Wednesday 11 September 2019

اچھا مشورہ منہگا لگتا ہے تو برے مشورے سے کام چلا لیں

طبیب یا ڈاکٹر کے نہ ہوتے ہوے لوگ کیسے بیماری کا علاج کرتے ہونگے اسی طرح سکھانے والے یا معلم کے بغیر کیسے تعلیم حاصل کرتے ہونگے 

یہ نہیں ہےکہ ان حالات میں علاج نہیں ہو تا تھا اور لوگ بیمار ہی رہتے تھے یا مر جاتے تھے یا پھر معلم نہ ملنے کی صورت میں جاہل رہ جاتے تھے - علاج تب بھی ہوتا تھا اور تعلیم تب بھی حاصل کی جاتی تھی مگر بہت وقت لگتا تھا اور بہت عجیب و غریب حالت رہتی تھی اور کس قسم کا علاج اور تعلیم ہوتی تھی یہ ہم اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں 

معاملہ بگڑ بھی جاتا تھا اور مستقل مسائل بھی جنم لیتے تھے جیسے اکثر ہمارے ہاں مشرق میں شاز ہی دیکھنے میں آتا ہےکہ لوگ اپنے گھروں کی تعمیر سے قبل کسی مستند آرکٹیکٹ کی خدمات حاصل کریں اور ایک درست ڈیزائن اور نقشے کے مطابق گھر تعمیر کریں اور باقاعدہ کسی سول انجینئر سے مشورہ لے کر موسمی اور جغرافیائی ضرورت کو ملحوظ خاطر رکھ کر گھر تعمیر کریں 

بعد میں چاہے ساری عمر بہت سے مسائل کا شکار رہیں کبھی سردی روکنے کے مسائل کبھی گرمی کے کبھی لیکیج وغیرہ یا سیپج-  مگر ماہرین سے مشورہ کرنا عقلمندی نہیں سمجھتے - مکان پر لاکھوں خرچ کرنا عقلمندی ہے اور بعد میں مرمّت پر بھی لیکن کسی ماہر  تعمیر پر خرچ نہیں کرسکتے 

بلکل اسی طرح زندگی کے بہت سے اہم معملات میں خود ہی عقلمند اور ماہر بن جانا اپنا اولین فرض بلکہ حق سمجھتے ہیں جیسے اپنے لئے پیشہ کا انتخاب اور تعلیم کے معاملے میں خود بہت سمجھدار اور عقل مند ہیں یا پھر اکثر لوگ تو بھیڑ چال اور نیم حکیم مشورہ سے کام چلا لیتے  ہیں- پھر یا تو کامیاب نہیں ہوتے اور اگر ہو بھی جائیں تو ساری عمر غیر مطمئن رہتے ہیں اور اپنے ساتھ اور لوگوں کے ساتھ زیادتی کرنے میں گزارتے ہیں - اسی نا انصافی کی وجہ سے آخر زندگی اجیرن کر لیتے ہیں مگر پھر بھی اس کا ذمہ دار دوسروں کو ہی کہتے رہتے ہیں 

اکثر لوگ اس بات سے بھی نا واقف ہیں کہ معلوم شادی اور بعد میں ازدواجی مسائل کے حل کے ماہرین ہوتے ہیں اسی طرح تعلیم اور پیشہ بھی ہماری شخصیت کے مطابق تجویز کرنے والے اور اختیار کرنے کے طریقہ کار کے علاوہ کامیابی حاصل کرنے کی تربیت دینے والے بھی ہوتے ہیں 

یہ بات سچ  ہے کہ سکھانے سے زیادہ مشکل کام سیکھنا کا ہوتا ہے اور کوئی برا شاگرد نہیں ہوتا ہمیشہ نہ اہل استاد ہوتا ہے مگر یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہےکہ اگر آپ مچھلی کو درخت پر چھڑنا سکھائیں  گے تو یہ نہ ممکن ہے- آپ کو اس کی صلاحیت کے مطابق تربیت دینا ہوگی کیونکہ ہر انسان میں سیکھنے کی ایک منفرد صلاحیت ہوتی ہے جو اس کی شخصیت کے رجحان کی مطابق ہوتی ہے اور یہ دریافت کرنے کے لئے بہت گہری دلچسپی اور سوچ سے  کام لینا ہوتا ہے جو ماہرین کا کام ہے  

معاشرے میں ایسے  رجحانات کی وجہ در اصل تین سو سال سے رائج صنعتی انقلاب کی رائج کردہ مسخ شدہ اقدار ہیں جو سرمایہ داروں نے سوچ  سمجھ کر اپنے ذاتی فوائد کی خاطر بڑے پیمانے پر رائے عامہ کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کے لئے پوری قوت اور ذرائع ابلاغ کے غلط استمال سے  بار بار اور لگاتار عوام کو باور کروایا - یعنی خوشحال محفوظ زندگی ان کے قائم کردہ تعلیمی نظام اور نوکر بن جانے کا نام ہے اور زندگی خود انحصاری چھوڑ کر حاصل ہوتی ہے- جس میں کیونکہ اس میں دھوکے اور ناکامی  کا خطرہ بہت زیادہ ہے- دیکھو خطرہ مول لینا رسک لینا عقلمندی نہیں

یہ سب سوچے سمجھے منصوبے کے تحت میڈیا کی ایجاد سے ممکن بنایا گیا  تاکہ ان کی فیکٹری کو ملازم ملتا رہے جس کی سوچ غلامانہ ہو حاکمانہ ہرگز نہیں -  نام نہاد تعلیمی اداروں میں خاص طور پر ملازم بن جانے کی تربیت دی جاتی رہی- یونیفارم کی عادت ہو وقت پر اٹھنے دفتر جانے اور وقت پر تنخواہ ملنے  کو تحفظ سمجھتا رہے اور کبھی کسی اور پر بھروسہ نا کرے, کبھی حوصلے سے کام لے کر الله پر یقین نا کرے اور رسک لے کر کوئی کاروبار نا کرے یا ارد گرد کے ماحول اور لوگوں پر انحصار کبھی نا   کرے اسے بھول جاے کہ اسے تو معاشرتی حیوان یا حیوان ناطق بنیا گیا ہے لوگوں میں رہنا ان کو ساتھ لے کر چلنا بھروسہ کرنا یقین کرنا اور انحصار کرنا ہی اس کی جبلت ہے کیونکہ اسی سے یقین پیدا ہوتا ہے جو ایمان کی پہلی سیڑھی ہے 

اور ایمان ہی در اصل ہمیں حوصلہ ہمّت اوریقین  کرنے کی سہی راہ پر لےجاتا ہے اور دینی اور دنیاوی کامیابی حاصل کرنے کی تربیت دیتا ہے- اس لئے ایمان کی جڑ شروع میں ہی بے  یقینی پیدا کر کے کاٹ دی جاتی ہے اور انسان مستقل اضطراب کا شکار ہو کر بھروسہ نہ کرنے کا سبقیاد کر لیتا ہے اور حوصلہ کرنا کسی پر بھروسہ کرنا  بے وقوفی سمجھنے لگتا ہے اور دھیرے دھیرے ہر چیز یہاں تک کے خود سے بھی بھروسہ اٹھ جاتا ہے  

حوصلہ کرنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ صرف صبح اٹھ کر اسکول جانے کا حوصلہ کرے اور وہاں کوئی ڈرآئے تو یہ والا شاپو لگا کر جاؤ تو ڈر نہیں لگے گا بہادری کا مطلب ہے یہ والا ڈرنک پی کر شیر کی طرح دھاڑنا یا پہاڑ سے پانی میں  کود جانا آزادی کا مطلب ہوتا ہےبے ہودگی اور وحشی بن کر کسی چھوٹے بڑے کا لحاظ چھوڑ دینا - خوبصورتی کا مطلب ہے بے حیائی اور بے پردگی سے اپنے ننگ کا اظہار 

معاشرے میں اس قسم کو سوچ اور مزاج کو ترویج دینے کا کام جب ٣٠٠ سال سے ہو رہا ہے تو پھر کچھ اور سیکھنا جودراصل کچھ نیا ہرگز نہیں ہے, صرف تیز رفتار اور شارٹ کٹ کی زندگی میں  بھلا دیا گیا ہے ، کیسے ممکن ہوگا ؟

معلومات اور خبروں کی اس بوچھاڑ کو علم اور دانائی بنا کر پیش کرتے رینے کے بعد دماغوں میں کہاں جگہ بچی ہے درست سمت کو تسلیم کر لینے اور پھر اس پر گامزن ہو جانے کی-  پھر وہ کیسے مشورہ کریں اور کیسے اتنی ہمّت کریں کے ماہرین اور متند دانشوروں سے رابطہ کر کے اپنی زندگی کے اہم ترین مرحلے خوش اسلوبی سے طے کریں 

اسی لئے اکثر درست مشورہ منہگا سمجھا اور آئی فون سستا- لوگ اکثر  برا مشورہ اپنا لیتے ہیں جو شائد سستا یا پھر مفت مل جاتا ہے کیونکہ یہاں کسی چاۓ  والے کے ڈھابے پر جاؤ جو دن میں چالیس پچاس کپ چاۓ بنا لیتا ہوگا تو وہ آپ کو بتاے گا کے ملک کے وزیر اعظم کو کیسے کام کرنا چاہیے ...یہ اور بات ہے کہ خود اسے اچھی چاۓ نہیں بنانی آتی 

اسی طرح کہ لوگوں نے مستند ماہرین کو بھی مشکوک بنا ڈالا ہے بلکل اسی طرح جسیے نام نہاد تعلیمی نظام نے تعلیم کو مشکوک کر دیا اور میڈیا نے معاشرتی اقدار اور اصطلاحات کو مسخ شدہ معنی پہنا ڈالے پھر معصوم عوام نے سوشل میڈیا کی ایجاد کے بعد جو کچھ اس پر نظر آیا اور سنائی دیا اسی کو سچا مانا یا نہیں البتہ بغیر تحقیق کی تکلیف کیئے آگے بیان کر دیا اور رفتہ رفتہ ایک ڈری ہوئی دباؤ اور مستقل اضطراب  کا شکار قوم تیار ہو گئی جو اور کچھ ہو نا ہو ایک بہت اچھی خریدار اور گاہک ضرور ہے کیونکہ ان حالات میں پتہ نہیں کل کیا ہو جاے اس لئے سب خرید لو اور جمع کر کے رکھو کل ملے نا ملے 

No comments: