Saturday 13 April 2019

عادتیں


عادتیں ڈالنا مشکل ، عادتیں بگاڑنا آسان اور عادتیں بدلنا بہت ہی مشکل کام ہیں ....بچپن ہی سے اس کا آغاز ہو جاتا ہے جب والدین بچوں کو زندگی کی ہر ضرورت اور کام کرنے کی عادت ڈالتے ہیں 

بیٹا جوتا پہن کر رکھا کرو, صبح اٹھ کر پہلے منہ ہاتھ دھونا بال بنانا اور کپڑے بدلنا ضروری ہے 

پھراس کے بعد کھانے کے آداب اور مختلف طرح کے کھانے, عمراور رواج کے مطابق  ذائقہ متعارف کروانا پھر,  لباس, موسیقی, رہن سہن کا ذوق, لوگوں سے میل جول بات چیت کا انداز- یہ سب عادتیں ڈالی جاتی ہیں مگر اکثر باریک بینی سے نہیں صرف بے ساختگی یا پھر پہلے سے جاری رواج کی اندھی تقلید میں ایساکیا جاتا ہے  

اور ہم بھول جاتے  ہیں کہ ہم نے بچوں کو نیکی کی عادت تو ڈالی نہیں ، انہیں سکھایا ہے نہیں کے مشکل اور خطرناک وقت یا کسی اچانک حادثے کا سامنا کیسے کرنا ہوتا ہے؟

غور ہی نہیں کیا جاتا کے ہم انجانے میں اگر دوغلے پن کا مظاہرہ کریں گے تو بچہ وہ بھی سیکھے گا- بہودگی بدتمیزی بھی سیکھ جاے گے- اور جب ہم دوستوں میں بیٹھے ہوے یا فون پر گفتگو کرتے ہوے اول فول بکیں گے, چغلی کریں گے،  جھوٹ بولیں گے, تو وہ بھی اسی طرح دوستوں میں اٹھے بیٹھے گا,  لغو گوئی اور اول فول بکے گا اور گھر آ کر نہایت تمیز دار نظر آے گا 

پھراس طرح بگاڑ پیدا ہو جانے کے بعد عادت بدلنے کے لئے زور دیا جاتا ہے مگراپنی ویسی ہی عادت رہے گی تو بچے کیسے بری عادت بدلیں گے؟

یاد رکھنا چاہیے کہ بچہ سکھاے جانے سے زیادہ جیسا ہمیں دیکھتے ہیں ,جیسا ہم عمل کرتے ہیں اورجیسے زندگی گزارتے ہیں ، اس سے سیکھتا ہے- ہم کوشش نا بھی کریں تو ہمارا عمل ہمارا چال چلن سب بتا اور سکھا جاتا ہے 

صرف بڑے ہی نہیں, بچے  بھی زیادہ دیر بیوقوف نہیں بنتے -آپ کتنی دیر تک خود کو بہت با اخلاق اور نیک ظاہر کر سکتے ہیں ؟ کتنے دن اور کب تک اپنی بات پر قائم رہنے کا ناٹک جاری رکھ سکتے ہیں؟ یا کتنی دیر تک صرف سچ بول سکتے ہیں؟ ایک نہ ایک دن کبھی نہیں کبھی کسی کے ساتھ کچھ نہ کچھ تو اصلیت ظاہر کر دیں گے , بس وہیں بھانڈا پھوٹ جاے گا- کیونکہ صرف دنیا میں پہلے آ جانے سے کوئی بڑا نہیں ہو جاتا اس کے لئے بڑا دل, بڑی ہمّت, دانائی اور بڑا ظرف بھی درکار ہوتا ہے 

جب ایک بارعادتیں پکّی اور پختہ ہو جائیں تو ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتاکہ ہم کیا کر رہے ہیں, کونسی عادت ایسی ہے جو لوگوں کو ناگوار گزرتی ہے- خاص طور پر جب ہم کسی مختلف ماحول سے اٹھ کر نئی جگہ آتے ہیں تو خصوصی طور پر اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ جیسے پچھلے ماحول میں ہمارا دوغلا پن یا گنوارپن یا بیہودگی پکڑی نہیں گئی, یا شائد نظرانداز کر دی گئی, یہاں بھی کچھ ایسا چل جاے گا 

یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ضروری نہیں پچھلے ماحول میں اگر اکثریت جاہل تھی یا کسی دباؤ کے زیر اثر ہونے کی وجہ سےسہی رد عمل نہیں دکھا پائی, تو یہاں بھی اسی طرح چل جاے گا 

ہم عادتیں بدلنے کی کوشش نہیں کرتے, مگر دوسروں کو بدل جانے کا مشورہ ضرور دیتے ہیں ماحول میں ڈھلنے کی کوشش نہیں کرتے, ماحول کو اپنے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں اور جب اکثر ایسا نہیں ہو پاتا تو ذہنی دباؤ پریشانی اور آخر بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں 

عادتیں سدھارنا ہی اصل میں زندگی کا مقصد ہے, روز پہلے سے بہترانسان بننا اور خود کو ترقی دینا اسی کا نام ہے 

دنیا بدلنے کا مطلب در اصل خود کو بدلنا اور بہتر بنانا ہوتا, جس سے ہمارا ارد گرد کافی حد تک خود ہی بدل جاتا ہے 

دنیا کو بدل کر بہتر کرنا چاہتے ہو تو اپنے آپ سے شروعات کرو تم بھی تو دنیا ہی کا حصّہ ہو