Wednesday 19 May 2021

علم، شعور، سلیبرٹی اور لیڈر کا فرق

 


علم جب تک تجربے کی بھٹی سے نہ گزرے دانائی اور پھر شعور کبھی نہیں بنتا - علم انسان کے باہر اس کے ارد گرد بکھرا پڑا ہوتا ہے ، علم باہر کی چیز ہے اور شعور اندر سے ظاہر ہوتا ہے جب ایک انسان علم کو جذب کر کے دانائی میں تبدیل کر لیتا شعور بیدار نہیں ہوتا - جیسے اشفاق صاحب منہ تک کے علم کا ذکر کرتے ہیں کہ اگر ہم لقمہ صرف چباتے رہیں بس جگالی کرتے رہیں اور نگل کر پیٹ تک نہ لے کر جائیں جزو بدن نہ بنا لیں تو اس خوراک کا کوئی فائدہ نہیں

اسی طرح علم اگر صرف منہ تک یعنی باتوں تک محدود رہے تو بالکل بے فائدہ بلکہ نقصان دہ ہو جاتا ہے - بڑی بڑی باتیں جیسے قوم کو شعورہی نہیں ہے کہ صفائی کتنی اہم چیز ہے ، یا پھر فلاں علاقے کے لوگوں کو احساس ہی نہیں کہ انکے اس پاس سڑکیں اور گلیاں ٹوٹی پھوٹی  ہیں - تو بھائی آپ کو یہ شعور ہے تو تھوڑی تکلیف کریں وقت نکالیں اور کم از کم شعور بیدار کریں - لیکن شعور اور معاشرتی قدروں کو بس باتوں کی حد تک محدود کر دیا گیا ہے

معاشرتی  اقدار کا انحتاط  یہاں تک پہنچ گیا ہےکہ  عزت نفس اور خددادری جو ایک با کردار انسان کی اہم ترین خصوصیات ہوا کرتی تھیں ، وہ بھی اب  حفظ مراتب ، شرم و حیا اور پشیمانی جیسے اقدار کے ساتھ غائب ہوتی جا رہی ہے  بد کردار شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کم از کم کردار تو اس میں بھی ہوتا ہے چاہے برا ، لیکن بے کردار انسان تو انسان کہلانے کے قابل نہیں رہتا جیسے اگر کھانے میں ذائقہ نہ ہو تو کھانا نہیں ہوتا مگر کچھ لوگ بنا کسی مجبوری کے بھی شوق سے کھاتے لیکن پھیکے   پھل کوئی بھی پسند نہیں کرتا - کچھ لوگ تو یہاں انگریز کی تقلید میں انتہا کو پہنچ گئے ہیں اور کھانے سے مرچ مصالے نکال کر کھانا بلکل ہی پھیکا شروع کر دیتے ہیں وہ بھی فخر کے ساتھ ، لباس فیشن چال ڈھال اور زبان یہاں تک کے پکوان بھی ویسے ہی پسند کرنے کا ڈھونگ رچا کر کتنا عرصہ رہا جا سکتا ہے ؟

کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا - اور وہی بے ڈھنگی بے تکی سی خود فریبی میں خوش 

تبھی کردار کی تعمیر تو در کنار پہلے سے تھوڑی بہت  موجود  اقدار اور  کردار کو  بھی مغرب کی جاہلانہ تقلید کرتے هوئے مسخ کر دینے کو فخر کی بات سمجھتے ہیں - جاہلانہ اس لئے کے نقل کے لئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ مغربی اقدار بھی درست طریقے سے اپنانے کے لئے تھوڑا باریک بینی اور گہرائی سے غور کرنا پڑتا ہے

کہتے ہیں دولت چلی جانا کوئی ونقصان نہیں ، صحت چلی جانا تھوڑا بہت نقصان ہے اور کردار کا چلا جانا مکمل تباہی ہوتا ہے - قائد اعظم سے کسی صحافی نے جب کردار کی تعریف پوچھی تو انہوں نے کہا کہ '' آدمی فیصلہ کرنے میں جتنی چاہے  دیر کرے مگر جب ایک بار فیصلہ کر لے تو کبھی پیچھے نہ ہٹے ''.  بالکل اسی طرح با کردار ہونے کی ایک ثبوت یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر  کسی جگہ کوئی ایک  شخص  آپ کی موجودگی گوارہ نہ کرتا ہو  تو عزت نفس یعنی سلف ریسپیکٹ اور خدادری کا تقاضہ  ہے کہ ایسی جگہ کا پھر کبھی رخ نہ کیا  جاے کم از کم اس وقت تک تو کبھی نہیں جب تک  معزرت نہ  یا کسی نہ کسی طرح سے ایسے رویہ کی مذمت اور اس پر پشیمانی اور افسوس کا اظہار نہ کیا جاے


 

 لیکن اگر ایسا نہ ہو اور  کوئی پھر بھی جان بوجھ کر اپنی عزت کی پرواہ کیئے بغیر مسلسل اپنا آنا جانا جاری رکھے، چاہے وہ ملازمت ہو یا کوئی سماجی  یا خاندانی اجتماع  یا پھر کسی  کی ذاتی رہائش ، تو اس کا مطلب یہی ہےکہ کسی مطلب کے تحت کسی کی چاپلوسی مقصد ہے اور کردار نام کی کوئی چیز موجود نہیں

 ہمارے ہاں تو اب اکثر لوگ  کسی قسم کی بھی مثبت یا منفی صورت حال پر ، یا کسی کی کسی  بات یا حرکت پر کوئی بھی  رد عمل ظاہر نہ کرنا جہالت اور بزتمیزی کی بجاے اونچی ہستی ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے جیسے سلیبرٹی کے نخرے ہوتے ہیں ویسے ہی  بن کر دکھانا ار یہی سمجھنا کہ  اس طرح بہت بڑی  ہستی سمھجا جاے گا ،جو چھوٹی موٹی بات اور  معمولی  لوگوں کو قابل توجہ نہیں سمجھتے نہ ہی آسانی سے منہ لگاتےہیں ، مرتے ہیں تو مریں، جلتے ہیں تو جلیں - مگر در اصل  اعلی کردار کے مالک اور  واقعی عظیم ہستی کے حامل کا رویہ اس کے بلکل بر عکس ہوتا ہے - لیکن کیا کریں لوگوں کو سلیبرٹی اور لیڈر میں فرق تک معلوم نہیں -سلیبر ٹی خود کو لوگوں کی پہنچ سے دور رکھتا ہے اور اسی میں فخر کرتا ہے

مگر لیڈر خود تک ہر ایک کی رسائی کو ہر قیمت پر ممکن بناتا ہے بلکہ خود عوام میں رہنا پسند کرتا ہے - کیونکہ اسے انسانوں اور انسانیت سے پیار ہوتا ہے

ایک با کردار شخص حساس طبیعت کا مالک ہوتا ہے اور اپنے ماحول میں حقیر سی تبدیلی اور جمبش اس کو  متاثر کرتی ہے اور وہ اس کا رد عمل ظاہر کرتا ہے ، در اصل حساس ہونا ہی انسان کو جانور سے الگ کرتا ہے  اسی لئے عزت نفس بھی ایسی ہستی کے لئے نہایت اہم ہے کیونکہ جس کو اپنی عزت پیاری نہیں وہ کسی اور کی عزت کا خیال کیسے رکھے گا ؟ رشتوں ، رتبے اور قوم کی غیرت کیسے پیدا ہوگی ؟ ملی ، قومی یہاں تک کے عقائد کی خاطر جوش و جزبہ کہاں سے آے گا ؟

ہم نوجوان نسل میں کامیاب انسان کی خصوصیت کے نہ ہونے کا رونا ہر وقت روتے رہتے ہیں - کامیاب انسان کیا ہوتا ہے ؟ صرف معاشی طور پر خوشحال انسان کیا واقعی خوشحال ہوتا ہے ؟ آئینسٹائن کہتا تھا '' کامیاب انسان نہیں، اخلاقیات میں  قابل قدرانسان بنو

اگر ہماری قوم کی بنیاد میں ہی ان معاشرتی قدروں کا فقدان ہوگا تو ایک مضبوط طاقتور کامیاب قوم کیسے بنے گی ؟ نوجوانوں  میں یقین محکم ، نظم و ضبط اور اتحاد موجود نہیں تو پھر یکسوئی کے ساتھ تخلیقی صلاحیت کا ہونا بھی ممکن نہیں  اسی طرح اگر قومی جذبہ  اور اصلاحی جوش نہیں تو وہ کیسے ایک کامیاب پیشہ ورشخص بن سکتے ہیں جب ان پر بھروسہ کرنا مشکل ہو اور کسی قسم کی ذمہ داری سومپنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑتا ہو تو کیسے ایک کامیاب انسان کے طور پر ابھریں گے ؟

ہمارے موجودہ صنعتی اور کاروباری شعبہ کو بھی اسی مشکل کا سامنا ہے- انھیں ان بنیادی پیشہ ورنہ خصوصیات کے حامل نوجوانوں نہیں ملتے - یہاں تک کے یونیورسٹی کی ڈگری لے کر بھی انکو کسی پیشہ سے منسلک ہونے میں شدید مشکل کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ انکو ان خصوصیات کی تعلیم اور تربیت حاصل نہیں ہوتی یہاں تک کے مناسب اور درست طریقے پر درخوست اور اپنی علمی اور شخصی تفصیلات یعنی سی وی تک بنانا نہیں آتا - یہی وجہ ہے کہ ملکی سطح کے پیشہ ورانہ امتحانات جیسے سی ایس ایس میں بھی ہر سال کامیابی کا تناسب تین سے چار فیصد بھی مشکل سے رہتا

ہے اور ہمارا اعلی تعلیم کی سرپرستی کا ادارہ یعنی ایچ ای سی ہماری جامعات یعنی  یونیورسٹیوں سے پوچھتا پھرتا ہے کہ ان کا پیشہ ورانہ تربیت کا تو سرے سے وجود نہیں لیکن تعلیم کا میعار بھی اتنا گرا ہوا کیوں ہے ؟

گزشتہ چند سالوں سے میری یہ شدید خواہش اور کوشش بھی رہی ہے کہ معاشی ترقی کی چوہا دوڑ سے نکل کر تھوڑا سست روی اختیار کر کے پورے انحماق کے ساتھ نوجوانوں میں خصوصاً پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت اور ساتھ ساتھ اخلاقیات اور شعور کی بیداری کا کام کیا جاے تا کہ نہ صرف  ان خصوصیات کی کمی کی وجہ سے صنعتی اور کاروباری شعبہ کی خالی اسامیاں بھی  پر کی جا سکیں جو اسی وجہ سے خالی رہ جاتی ہیں ورنہ نوکریوں کو کمی نہیں ہوتی در اصل صنعتی شعبہ کے پاس بھی اپنی  ضروریات کو صحیح طریقے سے عوام تک پہنچانے اور سمجھانے کا کوئی ذریعہ نہیں نہ ہی کوئی ایسا ادارہ ہے جو کاروباری اور صنعتی شعبہ سے رابطے میں رہ کر درست طریقے سے روزگار کی تلاش میں نوجوانوں کی تربیت کر سکے اور اسی لئے یہ رابطہ بن کر ایک پل تعمیر کرنے میں لگا ہوا ہوں اور اس کیا لئیے بھرپور اجتماعی سوچ کے ساتھ  تعاون بھی درکار ہے لیکن لوگوں کی اکثریت انفرادی ترقی کی سوچ کا حامل ہونے کی وجہ سے مغربی ماکرکتٹنگ اشتہرات اور میڈیا کے زیر اثر انفرادیت کو اجتماعیت پر ترجیح دینے کو پسند کرتی ہے اور سلیبرٹی والے انداز میں بے توجہی کا بھرم بنا کر رکھتا اپنا قومی شعار بنا لیا ہے 

اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نو جوانوں میں ایسا  شعور بیدار کیا جا سکے جس سے وہ  اپنی اور معاشرتی اصلاح کر سکیں، حالات میں بہتری لا سکیں اور مشکلات کا تدارک کرتے ہوے قوم کے سچے رہ نما اور خدمات گار کارکن پیدا کر سکیں  ساتھ ساتھ ایک اچھے کاروبای بھی بن سکیں تاکہ نوکری ڈھونڈنے کی بجاے مزید نوکریاں پیدا کریں - قومی شعور بیدار کرنے کی اس مہم میں ساتھ دینے والوں کی شدید کمی ہے اس لئے کے ان کا اپنا شعور ابھی بیدار نہیں ہوا

کاشف احمد ،

اسلام آباد ، پاکستان

١٧  مئی ٢٠٢١