکستان
٢١-٠٤ -٢٠٢٠

Thursday 16 April 2020

اس وبا کا حسین پہلو



اور جب لوگ گھروں میں ہی رہنے لگے کتابیں پڑھ کر یا (آڈیو بکس) سن کر وقت گزارنے لگے - آرام کرنے، ورزش کرنے، فن پارے تخلیق کرنے اور کھیلوں میں وقت صرف کرنا سیکھ گئے - جینے کے نئے انداز اپنا لئے اور ٹھہر سے گئے .. دھیمے سے ہو کر مزید گہرائی میں جا کر سننے اور سمجھنے لگے. کچھ لوگ عبادت میں لگ گئے، دعاؤں میں  مشغول ہو گئے اور کچھ رقص میں - کچھ کی اپنے ہی سائے سے ملاقات ہوئی اور سب ہی لوگ مختلف اور ہٹ کر سوچنے لگے

اسطرح پھر لوگوں کو شفاء حاصل ہونے لگی اور جب اس  جہالت ، بد دماغی  ، بے حسی, پتھر دلی اور سفاکی سے دنیا پاک ہو گئی تو زمین کو بھی شفاء نصیب ہوئی

اور آخر جب خطرہ ٹل گیا , لوگ آپس میں مل بیٹھنے لگے تو اپنے اپنے نقصانوں پر دکھ کا اظہار کرتے  ہوئے   زندگی  گزرانے کے نئے اندازاور نئے تخیلات کے نقوش سے  اپنے خوابوں کو سجانے لگے - پھر زندگی ایک بلکل اچھوتے  انداز , نئی سوچ کے ساتھ رواں دواں ہوئی تو زمین مکمل شفایاب ہو گئی کیونکہ لوگ اس علاج کے بعد اب  پوری طرح تمام نقصان دہ صحبتوں, عادات اورروحانی بیماریوں سے شفایاب  ہو چکے تھے
 مشہور مصنف کیٹی اومارا کی   کتاب '' پیپل سٹیڈ ہوم ''  سے ایک  اقتباس کا اردو ورژن
 جن حالات میں ہم آجکل رہ رہے ہیں ، یعنی سن بیس سو بیس کی اس وبا کے دنوں میں ہمیں بہت واضح طور پر اکیلے پن تنہائی , معاشرتی دوری اور خلوت  کے فرق کو سمجھ لینا ہوگا ورنہ ہم با آسانی  ان  کو آپس میں گڈ مڈ کر کے ایک ہی چیز سمجھ لیں گے

 جہاں ہماری زبان نے ہمیں تنہائی جیسے لفظ سے روشناس کروا کر تکلیف  دہ احساس کوجگایا  ہے وہیں ایک اور لفظ '' خلوت '' بھی عطا کیا ہے جو اس کے معنی کو عظمت عطا کرتا ہے - یہ وہ خلوت ہے جس میں موسیٰ علیہ السلام کو بلایا گیا  اور پھر وہ  خالق اپنے بندے .. اپنے نبی سے طور سینا پر ہمکلام ہوا  یہ وہی خلوت ہے جس کے نتیجے میں غار حرا میں آقاے دو جہاں ﷺ کو نبوّت کا عظیم مرتبہ اور پوری انسانیت کے لئے ہدایت کا سرچشمہ نازل ہوا
ان حالات میں کبھی کبھار مکمل علیحدگی کی ضرورت پڑ سکتی ہے مگر اس وقت بھی رابطے سے روکا نہیں جاتا بات چیت پر کوئی پابندی نہیں کوئی آپکو ہمدردی کا اظہار کرنے ، دلجوئی ، حوصلہ افزائی اور پیار سے پیش آنے سے نہیں روک سکتا - وہ سب کام جو آپ نے  آج سے پہلے بس اس لئے موخر کئے رکھے کہ چلو یہ تو میرے اپنے  گھر کے افراد ہی ہیں ، ان سے کبھی بھی بات چیت ہو سکتی ہے ، جذبات کا اظہار اور مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے مشکلات اور ضروریات  جانی جا سکتی ہیں ، کچھ سیکھا سکھایا جا سکتا ہے، ایک دوسرے کی پسند نا پسند اور شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے اور  دوریاں مٹائی جا سکتی ہیں- فی الحال  گھر سے باہر والوں سے یہ سب کر کے دیکھنا زیادہ ضروری ہے کیونکہ اس میں مزہ اور فائدہ زیادہ ہے  -  گھر والوں کو پھر کبھی دیکھ لیں گے - باس کو خوش نہ کیا تو ترقی کیسے ہوگی ، گاہک ناراض ہو گیا تو کاروبار کیسے چلے گا - گھر والے تو انتظار اور صبر کر لیں گے اس لئے انکو پھر کبھی وقت دے لیں گے


اور یہ '' پھر کبھی '' کبھی نہیں آئ یہاں تک کے اب اس وبا نے مجبور کر ہی دیا وہ سب کرنے کے لئے جو آج سے پہلے براےنام ہی کیا تھا - شائد اسی لئے عجیب لگتا ہے اور اس لئے غلط فہمی کا شکار ہیں کے ہم اکیلے رہ گئے کوئی بات کرنے کو نہیں نہ کوئی ڈھنگ کی سرگرمی میسر ہے - در اصل آدمی تنہائی کا شکار خود کو صرف اس لئے سمجھتا ہے جب اسے اس کی مرضی کے روابط اور تعلقات نہ مل رہے ہوں , جبکہ وہ در اصل تنہا نہیں ہوتا
 

ماہرین نفسیات اکیلے پن کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنی رائے اور ضرورت کے مطابق  بناے ہوئے روابط  اور تعلقات سے خود کو محروم سمجھتا ہے یا پھر یہ پھر جب اس کے خیال سے یہ تعلقات اور روابط اس کی مرضی کی مقدار اور معیار کے نہیں رہتے تو  وہ تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے

در اصل وہ تنہا ہوتا نہیں خود پر یہ کیفیت  طاری کر لیتا ہے ورنہ پھر لوگ محفل میں بھی خود کو تنہا محسوس نہ کرتے یہ دراصل خود سے خلوت میں ملاقات کا وقت ہے - اپنے اصل کی طرف لوٹ آنے کا وقت - خود شناسی جس کومادی  ترقی کی دوڑ میں کہیں پیچھے بھول آے تھے اور خالص انسان جس کو ہم نیا نیا سا محسوس کرنے لگے ہیں جو در اصل نیا ہرگز نہیں بس اپنی اصل فطرت سلیم پر واپس قائم ہونے لگا ہے جس پر وہ پیدا ہوا تھا
یہ وبا در اصل تمام بنی نوع انسان کو خلوت کے ان  رموز سے آشکار کرنے کے لئے آئی ہے جس سے  آج کا  انسان محظوظ ہونے سے محروم رہا - ان اعلی لذات پر غور کرنے اور اختیار کرنے سے محروم رہا جن سے صرف فطرت سلیم پر فائز وہ اشرف المخلوقات لطف اندوز ہوتے ہیں جن کو وہ خالق پھر اپنے نبیوں، مجددین ، صدیقین اور شہدا کا درجہ دیتا ہے اور اپنے عظیم انعامات سے نوازتا ہے
ہمیں احساس تنہائی سے اپنے پیاروں اور خود سے خلوت کے حصول کی لذت کا سفر اس بات پر غور کرنے سے شروع کرنا ہوگا کہ کیا وہ سب کچھ جو اب تک ہم ضروری خیال کرتے رہے کیا اس وبا کے آنے کے بعد واقعی ضروری رہ گیا ہے ؟ اور وہ سب کچھ جو در اصل ضروری تھا وہ وہ سب کر گزرنے پر کیا ہم اب تیار هوئے بھی ہیں یا نہیں ؟ یا پھر ہم اس وقت کے جیسے تیسے گزر  جانے اور مصیبت کے ٹل جانے کے منتظر ہیں تا کہ واپس اسی پرانی روش اور طرز زندگی کی طرف لوٹ جائیں جس سے نجات دلانے کے لئے یہ وبا آئی ہے؟
کاشف احمد
اسلام آباد ، پاکستان
١٦-٠٤ -٢٠٢٠