Monday 16 September 2019

انکو مت روکو یہ بہت ضروری '' بتیاں'' دیکھ رہے ہیں

ہمارے دیسی ماحول میں جب کوئی پینڈو نیا نیا شہر آتا ہے تو شہر کی چکاچوند آنکھوں کو خیرا کر دینے والی ہوتی ہے اور یہ پینڈو  اتنا مسحور ہو جاتا ہے کے کچھ او کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتا کسی اور پر دھیان نہیں رہتا اور پھر شہر کی رعنائیاں اور حسن دیکھنے میں اس قدر مشغول ہو جاتا ہے کہ سب کچھ بھول جاتا ہے- یہاں تک کے جو بتیاں دکھانے شہر لایا اس کی بھی اوقات نہیں رہتی ان بتیوں ، آزادیوں اور تفریح کے آگےکیونکہ ایسا پینڈو اکثراپنی اوقات اور آپے سے باہر رہتا ہے 

 میری مراد صرف دیسی اور پسماندہ  ماحول سے شہر آنے تک محدود نہیں بلکہ یہ شہر ملک کے اندر والے ہی نہیں ملک سے باہر والے بھی ہیں جہاں ایک پسماندہ علاقے سے جانے والے پینڈو ہی ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثر بہت دیر تک پینڈو ہی رہتے ہیں چاہے اوپر سے کتنے بھی مہذب اور مقامی شہری بنتے پھریں بہت ہے کم ایسے ہیں جو تہذیب و تمدّن کو اصل میں اپنا پاتے ہیں 

یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کے دیسی ہونا پینڈو اور گنوار ہونا  نہیں ہوتا دیسی ہونا تو ایک کلچر اور ثقافت کو اپنا کر رکھنے اور اس پر فخر کرنے کا نام ہے- یہاں ذکر صرف ان پینڈووں کا ہے جن کو دیکھ کر وہ مثال یاد آ جاتی ہے -'' کوا چلا ہنس کی چال.. اپنی چال بھی بھول گیا'' 

ایسے پینڈو کے بہت سے لطیفے بھی مشہور ہیں جو اپنی سادگی اور شعور کی کمی کا شکار ہو کر شہر میں پیدا ہوکر جوان ہونے والوں کے تمسخر کا نشانہ بنتے ہیں-  مگر بیچارے کھسیانے اس کے باوجود اپنی سی ہر کوشش سے باز نہیں آتے کے کسی بھی طرح وہ بھی مقامی لوگوں میں شمار ہونے لگیں- بلکہ انکی کوشش تو یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح خود کو مقامی لوگوں سے بھی بہتر ثابت کریں اور اس کوشش کی تبع آزمائی وہ اس شہر میں نۓ انے والے پینڈو افراد پر بھرپور آزماتے ہیں '' نواں آیاں آئیں سوہنیا'' کا مشہور ڈائلاگ کچھ اسی طرف اشارہ کرتا ہے ..شائد کسی پرانے متاثر شہر ، جس کو آزادی اور تفریح کی غلط فہمی ختم ہو جانے کے بعد کسی تازہ تازہ پینڈو کی آمد پر یہ کہنے کا موقع ملا ہو 

مگر ستم ظریفی بلکہ تکلیف دہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ پرانے پینڈو ان نۓاور تازہ ہجرت کرنے والے پینڈووں کے سامنے تو تیس مار خان اور پھر شہر اوراسکی روشن  بتیوں کے مستند عالم بن جاتے ہیں مگر اپنی اس شاندار کامیابی کی خوشی میں یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ شہر کے جم پل یعنی پیدائشی اورمقامی لوگ پینڈو نہیں جو ان کی استادی کا دم بھرنے لگ جائیں گے ...وہ اپنے ان جونیئر پینڈو افراد کی استادی کرنے کے زعم میں کئی بار مقامی شہریوں  کو بھی اپنی استادی کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے اور یہ لطیفے اکثر بن جاتے ہیں 

ایک شہر میں پیدا ہوکر جوان ہونے والے مقامی شخص ںے جب ایک پینڈو کو لنچ کے لئے ایک ماڈرن ریسٹورینٹ میں دعوت دی تو وہ اپنے ساتھ اپنے بعد  شہر آے ہوے پینڈو کو بھی اپنے ساتھ لے آیا- شائد اس لئے کے بیچارے نۓ انے والے پر اپنے شہر پر مکمل اتھارٹی ہونے کا ثبوت دے سکے مگر بیچارہ خود بھی پہلی بار ایسے شاندار ریسٹورینٹ میں آیا تو حیران پریشان ہو گیا-  آخر کھانے کی میز پر میزبان ، جو مقامی ہونے کی وجہ سے پینڈو کی خصلت سے واقف تھا جان بوجھ کر میز پر پڑے ہوے ذرا مختلف رنگ اور ڈیزائن کے پیپر نیپکن پر جان بوجھ کر نمک مرچ چھڑک کر تھوڑا سے کھانے کا ڈرامہ کیا توپرانے والے  پینڈو ںے فوری تقلید کی مگر جب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اپنے ساتھ والے پینڈو کو چپکے سے کہنے لگا '' نا کھائیں اوے پھکا ای 

خیر میرا مقصد مذاق اڑانا ہرگز نہیں بس اتنا کہنا ہے کہ  دنیا کی چکا چوند سے متاثر بیسچارے پینڈو جو صرف بتیاں دیکھتے رہ جاتے ہیں اور جو اصل کام کرنے دنیا میں اتے ہیں اسے بھول جاتے ہیں- یا اگر یاد بھی رہے تو مصروف بہت ہوتے ہیں-  کبھی کبھی بتیاں دیکھنے اور دنیا کی چکاچوند سمیٹنے سے فرصت ملے تو وہ اصل کام بھی کر لیتے ہیں جس کے لئے دنیا میں بھیجا گیا تھا- مگر پنجابی اصطلاح کے مطابق '' مغروں لان '' والے انداز میں جلدی جلدی جان چھڑا کر واپس اپنے بتیاں دیکھنے کے کام میں لگ جاتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ اس بتیاں دیکھنے کے کام کا انتظام کرنے میں اور وہ سب کچھ کمانے اور سمیٹنے میں لگ جاتے ہیں جس سے زیادہ سے زیادہ بتیاں دیکھی جا سکیں صرف آزادی اور تفریح کے لئے 

دنیا میں آئے تھے ان سب انتظامات صلاحیتوں اور ٹیکنالوجی  کو اپنے اصل مقصد اور کام میں صرف کرنے اور بھول گئے یا ''میسنے'' بن گئے اور ساری تدبیریں اور  پلاننگ کرتے ہیں بس اپنی آزادی اور تفریح کے لئے- نا صرف اپنی صلاحیتیں تدبیریں اور سکیمیں اس میں صرف کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی زور شور سے اسی کی تلقین کرتے ہیں اور تربیت دیتے ہیں اور کچھ تو ایسے ہیں جو نمونہ ایسا پیش کرتے ہیں کے بس اوپر اوپر  سے کبھی کبھی اصل مقصد اور کام کرتے ہوے بھی نظر آؤ اندر سے نہیں- اوپر اوپر سے بہت تن دہی سے '' لک بزی ڈو نتھنگ'' انداز میں کاغذ کالے کرتے بڑی بڑی تقریریں جھاڑتے ہوے اپنے اصل کام کرنے کی نمائش کرتے نظرآتے ہیں- اندر سے بس آزادی تفریح اور بتیاں دیکھںے کے شیدائی اور اسی کے انتظام میں مگن-

یہ تو ایسے ہی ہوا نہ  کہ کاروبار کے مالک اور خالق ںے  اپنے ملازم کو کسی کام سے دوسرے شہر بھیجا اور سارا خرچہ اور انتظام بھی دینے کا وعدہ کیا اگر کام سہی سہی کر کے آے-  مگر ملازم بیچارہ پینڈو وہاں جا کر شہر کی چکا چوند میں ایسا مگن ہوا کہ اصل کام چھوڑ ہی دیا 

مالک ںے  بار بار یاددلانے والے بھی بھیجے جو اس کا پیغام لے کر آتے رہے اور یاد دلاتے رہے کہ اے بندے اے ملازم تو اصل میں کس کام سے آیا تھا اور اب کیا کر رہا ہے یہاں؟  مالک تک کو بھول گیا جس ںے بھیجا تھا اور جس کے پاس واپس بھی جانا ہے ؟ حد تو یہ کے تھوڑے بہت نہیں ایک لاکھ چوبیس ہزار یاد دلانے والے آے مگر بہت سارے ملازم ابھی تک پینڈو کے پینڈو ہی رہے صرف بتیاں دیکھنے ، آزادی اور تفریح کرنے میں مگن اور ہر ایک پر یہ ثابت کرنے میں مشغول کے وہ پینڈو نہیں ہیں اور اسی دوڑ میں آگے سے آگے تیز سے تیز اور  شارٹ کٹ لگاتے ہوے نا صرف دوسرے پیچھے رہ جانے والے یا نۓ آنے والے پینڈو وں کے سامنے اندھوں میں کانے راجے بنےرہنے کو اصل کامیابی سمجھتے ہیں بلکہ اس خوشفہمی کا شکار بھی ہو جاتے ہیں کے وہ باشعور اور دونوں آنکھیں رکھنے والوں کو بھی اپنی چالاکی سے مات دے سکتے ہیں 

یہ پینڈو ملازم تو بہت قابل ہو گیا ...پڑھ لکھ گیا عالم فاضل ہو گیا اور نام رکھ لیا قاضی- سمجھدار ہو گیا - وہ ان  دقیانوسی باتوں میں کیسے آ جاۓ اتنی آسانی سے ؟ یہ لوگ شہر میں آ کر اسی کی رعنائیوں اور خوبصورتیوں کو ہی کامیابی سمجھتے  ہیں اور مقامی دنیاوی لوگوں کی شاطرانہ چالوں کو علم و ہنر اور عقلمندی سمجھ بیٹھے ہیں- انہی کی تقلید میں اندھا دھن بھاگے چلے جا رہے ہیں -جانتے بوجھتے ہوے ‘’گھنے اور میسنے’’ بن کر غلط کو سہی اور سہی کو غلط کہتے چلے جاتے ہیں اور اس پر فخر محسوس کرتے ہیں اور پیچھے رہ جانے والے پینڈو وں  کو بھی یہی سبق رٹاتے ہیں    

میں سوچتا ہوں کب تک ....اور کتنی عمر چاہیے انکو یہ بات سمجھنے میں کہ یہ  کرنے کیا آے تھے اور کر کیا رہے ہیں- سنا تھا کہ چالیس سال بعد آدمی میں پختگی اور شعور آ جاتا ہے مگر یہاں تو شوققینی کی کوئی انتہا ہی  نظر نہیں آتی ہر عمر کا پینڈو ہے یہاں جس کا بتیوں کا شوق ہی ختم نہیں ہوتا- اور اگر کچھ کہنے کی یا سمجھانے کی کوشش کروکہ ’’ بس کرو ہن کنی دیر بتیاں ویکھی جاؤ گے اصل کم ول وی آ جاؤ’’ تو پنجے جھاڑ کر چڑھ دوڑتے ہیں '' ساہنو سمجھا ریا ایں؟  اے دن وی آنا سی ہن؟

اس لئے بس ان پینڈووں  کو نا چھیڑو یہ بتیاں دیکھنے والے بے حد ضروری کام میں انتہائی مصروف ہیں 

Wednesday 11 September 2019

اچھا مشورہ منہگا لگتا ہے تو برے مشورے سے کام چلا لیں

طبیب یا ڈاکٹر کے نہ ہوتے ہوے لوگ کیسے بیماری کا علاج کرتے ہونگے اسی طرح سکھانے والے یا معلم کے بغیر کیسے تعلیم حاصل کرتے ہونگے 

یہ نہیں ہےکہ ان حالات میں علاج نہیں ہو تا تھا اور لوگ بیمار ہی رہتے تھے یا مر جاتے تھے یا پھر معلم نہ ملنے کی صورت میں جاہل رہ جاتے تھے - علاج تب بھی ہوتا تھا اور تعلیم تب بھی حاصل کی جاتی تھی مگر بہت وقت لگتا تھا اور بہت عجیب و غریب حالت رہتی تھی اور کس قسم کا علاج اور تعلیم ہوتی تھی یہ ہم اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں 

معاملہ بگڑ بھی جاتا تھا اور مستقل مسائل بھی جنم لیتے تھے جیسے اکثر ہمارے ہاں مشرق میں شاز ہی دیکھنے میں آتا ہےکہ لوگ اپنے گھروں کی تعمیر سے قبل کسی مستند آرکٹیکٹ کی خدمات حاصل کریں اور ایک درست ڈیزائن اور نقشے کے مطابق گھر تعمیر کریں اور باقاعدہ کسی سول انجینئر سے مشورہ لے کر موسمی اور جغرافیائی ضرورت کو ملحوظ خاطر رکھ کر گھر تعمیر کریں 

بعد میں چاہے ساری عمر بہت سے مسائل کا شکار رہیں کبھی سردی روکنے کے مسائل کبھی گرمی کے کبھی لیکیج وغیرہ یا سیپج-  مگر ماہرین سے مشورہ کرنا عقلمندی نہیں سمجھتے - مکان پر لاکھوں خرچ کرنا عقلمندی ہے اور بعد میں مرمّت پر بھی لیکن کسی ماہر  تعمیر پر خرچ نہیں کرسکتے 

بلکل اسی طرح زندگی کے بہت سے اہم معملات میں خود ہی عقلمند اور ماہر بن جانا اپنا اولین فرض بلکہ حق سمجھتے ہیں جیسے اپنے لئے پیشہ کا انتخاب اور تعلیم کے معاملے میں خود بہت سمجھدار اور عقل مند ہیں یا پھر اکثر لوگ تو بھیڑ چال اور نیم حکیم مشورہ سے کام چلا لیتے  ہیں- پھر یا تو کامیاب نہیں ہوتے اور اگر ہو بھی جائیں تو ساری عمر غیر مطمئن رہتے ہیں اور اپنے ساتھ اور لوگوں کے ساتھ زیادتی کرنے میں گزارتے ہیں - اسی نا انصافی کی وجہ سے آخر زندگی اجیرن کر لیتے ہیں مگر پھر بھی اس کا ذمہ دار دوسروں کو ہی کہتے رہتے ہیں 

اکثر لوگ اس بات سے بھی نا واقف ہیں کہ معلوم شادی اور بعد میں ازدواجی مسائل کے حل کے ماہرین ہوتے ہیں اسی طرح تعلیم اور پیشہ بھی ہماری شخصیت کے مطابق تجویز کرنے والے اور اختیار کرنے کے طریقہ کار کے علاوہ کامیابی حاصل کرنے کی تربیت دینے والے بھی ہوتے ہیں 

یہ بات سچ  ہے کہ سکھانے سے زیادہ مشکل کام سیکھنا کا ہوتا ہے اور کوئی برا شاگرد نہیں ہوتا ہمیشہ نہ اہل استاد ہوتا ہے مگر یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہےکہ اگر آپ مچھلی کو درخت پر چھڑنا سکھائیں  گے تو یہ نہ ممکن ہے- آپ کو اس کی صلاحیت کے مطابق تربیت دینا ہوگی کیونکہ ہر انسان میں سیکھنے کی ایک منفرد صلاحیت ہوتی ہے جو اس کی شخصیت کے رجحان کی مطابق ہوتی ہے اور یہ دریافت کرنے کے لئے بہت گہری دلچسپی اور سوچ سے  کام لینا ہوتا ہے جو ماہرین کا کام ہے  

معاشرے میں ایسے  رجحانات کی وجہ در اصل تین سو سال سے رائج صنعتی انقلاب کی رائج کردہ مسخ شدہ اقدار ہیں جو سرمایہ داروں نے سوچ  سمجھ کر اپنے ذاتی فوائد کی خاطر بڑے پیمانے پر رائے عامہ کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کے لئے پوری قوت اور ذرائع ابلاغ کے غلط استمال سے  بار بار اور لگاتار عوام کو باور کروایا - یعنی خوشحال محفوظ زندگی ان کے قائم کردہ تعلیمی نظام اور نوکر بن جانے کا نام ہے اور زندگی خود انحصاری چھوڑ کر حاصل ہوتی ہے- جس میں کیونکہ اس میں دھوکے اور ناکامی  کا خطرہ بہت زیادہ ہے- دیکھو خطرہ مول لینا رسک لینا عقلمندی نہیں

یہ سب سوچے سمجھے منصوبے کے تحت میڈیا کی ایجاد سے ممکن بنایا گیا  تاکہ ان کی فیکٹری کو ملازم ملتا رہے جس کی سوچ غلامانہ ہو حاکمانہ ہرگز نہیں -  نام نہاد تعلیمی اداروں میں خاص طور پر ملازم بن جانے کی تربیت دی جاتی رہی- یونیفارم کی عادت ہو وقت پر اٹھنے دفتر جانے اور وقت پر تنخواہ ملنے  کو تحفظ سمجھتا رہے اور کبھی کسی اور پر بھروسہ نا کرے, کبھی حوصلے سے کام لے کر الله پر یقین نا کرے اور رسک لے کر کوئی کاروبار نا کرے یا ارد گرد کے ماحول اور لوگوں پر انحصار کبھی نا   کرے اسے بھول جاے کہ اسے تو معاشرتی حیوان یا حیوان ناطق بنیا گیا ہے لوگوں میں رہنا ان کو ساتھ لے کر چلنا بھروسہ کرنا یقین کرنا اور انحصار کرنا ہی اس کی جبلت ہے کیونکہ اسی سے یقین پیدا ہوتا ہے جو ایمان کی پہلی سیڑھی ہے 

اور ایمان ہی در اصل ہمیں حوصلہ ہمّت اوریقین  کرنے کی سہی راہ پر لےجاتا ہے اور دینی اور دنیاوی کامیابی حاصل کرنے کی تربیت دیتا ہے- اس لئے ایمان کی جڑ شروع میں ہی بے  یقینی پیدا کر کے کاٹ دی جاتی ہے اور انسان مستقل اضطراب کا شکار ہو کر بھروسہ نہ کرنے کا سبقیاد کر لیتا ہے اور حوصلہ کرنا کسی پر بھروسہ کرنا  بے وقوفی سمجھنے لگتا ہے اور دھیرے دھیرے ہر چیز یہاں تک کے خود سے بھی بھروسہ اٹھ جاتا ہے  

حوصلہ کرنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ صرف صبح اٹھ کر اسکول جانے کا حوصلہ کرے اور وہاں کوئی ڈرآئے تو یہ والا شاپو لگا کر جاؤ تو ڈر نہیں لگے گا بہادری کا مطلب ہے یہ والا ڈرنک پی کر شیر کی طرح دھاڑنا یا پہاڑ سے پانی میں  کود جانا آزادی کا مطلب ہوتا ہےبے ہودگی اور وحشی بن کر کسی چھوٹے بڑے کا لحاظ چھوڑ دینا - خوبصورتی کا مطلب ہے بے حیائی اور بے پردگی سے اپنے ننگ کا اظہار 

معاشرے میں اس قسم کو سوچ اور مزاج کو ترویج دینے کا کام جب ٣٠٠ سال سے ہو رہا ہے تو پھر کچھ اور سیکھنا جودراصل کچھ نیا ہرگز نہیں ہے, صرف تیز رفتار اور شارٹ کٹ کی زندگی میں  بھلا دیا گیا ہے ، کیسے ممکن ہوگا ؟

معلومات اور خبروں کی اس بوچھاڑ کو علم اور دانائی بنا کر پیش کرتے رینے کے بعد دماغوں میں کہاں جگہ بچی ہے درست سمت کو تسلیم کر لینے اور پھر اس پر گامزن ہو جانے کی-  پھر وہ کیسے مشورہ کریں اور کیسے اتنی ہمّت کریں کے ماہرین اور متند دانشوروں سے رابطہ کر کے اپنی زندگی کے اہم ترین مرحلے خوش اسلوبی سے طے کریں 

اسی لئے اکثر درست مشورہ منہگا سمجھا اور آئی فون سستا- لوگ اکثر  برا مشورہ اپنا لیتے ہیں جو شائد سستا یا پھر مفت مل جاتا ہے کیونکہ یہاں کسی چاۓ  والے کے ڈھابے پر جاؤ جو دن میں چالیس پچاس کپ چاۓ بنا لیتا ہوگا تو وہ آپ کو بتاے گا کے ملک کے وزیر اعظم کو کیسے کام کرنا چاہیے ...یہ اور بات ہے کہ خود اسے اچھی چاۓ نہیں بنانی آتی 

اسی طرح کہ لوگوں نے مستند ماہرین کو بھی مشکوک بنا ڈالا ہے بلکل اسی طرح جسیے نام نہاد تعلیمی نظام نے تعلیم کو مشکوک کر دیا اور میڈیا نے معاشرتی اقدار اور اصطلاحات کو مسخ شدہ معنی پہنا ڈالے پھر معصوم عوام نے سوشل میڈیا کی ایجاد کے بعد جو کچھ اس پر نظر آیا اور سنائی دیا اسی کو سچا مانا یا نہیں البتہ بغیر تحقیق کی تکلیف کیئے آگے بیان کر دیا اور رفتہ رفتہ ایک ڈری ہوئی دباؤ اور مستقل اضطراب  کا شکار قوم تیار ہو گئی جو اور کچھ ہو نا ہو ایک بہت اچھی خریدار اور گاہک ضرور ہے کیونکہ ان حالات میں پتہ نہیں کل کیا ہو جاے اس لئے سب خرید لو اور جمع کر کے رکھو کل ملے نا ملے 

Wednesday 4 September 2019

بلندی اور کامیابی

کہیں بلندی پر کھڑے ہو کر نیچے دیکھیں تو تھوڑی دیر کو خوف کا عجیب احساس پیدا ہوتا ہے ایسے ہی اگر پہاڑی راستوں  میں سفر کرتے ہوے نیچے گہری کھائی میں نظر پڑے تو ڈر لگنے لگتا ہے - کچھ لوگوں کو تو اونچائی کا فوبیا بھی ہوتا ہے اور تھوڑی سی اونچائی پر جا کر ٹانگیں کامپنے لگتی ہیں اور چکر آنے لگ جاتے ہیں 

مگر جب انسان بچہ ہوتا ہے یا پھر نہ سمجھ تو عام سی جگہوں پر بھی تھوڑی اونچائی بھی بہت مشکل لگتی ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے کے جتنا انسان چھوٹا اور نا تجربہ کار ہوتا ہے اتنا ہی گھبراتا ہے مشکلیں اور چلینج ہمیں اپنی شخصیت کے سائز کے حساب سے چھوٹے بڑے محسوس ہوتے ہیں کوئی بھی اوور کنفیڈنٹ یا ضرورت سے زیادہ با اعتماد نی ہوتا صرف تجربے اور پختگی کا فرق ہوتا ہے 

:یونانی فلاسفر اکثر اپنے سیکھنے والوں سے  یہ سوال کرتے ہیں کہ 

حکومت کیسے چلانی چاہیے ؟ 
ہمیں کچھ جاننے کی کیوں ضرورت ہوتی ہے ؟
اور آپکی زندگی میں کیا اچھا ہے ؟

ایک اہم سوال جس کو پوچھتے پوچھتے لوگ آجکل اپنی ڈیوائسس یعنی فون لیپ ٹاپ وغیرہ کے ساتھ رہ جاتے ہیں اور پھر کامیابی کے سطحی اور سرسری معنی نکال کر خوش ہو جاتے ہیں اور آپس میں بات چیت صرف اس وقت کرتے ہیں جب کسی جنازے پر افسوس کا اظہار کرنا پڑے اور مرنے والے کی خوب تعریفیں ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر کرتے ہیں کہ بہت نیک ہمدرد اور عقلمند انسان تھا- مگر یہ تعریفیں اسکے زندہ ہوتے ہوے نہیں کرتے - ہمیں شائد کامیاب اور اچھا انسان ہونے لئے مرنا پڑتا ہے 

زندگی میں اگر یہی ستائش مل جایا کرے تو شائد زندہ ہوتے ہوے بھی اپنے آپ کو اچھا اور کامیاب سمجھیں کیونکہ کامیابی کی پہلی سیڑھی خود کو اچھا اور کامیاب انسان ماننا ہوتا ہے اور یہ ستائش ہمّت افزائی سے ممکن ہے نہ کہ حوصلہ شنکی بے جا روک ٹوک اور حقیقت پسندی کے نام پر منفی سوچ اور زمانے کا خوف دماغوں میں ٹھونسنے سے