Thursday 10 October 2019

ماحول اور صحبت کا اثر پانی پر بھی ہوتا ہے - ایک منفرد تحقیق



یہ بات تو آپ نے سنی ہوگی کے سولومن جزائر میں جب کسی تعمیر کی غرض سے درختوں کو ہٹانا پڑتا تو انہیں کاٹا نہیں  جاتا بلکہ لوگ ارد گرد جمع ہو کر ان درختوں کو برا بھلا کہنے لگتے اور خوب صلواتیں سناتے- دیکھتے ہی دیکھتے کند ہی ہفتوں میں وہ درخت سوکھ کر مر جاتے

خود ہے اندازہ لگائیں پھر ان صلواتوں اور برا بھلا کہنے اور کوستے رہنے کا انسانوں پر کتنا اثر ہوتا ہوگا - جنکو یہ بات آسانی سے ہضم نہیں ہوئی وہ  اس حیران کن بات کو مزید تفصیل سے سمجھنے کے لئے بروس لپٹن کی کتاب دی بیالوجی  آف بیلیف  کا ضرور مطالعہ کریں جس میں انہوں نے مزید تفصیل سے سولومن جزائر کے لوگوں کا یہ طریقہ اور اسی طرح سے دیگر ایسے  بظاھر عجیب غریب  اثرات کا انسانی حیوانی اور نباتاتی حیات پر رونما ہونا ثابت کیا ہے

بات یہاں تک ختم نہیں ہو جاتی  یوٹیوب پر ایک وڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں ایک صاحب کچھ ایسا ہی تجربہ کر رہے تھے کے جس کو دیکھ کر مجھے مزید تجسس ہوا کہ جانداروں پر تو برا بھلا کہنے اور زہریلی گفتگو کا شدید منفی اثر اب تک دیکھا جا چکا ہے کیا بے جان چیزوں پر بھی ایسا اثر ہوتا ہے

پانی جسے انسانی زندگی کی بنیاد کہا جاتا ہے اس کی اہمیت اور وقعت بیان کرنے کی ضرورت نہیں، مگر کیسا رہے اگر آپ کو یہ معلوم ہوجائے کہ پانی بھی پر بھی ماحولیاتی آلودگی کا بہت اثر ہوتا ہے میں اس آلودگی کی بات نہیں کر رہا جس سے سب واقف ہیں میں اس  کی بات کر رہا ہوں  جس  کو  منفی ، زہریلی گفتگو کہتے ہیں اور جس کا اثر شائد دیگر الّدگیوں سے کھین زیادہ ہوتا ہے ۔ پانی  آپ کی سوچ، خیالات، گفتگو، الفاظ اور ماحول سے متاثر بھی ہوتا ہے اور آپ کی زندگی میں اثر انداز بھی۔ یہ اپنی ایک یادداشت رکھتا ہے اور آپ کے ساتھ باقاعدہ کمیونیکیٹ کرتا ہے۔

یہ انسانی جسم سے نکلنے والی شعاؤں اور الفاظ کے اثر کو اپنے اندر سمو لیتا ہے اور یہ شعائیں پانی کی تاثیر پر اثرانداز ہوتی ہیں اور پھر جب یہی پانی انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے تو یہ انسانی ذہن اور صحت میں تبدیلیاں لاتا ہے۔ مختصر یہ کہ پانی اپنی ایک میموری رکھتا ہے اور اس میموری کی بنیاد پر اپنے اثرات مرتب کرتا ہے۔

یہ کو مافوق الفطرت بات نہیں یہ باتیں جاپان کے مشہور ڈاکٹر آف  آلٹرنٹیو میڈیسن اور مصنف ، ماسارو ایموتو نے 1999ء میں اپنی شائع ہونے والی کتاب ’دی میسج فرام واٹر‘ میں کی ہیں۔ انہوں نے پانی پر ہونے والے ان اثرات کو ہیڈو افیکٹس کا نام دیا تھا۔ پانی کی اس شاندار ممکنہ خوبی پر جاپان کے مشہور اور مستند  انسٹیٹیوٹ ہا ڈو میں تحقیق کی گئی اور یہ جانچنے کی سعی کی گئی کہ کیا سچ میں پانی پر اپنے آس پاس کی اشیا، انسانی جذبات، سوچ اور رویوں کا اثر ہوتا ہے؟

ہا ڈو انسٹیٹوٹ میں پانی  کے  2 نمونے لیے گئے اور ان میں سے ایک پر انگریزی لفظ  فیملی ، لوو اور تھینک یو  اور دوسرے پر  یو میڈ می سک (یعنی تم نے مجھے بیمار  بنا دیا ) کا جملہ تحریر کیا گیا۔ کچھ دیر بعد، اُس پانی کو جما دیا گیا، جب یہ پانی مکمل طور پر برف بن گیا تو جدید خوردبین کے ذریعے اس برف کے ذرات کی تصویر لی گئی اور نتائج حیران کن تھے، جس پانی پر لفظ ’فیملی‘، ’لو‘ اور ’شکریہ‘ لکھا گیا تھا اُس کے کرسٹلز نہایت خوبصورت، متوازن اور دلکش تھے جبکہ جس پانی پر لفط ’یو میڈ می سک‘ لکھا گیا تھا اُس کے کرسٹلز نہایت گندے اور بدصورت نکلے۔

انسٹیٹیوٹ کے مطابق اس تجربے سے یہ بات ثابت ہوئی کہ پانی بھی  زندگی رکھتا ہے اور ہمارے الفاظ اور رویے اس پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس کے بعد 350 افراد کی ایک ٹیم نے جاپان میں ایک جھیل پر یہ تجربہ کرنے کی ٹھانی۔ اس جھیل کا نام ’بیوا‘ تھا اور 1999ء میں یہ جھیل اپنی تمام تر خوبصورتی کھو چکی تھی، اس کے پانی سے شدید بدبو آتی اور اس کے پانی میں جراثیم کی تعداد بے حد بڑھ چکی تھی۔ علاقہ مکینوں کو یہ شکایت بھی تھی کہ اب اس جھیل کے پانی سے فصلیں اور کھیت کھلیان بھی نہیں اُگ رہے

تحقیق میں شامل کار افراد پر مشتمل ٹیم نے اس جھیل کو پہلے جیسا بنانے کا فیصلہ کیا۔  مثبت خیالات کو جھیل کے پانی میں ٹرانسمٹ کرنے کے لیے انہوں نے جھیل کے گرد گھیرا بنایا اور اُسے اپنے ذہن اور جسم سے نکلنی والی شعاؤں کے ذریعے پیغام بھیجنے لگے۔ انہوں نے جھیل کو پیغامات بھیجے کہ وہ  تمام تر غلاظت اور زہریلے کیمیات کونکلا کر دے ۔

حیران کن طور پر اُس جھیل نے نہ صرف وہ پیغامات قبول کیے اور اُن کا اثر لیا بلکہ ان افراد کو اُن کے پیغام کا جواب بھی دیا۔ تقریباْ 2 ہفتے بعد جب اُس پانی کے نمونے جمع کر ذرات کا مشاہدہ کیا گیا تو اس کے کرسٹلز میں بہت عمدہ تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ پیغامات بھیجنے کا سلسلہ جاری رہا اور آہستہ آہستہ جھیل صاف ہوتی گئی، اُس کی رعنائی لوٹ آئ اور وہ اپنی اصلی شکل میں واپس آگئی۔ یہ واقعہ اس وقت کے اخبارات اور رسائل میں رپورٹ کیا گیا۔

جیسے جیسے تحقیق آگے بڑھتی گئی تخلیق انسانی اور اس کے اشرف المخلوقات  ہونے کی  عظمت اور کمالات افشا ہوتے گئے اور برگزیدہ ہستیوں اور بزرگوں کی شخصیت کا اثر اور دعاؤں میں تاثیر کے ساتھ ان کے دم کرنے کا عمل بھی سمجھ میں انے لگا  ۔ موجزات پر مزید یقین پختہ ہوتا چلا جاتا ہے جب انسان الله کی بنائی ہوئی کائنات پر غور اور تحقیق کرنے لگتا ہے جس کا وہ بار بار قرآن کریم میں حکم بھی دیتا ہے

تحقیقات نے ثابت کیا کہ انسان پر اُس کے ماحول، حالات اور سوچ کے بہت گہرے اثرات ہوتے ہیں۔   انسانی سوچ نہ صرف جسمانی اور ذہنی صحت پر اثرانداز ہوتی ہے بلکہ اس کے اثرات دوسرے لوگوں یہاں تک کے نباتات حیوانات کے علاوہ پانی پر بھی ہوتے ہیں۔ اچھی اور مثبت سوچ کے حامل افراد کے جسم میں سے مثبت لہریں نکلتی ہیں جو آس پاس کے ماحول، افراد اور چیزوں پر اثرانداز ہوتی ہیں  ۔ جبکہ منفی سوچ، خیبت، اضطراب، حسد، بغص، کینہ اور اس قسم کے دیگر خیالات انسانی صحت کے ساتھ ساتھ ماحول کے لیے بھی نہایت نقصاندہ ہیں۔ انسانی جسم میں پانی کی تناسب ٥٠ سے ٦٠ن فیصد تک ہوتا ہے اور اسی لئے شائد پانی زندگی کی علامت ہے

ایک اندازے کے مطابق یہ مثبت یا منفی شعائیں 8 میٹر تک کے علاقے پر اثر انداز ہوتی ہیں ۔ اسی کو صحبت کا اثر بھی کہا جاتا ہے اور بار بار ہمیں تاکید بھی کی جاتی ہے کے صحبت صالحین اختیار کرو - غور کریں تو آپ بچوں کے ساتھ کیوں اتنا اچھا محسوس کرتے ہیں اور ان کے ساتھ بچہ بن جانے میں خوش ہوتے ہیں اس کی یہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیت خالص اور خوشگوار ہوتی ہے اور مثبت شعائیں یعنی پازیٹو وائبز منعکس کر رہی ہوتی ہیں جس سے آپ طبیعت میں فرحت اور تازگی محسوس کرتے ہیں بلکل اسی طرح نیک اور خوش اخلاق لوگوں کی صحبت کا اثر ہوتا ہے جن کے ساتھ رہنے سے نہ صرف طبیعت ہشاش بشاش ہوتی ہے بلکہ آپکی شخصیت میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں-  انسانی رویوں کا مشاہدہ کیا جائے تو بھی یہ بات سامنے آتی ہی کہ جو افراد مثبت سوچ اور خیالات کے حامل ہوتے ہیں اُن کی ذاتی زندگی نہایت خوشگوار اور قابل رشک ہوتی ہے۔ وہ زندگی زیادہ اچھے انداز میں جیتے ہیں، اُن کی صحت بہتر رہتی ہے، ان کے رشتوں میں زیادہ پائیداری ہوتی ہے اور وہ ہر مشکل، پریشانی پر جلد قابو پالیتے ہیں۔

دراصل انسان کی سوچ اور کردار جتنا مثبت ہوگا اتنا ہی اس کی زندگی خوشیوں اور کامیابیوں سے بھرپور ہوگی۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ نیک اور دانا تجربہ اور دین و دنیا میں کامیاب لوگوں کی صحبت میں رہیں اور اپنے ماحول میں ان کی زیادہ سے زیادہ موججودگی کو ممکن بنائیں جس سے خود بخود ہماری شخصیت میں دانائی اور مثبت تبدیلی پیدا ہوگی اور خوشگوار  کامیاب  اور صحت مند زندگی کے ساتھ  ہم بھی  مثبت رویوں سے دوسروں کے دل جیتیں اور مشکل سے مشکل صورتحال میں کامیابیاں سمیٹیں۔ بلاشبہ کچھ لوگ اپنی منفی روش سے باز نہیں آئیں گے اور ممکن ہے کہ وہ اپنی منفیت کا اثر آپ پر بھی ڈالنے کی کوشش کریں لیکن آپ کو ان سے بھی مثبت رویہ روا رکھنا چاہیے. مثبت سوچ اور شیریں الفاظ کے استعمال کی شروعات آپ خود سے کریں، زندگی اور دنیا خود بخود خوبصورت بنتی چلی جائے گی.

کاشف احمد
اسلام آباد پاکستان
٩ اکتوبر ٢٠١٩


No comments: