Monday 28 October 2019

جاگ بنا ددھ نئیں جمدا پانویں لال ہوئے کڑھ کڑھ کے

با با بُلھے شاہ کی یہ بات اکثر لوگوں  نے سنی ہوئی ہے اور شائد اس بات کو کچھ لوگ سمجتھے بھی ہونگے مگر مانتے صرف وہ ہیں جو سامنے نظر آ جاے یا جو بظاہر  زیادہ اور ماحول پر چھایا ہوا نظر آ رہا ہو

 

دریا ، پہاڑ  اور سمندر سب جانتے ہیں مانتے بھی ہیں لیکن بہت کم ہیں جوان کے وجود میں آنے  کی وجہ اس کے آغاز اور اس میں چھپے اسرار و رموز اور ان سے حاصل ہونے والے فائدے اور نقصانات پر غور کرتے ہیں نہ ہی یہ غور کرتے ہیں کے ان کا آغاز کہاں سے اور کیوں ہوتا ہے نا ہی اختتام کی وجہ اور پھر ان کے  تخلیق ہونے کی وجہ  اور ان کا خالق کون ہے اور کیوں ہے ؟

 

کیونکہ اکثر کا ایمان ظاہر پر زیادہ اور باطن پر کم ہوتا ہے یا پھر سرے سے ہوتاہی نہیں ہے- باطن یعنی غیب پر ایمان کے لئے غور کرنا پڑتا ہے گہرائی میں جانا پڑتا ہے ہے جو سطحی سوچ کے ساتھ ممکن نہیں -

 

جیسے یہ بات سب جانتے ہیں کہ برکت کے بغیر کتنی بھی دولت ہو کسی کام کی نہیں دانائی اور عقل کے بغیر پیسہ نقصان دہ ہو جاتا ہے - اسی طرح جب تک سمبھالنے کی دانائی نہ ہو تو کتنی بھی طاقت ملے کوئی فائدہ نہیں صرف نقصان ہی نقصان ہے

 

ایٹم کی طاقت بے فائدہ اور نری تباہی ہے جب تک اسے کابو کرنے کی سمجھ اور دانائی  نا ہو- اسی طرح ہر چھوٹے سے چھوٹی  چیز جسے اس خالق نے تخلیق کیا بغیر کسی رہنمائی  اور درست راہ کے تعین اور طریقے کے بے فائدہ بلکہ  نقصان دہ ہو جاتی  ہے- جب تک کوئی رہبر کوئی ذمہ دار سرپرست  نا ہو اور اس کی دانائی کی جاگ نا لگے کسی انسان کی زندگی درست سمت اختیار نہیں کرسکتی اور نہ ہی اس پر قائم رہ سکتی ہے نا ہی سہی سمت میں ترقی کر سکتی ہے- یہاں تک کے پانی جیسی زندگی بخش شے بھی جان لیوا بن جاتی ہے  

 اسی لئے خالق نے جہاں کوئی طاقت تخلیق کی، ہمت, جوش, عقل اور فیصلہ کرنے کی قوت اور آزادی دی وہاں رہنما اور سرپرست کا انتظام بھی کیا جو نا صرف اس قوت اور مال و  اسباب کا درست اور موثر استعمال سکھانے اور اسے چینلآئزکرنے  کے کام پر مامور ہوتا ہے بلکہ وہی ذمہ دار اور جواب دہ بھی بنایا گیا- مگر ہماری سطحی سوچ اکثر اس کو بے جا پابندی اور روک ٹوک سمجھ کر راہ فرار اختیار کرلیتی ہے یا بغاوت اور سرکشی پر اتر آتی ہے -

 

خاندان کی بنیادی اکائی کے  سربراہ مرد سے لے کر ہر سطح پر اس نظام کو درست  سمت  چلانے والے چاہے وہ کسی درجے پر مامور ہوں ذمہ دار اور جواب دہ بنا دئیے گئے چاہے وہ کوئی  بہانہ کریں مجبوری لاچاری بے بسی کا رونا روئیں ذمہ داری اور جواب دہی انہی کی ہوتی ہے

 

یہ ‘’جاگ’’ وہ پوشیدہ جزو ترکیب لیکن ایک مرکزی عنصر جس کے بغیر دنیا کا کوئی بھی کام کوئی بھی کاروباریا مال و اسباب کسی کام کے نہیں- اسکو اکثر لوگ یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں یا اتنی اہمیت رتبہ اور تعظیم نہیں دیتے جتنا اس کا حق ہے

 

جب تک سرپرستی نہ ہو کوئی راہ سجھآنے والا نا ہوکسی بھی طرح سے کچھ بھی ممکن نہیں ہو سکتا- اسی بیش بہا تجربے اور دانائی کی ‘’جاگ’’ چند سالوں میں آدمی کو انسان بنا ڈالتی ہے جس کی خاطر نسلوں کی نسلیں صدیوں کوشاں رہتی ہیں مگر وہ کبھی بھی ایک پرشکوہ شاندار قوم نہیں بن پاتی- کون سوچتا ہے کہ  وہ رہنما وہ سرپرست وہ سکھانے والا جو چپ چاپ بنا کسی تعریف شتائش اور انعام کی  لالچ کے،  اپنا کام کرتا رہا .. آخر کون تھا وہ ؟ -

 

 بڑی کامیابی حاصل ہونے پر اس کامیابی حاصل کرنے والے کو تو سب سر پر اٹھا لیتے ہیں مگر اس کامیابی کی وجہ بننے والے استاد یا کوچ اور رہنما کو کوئی میڈل نہیں پہناتا نہ کوئی اس باپ کو ملنے آتا ہے نا انٹرویو کرتا ہے نا  ہی انعام دیتا ہے جس کی اولاد کسی مقابلے کسی کارنامے یا جیت کے بعد سب کی آنکھ کا تارا بن گئی اور جس کے بغیر ایک ماں  بھی ماں نہیں بن پاتی -

 

خاندانی اقدار اور تعلیم اور سب سے بڑھ کر تربیت جو در اصل سکھانے سے کہیں زیادہ شخصیت کے نمونے سے ایک بلند کردار تشکیل پاتا  ہے یہ کسی  اور شارٹ کٹ سے ممکن نہیں ہوتا - پھر ہم سوچتے ہیں کے ایسا کیوں نہیں ہوتا ہے کہ  ہم میں سے اکثر لوگ کامیاب نظر آئیں- اکثر لوگ شاندار کارنامے کریں یا سب ہی بہت شاندار شخصیت کے مالک ہوں - آخر کیوں سب ہی والدین کی اولاد اتنی ہونہار نہیں ہوتی ؟ اس کی وجہ وہی پوشیدہ جزو اور مرکزی عنصر ہوتا ہے جس کوبزرگان نے ‘’جاگ’’  کا نام دیا ہے

 

وہ خاص جزو ترکیب وہ مرکزی عنصر جس کو ہم اہمیت نہیں دیتے مانتے نہیں اور غور نہیں کرتے در اصل پایا بھی بہت کم مقدار میں جاتا ہے مگر طاقت میں اتنا پراثر ہوتا ہے کہ چھو جاے تو پتھر کو سونا بنا ڈالے-  وہ کرم وہ نوازش وہ فضل جب تک نہیں ملتا تعداد اور کثرت اسباب کا کوئی فائدہ نہیں اسی لئے وہ عظیم ٣١٣ ہزراوں کے لشکر پر بھاری پڑے اسی لئے ان کی طاقت اور ہیبت اور رعب کے آگے کوئی بڑے سے بڑی فوج نہ ٹھہر سکی اور ان کے دلوں کو جیت لینے کی خداداد صلاحیت ان کی فکر اور فہم نے بہت سے بظاہر نا ممکنات کو ممکن بنا ڈالا کیونکہ ان کے ساتھ الہی تائید کے موجزات شامل ہوۓ

 

یہ ایک انسان جو گمنام دوردراز جگہ پر ایسا نام بنا ڈالتا ہےکہ  پوری دنیا میں اس کے نام کا ڈنکا بجنے لگتا ہے کسی بھی مال و اسباب اور دنیاوی مدد کے آلات اور آسائش کے بغیر ایک چھوٹی سی روشنی ایک سے دو پھر دو سے چار دلوں کو روشن کرتی ہے اور پھر یہ سلسلہ چل نکلتا ہے اور پوری دنیا پر چھا جاتا ہے

 

آخر وہ بھی مان لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو اس وقت نہیں سمجھتے نہ مانتے ہیں جب یہ روشنی بظاہر ان کی نظر میں کمزور اور ہلکی سی ہوتی ہےاور  وہ تو اس کے وجود کے بھی انکاری ہوتے ہیں مگر جب یہ دور دور تک پھیل کر ساری دنیا پر نمایاں نظر آتی ہے تو مان لینا پڑتا ہے لیکن وہ مان لینا بھی کیا مان لینا ہوا ؟ یہ وہ مان  لینے والے ہیں جو صرف کثرت کو دیکھ کر چڑھتے سورج کو دیکھ کر اورعوام کی اکثریت کو پیروی کرتا دیکھ کر مان لیتے ہیں-

 

 وہ چھوٹی سی ‘’جاگ’’ جس کے بغیر دودھ سے دہی نہیں بن سکتا چاہے کتنا بھی چولہے پر چڑھ کر لال ہو جاے اور کڑھتا رہے اس کو کون مانتا ہے ؟ کون یاد رکھتا ہے اور کون سراہتا ہے؟ اکثر لوگ بس اس دودھ کی کثرت اور پھر چولہے پر اس کی ہمّت کو دیکھتے ہیں اور پھر اس سے حاصل ہونے والے دہی کی داد دیتے ہیں-

 

جاگ دراصل وہ وصف ہے جو دانائی اور اس کے مبدا سے بھرپور وابستگی سے لگتی ہے-   یہی وہ وصف ہے وہ وابستگی ہے جو در اصل انسان میں وہ جاگ لگاتی ہے جس سے آدمی اشرف المخلوقات بن کر انسان کامل کے درجے کو پہنچتا ہے اور نسل در نسل یہی اقدار آگے چلتی رہتی ہیں-

 

کاشف احمد


Thursday 10 October 2019

ماحول اور صحبت کا اثر پانی پر بھی ہوتا ہے - ایک منفرد تحقیق



یہ بات تو آپ نے سنی ہوگی کے سولومن جزائر میں جب کسی تعمیر کی غرض سے درختوں کو ہٹانا پڑتا تو انہیں کاٹا نہیں  جاتا بلکہ لوگ ارد گرد جمع ہو کر ان درختوں کو برا بھلا کہنے لگتے اور خوب صلواتیں سناتے- دیکھتے ہی دیکھتے کند ہی ہفتوں میں وہ درخت سوکھ کر مر جاتے

خود ہے اندازہ لگائیں پھر ان صلواتوں اور برا بھلا کہنے اور کوستے رہنے کا انسانوں پر کتنا اثر ہوتا ہوگا - جنکو یہ بات آسانی سے ہضم نہیں ہوئی وہ  اس حیران کن بات کو مزید تفصیل سے سمجھنے کے لئے بروس لپٹن کی کتاب دی بیالوجی  آف بیلیف  کا ضرور مطالعہ کریں جس میں انہوں نے مزید تفصیل سے سولومن جزائر کے لوگوں کا یہ طریقہ اور اسی طرح سے دیگر ایسے  بظاھر عجیب غریب  اثرات کا انسانی حیوانی اور نباتاتی حیات پر رونما ہونا ثابت کیا ہے

بات یہاں تک ختم نہیں ہو جاتی  یوٹیوب پر ایک وڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں ایک صاحب کچھ ایسا ہی تجربہ کر رہے تھے کے جس کو دیکھ کر مجھے مزید تجسس ہوا کہ جانداروں پر تو برا بھلا کہنے اور زہریلی گفتگو کا شدید منفی اثر اب تک دیکھا جا چکا ہے کیا بے جان چیزوں پر بھی ایسا اثر ہوتا ہے

پانی جسے انسانی زندگی کی بنیاد کہا جاتا ہے اس کی اہمیت اور وقعت بیان کرنے کی ضرورت نہیں، مگر کیسا رہے اگر آپ کو یہ معلوم ہوجائے کہ پانی بھی پر بھی ماحولیاتی آلودگی کا بہت اثر ہوتا ہے میں اس آلودگی کی بات نہیں کر رہا جس سے سب واقف ہیں میں اس  کی بات کر رہا ہوں  جس  کو  منفی ، زہریلی گفتگو کہتے ہیں اور جس کا اثر شائد دیگر الّدگیوں سے کھین زیادہ ہوتا ہے ۔ پانی  آپ کی سوچ، خیالات، گفتگو، الفاظ اور ماحول سے متاثر بھی ہوتا ہے اور آپ کی زندگی میں اثر انداز بھی۔ یہ اپنی ایک یادداشت رکھتا ہے اور آپ کے ساتھ باقاعدہ کمیونیکیٹ کرتا ہے۔

یہ انسانی جسم سے نکلنے والی شعاؤں اور الفاظ کے اثر کو اپنے اندر سمو لیتا ہے اور یہ شعائیں پانی کی تاثیر پر اثرانداز ہوتی ہیں اور پھر جب یہی پانی انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے تو یہ انسانی ذہن اور صحت میں تبدیلیاں لاتا ہے۔ مختصر یہ کہ پانی اپنی ایک میموری رکھتا ہے اور اس میموری کی بنیاد پر اپنے اثرات مرتب کرتا ہے۔

یہ کو مافوق الفطرت بات نہیں یہ باتیں جاپان کے مشہور ڈاکٹر آف  آلٹرنٹیو میڈیسن اور مصنف ، ماسارو ایموتو نے 1999ء میں اپنی شائع ہونے والی کتاب ’دی میسج فرام واٹر‘ میں کی ہیں۔ انہوں نے پانی پر ہونے والے ان اثرات کو ہیڈو افیکٹس کا نام دیا تھا۔ پانی کی اس شاندار ممکنہ خوبی پر جاپان کے مشہور اور مستند  انسٹیٹیوٹ ہا ڈو میں تحقیق کی گئی اور یہ جانچنے کی سعی کی گئی کہ کیا سچ میں پانی پر اپنے آس پاس کی اشیا، انسانی جذبات، سوچ اور رویوں کا اثر ہوتا ہے؟

ہا ڈو انسٹیٹوٹ میں پانی  کے  2 نمونے لیے گئے اور ان میں سے ایک پر انگریزی لفظ  فیملی ، لوو اور تھینک یو  اور دوسرے پر  یو میڈ می سک (یعنی تم نے مجھے بیمار  بنا دیا ) کا جملہ تحریر کیا گیا۔ کچھ دیر بعد، اُس پانی کو جما دیا گیا، جب یہ پانی مکمل طور پر برف بن گیا تو جدید خوردبین کے ذریعے اس برف کے ذرات کی تصویر لی گئی اور نتائج حیران کن تھے، جس پانی پر لفظ ’فیملی‘، ’لو‘ اور ’شکریہ‘ لکھا گیا تھا اُس کے کرسٹلز نہایت خوبصورت، متوازن اور دلکش تھے جبکہ جس پانی پر لفط ’یو میڈ می سک‘ لکھا گیا تھا اُس کے کرسٹلز نہایت گندے اور بدصورت نکلے۔

انسٹیٹیوٹ کے مطابق اس تجربے سے یہ بات ثابت ہوئی کہ پانی بھی  زندگی رکھتا ہے اور ہمارے الفاظ اور رویے اس پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس کے بعد 350 افراد کی ایک ٹیم نے جاپان میں ایک جھیل پر یہ تجربہ کرنے کی ٹھانی۔ اس جھیل کا نام ’بیوا‘ تھا اور 1999ء میں یہ جھیل اپنی تمام تر خوبصورتی کھو چکی تھی، اس کے پانی سے شدید بدبو آتی اور اس کے پانی میں جراثیم کی تعداد بے حد بڑھ چکی تھی۔ علاقہ مکینوں کو یہ شکایت بھی تھی کہ اب اس جھیل کے پانی سے فصلیں اور کھیت کھلیان بھی نہیں اُگ رہے

تحقیق میں شامل کار افراد پر مشتمل ٹیم نے اس جھیل کو پہلے جیسا بنانے کا فیصلہ کیا۔  مثبت خیالات کو جھیل کے پانی میں ٹرانسمٹ کرنے کے لیے انہوں نے جھیل کے گرد گھیرا بنایا اور اُسے اپنے ذہن اور جسم سے نکلنی والی شعاؤں کے ذریعے پیغام بھیجنے لگے۔ انہوں نے جھیل کو پیغامات بھیجے کہ وہ  تمام تر غلاظت اور زہریلے کیمیات کونکلا کر دے ۔

حیران کن طور پر اُس جھیل نے نہ صرف وہ پیغامات قبول کیے اور اُن کا اثر لیا بلکہ ان افراد کو اُن کے پیغام کا جواب بھی دیا۔ تقریباْ 2 ہفتے بعد جب اُس پانی کے نمونے جمع کر ذرات کا مشاہدہ کیا گیا تو اس کے کرسٹلز میں بہت عمدہ تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ پیغامات بھیجنے کا سلسلہ جاری رہا اور آہستہ آہستہ جھیل صاف ہوتی گئی، اُس کی رعنائی لوٹ آئ اور وہ اپنی اصلی شکل میں واپس آگئی۔ یہ واقعہ اس وقت کے اخبارات اور رسائل میں رپورٹ کیا گیا۔

جیسے جیسے تحقیق آگے بڑھتی گئی تخلیق انسانی اور اس کے اشرف المخلوقات  ہونے کی  عظمت اور کمالات افشا ہوتے گئے اور برگزیدہ ہستیوں اور بزرگوں کی شخصیت کا اثر اور دعاؤں میں تاثیر کے ساتھ ان کے دم کرنے کا عمل بھی سمجھ میں انے لگا  ۔ موجزات پر مزید یقین پختہ ہوتا چلا جاتا ہے جب انسان الله کی بنائی ہوئی کائنات پر غور اور تحقیق کرنے لگتا ہے جس کا وہ بار بار قرآن کریم میں حکم بھی دیتا ہے

تحقیقات نے ثابت کیا کہ انسان پر اُس کے ماحول، حالات اور سوچ کے بہت گہرے اثرات ہوتے ہیں۔   انسانی سوچ نہ صرف جسمانی اور ذہنی صحت پر اثرانداز ہوتی ہے بلکہ اس کے اثرات دوسرے لوگوں یہاں تک کے نباتات حیوانات کے علاوہ پانی پر بھی ہوتے ہیں۔ اچھی اور مثبت سوچ کے حامل افراد کے جسم میں سے مثبت لہریں نکلتی ہیں جو آس پاس کے ماحول، افراد اور چیزوں پر اثرانداز ہوتی ہیں  ۔ جبکہ منفی سوچ، خیبت، اضطراب، حسد، بغص، کینہ اور اس قسم کے دیگر خیالات انسانی صحت کے ساتھ ساتھ ماحول کے لیے بھی نہایت نقصاندہ ہیں۔ انسانی جسم میں پانی کی تناسب ٥٠ سے ٦٠ن فیصد تک ہوتا ہے اور اسی لئے شائد پانی زندگی کی علامت ہے

ایک اندازے کے مطابق یہ مثبت یا منفی شعائیں 8 میٹر تک کے علاقے پر اثر انداز ہوتی ہیں ۔ اسی کو صحبت کا اثر بھی کہا جاتا ہے اور بار بار ہمیں تاکید بھی کی جاتی ہے کے صحبت صالحین اختیار کرو - غور کریں تو آپ بچوں کے ساتھ کیوں اتنا اچھا محسوس کرتے ہیں اور ان کے ساتھ بچہ بن جانے میں خوش ہوتے ہیں اس کی یہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیت خالص اور خوشگوار ہوتی ہے اور مثبت شعائیں یعنی پازیٹو وائبز منعکس کر رہی ہوتی ہیں جس سے آپ طبیعت میں فرحت اور تازگی محسوس کرتے ہیں بلکل اسی طرح نیک اور خوش اخلاق لوگوں کی صحبت کا اثر ہوتا ہے جن کے ساتھ رہنے سے نہ صرف طبیعت ہشاش بشاش ہوتی ہے بلکہ آپکی شخصیت میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں-  انسانی رویوں کا مشاہدہ کیا جائے تو بھی یہ بات سامنے آتی ہی کہ جو افراد مثبت سوچ اور خیالات کے حامل ہوتے ہیں اُن کی ذاتی زندگی نہایت خوشگوار اور قابل رشک ہوتی ہے۔ وہ زندگی زیادہ اچھے انداز میں جیتے ہیں، اُن کی صحت بہتر رہتی ہے، ان کے رشتوں میں زیادہ پائیداری ہوتی ہے اور وہ ہر مشکل، پریشانی پر جلد قابو پالیتے ہیں۔

دراصل انسان کی سوچ اور کردار جتنا مثبت ہوگا اتنا ہی اس کی زندگی خوشیوں اور کامیابیوں سے بھرپور ہوگی۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ نیک اور دانا تجربہ اور دین و دنیا میں کامیاب لوگوں کی صحبت میں رہیں اور اپنے ماحول میں ان کی زیادہ سے زیادہ موججودگی کو ممکن بنائیں جس سے خود بخود ہماری شخصیت میں دانائی اور مثبت تبدیلی پیدا ہوگی اور خوشگوار  کامیاب  اور صحت مند زندگی کے ساتھ  ہم بھی  مثبت رویوں سے دوسروں کے دل جیتیں اور مشکل سے مشکل صورتحال میں کامیابیاں سمیٹیں۔ بلاشبہ کچھ لوگ اپنی منفی روش سے باز نہیں آئیں گے اور ممکن ہے کہ وہ اپنی منفیت کا اثر آپ پر بھی ڈالنے کی کوشش کریں لیکن آپ کو ان سے بھی مثبت رویہ روا رکھنا چاہیے. مثبت سوچ اور شیریں الفاظ کے استعمال کی شروعات آپ خود سے کریں، زندگی اور دنیا خود بخود خوبصورت بنتی چلی جائے گی.

کاشف احمد
اسلام آباد پاکستان
٩ اکتوبر ٢٠١٩


Monday 7 October 2019

منفی سوچ زندگی کو کیسےبرباد کرتی ہے


  جیسا کہ میں نے اپنے پہلے شائع شدہ  مضمون میں سٹیو ریزو  کے نہایت  دلچسپ آرٹیکل کا ذکر کیا تھا  جو منفی سوچ اور رویہ کہ  زندگی پرتباہ کن اثرات پر بہت دلچسپ انداز سے  لکھا گیا ہے 

وہ کہتے ہیں میں ایک منفی خیالات کی حامل خاتون  کو جانتا ہوں جو کئی سال ایک خوبصرت جگہ پر چھٹیاں منانے کے لئے پیسہ جمع کرنے کے بعد آخر وہاں پنہچیں تو لگاتار بارش ہوتی رہی اور اس کی چھٹیاں برباد ہو کر رہ گئیں

یہ بات بہت غور طلب ہے کے جب آپ منفی سوچ والے دماغ کے مالک ہوتے ہیں تو جتنا بھی اچھا آپ کی جانب آتا نظر آے اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ برا ضرور ہوگا- اس کو نفسیات کی زبان میں ایور سنڈروم کہا جاتا ہے جس میں انسان اپنے آپ کو گہری کھائی میں گرا ہوا محسوس کرتا ہے کیونکہ ایسا مریض اکثر علاج سے اس قدر کتراتا ہے کہ مستقل نظر انداز کر کے رکھتا ہے اور ڈپریشن ہی اس کی مستقل بیماری ہوتی ہے جس کو وہ ایک عام  سی نارمل بات سمجھ کر زندگی  گزارتا  رہتا ہے اور اسے ذہنی بیماری تسلیم ہی نہیں کرتا - خود بھی تکلیف میں رہتا ہے اور اپنے ارد گرد اپنے پیاروں کو بھی مستکل اذیت اور پریشانی میں رکھتا ہے جو آخر کار خود مریض بننے لگتے ہیں

اس خاتون کی حالت دیکھ کر مجھے ونی دا پووہ میں مشہور کردار یاد آنے  لگا جو پووہ کا دوست ایک گدھا ہے جو  ہر وقت اپنی اگلی بد قسمتی کا منتظر رہتا ہے اور یہی خود کلامی کرتا رہتا ہے-  مجھے یقین ہے اگر ان خاتون کا کبھی اچانک پچاس لاکھ کا انعام نکل آیا  تو کہیں گی '' مجھے یقین ہے میرے ساتھ یہی ہونا ہے ، اب حکومت اس میں سے پچیس لاکھ تو ٹیکس کاٹ لے گی اور میرے  ہاتھ آدھے پیسے ہی لگیں گے ''.. ایسے میں دل کرتا ہے آدمی ان کے سر کے پیچھے ایک چپت لگا کر کہے '' بس بھی کرو اب ''...جب یہی خاتون اپنی چھٹیوں سے لوٹیں تو پوری تفصیل سے اپنی دکھ بھری کہانی تکلیف دہ جزیات کے ساتھ سنانے لگیں

اف میرے خدا ! تمہیں اندازہ ہے ہم کب سے ان چھٹیوں کے لئے پیسے جمع کر رہے تھے ؟ اور آپ تو مجھے اتنے عرصے سے جانتے ہیں نہ .. آپکو تو پتا ہی ہے کہ جب بھی کبھی کسی کے ساتھ  کچھ غلط ہونا ہوتا ہے تو وہ  میرے ساتھ ہی ہوتا ہے - بچپن سے میرے ساتھ یہی ہوتا آیا ہے - کیا آپ مانو گے کہ ہماری تمام چھٹیوں کے دوران بارش ہوتی رہی - مجھے پہلے ہی سوچ لینا چاہیے تھا کہ ایسا ہی ہوگا - میں کب کچھ اچھا ہونے کی امید لگانا بند کروں گی ؟ میرا بھائی پچھلے سال چھٹیوں پر اپنی بیوی کے ساتھ گیا تھا اور دونوں بہت خوش واپس آے بہت اچھا وقت گزرا ان کا - میری بہن ابھی دو ہفتے قبل فیملی کے ساتھ چھٹیاں گزار کر آئ ہے اور بہت ہی اچھا تجربہ رہا ساری فیملی کا - مگر ہمارے نصیب میں یہ نہیں - وہ دکھ سے سر ہلاتے ہوے میری جانب ہمدردی طلب انداز سے دیکھتی رہیں - بہت مشکل سے ان کی یہ تکلیف دہ  زہر انگیزی کا عمل برداشت ہو سکا - کاش وہ اور ان جیسے اور لوگ اندازہ کر سکیں کہ یہ حرکت سننے والوں پر کس قدر گراں گزرتی ہے اور کتنا ذہنی دباؤ پیدا کرتا ہے

میں یہ سوچتا ہوں کے جو لوگ لگاتار ایسے ہی ماحول  میں زندگی بسر کرنے پر مجبور رہتے ہیں وہ کیسے ذہنی اور جسمانی صحت کو برقرار سکتے ہیں؟ - میں اس کو ماحولیاتی آلودگی  میں سب سے زیادہ خطرناک مانتا ہوں جس میں یہ زہریلا اظہار خیال مسلط کرنے والے قابل رحم ہونے سے زیادہ قابل سزا قرار دینے چاہییں بلکل اس طرح سے جیسے دیگر ماحولیاتی آلودگیوں کے ذمہ دار افراد کو قابل سزا قرار دیا جاتا  ہے

سیدھی بات یہ ہے کہ بارش نے انکی چھٹیاں برباد ہرگز نہیں کیں - اس بربادی کی اصل  وجہ لگاتار منفی اور زہریلی سوچوں کی بارش تھی جو ان کے ذہن میں ہوتی رہی - اسی وجہ سے وہ خود کو مجبور لاچار اور بیچارہ ظلم کا شکار سمجھتی رہیں - یہ انکی موسم کے بارے میں منفی سوچ تھی جس نے انکے منفی رویہ اور پہلے سے موجودزہریلی  عادت سے ملکر ان کی چھٹیاں تباہ و برداد کر ڈالیں

ہاں اگر موسم اچھا ہوتا تو ہوسکتا تھا کہ  وہ اچھا محسوس کرتیں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور اپنی تمام تر توانائی کو صرف غلط طرف صرف کرتی رہیں اور کچھ اچھا سوچنے اور کرنے کا خود کو  موقع ہی نہیں دیا جس سے ان حالات میں بھی کچھ اچھا کیا جاسکتا تھا - ایسی سوچ کے ساتھ کچھ بھی اچھا کرنا بلکل نہ ممکن ہو جاتا ہے

اگر آپ ارد گرد اور باہر کے حالات سے  اپنی خوشی کا تعین کر کے خود کو اس سے مضبوطی سے باندھ  لیتے ہیں تو آپ کے اندر کا قدرتی طور پر عطا کردہ سکون قلب شکست و ریخت کا شکار ہونے لگتا ہے کیونکہ آپ اپنی خوشی کو بیرونی حالات سے مشروط کرلیتے ہیں جو آپ کے اختیار میں بلکل نہیں ہوتے - جبکہ عقلمندی یہ ہوتی ہے کہ خود کو بیرونی حالات کی مطابقت میں تیار رکھنا چاہیے - جیسے بارش کی وجہ سے کوئی کام نہیں روکتا لوگ چھتری بھی استعمال  کرتے  ہیں اور برساتی بھی- گھر بیٹھ کر بارش کو نہیں کوستے

لیکن جب آپ ایسا کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور اپنی خوشی کو بیرونی حالات اور لوگوں سے مشروط کر لیتے ہیں تو پھر آپ پرایور سنڈروم  حملہ آورہو جاتا ہے اور اس طرح کے سوچیں  جنم لیتے ہیں

میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟
میری زندگی بہت ہی بری ہے
 مجھے آج بستر میں ہی رہنا چاہیے تھا
یہ کبھی ہو ہی نہیں  سکتا
میں کس کو بوقوف بنا رہا ہوں؟

اس قسم کی سوچ بھروسے اور یقین کی کمی کو ظاہر کرتی ہے اور الله کی بنائی ہوئی کائنات اور اس کی کامل تخلیق اور کارساز ہستی پر سے ایمان کے اٹھ جانے کی دلیل ہے - جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کے آپ کائنات کی اتنی اچھی اور شاندار نعمتوں سے لطف اندوز ہونے اور ان پرالله کا  شکر گزار ہونے سے محروم ہو جاتے ہیں - ان سب نعمتوں سے بھرپور لطف اندوز ہونا اور خوش ہونا ان کی تعریف کرنا ہی تو دراصل شکر گزاری ہے

یاد رکھیے! سوچیں خود بخود پیدا نہیں ہو جاتیں انکو ہم خود تخلیق کرتے ہیں اس لئے ہم انہیں کنٹرول بھی کر سکتے  ہیں اور قابو بھی اور قابو کرنے کا مطلب ختم کر دینا ہرگز نہیں ہوتا- جیسے پابندی کا مطلب بھی رکاوٹ ہرگز نہیں ہوتا ایک مخصوص ماحول یا راستے پر درست سمت میں گامزن کرنے کا نام پابندی جسے انگریزی میں چینلائی زیشن  بھی کہتے ہیں اور رسٹرکشن بھی - ان دونوں الفاظ کا مطلب منع کردینا یا یکسر بند کر دینا نہیں

اس خاتون نے اپنی سوچوں سے  ایسا ذہنی رجحان پیدا کرلیا تھا جس سے منفی جذبات تخلیق ہونے لگے جس کے نتیجے میں ویسی ہی غلط اور منفی جسمانی حرکات اور سکنات اور رد عمل سامنے آیا اور آپ کو یہ جان لینے کے لئے ڈاکٹر ہونا ضروری نہیں کہ ان کے دل کی رفتار غیر مناسب اور معدہ بھی سخت ہو گیا ہوگا جس کے نتیجے میں ان کی طبیعت بھی خراب ہونے لگ گئی ہوگی -ایسا اکثر خوف اور جذباتی کیفیت میں ہو جاتا ہے اور مستقل ایسا ہوتا رہے تو اس کا نتیجہ بیماری کی صورت میں سامنے آتا ہے

یہ سب نفسیاتی اثرات ان کی جسمانی حالت بھی ابتر سے ابتر بنا تے رہتے ہیں اور جب بھی وہ اپنی ان چھٹیوں کا ذکر چھیڑتی ہونگی ان کی حالت اور خراب ہونے لگ جاتی ہوگی - ہر ناقابل قبول صورتحال  جس سے اچانک سامنا ہو, اس پر خود حاوی ہو جانے کی بجاے اس صورت حال کو خود پر سوار ہونے دینا ہی در اصل ان کی ذہنی نا پختگی کو ظاہر کرتا ہے جو مناسب اور مستند تربیت سے با آسانی ٹھیک بھی ہو سکتی ہے 

لیکن اگر ارد گرد کوئی یہ بات نہ سمجھ پاۓ اور وہی حالت برقرار رہے تو یہ ایک سنو بال افیکٹ کی طرح بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس کا اثر ذہنی اور جسمانی بیماری کی شکل اختیار کر کے مستقل طور پر زندگی اجیرن بنا دیتا ہے- نا صرف اس مصیبت کا شکار افراد کی زندگی تباہ ہوتی ہے بلکہ ان نا سمجھ لوگوں کی  بھی جو اپنی طرف سے ان کے ہمدرد بن کر ان کی دکھ بھری رودداد پرصرف اظہار افسوس کرتے ہیں اور انکو مزید شہ دے کر بیمار سے بیمار تر کرتے چلے جاتے ہیں- ساتھ میں خود بھی اور دوسروں کو بھی منفی جذبات کی اس کھائی میں گرا دیتے ہیں جس سے ایک بیمار خاندان اور پھر بیمار معاشرہ جنم لیتا ہے جو مایوس اور نہ شکر گزار ہونے کی وجہ سے تباہی کا شکار رہتا ہے

اس لئے بجاے اس کے کہ اس بات پر توجہ مرکوز کی جاتی رہے کہ برا اور تکلیف دہ کیا ہے؟ اور کتنا زیادہ ہے, صورتحال کو  ایسی نظر سے دیکھنا ضروری ہے جس  میں مثبت پہلو پر توجہ مبذول ہو سکے اور مشکل کو بہتری اور سلجھنے کی طرف لے جایا سکے - ہر بری سے بری نظر آنے  والی صورتحال کا علاج ہوتا ہے- اس کا پختہ غیر متزلزل یقین ہونا ضروری ہے  پرامید رہنا ہی ہمارا فرض ہے اور مایوسی کفر ہے

فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہیں پرامید رہ کر صحت مند اور کامیاب زندگی یا پھر مایوسی اور نہ امیدی کے ساتھ منفی پہلو دیکھتےہوے خود کو حقیقت پسندی کی غلط فہمی میں مبتلا رکھ کر اپنی اوراپنے پیاروں کی بربادی اور تباہی ؟ یہی فیصلہ کرنے کا اختیار الله نے ہمیں دے کر بھیجا ہے

یاد رکھنا چاہیے کے اس کائنات کے خالق نے ہر طرح کی کامیابی کا طریقہ بھی ہمیں بتا رکھا ہے فیصلہ ہمارے پاس ہے کے ہم پوری طرح اس کامیابی کے نسخے پر عمل کرتے ہیں یا صرف اتنا ہی جتنا ہمیں بظاھر اچھا لگتا ہے- بچوں کی طرح میٹھی دوائی ٹھیک ہے کڑوی دوائی رہنے دو چاہے بعد میں سرجری کی ضرورت پڑے اور زیادہ تکلیف سے گزرکر سہی راستہ اختیار کرنا پڑے - مکمّل طور پر نسخے پر کابند ہونا پڑتا ہے اسی لئے حکم ہوا کہ ‘’دین میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ’’- دین کو صرف اتنا ہی اختیار نا کرو جتنا تمہیں پسند ہے ، نا ہی صرف دین کے اس حصّے کا پرچار کرو جو تمہاری پسند اور فائدے کے مطابق ہے اور باقی چھپا لو-  ورنہ تباہی کا شکار رہو گے

منفی سے مثبت رجحانات پر آنے کا بتدریج عمل صبر آزما ہوتا ہے جس پر ثابت قدمی درکار ہوتی ہے اور اس کے مفید موثر اور مستند اور آسان طریقے میں گزشتہ آرٹیکل میں قارئین کی خدمت میں پیش کر چکا ہوں جن پر مکمّل طور پر عمل پیرا ہوکر صحت و تندرستی کے ساتھ ایک خوش خرم زندگی حاصل کرنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں 


کاشف احمد
اسلام آباد پاکستان
٦ اکتوبر ٢٠١٩


Thursday 3 October 2019

صحت مند اور کامیاب زندگی مثبت سوچ سے ممکن ہے - ایک مستند تحقیق

  ڈاکٹر ٹریوس بریڈبری اپنے ایک لکنڈان آرٹیکل میں اس تحقیق پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوے لکھتے  ہیں کہ  مثبت سوچ اور طرز زندگی نہ صرف خوش و خرّم رہنے کا راز ہوتا ہے بلکہ یہ صحتمند اور تندرست اور توانا رہنے کے لئے بھی لازمی ہے

ہماری سب ہے بیماریوں کی وجوہات در اصل غیر صحت مندانہ طرز زندگی نہیں ، ہماری منفی سوچ اور اس پر مبنی ہمارے طور طریقے اور ان کا بے جا اظہار اور پھیلاؤ ہوتا ہے - منفی سوچ اور اس کے نتیجے میں طرز عمل  نہ صرف ہمارے اپنے لئے انتہائی نقصان دہ ہوتا ہے بلکہ یہ ہمارے  ارد گرد رہنے والوں کو بھی شدید ذہنی کشمکش کا شکار کر دیتا ہے جس کا  نتیجہ ان کی بیماریوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے

اسی لیے ہمیں اپنا ایک اچھا اور مخلص دوست ہونا چاہیے کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو ہم با آسانی اپنے شدید دشمن بن جاتے ہیں اور اچھا دوست در اصل دوست کی بھلائی ہر قیمت پر چاہتا ہے نہ کہ پریشانی اور بیماری

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن..... اپنا تو بن

جب ہمیں نقصان یا کسی صدمے اور مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو اکثر یہ نصیحت سننے کو ملتی ہے کہ مثبت رویہ رکھو یا پھر یہ دانشمندانہ مشورہ کہ گلاس آدھا بھرا ہوا ہے یا آدھا خالی ہے یہ تمہاری سوچ پر منحصر ہے - ایسا رویہ خاص طور پر ایسے حالات میں غیر سنجیدہ یا پھر غیر حقیقت پسندانہ ہی لگتا ہے کیونکہ ایسے صورت حال میں مثبت سوچنا ایک خیالی پلاؤ یا پھر خوش فہمی محسوس ہوتی ہے

مثبت رویہ اختیار کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہوتی ہے کہ ہمارا دماغ  خطرات پر توجہ رکھنے اور دفع کے لئے تیار رہنے کے لئے سب سے زیادہ کام کرتا ہے- ہماری ذہنی ساخت ہر صورت میں ہمارے تحفظ اور آرام کو ترجیح دینے لئے بنی ہے- یہ مدافعانہ اور اپنی بقا کو ہر صورت ممکن بنانے کا طریقہ کار شروع کے انسانوں کے لئے بہت کر آمد تھا جب وہ شکار کرنے اور چیزیں اکٹھا کرنے کے کام سے گزر بسر کیا کرتے تھے - وہ اپنا ہر دن اس بات کے شدید خطرے میں گزارتے  تھے کہ  آس پاس سے ہی کوئی انکو جان سے مار ڈالے گا

مگر یہ لاکھوں سال پہلے کا زمانہ تھا-  آج کل اس نوعیت کا طرز عمل اور حکمت عملی صرف منفی اور زہریلی  سوچ اور مایوسی کو جنم دیتی ہے جو ہمارے دماغ کے  اس فرسودہ  رجحان کو ظاہر کرتی ہے جو اس وقت تک خطرات اور برائی کو کرید کرید کر ڈھونڈتا ہے جب تک وہ مل نہیں جاتی - اس خطرناک رجحان پر سٹیو  ریزو کے بہت ہی دلچسپ آرٹیکل کی یاد آتی ہے جس میں انہوں نے بہت تفصیل سے ثابت کیا ہے کہ یہ  رجحان کیسے آپ کی زندگی کو تباہ و برباد کرتا ہے - اس آرٹیکل  پر آئندہ تحریر میں بات کریں گے

اس وقت یہ سمجھنا لازمی ہے کہ یہ منفی رجحانات جو برائی اور خطرات کی تلاش میں ہمہ وقت سرگرداں رہتے ہیں وہ ان خطرات اور برائیوں کو کئی گناہ بڑھا چڑھا دیتے ہیں اور  حالات  کو مزید برا ظاہر کرتے ہیں- در اصل یہ دفاعی نظام صرف اس وقت سہی کام کرتا ہے جب کوئی خطرہ بلکل سامنے واقعی موجود ہوتا ہے ورنہ جب خطرے سے کہیں پہلے صرف سنی سنائی باتوں پر عمل کرتے ہوے اس فرسودہ طریقہ پر دماغ کو عمل کرنے دیا جاے تو یہ زندگی کو اجیرن بنا  دیتا ہے جس کے تباہ کن نتائج  نکلتے ہیں

دنیا میں کئی مستند تحقیقوں نے  ثابت کیا ہے کے منفی اور تکلیف دہ سوچ رکھنے والے ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں جس کی تعداد مثبت اور رجاعیت پسند یعنی آپٹی مسٹ لوگوں  سے کہیں زیادہ ہے جو ان کے مقابلے میں خوش خرم اور صحت مند زندگی گزارتے ہیں

ایک بہت مشہور امریکی ماہر نفسیات مارٹن سلگمن نے اپنی طویل اور موثر تحقیق سے یہ ثابت کیا  ہے کہ ڈپریشن کے شکار مریض وہی لوگ ہوتے ہیں جن کی سوچ  منفی اور تکلیف دہ ہوتی ہے اور ان کی توجہ برائی اور خطرات پر مرکوز رہنے والے فرسودہ دماغی رجحانات پر مبنی  ہوتی ہے اور وہ اس بات کو حقیقت پسندی کا نام دیتےہوے اس کو اپنی ہی ناکامی اور برائی سمجھتے ہیں-  جبکہ مثبت سوچ رکھنے والے آپٹی مسٹ لوگ ناکامیوں کو بہتری پیدا کرنے والے تجربات اور سیکھنے کا فائدہ مند عمل تسلیم کرتے ہیں جس سے وہ خود کو مزید بہتر بناتے ہیں

جسمانی صحت پر تحقیق کے دوران ڈاکٹر سلگمن نے ڈارٹمن اور مشیگن یونیورسٹی پچیس( ٢٥)  سے پینسٹھ ( ٦٥   )  سال کے لوگوں کی زندگی  کا تفصیلی  مطالعہ کرنے کے بعد ثابت کیا کہ  منفی سوچ اور رجحانات رکھنے والے مثبت سوچ رکھنے والوں سے کہیں زیادہ صحت کی خرابی اور جسمانی امراض کا شکار ہوتے ہیں اور بہت تیزی سے بوڑھے ہوتے ہیں

سلگمن کی تحقیق مزید توثیق صحت پر  مشہور اور مستند تحقیقی ادارے میو کلینک نے بھی کی جب انہوں نے ثابت کیا  کہ مثبت سوچ رکھنے والے آپٹی مسٹ لوگوں میں دل کے امراض کی شرح منفی سوچ والے لوگوں کے مقابلے بہت  ہی کم ہے - اگرچہ یہ بات پوری طرح سے دریافت کرنے میں ابھی وقت لگے کے منفی سوچ اور رجحان کس طرح صحت پر برا اثر چھوڑتے ہیں لیکن یہ بات ثابت شدہ ہے کے منفی سوچ جسم کے مدافعتی نظام کو کمزور کر دیتی ہے اور اس پر علاج کا اثر  نہیں ہوتا یا پھر بہت سست اور تھوڑا اثر ہوتا ہے

منفی سوچ کے جسمانی اور ذہنی صحت پر شدید نقصان دہ اثرات کو سامنے رکھتےہوے ڈاکٹر سلگمن نے اپنی تحقیق کو مزید آگے بڑھایا اور اس کے انسانی کارکردگی پر اثرات پر بھی تحقیق کی اور یہ بات سامنے آئ کہ انشورنس جیسے مشکل کام کے سیلز مین جو مثبت سوچ کے مالک تھے انہوں نے منفی سوچ رکھنے والوں کے مقابلے میں سینتیس ( ٣٧ ) فیصد زیادہ پویلسیاں فروخت کیں جبکہ منفی سوچ کے حامل سیلز من تو ملازمت  کے  پہلے سال نوکری چھوڑنے کا سوچنے لگے تھے

ڈاکٹر سلگمن نے مثبت سوچ اور آپٹیمزم پر دنیا میں سب سے زیادہ تحقیق اور مطالعہ کر رکھا ہے وہ کہتے ہیں کہ منفی سوچ کے دماغی رجحانات کو تھوڑی کوشش اور درست معلومات سے مثبت سوچ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اور تحقیق نے وہ بھی ثابت کیا ہے کہ  آسان اور سادہ تکنیکی مدد سے لوگ اپنی منفی سوچ کو مثبت بنا کر مستقل بنیادوں  پر خوش و خرم اور صحت مند زندگی گزار سکتے  ہیں

میرا ماننا ہے کہ ماہرین کی مدد کے ساتھ بہت ضروری ہے کہ یقین اور  بھروسہ  قائم رکھا جاے جس کی کمی انسان کو منفی سوچ کی جانب لے جاتی ہے اور طرح طرح کو خوف میں مبتلا کر کے بزدل اور کمزور بنا دیتی ہے - یقین اور بھروسہ دار اصل ایمان کی کی پہلی سیڑھی ہوتے  ہیں اور انسان جب  ایمان تک پہنچ کر  اس پر  مضبوطی سے کاربند ہوتا ہے تو وہ  خود کو با آسانی منفی رجحانات اور سوچوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے کیونکہ مثبت ہونا اچھائی اور نیکی کی علامت ہے اور الله ہمیں اسی کی ہدایت دیتا ہے

 ہمارے دماغ کو در اصل تھوڑی سی مدد درکار ہوتی ہے تا کہ وہ   اندر کی اس منفی آوازکو  شکست دے سکے  جو منفی سوچ کو آپ پر حاوی کرتی ہے - آپ ان 2  آسان طریقوں سے اپنے دماغ کو مثبت سوچنے کے لئے تیار کر سکتے ہیں

)  حقیقت کو  افسانے سے الگ کرنا
سب سے پہلے یہ سیکھنا ضروری ہے کہ اپنی توجہ مثبت سوچ پر مرکوز رکھنے کے لئے  منفی سوچ کو شروع ہوتے ہی کیسے روکا جا سکتا ہے - جتنا آپ منفی سوچ کو دماغ میں گھومنے دیتے ہیں اتنا ہی اسے طاقتور  بنا دیتے ہیں - ہماری زیادہ تر منفی سوچیں صرف سوچیں ہوتی ہیں ..حقیقت نہیں

جب یہ لگنے لگے کہ آپ اپنی منفی سوچ پر یقین کرنے لگے ہیں تو آپ کے اندر کی آواز کو آپ سے کہنا چاہیے '' رکو اور اور ان سب سوچوں کو لکھنا شروع کرو''. آپ لکھ ڈالیں ہاں واقعی سب کچھ لکھ دیں اور جب ایک بار آپ تھوڑا خود پر قابو پانے کے بعد جو کچھ بھی  آپ نے لکھا ہے غور سے پڑھ کر دیکھیں تو آپ کو سمجھ آنے لگے گا کہ  ان میں سے کچھ بھی حقیقت نہیں ...الفاظ جیسے ''نہ ممکن''، ''ہرگز نہیں'' یا پھر ''بہت ہی برا'' کچھ بھی نہیں

کیا آپ ہمیشہ چابیاں بھول جاتے ہیں ؟ ایسا بلکل نہیں ..ہو سکتا ہے اکثر بھول جاتے ہوں گے- مگر ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا اور زیادہ تر آپ کو یاد رہتا ہے - کیا آپ کو اپنی مشکل کا کبھی کوئی حل نہیں مل سکتا ؟ اگر آپ واقعی اتنے مجبور ہیں تو کیا ایسا نہیں ہے کہ آپ کسی کی  مدد لینے کے لئے کترا رہے ہیں ؟ یا پھر سوچا ہی  نہیں کہ  کوئی اس قابل ہوگا ؟ اگر یہ ایک ایسی مشکل ہے جس کو کوئی حل نہیں کارسکتا یا آپ  کسی سے ذکر نہیں کرسکتے تو پھر کیوں دیوار سے سر پھوڑتے جا رہے ہیں ؟ الله پر یقین کا یہی تو ثبوت ہوتا ہے کہ جب سب طرف سے ناممکن ہو جاے تو بس پھر واقعی حل نکل آے گا کیونکہ یہ صرف الله کے ہاتھ میں ہے-  اور وہی اصل میں وسیلے بھی پیدا کرتا ہے اور وسیلے کی جانب راہ دکھاتا ہے  - وہی سب سے بڑی حکمت اور دانائی رکھتا ہے.. ہم نہیں

مثبت پہلو کی دریافت اور شناخت کرنا 2
اب جبکہ آپ کو ایک بہترین طریقہ منفی سوچ سے بچنے کا مل چکا ہے تو  یہ وقت ہے اپنے دماغ کو مثبت سوچ  اور آپٹیمزم پر مرکوز رکھنے کا- ویسے تو یہ قدرتی طور پر بتدریج کوشش کرتے رہنے سے ہوتا ہے اور آپ کو پوری ہمت سے کوشش کر کے خود کو مثبت باتوں اور واقعیات پر قائم رکھنا ہوتا ہے - مگر ایسا کرنا اس وقت  آسان ہوتا ہے جب  ارد گرد  کا ماحول اچھا ہو اور سب کچھ ٹھیک چل رہا ہو-  لیکن ایسا کرنا بہت مشکل ہو جاتا  ہوتا ہے جب صورتحال بگڑی ہوئی ہو اور حالات خراب ہونے لگیں

ایسے میں فوری طور پر اپنی توجہ اس دن ہونے والی کسی اچھی بات پر مرکوز کریں اور اگر اس دن ایسا کچھ نہ ہوا ہو تو اس سے پہلے کسی دن یا پچھلے ہفتے جب کچھ اچھا ہوا ہو- چاہے کتنا بھی معمولی لگے اپنی توجہ اور دھیان اس طرف کریں- اسی طرح  کسی آنے والے شاندار وقت کو سوچ کر بھی خود کو منفی سوچ سے بچایا جا سکتا ہے

لیکن سب سے بہترین حل فوری  طور پر الله کے حضور حاضر ہو جانا ہے آدھی پریشانی تو اس حاضری کی تیاری میں ہی بھول جاتی ہے جب آدمی تفصیلی وضو کر کے نماز کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے اور نوافل میں خوب دل کا بوجھ ہلکا کر لیتا ہے

کاشف احمد
اسلام آباد پاکستان
٣ اکتوبر ٢٠١٩