Thursday 16 April 2020

اس وبا کا حسین پہلو



اور جب لوگ گھروں میں ہی رہنے لگے کتابیں پڑھ کر یا (آڈیو بکس) سن کر وقت گزارنے لگے - آرام کرنے، ورزش کرنے، فن پارے تخلیق کرنے اور کھیلوں میں وقت صرف کرنا سیکھ گئے - جینے کے نئے انداز اپنا لئے اور ٹھہر سے گئے .. دھیمے سے ہو کر مزید گہرائی میں جا کر سننے اور سمجھنے لگے. کچھ لوگ عبادت میں لگ گئے، دعاؤں میں  مشغول ہو گئے اور کچھ رقص میں - کچھ کی اپنے ہی سائے سے ملاقات ہوئی اور سب ہی لوگ مختلف اور ہٹ کر سوچنے لگے

اسطرح پھر لوگوں کو شفاء حاصل ہونے لگی اور جب اس  جہالت ، بد دماغی  ، بے حسی, پتھر دلی اور سفاکی سے دنیا پاک ہو گئی تو زمین کو بھی شفاء نصیب ہوئی

اور آخر جب خطرہ ٹل گیا , لوگ آپس میں مل بیٹھنے لگے تو اپنے اپنے نقصانوں پر دکھ کا اظہار کرتے  ہوئے   زندگی  گزرانے کے نئے اندازاور نئے تخیلات کے نقوش سے  اپنے خوابوں کو سجانے لگے - پھر زندگی ایک بلکل اچھوتے  انداز , نئی سوچ کے ساتھ رواں دواں ہوئی تو زمین مکمل شفایاب ہو گئی کیونکہ لوگ اس علاج کے بعد اب  پوری طرح تمام نقصان دہ صحبتوں, عادات اورروحانی بیماریوں سے شفایاب  ہو چکے تھے
 مشہور مصنف کیٹی اومارا کی   کتاب '' پیپل سٹیڈ ہوم ''  سے ایک  اقتباس کا اردو ورژن
 جن حالات میں ہم آجکل رہ رہے ہیں ، یعنی سن بیس سو بیس کی اس وبا کے دنوں میں ہمیں بہت واضح طور پر اکیلے پن تنہائی , معاشرتی دوری اور خلوت  کے فرق کو سمجھ لینا ہوگا ورنہ ہم با آسانی  ان  کو آپس میں گڈ مڈ کر کے ایک ہی چیز سمجھ لیں گے

 جہاں ہماری زبان نے ہمیں تنہائی جیسے لفظ سے روشناس کروا کر تکلیف  دہ احساس کوجگایا  ہے وہیں ایک اور لفظ '' خلوت '' بھی عطا کیا ہے جو اس کے معنی کو عظمت عطا کرتا ہے - یہ وہ خلوت ہے جس میں موسیٰ علیہ السلام کو بلایا گیا  اور پھر وہ  خالق اپنے بندے .. اپنے نبی سے طور سینا پر ہمکلام ہوا  یہ وہی خلوت ہے جس کے نتیجے میں غار حرا میں آقاے دو جہاں ﷺ کو نبوّت کا عظیم مرتبہ اور پوری انسانیت کے لئے ہدایت کا سرچشمہ نازل ہوا
ان حالات میں کبھی کبھار مکمل علیحدگی کی ضرورت پڑ سکتی ہے مگر اس وقت بھی رابطے سے روکا نہیں جاتا بات چیت پر کوئی پابندی نہیں کوئی آپکو ہمدردی کا اظہار کرنے ، دلجوئی ، حوصلہ افزائی اور پیار سے پیش آنے سے نہیں روک سکتا - وہ سب کام جو آپ نے  آج سے پہلے بس اس لئے موخر کئے رکھے کہ چلو یہ تو میرے اپنے  گھر کے افراد ہی ہیں ، ان سے کبھی بھی بات چیت ہو سکتی ہے ، جذبات کا اظہار اور مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے مشکلات اور ضروریات  جانی جا سکتی ہیں ، کچھ سیکھا سکھایا جا سکتا ہے، ایک دوسرے کی پسند نا پسند اور شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے اور  دوریاں مٹائی جا سکتی ہیں- فی الحال  گھر سے باہر والوں سے یہ سب کر کے دیکھنا زیادہ ضروری ہے کیونکہ اس میں مزہ اور فائدہ زیادہ ہے  -  گھر والوں کو پھر کبھی دیکھ لیں گے - باس کو خوش نہ کیا تو ترقی کیسے ہوگی ، گاہک ناراض ہو گیا تو کاروبار کیسے چلے گا - گھر والے تو انتظار اور صبر کر لیں گے اس لئے انکو پھر کبھی وقت دے لیں گے


اور یہ '' پھر کبھی '' کبھی نہیں آئ یہاں تک کے اب اس وبا نے مجبور کر ہی دیا وہ سب کرنے کے لئے جو آج سے پہلے براےنام ہی کیا تھا - شائد اسی لئے عجیب لگتا ہے اور اس لئے غلط فہمی کا شکار ہیں کے ہم اکیلے رہ گئے کوئی بات کرنے کو نہیں نہ کوئی ڈھنگ کی سرگرمی میسر ہے - در اصل آدمی تنہائی کا شکار خود کو صرف اس لئے سمجھتا ہے جب اسے اس کی مرضی کے روابط اور تعلقات نہ مل رہے ہوں , جبکہ وہ در اصل تنہا نہیں ہوتا
 

ماہرین نفسیات اکیلے پن کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنی رائے اور ضرورت کے مطابق  بناے ہوئے روابط  اور تعلقات سے خود کو محروم سمجھتا ہے یا پھر یہ پھر جب اس کے خیال سے یہ تعلقات اور روابط اس کی مرضی کی مقدار اور معیار کے نہیں رہتے تو  وہ تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے

در اصل وہ تنہا ہوتا نہیں خود پر یہ کیفیت  طاری کر لیتا ہے ورنہ پھر لوگ محفل میں بھی خود کو تنہا محسوس نہ کرتے یہ دراصل خود سے خلوت میں ملاقات کا وقت ہے - اپنے اصل کی طرف لوٹ آنے کا وقت - خود شناسی جس کومادی  ترقی کی دوڑ میں کہیں پیچھے بھول آے تھے اور خالص انسان جس کو ہم نیا نیا سا محسوس کرنے لگے ہیں جو در اصل نیا ہرگز نہیں بس اپنی اصل فطرت سلیم پر واپس قائم ہونے لگا ہے جس پر وہ پیدا ہوا تھا
یہ وبا در اصل تمام بنی نوع انسان کو خلوت کے ان  رموز سے آشکار کرنے کے لئے آئی ہے جس سے  آج کا  انسان محظوظ ہونے سے محروم رہا - ان اعلی لذات پر غور کرنے اور اختیار کرنے سے محروم رہا جن سے صرف فطرت سلیم پر فائز وہ اشرف المخلوقات لطف اندوز ہوتے ہیں جن کو وہ خالق پھر اپنے نبیوں، مجددین ، صدیقین اور شہدا کا درجہ دیتا ہے اور اپنے عظیم انعامات سے نوازتا ہے
ہمیں احساس تنہائی سے اپنے پیاروں اور خود سے خلوت کے حصول کی لذت کا سفر اس بات پر غور کرنے سے شروع کرنا ہوگا کہ کیا وہ سب کچھ جو اب تک ہم ضروری خیال کرتے رہے کیا اس وبا کے آنے کے بعد واقعی ضروری رہ گیا ہے ؟ اور وہ سب کچھ جو در اصل ضروری تھا وہ وہ سب کر گزرنے پر کیا ہم اب تیار هوئے بھی ہیں یا نہیں ؟ یا پھر ہم اس وقت کے جیسے تیسے گزر  جانے اور مصیبت کے ٹل جانے کے منتظر ہیں تا کہ واپس اسی پرانی روش اور طرز زندگی کی طرف لوٹ جائیں جس سے نجات دلانے کے لئے یہ وبا آئی ہے؟
کاشف احمد
اسلام آباد ، پاکستان
١٦-٠٤ -٢٠٢٠


No comments: