Monday 10 June 2019

نسوانیت

دوسری تمام اقدار کی طرح نسوانیت بھی  اپنی اصل شکل اور معنی سے محروم ہو چکی ہے یا کم از کم ہوتی جا رہی ہے-  لوگوں کے خیال سے اگرعورت مرد کی طرح بن جاے تو اصل عورت بن جاتی ہے- نسوانی حسن نزاکت خوبصورتی حیا جھجک اور فطری معصومیت کا تقاضا کرتا ہے- اس کے ساتھ نسوانی وقار, رعب, رکھ رکھاؤ, سلیقہ اور موقع محل دیکھ کر مناسب بات چیت اس کی شخصیت کو چار چاند لگا دیتا ہے اور اس کی اولاد اور چھوٹے بہن بھائیوں  کو بھی خود بخود بہت کچھ خاموشی سے سکھا جاتا ہے, جس کو کھو کر وہ صنف نازک نہیں رہتی  

اور یہ غلط فہمی دور کر لینی چاہیے کے مردانہ اطوار اور کام کر نے سے وہ کسی طرح بھی  مرد بن جاتی ہے- وہ مرد کبھی نہیں بن پاتی- الله نے اسے عورت بنایا ہے, مرد نہیں اسے اپنی نسوانیت پر فخر اور یقین  کرنا چاہیے- اس کا کام مرد کو ایسے حالات اورسکون فراہم کرنا ہے جس میں مرد کی صلاحیتیں پنپ سکیں , نشو نما پا سکیں اور موثر ہو سکیں - ایسا صرف وہ اپنی خالص نسوانیت کو کام میں لا کر کرسکتی ہے-  وہ اپنی اصل شناخت اور خواص کھو بیٹھنے کے بعد عورت بھی نہیں رہتی

مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کے عورت مردوں والے کام کا ذمہ اٹھا کر اپنے اصل کام, اپنی ذمّداری ادا کرنے سے مستثنیٰ ہو جاتی ہے- اور کسی بھی حالت میں اگر کوئی اپنی جبلی صلاحیت چھوڑ کر کسی دوسرے کی نقل کرے اور ویسا نظر آنے  کی کوسش کرے تو ایک تو اسے اپنے خالق کی کامل تخلیق کاری پر یقین نہیں ہوتا,کیا الله نے کسی بھی طرح سے عورت کو اپنے دائرہ عمل میں کمتراور محدود بنایا ہے؟ اوراس کومرد کی مردانگی کے مقابلے میں نسوانیت پوری عطا نہیں جو وہ اس کے مقابل میں استمعال کر کے اپنے خالق کے سامنے سرخرو ہو سکے ؟ اگر وہ وہ اپنی نسوانیت کا درست اور بھرپور استمعال کرنے سے قاصر رہی ہےتو وہ مرد بن کر دکھانے کے شوق میں اپنے اصل کام کو چھوڑ دے ؟ دوسرا یہ کہ جو عورت بھی اپنی کسی  نسوانی صلاحیت کے سہی اور موثر استعمال  سے نہ واقف ہو اسے کوئی حق نہیں کے وہ مردوں کی نقل کر کے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش میں لگ جاے


یہ تو اپنے عورت ہونے پر شرمندگی محسوس کرنا اور خود ہی مردوں کے مقابلے میں احساس کمتری ہونے کے مترادف ہوا 

وہ خواتین جنہوں نے اپنے دائرہ عمل سے باہر جانے کی بجاے اسی کا بہترین ااستعمال  اپنی  نسوانی قوّت سے کیا اور اپنے مردوں کی مردانگی کو تقویت دی, جن عظیم خواتین نے اپنی نسوانیت قائم رکھتے ہوے ایسا کیا ہے ان کے نام بہت ہی عزت کے ساتھ آج بھی زندہ ہیں- انہوں نےاپنے مردوں کو اپنی ذمہ داری  پوری کرنے  اور مردانگی کا اظہار  کرنے کا نہ صرف بھرپور راستہ دیا بلکہ انکو ایک عظیم انسان بن کے دکھانے میں مدد کی, اسی لئے کہا جاتا ہے نہ کہ ہر عظیم مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور یہی ایک عظیم عورت کا اصلی کام ہے - کیا کسی عورت نے اپنی دلکش اداؤں, نازک اندامی, حیا , نازک دلی کی دلکشی اور اپنی فطری حیا  سے کسی مرد کو پورے خلوص دل سے اپنا گرویدہ نہیں بنایا ؟ بشرطیکہ وہ مرد اصلی مرد بھی ہو جو عورت کو ایک چھپی ہوئی خوبصورتی سمجھتا ہےجو خالص نسوانی قدروں کی پاسدار ہے

جس طرح مغربی معاشرے اور میڈیا سے متاثر خواتین اپنے مردانہ انداز آزادی , جرات, بےباکی اور بہادری کے نام پر بیہودگی پر آجکل فخر کرتی ہیں اس کو اصل مرد  کبھی بھی دلکش اور قابل توجہ و ستائش نہیں سمجھتے کیونکہ یہ تو ان نامردوں کی بتائی ہوئی بے راہ روی کو ترویج دینے کی تحریک ہےجس کا مقصد صرف اس سے اپنا دل اور بازار گرم رکھنا ہوتا ہے جہاں کی زینت بن کر وہ نادان عورت خود کو کامیاب سمجھ رہی ہوتی ہے 

 اپنی اصل نسوانی  خصوصیت کا پاس رکھتےہوۓ بہت سی عظیم خواتین نے اسی طرح کے عظیم کارنامے بھی سر انجام دیئے ہیں جس سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے مگر آج کل ہماری خواتین مرد کو عورت بنانے اور محکوم کرنے اور مقابلہ بازی کرنے کے لئے یہ بھونڈا بہانہ اکثر پیش کرتی ہیں کے جب مرد اپنا کام نہیں کرتا تو ہمیں تو کرنا پڑے گا نہ - یعنی خود تسلیم کرتی ہیں کے اللہ نے ان کو مرد کا دل موہ لینے اور اس سے ہر طرح سے ہر کام بھرپور طرح سےسر انجام دینے کے لئے جو نسوانی صلاحیتیں عطا کی ہیں  اس سے وہ محروم ہیں اس لئے اپنا اصل کام چھوڑ کر مردوں والے کام کرنے پر مجبور ہیں

ہاں اچھی ماں کے طور پر یہ کام وہ اپنے بیٹے سے یا اچھی بڑی بہن کے طور پر اپنے بھائی سے پوری تن دہی سے کر سکتی ہیں کہ وہ ایک اچھا بھرپور مرد ہو جو اپنی تمام صلاحیتوں کو با احسن خوبی ادا کرسکتا ہو اور کوئی لڑکی یہ نہ کہے کے یہ تواصلی مرد نہیں یہاں تک کہ اس کی بڑی بڑی خرابیوں پر پردہ پوشی کرتی ہیں- یہ  پردہ پوشی بھی حد سے بڑھ جاتی ہے تو اسی بیٹے اور بھائی میں کبھی کبھی مردانگی بھی نہیں رہتی اور یہی بیٹا اور بھائی جب شوہر بن جاتا ہے تو ایک نئی مصیبت شروع ہوتی ہے- اس کی بیوی کہتی ہے اس میں مردوں والی کوئی بات ہی نہیں اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا

جب بات شوہر کی ہو تو جی جان سے اسے نکما نکھٹو بے حس نامرد ثابت کر کے خود گھر کی باگ ڈور سنبھالنے   کی کوشش کرنے لگتی ہیں یا کم از کم مرد کی سربراہی پر سوال اٹھا کر دوسروں کو بھی اس سے بغاوت پر اکسانے لگ جاتی ہیں اور سازشوں، فتنہ انگیزیوں اور چغل خوری سے مرد کو ایک ناکام انسان ثابت کرنے میں لگ جاتی ہیں جس سے وہ اپنے ہی لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے اور نہ اہل سربراہ نظر انے لگتا ہے مگر رہتا پھر بھی سربراہ ہی ہے کسی بھی طرح اس کی ذمہ داریاں اور جواب دہی تو ختم نہیں ہوتی

 جب تک عورت اپنی نسوانیت پر یقین نہیں کرے گی اور اس کو ہر طرح سے اپنے ہی دائرہ عمل میں ہر کام کے لئے بھرپوراور موثر نہیں مانے گی, مرد صرف اپنے بیٹے بھائی یا چہیتے کو ہی دیکھنا نہیں چاہے گی اسے اصلی مردکہاں سے ملے گا؟  کیونکہ مرد پیدا بھی وہ کرتی ہے اور مردانگی مر جانے کی وجہ بھی اکثر وہ خود ہوتی ہے- جب تک آپ اصل اور بھرپور عورت بن کر نہیں دکھائیں گی تو اصل اور بھرپور مرد کیسے بنے گے؟ - یہ تو ایسے ہی ہوا نہ کے کسی ادارے میں کسی ایک شعبے کا سربراہ کسی دوسرے شعبے کی ناہلی دور کرنے کا انتظام کرنے کی بجاے خود اپنا کام چھوڑ کر دوسرے شعبے کا کام سنبھال  لے جس کی نہ اسے تعلیم دی گئی ہو نہ تربیت نہ اس کام کا کوئی فطری رجحان ہو تو پھر اس ادارے کا کیا بنے گا ؟


ستم ظریفی یہ ہے کے آجکل کی غیر نسوانی خاتون کو اگر اصل مرد کبھی مل بھی جاے تو اسے قبول نہیں کرے گی اور نا ہی  یقین کر سکے گی کے ایسا مرد بھی ہو سکتا ہے جس کو اس کے عجیب و غریب غیر نسوانی پن, مردانہ جرات, بے باکی  اور بے خوفی  وغیرہ کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں نہ ہی یہ سب اس کے لئے دلکش اور متاثر کن ہیں کیونکہ یہ اس کےاپنے پاس بہت ہے, اور اصلی بھی ہے - عورت کو ایسے خالص  مرد کی ضرورت ہے اور ہمیشہ سے تھی جو پھر سے اس میں خالص نسوانیت واپس لا سکے - مگر ایسا بہت مشکل اور بہت دیر سے ہوتا ہے کے یہ احساس جاگ اٹھے کہ خالص مرد اور خالص عورت ہی معاشرے کی ان مسائل کا حل ہوسکتا ہے 

No comments: