Tuesday 6 March 2018

صرف منہ تک کا علم


ایک دانشور اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں بتا رہے تھے کہ " آپ منہ میں کھانے  کا ایک لقمہ رکھ کر تین دن گھومتے رہیں وہ آپ کی نشو و نما کا باعث ہرگز نہیں بن سکے گا جب تک کہ وہ آپ کے معدے میں نہ اتر جائے ۔ اور معدے میں اتر کر آپ کا جزو بدن نہ بن جائے ۔ تبھی پھر آپ کو تقویت عطا ہوتی ہے ۔ میں آپ اور ہم سب منہ کے اندر رکھی معلومات یا دماغ میں بھرے علم کو ایک دوسرے پر اگلتے رہتے ہیں ۔ اور پھینکتے رہتے ہیں ۔ پھر اس بات کی توقع رکھتے ہیں اور سوچتے  ہیں کہ ہم کو اس سے خیر کیوں حاصل نہیں ہوتی ۔ جب تک یہ معلومات یا پھر صرف دماغ میں محفوظ علم عملی طور پر آزمانے کے بنا اور آپکی شخصیت اور کردار کا جزو لازم بنے بغیر ہی لوگوں پر انڈیلا جاتا رہتا ہے کوئی خیر حاصل نہیں ہوتی''

علم, دانائی پھر شعور بنے بغیر لا حاصل سی شے ہے بلکہ نقصان دہ ہوتا ہے دماغ پھر منہ میں پڑے پڑے گل سڑ بھی جاتا ہے - جیسے پہلی بار جب آپ لاہور پہنچے تھے تو اس سے قبل آپ کے پاس لاہور کے بارے میں کافی معلومات موجود تھیں جن کی بنیاد پر آپ کا لاہور آنا ممکن ہوا - پھر آپ نے ان معلومات کو آزمائش اور تجربے کی بھٹی میں جلایا . علم کو عمل بنایا لاہور آ گئے تو پتا لگا کہ جتن بھی علم تھا وہ اس عملی تجربے کا آدھا بھی نہیں - اب جس طرح آپ پہلی بار لاہور جانے والوں کو بتا پائیں گے ویسا کبھی کتابوں یا دوسرے حوالہ جات اور وسائل سے کبھی نہں بتا سکتے - اب آپ کا لاہور کے بارے میں علم دانائی بن کر شعور کی منزلوں تک پہنچ

رہا ہے
لوگ کہتے ہیں موسیقی روح کی غذا ہے ،  میں نہیں مانتا - روح کی غذا دانائی ہے
 شعور ہے اور یہ دانائی اور شعور اس وقت تک حاصل نہیں ہوتا جب تک ہم اس دماغ میں بھرے ہوے علم کو لوگوں پر پھینکتے رہنے کی بجائے  عمل کی بھٹی میں سے گزار کر اپنی زندگی کا معمول نہیں بنا لیتے اور خود اس علم کا عملی شاہکار نظر نہیں آتے

صرف ہماری باتوں سے کچھ اثر نہیں ہوتا نہ کسی میں تبدیلی آتی ہے ہمارے روز مرّہ کے عمل اور ہماری شخصیت کو دیکھ کر ارد گرد کے لوگ اثر لیتے ہیں کہتے ہیں بچے آپ کی نصیحت سے نہیں آپ کے کردار سے سیکھتے ہیں میں کہتا ہوں لوگ بھی آپ کی شخصیت کے اظہار اور اثر سے خود میں تبدیلی محسوس کرتے ہیں کیونکہ انسان مٹی کا پتلا اس لئے کہا گیا ہے کہ اس میں گیلی مٹی والی خاصیتیں ہیں

انسان غور کرتا ہے اور پھر جذب کرتا ہے اور ارد گرد کے ماحول اور لوگوں کے اس اثر سے خود کو اس کے مطابق ڈھالتا ہے کیونکہ یہ اس کے خالق نے اس کی جبلّت میں رکھا ہے کہ وہ محسوس کرے جذب کرے اور خود کو ہر لمحہ پہلے سے بہتر بنانے میں لگا رہے صرف عمر میں بڑا  نہیں عقل و دانائی , ہمّت اور برداشت میں بھی بڑا ہوتا رہے

عقل و دانائی حاصل کرنے  کےلئے تو صرف ایک راستہ ہے وہ راستہ آپ کو اپنے خالق کا پیارا اور عزیز بناتا ہے

خالق کا شعور اور سمجھ حاصل ہوتی ہے اور انسان کو اصل دانائی حاصل ہوتی ہے - جب اس صحیح سمت میں بڑھتا ہے اور اپنے سے آگے موجود اسی راستے کے برگزیدہ مسافروں سے وابستہ ہونے لگتا ہے- ان سے مزید دانائی حاصل کرتا ہے اور اسکے اس صحیح سمت میں ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ وہ  اطمینان حاصل کرتا ہے دل کو قرار نصیب ہوتا ہے اور اسی اطمینان سے سرشار وہ دانائی کے راستے پر منزل بہ منزل آگے بڑھتا ہے

یہ ایک بتدریج  سفر ہے انسان پہلے سب سے قریب والے برگزیدہ مسافر کی بات کو آسانی سے ہضم کرتا
 ہے جو اس سے  سفر میں تھوڑا آگے نکل چکا ہوتا ہے پھر اس کے بعد اگلے برگزیدہ مسافر کی دانائی سے فیض حاصل کرتا ہے اور آگے بڑھتا ہے


کبھی کوئی براہ راست اس انتہائی دانائی کی منزل کو نہیں پہنچ سکتا جب تک یہ بتدریج  سفر نہ کرے بھلا کبھی کوئی اسکول جائے بغیر سیدھا کالج یا یونیورسٹی جا سکتا ہے ؟

اگر ایسا ہو سکتا تو ہر شخص اپنے خالق کی ہر بات پر عمل پیرا ہو جاتا صرف خالق کی بھیجی ہوئی کتاب پڑھتا اور کافی ہوتا اس کے  لئے پیغمبر کا درجہ حاصل کرلیتا-مگر ایسا نہیں ہے - یہ حکمت و دانائی کی راہیں دھیرج ، سکون اور بہت سا وقت لیتی ہیں باری  باری خالق کےبرگزیدہ اور دانا اور راہ نما راضی ہوتے ہیں اوراپنی دانائی کا خزانہ انڈیلتے ہیں تب جا کہ انسان دھیرے دھیرے سیراب ہوتا چلا جاتا ہے

یہ دانائی کے راستے عقل و شعور کی منزلیں رات بھر کتابیں رٹنے سے حاصل نہیں ہوتیں نہ ہی امتحان میں کسی گسس پیپر یا بوٹی سے کام چلتا ہے اسی لیے اکثر لوگ اس راستے کو پسند نہیں کرتے مشکل لمبا اور کٹھن راستہ ہے کوئی شارٹ کٹ نہیں کوئی تیز رفتاری کا انتظام نہیں مگر صرف صحیح اور سیدھا راستہ ہی درست راستہ 
ہوتا ہے،صراط مستقیم

کاشف احمد

No comments: