Monday 28 October 2019

جاگ بنا ددھ نئیں جمدا پانویں لال ہوئے کڑھ کڑھ کے

با با بُلھے شاہ کی یہ بات اکثر لوگوں  نے سنی ہوئی ہے اور شائد اس بات کو کچھ لوگ سمجتھے بھی ہونگے مگر مانتے صرف وہ ہیں جو سامنے نظر آ جاے یا جو بظاہر  زیادہ اور ماحول پر چھایا ہوا نظر آ رہا ہو

 

دریا ، پہاڑ  اور سمندر سب جانتے ہیں مانتے بھی ہیں لیکن بہت کم ہیں جوان کے وجود میں آنے  کی وجہ اس کے آغاز اور اس میں چھپے اسرار و رموز اور ان سے حاصل ہونے والے فائدے اور نقصانات پر غور کرتے ہیں نہ ہی یہ غور کرتے ہیں کے ان کا آغاز کہاں سے اور کیوں ہوتا ہے نا ہی اختتام کی وجہ اور پھر ان کے  تخلیق ہونے کی وجہ  اور ان کا خالق کون ہے اور کیوں ہے ؟

 

کیونکہ اکثر کا ایمان ظاہر پر زیادہ اور باطن پر کم ہوتا ہے یا پھر سرے سے ہوتاہی نہیں ہے- باطن یعنی غیب پر ایمان کے لئے غور کرنا پڑتا ہے گہرائی میں جانا پڑتا ہے ہے جو سطحی سوچ کے ساتھ ممکن نہیں -

 

جیسے یہ بات سب جانتے ہیں کہ برکت کے بغیر کتنی بھی دولت ہو کسی کام کی نہیں دانائی اور عقل کے بغیر پیسہ نقصان دہ ہو جاتا ہے - اسی طرح جب تک سمبھالنے کی دانائی نہ ہو تو کتنی بھی طاقت ملے کوئی فائدہ نہیں صرف نقصان ہی نقصان ہے

 

ایٹم کی طاقت بے فائدہ اور نری تباہی ہے جب تک اسے کابو کرنے کی سمجھ اور دانائی  نا ہو- اسی طرح ہر چھوٹے سے چھوٹی  چیز جسے اس خالق نے تخلیق کیا بغیر کسی رہنمائی  اور درست راہ کے تعین اور طریقے کے بے فائدہ بلکہ  نقصان دہ ہو جاتی  ہے- جب تک کوئی رہبر کوئی ذمہ دار سرپرست  نا ہو اور اس کی دانائی کی جاگ نا لگے کسی انسان کی زندگی درست سمت اختیار نہیں کرسکتی اور نہ ہی اس پر قائم رہ سکتی ہے نا ہی سہی سمت میں ترقی کر سکتی ہے- یہاں تک کے پانی جیسی زندگی بخش شے بھی جان لیوا بن جاتی ہے  

 اسی لئے خالق نے جہاں کوئی طاقت تخلیق کی، ہمت, جوش, عقل اور فیصلہ کرنے کی قوت اور آزادی دی وہاں رہنما اور سرپرست کا انتظام بھی کیا جو نا صرف اس قوت اور مال و  اسباب کا درست اور موثر استعمال سکھانے اور اسے چینلآئزکرنے  کے کام پر مامور ہوتا ہے بلکہ وہی ذمہ دار اور جواب دہ بھی بنایا گیا- مگر ہماری سطحی سوچ اکثر اس کو بے جا پابندی اور روک ٹوک سمجھ کر راہ فرار اختیار کرلیتی ہے یا بغاوت اور سرکشی پر اتر آتی ہے -

 

خاندان کی بنیادی اکائی کے  سربراہ مرد سے لے کر ہر سطح پر اس نظام کو درست  سمت  چلانے والے چاہے وہ کسی درجے پر مامور ہوں ذمہ دار اور جواب دہ بنا دئیے گئے چاہے وہ کوئی  بہانہ کریں مجبوری لاچاری بے بسی کا رونا روئیں ذمہ داری اور جواب دہی انہی کی ہوتی ہے

 

یہ ‘’جاگ’’ وہ پوشیدہ جزو ترکیب لیکن ایک مرکزی عنصر جس کے بغیر دنیا کا کوئی بھی کام کوئی بھی کاروباریا مال و اسباب کسی کام کے نہیں- اسکو اکثر لوگ یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں یا اتنی اہمیت رتبہ اور تعظیم نہیں دیتے جتنا اس کا حق ہے

 

جب تک سرپرستی نہ ہو کوئی راہ سجھآنے والا نا ہوکسی بھی طرح سے کچھ بھی ممکن نہیں ہو سکتا- اسی بیش بہا تجربے اور دانائی کی ‘’جاگ’’ چند سالوں میں آدمی کو انسان بنا ڈالتی ہے جس کی خاطر نسلوں کی نسلیں صدیوں کوشاں رہتی ہیں مگر وہ کبھی بھی ایک پرشکوہ شاندار قوم نہیں بن پاتی- کون سوچتا ہے کہ  وہ رہنما وہ سرپرست وہ سکھانے والا جو چپ چاپ بنا کسی تعریف شتائش اور انعام کی  لالچ کے،  اپنا کام کرتا رہا .. آخر کون تھا وہ ؟ -

 

 بڑی کامیابی حاصل ہونے پر اس کامیابی حاصل کرنے والے کو تو سب سر پر اٹھا لیتے ہیں مگر اس کامیابی کی وجہ بننے والے استاد یا کوچ اور رہنما کو کوئی میڈل نہیں پہناتا نہ کوئی اس باپ کو ملنے آتا ہے نا انٹرویو کرتا ہے نا  ہی انعام دیتا ہے جس کی اولاد کسی مقابلے کسی کارنامے یا جیت کے بعد سب کی آنکھ کا تارا بن گئی اور جس کے بغیر ایک ماں  بھی ماں نہیں بن پاتی -

 

خاندانی اقدار اور تعلیم اور سب سے بڑھ کر تربیت جو در اصل سکھانے سے کہیں زیادہ شخصیت کے نمونے سے ایک بلند کردار تشکیل پاتا  ہے یہ کسی  اور شارٹ کٹ سے ممکن نہیں ہوتا - پھر ہم سوچتے ہیں کے ایسا کیوں نہیں ہوتا ہے کہ  ہم میں سے اکثر لوگ کامیاب نظر آئیں- اکثر لوگ شاندار کارنامے کریں یا سب ہی بہت شاندار شخصیت کے مالک ہوں - آخر کیوں سب ہی والدین کی اولاد اتنی ہونہار نہیں ہوتی ؟ اس کی وجہ وہی پوشیدہ جزو اور مرکزی عنصر ہوتا ہے جس کوبزرگان نے ‘’جاگ’’  کا نام دیا ہے

 

وہ خاص جزو ترکیب وہ مرکزی عنصر جس کو ہم اہمیت نہیں دیتے مانتے نہیں اور غور نہیں کرتے در اصل پایا بھی بہت کم مقدار میں جاتا ہے مگر طاقت میں اتنا پراثر ہوتا ہے کہ چھو جاے تو پتھر کو سونا بنا ڈالے-  وہ کرم وہ نوازش وہ فضل جب تک نہیں ملتا تعداد اور کثرت اسباب کا کوئی فائدہ نہیں اسی لئے وہ عظیم ٣١٣ ہزراوں کے لشکر پر بھاری پڑے اسی لئے ان کی طاقت اور ہیبت اور رعب کے آگے کوئی بڑے سے بڑی فوج نہ ٹھہر سکی اور ان کے دلوں کو جیت لینے کی خداداد صلاحیت ان کی فکر اور فہم نے بہت سے بظاہر نا ممکنات کو ممکن بنا ڈالا کیونکہ ان کے ساتھ الہی تائید کے موجزات شامل ہوۓ

 

یہ ایک انسان جو گمنام دوردراز جگہ پر ایسا نام بنا ڈالتا ہےکہ  پوری دنیا میں اس کے نام کا ڈنکا بجنے لگتا ہے کسی بھی مال و اسباب اور دنیاوی مدد کے آلات اور آسائش کے بغیر ایک چھوٹی سی روشنی ایک سے دو پھر دو سے چار دلوں کو روشن کرتی ہے اور پھر یہ سلسلہ چل نکلتا ہے اور پوری دنیا پر چھا جاتا ہے

 

آخر وہ بھی مان لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو اس وقت نہیں سمجھتے نہ مانتے ہیں جب یہ روشنی بظاہر ان کی نظر میں کمزور اور ہلکی سی ہوتی ہےاور  وہ تو اس کے وجود کے بھی انکاری ہوتے ہیں مگر جب یہ دور دور تک پھیل کر ساری دنیا پر نمایاں نظر آتی ہے تو مان لینا پڑتا ہے لیکن وہ مان لینا بھی کیا مان لینا ہوا ؟ یہ وہ مان  لینے والے ہیں جو صرف کثرت کو دیکھ کر چڑھتے سورج کو دیکھ کر اورعوام کی اکثریت کو پیروی کرتا دیکھ کر مان لیتے ہیں-

 

 وہ چھوٹی سی ‘’جاگ’’ جس کے بغیر دودھ سے دہی نہیں بن سکتا چاہے کتنا بھی چولہے پر چڑھ کر لال ہو جاے اور کڑھتا رہے اس کو کون مانتا ہے ؟ کون یاد رکھتا ہے اور کون سراہتا ہے؟ اکثر لوگ بس اس دودھ کی کثرت اور پھر چولہے پر اس کی ہمّت کو دیکھتے ہیں اور پھر اس سے حاصل ہونے والے دہی کی داد دیتے ہیں-

 

جاگ دراصل وہ وصف ہے جو دانائی اور اس کے مبدا سے بھرپور وابستگی سے لگتی ہے-   یہی وہ وصف ہے وہ وابستگی ہے جو در اصل انسان میں وہ جاگ لگاتی ہے جس سے آدمی اشرف المخلوقات بن کر انسان کامل کے درجے کو پہنچتا ہے اور نسل در نسل یہی اقدار آگے چلتی رہتی ہیں-

 

کاشف احمد


No comments: