Wednesday 22 April 2020

سائیبورگ - مصنوعی اور قدرتی ذہانت کا امتزاج


   



انسان نے جب پہیہ  ایجاد کیا  تو اسے شائد معلوم نہیں تھا کہ یہ مشینوں کی ایجاد کی طرف اس کا پہلا  قدم ہوگا - مشین چاہے کوئی بھی ہو اس کا مقصد انسان کی صلاحیت رفتار اور آسودگی میں اضافہ ہوتا ہے - مشین  چاہے کسی سادہ استعمال کے آلے جیسے چاقو یا چھری یا لباس میں لگائی جانے والی کوئی چین یا زپ کی طرح ہو یا پھر زیادہ پیچیدہ طور پر تیار کردہ کوئی گاڑی یا پھر حساب کتاب میں مدد دینے والا کوئی کیلکولیٹر ہو ، یہاں تک کے کوئی کمپیوٹر ، مقصد ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ انسان کی  صلاحیت ، کارکردگی کی رفتار اور آسودگی میں اضافہ کیا جاے اور اگر یہی مشینیں یا ان میں موجود ان کی بنیادی کارکردگی کا جوہر جیسے مائکرو. پروسیسر  اگر ایک آلے یا گیجٹ  میں استعمال ہونے کی بجاے انسانی جسم سے ایسے منسلک ہو جائیں کے وہ جسم کا حصّہ بن جائیں تو ایک مشین کی صلاحیت اور ذہانت انسانی ذہانت کو چار نہیں چوالیس چاند لگا سکتی ہے 



کسی بھی بیرونی آلے یا عضو کا انسانی  جسم میں لگا دیا جانا کوئی نیا تصور نہیں ہے اسی ٹیکنالوجی کی ترقی یافتہ  شکل یا یوں کہ لیجئے کمپیوٹر  کی دنیا سے منسلک شکل کو ماہرین نے اب مزید بہتر بنا دیا ہے اور ویسے بھی سائی بورگ کوئی نیا یا اچھوتا تصور نہیں - ہم سب ہی در اصل ان سب مشینوں یا گیجٹس  کا استعمال  کرتے ہوئے اپنی لکھنے  پڑھنے ، رابطے , تفریحی سرگرمیوں اور کام  کی صلاحیت میں  اضافہ کرتے ہیں - یہ ایک طرح سے خود کو سائی بورگ بنا لینے کے مترادف ہی تو ہوتا ہے 

دور جدید کی حیرت انگیز ایجادوں میں سے ایک ایجاد آر ایف آئی ڈی چپ کی ایجاد ہے یہ مخفف ہے  ریڈیو فریکوینسی آئی ڈینٹفکشن کا  جس کی مدد سے چھوٹے سائز کی ڈیوائس یا چپ اور انٹینا کو کسی بھی چیز یا شخص کی شناخت کی معلومات محفوظ کرنے کے بعد اس سے منسلک کر دیا جاتا ہے جس نکے بعد کسی بھی شناختی دستاویز جیسے سوشل سیکورٹی ، قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی ضرورت نہیں رہتی اور ہر اس جگہ جہاں اس قسط کی شناخت کی ضرورت ہوتی ہے وہاں بس شناخت کے سکینر با آسانی کسی کو بھی شناخت کر لیتے ہیں 

یہ بلکل ویسے ہی کام کرتا ہے جس طرح دوکانوں  اور شاپنگ مالز میں موجود اشیا کی خریداری کے دوران ان کی پشت پر موجود ایک بار کوڈ کو کیش کاؤنٹر پر ایک بار کوڈ ریڈر پڑھ لیتا یا کریڈٹ کارڈ کی پشت پرموجود ایک سیاہ پٹی کو کارڈ سوائپنگ مشین یا اے ٹی ایم  پڑھ لیتی ہے  - فرق صرف یہ ہے کہ آر ایف آئی ڈی چپ کو کافی فاصلے سے پڑھ لیا جاتا ہے اور اس صدی کے اوائل میں ہی امریکا میں  انسانوں میں آر ایف آئی ڈی چپ منسلک یا امپلانٹ کئے جانے کی منظوری دے دی گئی تھی  یہ ار ایف آئی ڈی چپ ابتدا  میں دو سو ایم بھی معلومات کا ڈیٹا محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے 

 وہ وقت آن پہنچا  ہے  جب انسان ہاتھ کے اشاروں سے مختلف کمپیوٹر یا موبائل فون ایپس  ، نقوش ، تصاویر ، ویڈیوز یہاں تک کے عبارت بھی اپنے سامنے فضا میں معلق کر کے    کنٹرول کر سکتا ہے اس  ٹیکنالوجی کو مائکرو. سوفٹ نے ہالو لینز کا نام دیا ہے اور اس سے بھی آگے ایسی ٹیکنالوجی کو انسپائر کہا جاتا ہے- مگر یہ بھی ابھی تک انسان کا بیرونی طور پرعلیحدہ  کسی ڈیوائس یا گیجٹ کا جدید استعمال  ہے جیسے  ہم کوئی فون ،  لیپ ٹاپ یا کیلکولیٹر الگ سے   استعمال کرتے ہیں اور وہ ہمارے جسم اور دماغ میں امپلانٹ یا منسلک نہیں ہوتا ۔ 

انیس سو نواسی   میں برطانوی خبر رساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں سپر ہیومنز ’’سائیبورگ‘‘ کا نام پہلی مرتبہ استعمال کیا جب مشہور فلم '' سائی بورگ '' سینما میں نمائش کے لئے پیش ہوئی ۔ آئی بی ایم کے ہرسلی انوویشن سینٹر کے سینئر موجد جان میک نمارا کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک ایسی انسانی نسل پیدا ہوگی جنہیں آدھا انسان ،آدھی مشین کہا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دو دہائیوں کے دوران ہونے والی ترقی انسان کو شعور اور آگہی کی بلندیوں پر لے جا چکی ہے جس کی مدد سے اب کمپیوٹر پروسیسر انسانی دماغ سے منسلک کیا جاسکتا ہے 

اور وہ دن دور نہیں جب انسان کمپیوٹر کی تمام صلاحیتیں بغیر کسی بیرونی گیجٹ یا مشین کی مدد سے براہ  راست اپنے ہی دماغ میں استعمال  کر سکے گا بلکل ویسے ہی جیسے کسی موبائل یا لیپ ٹاپ میں آپ آپریٹنگ سسٹم اور دوسری ایپس اور پروگرام انسٹال کر کے موثر طور پر استعمال کرتے ہیں ویسے ہی انسانی دماغ میں پروسیسر منسلک ہونے کے بعد کر پائیں گے 

ماہرین کا کہنا ہے کہ جس تیزی کے ساتھ مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کے شعبے میں ترقی ہو رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں  انجکشن کے ذریعے انتہائی باریک پروسیسر جسم میں شامل کر کے انسانوں کو زبردست طاقت مہیا کی جاسکے گی ۔ جس سے وہ ’’سپرمین‘‘ بن جائینگے۔ مصنوعی ذہانت کی حامل باریک مشینیں جنہیں نینومشینز کہا جاتا ہے ایسی ہی ہوں گی جیسے موجودہ دور میں جسم میں مختلف امپلانٹس لگائے جاتے ہیں

میرا ماننا ہے کہ آجکل کی وبا در اصل انسان کو اس جدید ٹیکنالوجی یعنی مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کی جانب توجہ مرکوز کرنے اور اس کے استعمال کو جلد از سیکھنے کی طرف مجبور کرنے کے لئے آئ ہے کیونکہ صنعتی انقلاب کا وقت اب اپنے آخری دموں پر ہے-اور جلد ہی مروجہ معاشی ترقی کے وسائل اور طریقے متروک اور غیر ضروری ہو جائیں گے  جس کے بعد انسان کے پاس موجودہ  طرز زندگی کو جلد از جلد ترک کر کے مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کے دور میں داخل ہونا ہے تاکہ ان حالات میں اپنی زندگی کو بہتر طور پر ترقی کی جانب گامزن رکھ سکے 

کاشف احمد 
اسلام آباد ، پاکستان 
٢١- ٠٤-٢٠٢٠ 

No comments: