Monday 26 March 2018

بڑی منزلوں کے مسافر ...چھوٹا دل نہیں رکھتے

وہ اس بار بھی  سفر کرتے ہوے کھڑکی سے باہر خوبصورت منظر سے لطف اندوز ہوتے ہوے  سوچ رہا تھا کہ  لوگ سفر سے کیوں گھبراتے ہیں اکثر لوگ سفر کو انگریزی  والا سفر کہ دیتے ہیں اتنا حسین منظر ہوتا ہے باہر دیکھنا آرام سے بس کے اندر - خود بھی ڈرائیو کریں تو کچھ دیر اتنے دلفریب منظر دیکھ کے کچھ دیر رک جانے کو دل چاہتا ہے کئی بار رکا بھی کچھ دیر ہی بس لطف اندوز ہو کر آگے چل دیا کیونکہ سفر زیادہ اھم ہے جس مقصد کے لئے سفر اختیار کیا وہ ضروری ہے چاہے کتنا بھی حسین منظر ہو یا کتنی حسین جگہ یا لوگ راستے میں مل جائیں چاہے کچھ بھی مزیدار کھانے کو ملے یا کتنی ہے اچھی چیزوں سے واسطہ پڑے سفر نہیں چھوڑا جا سکتا

ایسا ہی کرتے ہیں سب ہی شائد ہی کوئی ایسا ہوگا جو ٹھہر گیا اور سفر میں تاخیرکی ہو؟   مستقل طور پر  رک گیا ہو وہیں کا ہو گیا ہو؟ آگے سفر ترک کر دیا ہو؟  سب بہت اچھی طرح جانتے ہیں راستے کہ یہ نظارے یہ جگہیں چیزیں اور لوگ سفر سے زیادہ اھم نہیں جس مقصد کہ لئے سفر کر رہے ہیں اس کا پورا ہونا سب سےزیادہ

 اھم ہے
یہ سب تو بس دل بہلاوے کا سامان ہے سفر کو خوبصورت بناتا ہے یا کچھ آسان اور سہل کر دیتا - اگر راستے میں اچھا کھانا  ملے کچھ اچھا سن لینے کو مل جاے کچھ اچھے لوگ جن سے اچھی بات ہو جاے کوئی مدد کر دے ...بس اس سے زیادہ کچھ نہیں -رکا نہیں جا سکتا سفر میں کسی قسم کا خلل یا تاخیر نہیں کی جا سکتی ان لوگوں کی وجہ سے کچھ بھی ایسا نہیں کیا جانا چاہیے جس سے یہ سفر یہ مقصد متاثر ہو یا اس میں کوئی مشکل یاسست روی آ جاے
لوگ کیسے ہی پیارے ہوں یا پھر کتنے ہی مشکل یا ظالم ...سفر کو روکا  تو نہیں سکتا نا 
وہ سوچ رہا تھا یہ کونسی نئی بات ہے سب کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں  ایسا کوئی شائد ہی ہو جو  ایسے بے وقوفی کرے سفر چھوڑ دے یا  اس مقصد کومتاثر ہونے دے جس سے وہ جا رہا ہے
مگر  یہ کیا وجہ ے کے جس مقصد سے دنیا کا سفر اختیار کیا.... یہاں آے - اس کا کیا ہوگا؟ وہ سفر کیوں رک جاتا ہے

 راستے کے دلفریب نظاروں میں کھو کر یا لوگوں کی باتوں میں لگ کر یا راستے کی چیزوں میں گم ہو کر یہ عظیم مقصد جس کے لئے دنیا کا سفر اختیار  کیا ہے وہ کیوں رک جاتا ہے؟ - پھر عقلمندی کیا ہے؟ -پیسے جمع کرنا ؟ سامان  اکٹھا کرتے  رہنا ؟ راستے میں بیٹھ کرعالی شان گھر بنا کر سفر کو روک دینا یا بلکل ترک دینا ؟ بھول جانا کہ یہ سب کچھ تو اس عظیم سفر کو سہل اور خوبصورت بنا لینے کے سامان ہیں یہ  لوگ جن سے اتنا دل لگا لیا کہسفر بھول گئے, مقصد بھول  گئے ,  انکو تو اس سفر میں معاون ہونے کے لئے بنایا گیا تھا نہ کہ روک دینے کے لئے
یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی ادارہ اپنے ملازم کو کسی کام سے دوسرے شہر یا ملک روانہ کرے اور وہ ملازم وہیں کا ہو رہے یا وہاں کی 
رنگینیوں  میں گم ہو کر کام کو بھول چکا ہو - کیا یہ مجرمانہ غفلت نہیں ؟

عام طور پر کسی بھی قسم  کہ سفر کے لیے جتنے اہتمام ہوتے ہیں جنتی تیاری ہوتی ہے اوراپنے  مقاصد کے پورا ہونے کے لیے جتنا زورلگایا  جاتا 
ہے فکر کی جاتی ہے اس میں سے کتا حصّہ اصل سفر کے انتظام میں لگتا ہے ؟

پھر سمجھدار با شعور زیرک کون ہے؟

بس یہی سوچتے ہوے وہ آخر منزل کی طرف رواں دواں رہاکہ 

Saturday 17 March 2018

یہ بناسپتی بزرگ

جب ہم بیمار پڑتے ہیں تو دوائی  کھانے اور ڈاکٹر کا خیال آتا ہے علاج کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کبھی کبھی تو ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے تکلیف سے نجات  کی خاطر بڑے ہسپتال اور ڈاکٹر کی ضرورت ہوتی ہے خوب چکّر کاٹے جاتے ہیں 

کچھ لوگ تو ڈاکٹر کے پاس جانا فیشن کے طور پر یا ٹائم پاس کی خاطر بھی کرتے ہیں خاص طور پر خواتین جن کو بات کرنے کو کوئی نہیں ملتا یا بات سن نے والا دل جوئی کرنے والا یا ہمدردی کیئر کرنے والا چاہیے ہو تب   بھی ڈاکٹر کے پاس جانے کے لئے بیمار پڑ جاتی ہیں 

لیکن کبھی کسی نے ذہنی دباؤ تکلیف یا مستقل  الجھن یہاں تک کے شدید ذہنی تکلیف میں کسی دماغ کے ڈاکٹر کے پاس جانے کا سوچا ؟ بہت کم لوگ ایسا خیال کرتے ہیں کیونکہ یہاں تو سب ہی دماغی طور پر سب سے بہتر ہیں دوسرے بیمار ہیں وہ نہیں اگر نفسیاتی علاج کروانے جایئں گے تو لوگ کیا سوچیں گے پاگل ہے ؟

جبکہ آج کہ دور میں ہر شخص ذہنی مریض بنتا جا رہا ہے کوئی کسی پریشانی کا شکار ہے کسی پر ذہنی دباؤ بہت زیادہ ہے کسی کو ڈپریشن ہے تو کوئی شدید غصہ آ جانے کے مرض میں مبتلا ہے 

کہتے ہیں پاگل وہ ہوتا ہے جو ایک ہی کام کو بار بار اسی طریقے سے کرتا ہے اور ہر بار مختلف نتائج کی امید کرتا ہے اور عقلمند وہ نہیں ہوتا جس کہ پاس ہر جواب ہو عقلمند وہ ہے جو جواب حاصل کرنے کی کوہشش پورے صبر کے ساتھ جاری
رکھتا ہے

پرانے وقتوں میں کہا جاتا ہے لوگ اپنے سوال پریشانیاں اور الجھنیں لے کر یا بس دلجوئی کی تلاش میں  کسی بڑے بوڑھے بزرگ کے پاس جاتے تھے اور ان سے حل مل جاتا تھا تو اس پر عمل کر تے مگر  اب تو بزرگان بھی شائد بناسپتی  آ گئے ہیں جن سے نو جوان اور بچے صرف بچ کہ نکل جاتے ہیں تربیت کہ نام پر  اپنا الو سیدھا کرنے والے جو خود ان باتوں پر بلکل عمل نہیں کرتے جن کا پرچار اور ہدایت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں یہ تو کل کہ بچے ہیں ان کو کیا پتا چلے گا 
جبکہ پتا چلنے کہ لئے ایک چھوٹی سی بھول چوک کافی ہوتی ہے اور ضرورت سے زائدہ خود اعتمادی کا مظاہرہ بہت ہوتا ہے اور ان ہی کی وجہ سے وہ جو واقعی بھلا چاہتے ہیں کچھ خدمت کرنے کے لئے بےچین ور بیقرار ہوتے ہیں واقعی درد اور فکر سے ایک لمبا وقت اپنے بلند نمونے کہ بزرگان اور آقاؤں کہ زیر اثر گزارا ہوتا ہے  اور بچوں کی  دلجوئی ہمدردی اور ہمت افزائی ان کا کام ہوتا ہے 

یہ بناسپتی  بزرگ ان کا بھی بھروسہ اور  یقین کرنا مشکل کر دیتے ہیں  اور یہ نو جوان اور بچے ان سے بھی بھاگ جاتے ہیں یا بچ کہ نکلتے ہیں کہ یہ بھی ویسے ہی بزرگ ہیں جن سے یہ معاشرہ بھرا پڑا ہے 

میں سوچتا ہوں یہ پریشان حال کہاں جائیں گے ؟ جو دماغی امراض کا شکار ہوتے جا رہے ہیں - ڈاکٹر کہ پاس جاتےہوۓ گھبراتے ہیں کے لوگ پاگل سمجھیں گے پھر فیس بھی دینی ہوگی اور بڑے بوڑھے آج کل بناسپتی آ رہے ہیں ٢ نمبر 

Sunday 11 March 2018

Unlearn

اکیسویں صدی کے جاہل وہ نہیں ہونگے جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے - بلکہ وہ ہونگے جو نیا سیکھنے کی خاطر پہلے 
والا 'ان سیکھا ' نہیں کر سکتے اور پھر سے نہیں سیکھ سکتے - الیون ٹوفلر 
Omnibus

Friday 9 March 2018

یہ بھروسہ کرنے والے


عجیب لوگ ہوتے ہیں یہ آسانی سے بھرسہ کر لینے والے بھی - جب کسی نے اچھی طرح دیکھ لیا خوش ہو گئے او اسے بہت اچھا انسان ماننے لگے -کسی نہ بات غور سے سن لی تو سناتے چلے گئے اور سوچا یہاں اور بھی  بات 
 ہو سکتی ہے 

یا پھر کسی کی بات سن کر اسے پسند کرنے لگے کسی کی اچھی عادت دیکھ کر گرویدہ ہو گئے اور بہت اچھا انسان مان لیا کبھی کسی کہانی کو دیکھ کر کسی واقعہ کو ہوتا دیکھ کر کسی کو مظلوم مان لیا اور جی جان سے ساتھ دینے پہنچ گئے 

کبھی ایسا بھی ہوا کے یہ سب بعد میں غلط ثابت ہوا وہ سن لینے والا تو بس اس وقت موڈ میں تھا تو سن لیا اور وہ اچھی طرح مل لینے والا اس لئے اچھی طرح مل رہا تھا کیونکہ اس وقت لوگ دیکھ رہے تھے اور مسکرا کے ملنے والا بس عادت سے مجبور تھا اپنی پیشہ ورانہ مجبوری سے یا پھر کوئی اور وقتی وجہ  تھی 

مگر دھیرے دھیرے بھروسہ کرنے والے عجیب انسانوں کو ارد گرد کہ لوگوں نے اتنا کچھ سنایا انتہ مذاق اڑایا اور کبھی کسی اپنے نے اتنا زیادہ اکسایا اور برا بھلا کہا ,ایسی بے وقوفی کرنے پر کہ اس نے بھروسہ کرنا چھوڑ ہی دیا آخر 

اور یہی تو سہی راستہ ہے یہ دنیا بھروسے کے لائق کہاں رہی ہے ہر جگہ دھوکا ہر شخص چالباز مطلب کا یار مگر میں سوچتا ہوں کہ یہی چوٹی چوٹی باتوں پر بھروسہ کرنے والے یقین کر لینے والے اگر سامنے نظر انے والی چیز یا شخص جس کو دیکھ سکتے ہیں چھو سکتے ہیں اس پر بھی یقین کرنا چھوڑ دیں گے تو پھر آخر اس ان دیکھے ان سنے خدا پر کیسے یقین کریں گے ؟

یہ چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھروسہ اور یقین ہی  آخر انسان کو بڑے اور مضبوط یقین تک لے جاتا ہے وہ بڑی بڑی باتوں اور مقاصد پر یقین کرنے کے قابل ہوتا ہے اور یہی یقین ایمان کا نچلا درجہ ہوتا ہے جو دھیرے دھیرے بڑا ہو کے ایک ایماندار قابل بھروسہ انسان بناتا ہے جس پر ارد گرد کہ لوگ بھی یقین کرتے ہیں  اور اس کے پیچھے بے فکر ہو کے چل نکلتے ہیں 

ہمیں ایسے ہے پر عزم بلند حوصلہ قابل اعتبار رہ نما درکار ہیں نہ ؟ تو خدارا بھروسہ کرنے والے معصوم لوگوں کی معصومیت قائم رہنے دیجیے ان کا یقین اگر ٹوٹ بھی جاے تو اسے جوڑ دیجیے یا کم از کم جوڑ دینے میں مدد ضرور کریں - حوصلہ دیں ہمت افزائی کریں معاف کردیں بے چارے کو بھروسہ کرنے کی عادت ہے جھلا ہے  آپ تو عقلمند ہیں نہ ؟

Tuesday 6 March 2018

صرف منہ تک کا علم


ایک دانشور اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں بتا رہے تھے کہ " آپ منہ میں کھانے  کا ایک لقمہ رکھ کر تین دن گھومتے رہیں وہ آپ کی نشو و نما کا باعث ہرگز نہیں بن سکے گا جب تک کہ وہ آپ کے معدے میں نہ اتر جائے ۔ اور معدے میں اتر کر آپ کا جزو بدن نہ بن جائے ۔ تبھی پھر آپ کو تقویت عطا ہوتی ہے ۔ میں آپ اور ہم سب منہ کے اندر رکھی معلومات یا دماغ میں بھرے علم کو ایک دوسرے پر اگلتے رہتے ہیں ۔ اور پھینکتے رہتے ہیں ۔ پھر اس بات کی توقع رکھتے ہیں اور سوچتے  ہیں کہ ہم کو اس سے خیر کیوں حاصل نہیں ہوتی ۔ جب تک یہ معلومات یا پھر صرف دماغ میں محفوظ علم عملی طور پر آزمانے کے بنا اور آپکی شخصیت اور کردار کا جزو لازم بنے بغیر ہی لوگوں پر انڈیلا جاتا رہتا ہے کوئی خیر حاصل نہیں ہوتی''

علم, دانائی پھر شعور بنے بغیر لا حاصل سی شے ہے بلکہ نقصان دہ ہوتا ہے دماغ پھر منہ میں پڑے پڑے گل سڑ بھی جاتا ہے - جیسے پہلی بار جب آپ لاہور پہنچے تھے تو اس سے قبل آپ کے پاس لاہور کے بارے میں کافی معلومات موجود تھیں جن کی بنیاد پر آپ کا لاہور آنا ممکن ہوا - پھر آپ نے ان معلومات کو آزمائش اور تجربے کی بھٹی میں جلایا . علم کو عمل بنایا لاہور آ گئے تو پتا لگا کہ جتن بھی علم تھا وہ اس عملی تجربے کا آدھا بھی نہیں - اب جس طرح آپ پہلی بار لاہور جانے والوں کو بتا پائیں گے ویسا کبھی کتابوں یا دوسرے حوالہ جات اور وسائل سے کبھی نہں بتا سکتے - اب آپ کا لاہور کے بارے میں علم دانائی بن کر شعور کی منزلوں تک پہنچ

رہا ہے
لوگ کہتے ہیں موسیقی روح کی غذا ہے ،  میں نہیں مانتا - روح کی غذا دانائی ہے
 شعور ہے اور یہ دانائی اور شعور اس وقت تک حاصل نہیں ہوتا جب تک ہم اس دماغ میں بھرے ہوے علم کو لوگوں پر پھینکتے رہنے کی بجائے  عمل کی بھٹی میں سے گزار کر اپنی زندگی کا معمول نہیں بنا لیتے اور خود اس علم کا عملی شاہکار نظر نہیں آتے

صرف ہماری باتوں سے کچھ اثر نہیں ہوتا نہ کسی میں تبدیلی آتی ہے ہمارے روز مرّہ کے عمل اور ہماری شخصیت کو دیکھ کر ارد گرد کے لوگ اثر لیتے ہیں کہتے ہیں بچے آپ کی نصیحت سے نہیں آپ کے کردار سے سیکھتے ہیں میں کہتا ہوں لوگ بھی آپ کی شخصیت کے اظہار اور اثر سے خود میں تبدیلی محسوس کرتے ہیں کیونکہ انسان مٹی کا پتلا اس لئے کہا گیا ہے کہ اس میں گیلی مٹی والی خاصیتیں ہیں

انسان غور کرتا ہے اور پھر جذب کرتا ہے اور ارد گرد کے ماحول اور لوگوں کے اس اثر سے خود کو اس کے مطابق ڈھالتا ہے کیونکہ یہ اس کے خالق نے اس کی جبلّت میں رکھا ہے کہ وہ محسوس کرے جذب کرے اور خود کو ہر لمحہ پہلے سے بہتر بنانے میں لگا رہے صرف عمر میں بڑا  نہیں عقل و دانائی , ہمّت اور برداشت میں بھی بڑا ہوتا رہے

عقل و دانائی حاصل کرنے  کےلئے تو صرف ایک راستہ ہے وہ راستہ آپ کو اپنے خالق کا پیارا اور عزیز بناتا ہے

خالق کا شعور اور سمجھ حاصل ہوتی ہے اور انسان کو اصل دانائی حاصل ہوتی ہے - جب اس صحیح سمت میں بڑھتا ہے اور اپنے سے آگے موجود اسی راستے کے برگزیدہ مسافروں سے وابستہ ہونے لگتا ہے- ان سے مزید دانائی حاصل کرتا ہے اور اسکے اس صحیح سمت میں ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ وہ  اطمینان حاصل کرتا ہے دل کو قرار نصیب ہوتا ہے اور اسی اطمینان سے سرشار وہ دانائی کے راستے پر منزل بہ منزل آگے بڑھتا ہے

یہ ایک بتدریج  سفر ہے انسان پہلے سب سے قریب والے برگزیدہ مسافر کی بات کو آسانی سے ہضم کرتا
 ہے جو اس سے  سفر میں تھوڑا آگے نکل چکا ہوتا ہے پھر اس کے بعد اگلے برگزیدہ مسافر کی دانائی سے فیض حاصل کرتا ہے اور آگے بڑھتا ہے


کبھی کوئی براہ راست اس انتہائی دانائی کی منزل کو نہیں پہنچ سکتا جب تک یہ بتدریج  سفر نہ کرے بھلا کبھی کوئی اسکول جائے بغیر سیدھا کالج یا یونیورسٹی جا سکتا ہے ؟

اگر ایسا ہو سکتا تو ہر شخص اپنے خالق کی ہر بات پر عمل پیرا ہو جاتا صرف خالق کی بھیجی ہوئی کتاب پڑھتا اور کافی ہوتا اس کے  لئے پیغمبر کا درجہ حاصل کرلیتا-مگر ایسا نہیں ہے - یہ حکمت و دانائی کی راہیں دھیرج ، سکون اور بہت سا وقت لیتی ہیں باری  باری خالق کےبرگزیدہ اور دانا اور راہ نما راضی ہوتے ہیں اوراپنی دانائی کا خزانہ انڈیلتے ہیں تب جا کہ انسان دھیرے دھیرے سیراب ہوتا چلا جاتا ہے

یہ دانائی کے راستے عقل و شعور کی منزلیں رات بھر کتابیں رٹنے سے حاصل نہیں ہوتیں نہ ہی امتحان میں کسی گسس پیپر یا بوٹی سے کام چلتا ہے اسی لیے اکثر لوگ اس راستے کو پسند نہیں کرتے مشکل لمبا اور کٹھن راستہ ہے کوئی شارٹ کٹ نہیں کوئی تیز رفتاری کا انتظام نہیں مگر صرف صحیح اور سیدھا راستہ ہی درست راستہ 
ہوتا ہے،صراط مستقیم

کاشف احمد