Saturday 17 March 2018

یہ بناسپتی بزرگ

جب ہم بیمار پڑتے ہیں تو دوائی  کھانے اور ڈاکٹر کا خیال آتا ہے علاج کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کبھی کبھی تو ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے تکلیف سے نجات  کی خاطر بڑے ہسپتال اور ڈاکٹر کی ضرورت ہوتی ہے خوب چکّر کاٹے جاتے ہیں 

کچھ لوگ تو ڈاکٹر کے پاس جانا فیشن کے طور پر یا ٹائم پاس کی خاطر بھی کرتے ہیں خاص طور پر خواتین جن کو بات کرنے کو کوئی نہیں ملتا یا بات سن نے والا دل جوئی کرنے والا یا ہمدردی کیئر کرنے والا چاہیے ہو تب   بھی ڈاکٹر کے پاس جانے کے لئے بیمار پڑ جاتی ہیں 

لیکن کبھی کسی نے ذہنی دباؤ تکلیف یا مستقل  الجھن یہاں تک کے شدید ذہنی تکلیف میں کسی دماغ کے ڈاکٹر کے پاس جانے کا سوچا ؟ بہت کم لوگ ایسا خیال کرتے ہیں کیونکہ یہاں تو سب ہی دماغی طور پر سب سے بہتر ہیں دوسرے بیمار ہیں وہ نہیں اگر نفسیاتی علاج کروانے جایئں گے تو لوگ کیا سوچیں گے پاگل ہے ؟

جبکہ آج کہ دور میں ہر شخص ذہنی مریض بنتا جا رہا ہے کوئی کسی پریشانی کا شکار ہے کسی پر ذہنی دباؤ بہت زیادہ ہے کسی کو ڈپریشن ہے تو کوئی شدید غصہ آ جانے کے مرض میں مبتلا ہے 

کہتے ہیں پاگل وہ ہوتا ہے جو ایک ہی کام کو بار بار اسی طریقے سے کرتا ہے اور ہر بار مختلف نتائج کی امید کرتا ہے اور عقلمند وہ نہیں ہوتا جس کہ پاس ہر جواب ہو عقلمند وہ ہے جو جواب حاصل کرنے کی کوہشش پورے صبر کے ساتھ جاری
رکھتا ہے

پرانے وقتوں میں کہا جاتا ہے لوگ اپنے سوال پریشانیاں اور الجھنیں لے کر یا بس دلجوئی کی تلاش میں  کسی بڑے بوڑھے بزرگ کے پاس جاتے تھے اور ان سے حل مل جاتا تھا تو اس پر عمل کر تے مگر  اب تو بزرگان بھی شائد بناسپتی  آ گئے ہیں جن سے نو جوان اور بچے صرف بچ کہ نکل جاتے ہیں تربیت کہ نام پر  اپنا الو سیدھا کرنے والے جو خود ان باتوں پر بلکل عمل نہیں کرتے جن کا پرچار اور ہدایت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں یہ تو کل کہ بچے ہیں ان کو کیا پتا چلے گا 
جبکہ پتا چلنے کہ لئے ایک چھوٹی سی بھول چوک کافی ہوتی ہے اور ضرورت سے زائدہ خود اعتمادی کا مظاہرہ بہت ہوتا ہے اور ان ہی کی وجہ سے وہ جو واقعی بھلا چاہتے ہیں کچھ خدمت کرنے کے لئے بےچین ور بیقرار ہوتے ہیں واقعی درد اور فکر سے ایک لمبا وقت اپنے بلند نمونے کہ بزرگان اور آقاؤں کہ زیر اثر گزارا ہوتا ہے  اور بچوں کی  دلجوئی ہمدردی اور ہمت افزائی ان کا کام ہوتا ہے 

یہ بناسپتی  بزرگ ان کا بھی بھروسہ اور  یقین کرنا مشکل کر دیتے ہیں  اور یہ نو جوان اور بچے ان سے بھی بھاگ جاتے ہیں یا بچ کہ نکلتے ہیں کہ یہ بھی ویسے ہی بزرگ ہیں جن سے یہ معاشرہ بھرا پڑا ہے 

میں سوچتا ہوں یہ پریشان حال کہاں جائیں گے ؟ جو دماغی امراض کا شکار ہوتے جا رہے ہیں - ڈاکٹر کہ پاس جاتےہوۓ گھبراتے ہیں کے لوگ پاگل سمجھیں گے پھر فیس بھی دینی ہوگی اور بڑے بوڑھے آج کل بناسپتی آ رہے ہیں ٢ نمبر 

No comments: