Tuesday 25 June 2019

خوشیوں کو ایک کاغذ

ایک خاتون کی عادت تھی کہ وہ روزانہ رات کو سونے سے پہلے اپنی دن بھر کی خوشیوں کو ایک کاغذ پر لکھ لیا کرتی تھی۔
ایک شب اس نے لکھا کہ:

میں خوش ہوں کہ میرا شوہر تمام رات زور دار خراٹے لیتا ہےکیونکہ وہ زندہ ہے اور میرے پاس ہے نا۔
یہ اللّٰه کا شکر ہے۔

میں خوش ہوں کہ میرا بیٹا صبح سویرے اس بات پر جھگڑا کرتا ہے کہ رات بھر مچھر،کھٹمل سونے نہیں دیتے یعنی وہ رات گھر پہ ہی گزارتا ہے آوارہ گردی نہیں کرتا۔

اس پر بھی اللّٰه کا شکر ہے۔

میں خوش ہوں کہ ہر مہینہ بجلی، گیس، پانی،پٹرول وغیرہ کا اچھا خاصا ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے یعنی یہ سب چیزیں میرے پاس میرے استعمال میں ہیں نا۔۔ اگر یہ نہ ہوتی تو زندگی کتنی مشکل ہوتی۔
اس پر بھی اللّٰه کا شکر ہے۔

میں خوش ہوں کہ دن ختم ہونے تک میرا تھکن سے برا حال ہوجاتا ہے یعنی میرے اندر دن بھر سخت کام کرنے کی طاقت ہے نا۔۔۔
اور یہ طاقت اور ہمت صرف اللّٰه ہی کے فضل سے ہے۔

میں خوش ہوں کہ روزانہ اپنے گھر کا جھاڑو پونچا کرنا پڑتا ہے اور دروازے کھڑکیاں صاف کرنا پڑتی ہیں شکر ہے میرے پاس گھر تو ہے نا۔۔ جن کے پاس نہیں ان کا کیا حال ہوتا ہوگا۔
اس پر اللّٰه کا شکر ہے۔

میں خوش ہوں کہ کبھی کبھار تھوڑی بیمار ہو جاتی ہوں یعنی میں زیادہ تر صحت مند ہی رہتی ہوں۔۔
اس پر بھی اللّٰه کا شکر ہے۔

میں خوش ہوں کہ ہر سال عید پر تحفے اور عیدی دینے میں پرس خالی ہو جاتا ہے یعنی میرے پاس چاھنے والے میرے عزیز رشتہ دار دوست احباب ہیں جنہیں تحفہ دے سکوں۔ اگر یہ نہ ہوں تو زندگی کتنی بے رونق ہو۔
اس پر بھی اللّٰه کا شکر ہے۔

میں خوش ہوں کہ روزانہ الارم کی آواز پر اٹھ جاتی ہوں یعنی مجھے ہر روز ایک نئی صبح دیکھنا نصیب ہوتی ہے۔۔۔

ظاہر ہے یہ اللّٰه کا ہی کرم ہے۔

جینے کے اس انمول فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اپنی بھی اور اپنے سے وابستہ لوگوں کی زندگی پرسکون بنانی چاہیے
"چھوٹی چھوٹی پریشانیوں میں خوشیوں کی تلاش…"

"خوش رہنے کا ایک خوبصورت انداز…" 
خوشی کہیں باہر سے نہیں ہمارے اندر سے پھوٹتی ہے ...اندر سے جتنے خوبصورت اور حسین ہم خود ہوتے ہیں   جنتا مطمئن اور مسرور رہتے ہیں، باہر اتنا ہی خوصورت اور حسین نظر اتا ہے -

اور اس اندر کی خوبصورتی اور اطمینان کا راز ایک ہی ہے جس سے ہم سب بہت اچھی طرح  واقف ہیں اور وہ ہے بھروسہ کرنا . بھروسہ اپنے ارد گرد پر اپنے ماحول اپنے لوگوں اور اپنی پاک جماعت پر- 

بھروسہ دلانے اور حوصلہ افزائی کرنے کا کام ہی اصل میں بڑوں کا کام ہے ' کیا ہوگیا جو کچھ غلط ہو گیا ؟' ہوسکتا ہے کوئی ایسی مجبوری کوئی رکاوٹ یا کوئی ایسا اچانک کام آن پڑا ہو جس سے کوئی اپنی بات نبھا نہیں پایا - کونسا کوئی نئی بات ہو گئی، ہو جاتا ہے - ہر ایک شخص کی تربیت اور ماحول ایک سا نہیں ہوتا - وقت لگتا  ہے انسان میں پختگی اور دانائی آنے میں حوصلہ کرو ہمّت سے کام لو ہم مل کر پھر سے کوشش کریں گے 

حوصلہ افزائی دلجوئی بہت اھم عنصر ہے کسی بھی معاشرے کی پختگی اور خوشحالی میں- اس سے یقین پیدا ہوتا ہے اور نسلیں سنور جاتی ہے - بجاے اس کہ کے حوصلہ شکنی کی جاے کسی کام سے صرف اس لئے روکا جاے کے یہ کبھی ہمارے خاندان میں کسی نے پہلے کبھی نہیں کیا نہ کر پایا تم کیسے کرلو گے یا پھر یہ کہنا  کہ بہت مطلبی اور ظالم دنیا ہے بیٹا تم بہت معصوم ہو دھوکہ کھا جو گے - مطلب یہ کے ہم اس قابل نہیں کے تمہیں باقاعدہ تعلیم اور رہنمائی کے ساتھ تحفظ فراہم کر سکیں کیونکہ ہم بھی مظلوم ، بے چارے اور مجبور ہیں اور اپنے بچوں کو مشکل وقت کا مقبلہ کرنا اور ایسے وقت میں خود کو مضبوط اور حوصلہ مند رکھنا نہیں سکھا سکتے- 

معاشرے سے خوفزدہ کرنا اور متنفر کر دینا حقیقت پسندی نہیں شرک کے زمرے میں آتا ہے کیونکے امید دلانا مثبت سوچ جگانا جزو ایمان ہے جو اعتماد اور یقین پیدا کرتا ہے جو اصل میں ایمان کی پہلی سیڑھی ہے جو انسان میں اطمینان اور خوشی پیدا کرتا ہے اور یہ اطمینان دائمی ہوتا ہے نہ کہ وقتی اور عارضی جو شوپنگ کر لینے کوئی اچھی فلم دیکھ لینے موسیقی یا کہیں بہت اچھا کھانا کھا لینے گھومے پھرنے یا کسی بھی اور علت یا نشے کی صورت میں حاصل ہوتا ہے 

کسی نے کبھی جب مھے دعا دی کہ'' الله خوش رکھے'' تو بے اختیار میرے منہ سے نکلا جزاکم الله لیکن مجھے خوشی نہیں اطمینان کی تلاش ہے دائمی اور ابدی اطمینان جس کی شروعات ہوتی ہیں مسلسل علم حکمت میں اضافہ ہوتے رہنے سے اور کسی دانا بزرگ کی سرپرستی اور رہ نمائی میں  روز کچھ نیا سیکھنے اور کر گزرنے سے دھیرے دھیرے قدم با قدم علم و حکمت کی منزلیں سر کرتے جانے سے- یہی انسان کا دنیا میں آنے کا اصل مقصد بھی تو ہے 

Saturday 22 June 2019

احساس

احساس کس کو کہتے ہیں ؟ کیا کبھی کسی کو  یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ میں ہوں نہ فکرکیوں کرتے ہو ؟ سب ٹھیک ہو جاے گا انشا الله میں سب سمبھال لوں گا - کبھی کسی کی امید جگانے کی سکون قائم رکھنے کی کوشش عارضی طور پر نہیں مستقل طور پرکی ؟ جیسے  اپنی عادت میں شامل ہو صرف دعاؤں اور الله کے فضل کی امید رکھتے ہوے کرتے ہوۓ ایک شعار کی طرح ؟

اس لئے نہیں کے کسی طرح آگے نکل جاؤں اس سے  بیچارہ بنا کر اپنا زیر احسان مجبور لاچار اور کمزور ہونے کا احساس بڑھا کر لوگوں میں اپنے بڑے پن کو ثابت کرنے کے لئے- بظاھر حوصلہ افزائی ہمدردی اور دکھ اور فکر کا اظھار کبھی براہ راست یا بلواسطہ.. کے دیکھو بیچارہ کتنا مجبور اور اور مظلوم ہے.. کوئی مدد نہیں کرتا لو میں کروں مدد.. اور جیب سے نوٹ نکال کر دے دیا اور سمجھا کے میں نے بچارے کی مشکل آسان کردی-

کہتے ہیں نیکی یہ نہیں کہ بھوکا سوال کرے تو جیب سے نوٹ نکال کر دے دو .. نیکی یہ ہے کے تم خود بھی اتنے ہی بھوکے ہونے کے باوجود دوسرے کے سوال کرنے پر اس کی پوری حاجت روائی کرو مکمل دلجوئی کے ساتھ

کبھی اس مزے ، اس خوشی کو محسوس کیا جو کسی کو آرام پنھچاتے رہنے  ، درد کم کر دینے راحت پونھچانے سے ملتی ہے؟ جب اس درد زدہ انسان کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ دکھائی دیتی ہے ؟ یہی تو دنیا سے بہت تیزی سے کم ہوتا چلا جا رہا ہے

ہم کہتے ہمیں احساس ہے مگر کیا یہ احساس ہےکہ جیسے ہماری پسند کا خیال رکھا جانا ضروری ہے اسی طرح کسی اور کی پسند بھی ہو سکتی ہے-  جو شائد ہم سے یکسر مختلف اور عجیب بھی ہوسکتی ہے ؟ یہ بھی تو ہوسکتا ہے نا کے کسی کو ہماری کوئی پسند بہت عجیب دکھائی دیتی ہو اور سوچتا ہو کیسی عجیب بیہودہ پسند ہے ؟

اور اس سے بڑھ کر یہ کے ہم چاہتے ہیں کوئی ہمارے سامنے ناپسندیدہ بات یا حرکت نا کرے نا ہمیں کچھ ناپسندیدہ کرنے پر مجبور کرے نا کچھ نا پسندیدہ استعمال کرنے یا کھانے پینے کو دے مگر خود کبھی خیال نہیں کرتے کے ہماری کس حرکت سے کسی کے جذبات مجروح ہو گئے کس تعلق کس رجحان اور کس کام نے کسی کو اندر سے مستقل  طور پر توڑ کر رکھ دیا- کیونکہ ہم سمجھتے ہی نہیں کے کسی اور کو کچھ ایسا ہوسکتا ہے جو ہمیں نہیں ہوتا

سولومن جزائر کا نام تو سنا ہی ہوگا آپ نے- نہیں تو گوگل کر کے دیکھ لیں - وہاں جب کسی تعمیر کی خاطر کوئی بڑا درخت آڑے آ جاتا ہے توقدیم  روایت کی پاسداری کرتےہوۓ وہاں کے لوگ اس درخت کو کاٹنے کی بجاے اس کے گرد گھیرا ڈال کر اسکو خوب برا بھلا کہتے ہیں سلواتیں سناتے  ہیں کوستے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ درخت صرف ٣٠ دن میں سوکھ کر مرجاتا ہے - آگے آپ خود سمجھدار ہیں ہم تواپنی اولادوں تک کو نہیں بخشتے ، کوسنے دینے برا بھلا  کہنے یہاں تک کےزد کوب کرنے اور اپنی خود ساختہ مجبوریوں لاچاریوں اورخود دعوت دئیے ہوۓ مظالم کی کہانیاں دوستی کے نام پر سنا سنا کر اندر سے توڑنے پر مجبور کرنے سے باز نہیں آتے- جانتےبوجھتے ہوۓ ان معصوموں کو لوگوں کے سامنے تماشا بن ڈالنے سے باز نہیں آتے جنکو دنیا میں لانے کے ہم ذمہ دار اور جوابدہ ہیں انکا اسی طرح جسمانی اور روحانی قتل جاری رکھتے ہیں

کسی کی امیدوں خواہشوں تکلیفوں کا احساس کرنا, حوصلہ افزائی تعریف کرنا, دل کھول کر شاباشی دینا, غلطی ہوجانے پر دلجوئی کرنا, شکریہ ادا کرنا, مبارک باد دینا, خطا معاف کردینا اگر عادی مجرم نا ہو, ورنہ اصلاح کی کوشش کرنا, مثبت سوچ کے ساتھ تعمیری تنقید کرنا اور حل تجویز کرنا کیا- یہ سب خالق حقیقی کے نو انسان اور نظام ہستی کی تخیق پر یقین کا نام نہیں؟ ذرا سا وقت نکال کر سوچئیے گا ضرور!!! -

Monday 10 June 2019

نسوانیت

دوسری تمام اقدار کی طرح نسوانیت بھی  اپنی اصل شکل اور معنی سے محروم ہو چکی ہے یا کم از کم ہوتی جا رہی ہے-  لوگوں کے خیال سے اگرعورت مرد کی طرح بن جاے تو اصل عورت بن جاتی ہے- نسوانی حسن نزاکت خوبصورتی حیا جھجک اور فطری معصومیت کا تقاضا کرتا ہے- اس کے ساتھ نسوانی وقار, رعب, رکھ رکھاؤ, سلیقہ اور موقع محل دیکھ کر مناسب بات چیت اس کی شخصیت کو چار چاند لگا دیتا ہے اور اس کی اولاد اور چھوٹے بہن بھائیوں  کو بھی خود بخود بہت کچھ خاموشی سے سکھا جاتا ہے, جس کو کھو کر وہ صنف نازک نہیں رہتی  

اور یہ غلط فہمی دور کر لینی چاہیے کے مردانہ اطوار اور کام کر نے سے وہ کسی طرح بھی  مرد بن جاتی ہے- وہ مرد کبھی نہیں بن پاتی- الله نے اسے عورت بنایا ہے, مرد نہیں اسے اپنی نسوانیت پر فخر اور یقین  کرنا چاہیے- اس کا کام مرد کو ایسے حالات اورسکون فراہم کرنا ہے جس میں مرد کی صلاحیتیں پنپ سکیں , نشو نما پا سکیں اور موثر ہو سکیں - ایسا صرف وہ اپنی خالص نسوانیت کو کام میں لا کر کرسکتی ہے-  وہ اپنی اصل شناخت اور خواص کھو بیٹھنے کے بعد عورت بھی نہیں رہتی

مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کے عورت مردوں والے کام کا ذمہ اٹھا کر اپنے اصل کام, اپنی ذمّداری ادا کرنے سے مستثنیٰ ہو جاتی ہے- اور کسی بھی حالت میں اگر کوئی اپنی جبلی صلاحیت چھوڑ کر کسی دوسرے کی نقل کرے اور ویسا نظر آنے  کی کوسش کرے تو ایک تو اسے اپنے خالق کی کامل تخلیق کاری پر یقین نہیں ہوتا,کیا الله نے کسی بھی طرح سے عورت کو اپنے دائرہ عمل میں کمتراور محدود بنایا ہے؟ اوراس کومرد کی مردانگی کے مقابلے میں نسوانیت پوری عطا نہیں جو وہ اس کے مقابل میں استمعال کر کے اپنے خالق کے سامنے سرخرو ہو سکے ؟ اگر وہ وہ اپنی نسوانیت کا درست اور بھرپور استمعال کرنے سے قاصر رہی ہےتو وہ مرد بن کر دکھانے کے شوق میں اپنے اصل کام کو چھوڑ دے ؟ دوسرا یہ کہ جو عورت بھی اپنی کسی  نسوانی صلاحیت کے سہی اور موثر استعمال  سے نہ واقف ہو اسے کوئی حق نہیں کے وہ مردوں کی نقل کر کے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش میں لگ جاے


یہ تو اپنے عورت ہونے پر شرمندگی محسوس کرنا اور خود ہی مردوں کے مقابلے میں احساس کمتری ہونے کے مترادف ہوا 

وہ خواتین جنہوں نے اپنے دائرہ عمل سے باہر جانے کی بجاے اسی کا بہترین ااستعمال  اپنی  نسوانی قوّت سے کیا اور اپنے مردوں کی مردانگی کو تقویت دی, جن عظیم خواتین نے اپنی نسوانیت قائم رکھتے ہوے ایسا کیا ہے ان کے نام بہت ہی عزت کے ساتھ آج بھی زندہ ہیں- انہوں نےاپنے مردوں کو اپنی ذمہ داری  پوری کرنے  اور مردانگی کا اظہار  کرنے کا نہ صرف بھرپور راستہ دیا بلکہ انکو ایک عظیم انسان بن کے دکھانے میں مدد کی, اسی لئے کہا جاتا ہے نہ کہ ہر عظیم مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور یہی ایک عظیم عورت کا اصلی کام ہے - کیا کسی عورت نے اپنی دلکش اداؤں, نازک اندامی, حیا , نازک دلی کی دلکشی اور اپنی فطری حیا  سے کسی مرد کو پورے خلوص دل سے اپنا گرویدہ نہیں بنایا ؟ بشرطیکہ وہ مرد اصلی مرد بھی ہو جو عورت کو ایک چھپی ہوئی خوبصورتی سمجھتا ہےجو خالص نسوانی قدروں کی پاسدار ہے

جس طرح مغربی معاشرے اور میڈیا سے متاثر خواتین اپنے مردانہ انداز آزادی , جرات, بےباکی اور بہادری کے نام پر بیہودگی پر آجکل فخر کرتی ہیں اس کو اصل مرد  کبھی بھی دلکش اور قابل توجہ و ستائش نہیں سمجھتے کیونکہ یہ تو ان نامردوں کی بتائی ہوئی بے راہ روی کو ترویج دینے کی تحریک ہےجس کا مقصد صرف اس سے اپنا دل اور بازار گرم رکھنا ہوتا ہے جہاں کی زینت بن کر وہ نادان عورت خود کو کامیاب سمجھ رہی ہوتی ہے 

 اپنی اصل نسوانی  خصوصیت کا پاس رکھتےہوۓ بہت سی عظیم خواتین نے اسی طرح کے عظیم کارنامے بھی سر انجام دیئے ہیں جس سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے مگر آج کل ہماری خواتین مرد کو عورت بنانے اور محکوم کرنے اور مقابلہ بازی کرنے کے لئے یہ بھونڈا بہانہ اکثر پیش کرتی ہیں کے جب مرد اپنا کام نہیں کرتا تو ہمیں تو کرنا پڑے گا نہ - یعنی خود تسلیم کرتی ہیں کے اللہ نے ان کو مرد کا دل موہ لینے اور اس سے ہر طرح سے ہر کام بھرپور طرح سےسر انجام دینے کے لئے جو نسوانی صلاحیتیں عطا کی ہیں  اس سے وہ محروم ہیں اس لئے اپنا اصل کام چھوڑ کر مردوں والے کام کرنے پر مجبور ہیں

ہاں اچھی ماں کے طور پر یہ کام وہ اپنے بیٹے سے یا اچھی بڑی بہن کے طور پر اپنے بھائی سے پوری تن دہی سے کر سکتی ہیں کہ وہ ایک اچھا بھرپور مرد ہو جو اپنی تمام صلاحیتوں کو با احسن خوبی ادا کرسکتا ہو اور کوئی لڑکی یہ نہ کہے کے یہ تواصلی مرد نہیں یہاں تک کہ اس کی بڑی بڑی خرابیوں پر پردہ پوشی کرتی ہیں- یہ  پردہ پوشی بھی حد سے بڑھ جاتی ہے تو اسی بیٹے اور بھائی میں کبھی کبھی مردانگی بھی نہیں رہتی اور یہی بیٹا اور بھائی جب شوہر بن جاتا ہے تو ایک نئی مصیبت شروع ہوتی ہے- اس کی بیوی کہتی ہے اس میں مردوں والی کوئی بات ہی نہیں اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا

جب بات شوہر کی ہو تو جی جان سے اسے نکما نکھٹو بے حس نامرد ثابت کر کے خود گھر کی باگ ڈور سنبھالنے   کی کوشش کرنے لگتی ہیں یا کم از کم مرد کی سربراہی پر سوال اٹھا کر دوسروں کو بھی اس سے بغاوت پر اکسانے لگ جاتی ہیں اور سازشوں، فتنہ انگیزیوں اور چغل خوری سے مرد کو ایک ناکام انسان ثابت کرنے میں لگ جاتی ہیں جس سے وہ اپنے ہی لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے اور نہ اہل سربراہ نظر انے لگتا ہے مگر رہتا پھر بھی سربراہ ہی ہے کسی بھی طرح اس کی ذمہ داریاں اور جواب دہی تو ختم نہیں ہوتی

 جب تک عورت اپنی نسوانیت پر یقین نہیں کرے گی اور اس کو ہر طرح سے اپنے ہی دائرہ عمل میں ہر کام کے لئے بھرپوراور موثر نہیں مانے گی, مرد صرف اپنے بیٹے بھائی یا چہیتے کو ہی دیکھنا نہیں چاہے گی اسے اصلی مردکہاں سے ملے گا؟  کیونکہ مرد پیدا بھی وہ کرتی ہے اور مردانگی مر جانے کی وجہ بھی اکثر وہ خود ہوتی ہے- جب تک آپ اصل اور بھرپور عورت بن کر نہیں دکھائیں گی تو اصل اور بھرپور مرد کیسے بنے گے؟ - یہ تو ایسے ہی ہوا نہ کے کسی ادارے میں کسی ایک شعبے کا سربراہ کسی دوسرے شعبے کی ناہلی دور کرنے کا انتظام کرنے کی بجاے خود اپنا کام چھوڑ کر دوسرے شعبے کا کام سنبھال  لے جس کی نہ اسے تعلیم دی گئی ہو نہ تربیت نہ اس کام کا کوئی فطری رجحان ہو تو پھر اس ادارے کا کیا بنے گا ؟


ستم ظریفی یہ ہے کے آجکل کی غیر نسوانی خاتون کو اگر اصل مرد کبھی مل بھی جاے تو اسے قبول نہیں کرے گی اور نا ہی  یقین کر سکے گی کے ایسا مرد بھی ہو سکتا ہے جس کو اس کے عجیب و غریب غیر نسوانی پن, مردانہ جرات, بے باکی  اور بے خوفی  وغیرہ کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں نہ ہی یہ سب اس کے لئے دلکش اور متاثر کن ہیں کیونکہ یہ اس کےاپنے پاس بہت ہے, اور اصلی بھی ہے - عورت کو ایسے خالص  مرد کی ضرورت ہے اور ہمیشہ سے تھی جو پھر سے اس میں خالص نسوانیت واپس لا سکے - مگر ایسا بہت مشکل اور بہت دیر سے ہوتا ہے کے یہ احساس جاگ اٹھے کہ خالص مرد اور خالص عورت ہی معاشرے کی ان مسائل کا حل ہوسکتا ہے