Tuesday 22 September 2020

فراخ دلی ، قبولیت اور وابستگی

  

وابستگی  ایک  بنیادی  انسانی  وصف  ہی نہیں ، انسان کی اہم  ترین  ضرورت بھی ہے -  جب بھی دو انسان ملتے  ہیں  وہ صرف  دو انسان ہی نہیں  ہوتے  اپنے  ساتھ اپنی  اپنی  دو دنیاؤں  کا سفر وابستگی   اور اپنے ساتھ جڑے  ہوئے رشتوں  کا اثر بھی ساتھ لئے  ہوتے ہیں - یہی  سب کچھ مل کر  ان کے درمیان ایک نئے  رشتے  کی بنیاد  فراہم کرتا  ہے جو اچھا ، برا عارضی  یا مستقل  ہو سکتا ہے

 

انسانی رشتوں کی خوبصورتی  اور پائیداری  کا دارومدار ان کی  فراخ دلی  قبولیت  کی استطاعت  اور وابستگی کی مضبوطی  کی صلاحیت  پر منحصر ہوتی ہے - دنیا  جہاں کے ماہرین  قدیم یونانی دور سے لے کر آج تک  یہ مانتے ہیں کہ انسان  خوشی  کی تلاش  میں ہے  جو  اطمینان  قلب  کا ایک لازمی حصہ ہے - اور یہی خوشی مضبوط اور پائیدار  رشتوں  کی وجہ سے ہوتی ہے اور رشتے صرف   جذبوں کی آبیاری  سے نشو نما  پا کر  ایک تن آور درخت بنتے  ہیں -   ان جذبوں   میں اگر  حاصل کرلینے  کے جذبے  کی جگہ  بانٹ دینے  اور عطا کرنے  کا جذبہ  کارفرما ہو تو  انسان کو جو دائمی خوشی حاصل  ہوتی ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں

یہ بانٹ دینے ، عطا کردینے  اور فراخدلی  کا جذبہ   صرف مادی اشیا میں  ہی نہیں  جذبوں میں بھی  ضروری  ہے صرف  کسی گداگر  کو کچھ نوٹ  تھما  دینے  سے کام نہیں چلتا  کبھی اس کے پاس رک کر  اس کی بات پوری سن کر اس کا مسلہ  حل کرنا  اصل نیکی ہوتی ہے  ورنہ  اپنی دانست  میں تو لوگ گاڑی میں سے نوٹ پھینک  کر بھی  فوری  اور انسٹینٹ  نیکی  حاصل کر کے چلتے  بنتے ہیں - یعنی اللہ  کا نیکی حاصل کرنے کا بھی جیسے  کوئی ڈرائیو تھرو  بنا ہوا  ہو  جیسے  مکڈونلڈ  یا کے ایف سی  کا ہوتا ہے –

 

محبت حاصل کرنے سے زیادہ بانٹی جاے ، توجہ  حاصل کرنے سے زیادہ اگر دی جاے  اور کشادہ  دلی  حاصل کرنے کی بجاے  اس سے  دوسروں کو  پنپنے  اور ترقی کرنے  کا موقع  دیا جاے  اور اپنے  جذبوں اور  وابستگی کا اظہار اپنے انداز میں ظاہر کرنے کا موقع دیا  جاے  تو  وقتی نہیں دائمی خوشی  اور اطمینان حاصل  ہوتا ہے

اور اس سے کہیں  بڑھ کر یہ خوشی  اور اطمینان تب حاصل  ہوتا ہے جب انسان اپنی  ذات  اور  خاندان  سے بڑھ  کر ارد گرد  کے ماحول میں پورے خلوس  سے ، صاف دل ہو کر  فراخدلی کے ساتھ  یہ جذبے  تقسیم  کرتا  چلا  جاتا 

 

مغربی  دنیا  کو اگر مادی  دنیا  کہا جاے تو غلط نہیں ہوگا - یہ مادہ پرستی  حاصل کرلینے  کےگرد گھومتی  ہے . مقابلہ  کرنے اور آگے نکل جانے  کی  دوڑ کو تیز سے تیز کر دینے  پر لگے رہنے کے دوران  انسان کی  بنیادی  جبلت  سے اسے  دور لے جاتی ہے  - وہی جبلت  جس کو  فراخ دلی کے ساتھ  قبول  کر کے وابستہ  رہنے  کا نام دیا جاتا ہے -  اب یہ فراخ دلی   رشتوں  کی قبولیت  اور مضبوط وابستگی  ہو یا پھر  چیزوں  اور جگہوں   کے حصول اور استعمال پر مبنی ہو یہ ہمیں  لوگوںسے پیار کرنا  ان سے وابستہ  رہنا  اور چیزوں اور جگہوں کا درست استعمال  کرنے میں  مدد دیتی ہے جو  انسانوں  کی فلاح  و بہبود  اور درست سمت میں  ترقی  کرواتی ہے  اور یہ صرف ذہنی نہیں قلبی اور  روحانی سیرابی  و سرشاری فراہم کرتی ہے  جو در اصل  کامیابی  کہلاتی ہے  

 

جبکہ مادہ  پرستی  کی دوڑ  انسان  کو صرف چیزوں سے پیار  اور لوگوں کا استعمال  سکھاتی  ہے -بانٹنے  اور عطا  کر دینے کی بجائے   حاصل کر لینا  اور کسی  قسم کا بے لوث تعلق نہ رکھنا  اور خود کو زیادہ وقت غیر جانبدار  رکھنے  کا درس دیتی ہے - اسی لئے  بہت سے مغرب زدہ  ذہن ملکیت  اور تصرف  حاصل کرنا اور خود کو مصروف , لا تعلق اور غیر وابستہ ظاہر کرنے کو کامیابی اور بڑ ائی کا  راستہ سمجھتے  ہیں جبکہ یہ غیر  انسانی رویے   ہیں 

محرومی  در اصل  چیزوں  اور  جگہوں ، زمین  اور عالی شان عمارتوں کی نہیں  ہوتی  جو انسان کو سب کچھ حاصل  کرنے کی دوڑ  میں اندھا بھگاتی چلی جاتی ہے - محرومی  جذبوں  کی بھی ہوتی ہے  جو انسان کو  کٹھور ، بد دماغ  ، بے حس  ظالم  اور سفاک بنا  ڈالتی ہے - عزت اور تکریم  کی کمی  انسان کو بد تمیز بناتی ہے ، پیار کی کمی  آدمی کو خشک  اور بے حس  بنا دیتی ہے  اور توجہ کی کمی انسان کو اپنے آپ کو لا تعلق  اور مصروف  ظاہر کرنے پر مجبور کرتی ہے - کوئی بھی شخص  پیدائشی طور  پر خشک  مزاج  ، بے حس  اور مشکل  نہیں ہوتا نہ ہی کوئی شخص  فنون لطیفہ ، آرٹ  ,  خوبصورتی ، رعنائ اور دلکشی  کو نا پسند  کرتا ہے - یہی محرومی  ہوتی ہے جو بچپن سے اس کی عادت اطوار اور مزاج کو  تشکیل دیتی ہے  اور اس کے  اصل  انسانی  جذبات کو پنپنے نہیں دیتی


 

اسی لئے آج کے دور کے مالی طور پرکامیاب  ترین لوگ   اکثر  ذہنی سکون سے محروم ہونے کے بعد  اعصابی تناؤ  اور  کئی بار تو  ذہنی  بیماریوں  کا شکار  ہو جاتے ہیں - یہی حال امریکہ  کی مشہور  مصنف  اور ایک بڑے جریدے  حف  پوسٹ  کی مالک آریانہ  ہفنگٹن  کا ہوا  جب وہ اچانک  نروس بریک  ڈاون کا شکار ہو کر ہسپتال پہنچ گیں اور آخر  اپنی  مشہور  کتاب ''تھرایو '' جو  انہوں نے ہسپتال  میں ہے لکھنا شروع  کی ، اس بات کا اعتراف کیا کہ کامیابی  صرف پیسہ  اور طاقت  حاصل کرنے کا نام نہیں -  کامیابی   کے صرف دو نہیں  تین ستون ہوتے ہیں  یعنی ، پیسہ ، طاقت  اور دانائی

 

یعنی کامیابی  کی عمارت  صرف  پیسے  اور طاقت کے دو ستونوں  پر کھڑی نہیں  رہ سکتی  اس کا ایک تیسرا ستون  بھی ہوتا ہے   اور وہ ہے دانائی

دانائی ہی وہ تیسرا  ستون ہے  جس کا  اکثر  لوگوں کو بالکل  پتا نہیں  اور یہی سب سے اہم  ستون  ہوتا ہے  جس کے بغیر ، صرف  دو ستون پر  کامیابی  کی عمارت    کبھی کھڑی  نہیں رہ سکتی  یا کم از کم زیادہ دیر تو ہرگز نہیں - دانائی کو اکثر لوگ علم  سمجھتے  ہیں  جبکہ  یہ دو یکسر مختلف  چیزیں  ہوتی ہیں - علم  آپکو  کمانے  کا ذریعہ  اور طریقہ  سکھاتا  ہے چاہے وہ پیسہ  ہو ، طاقت  ،شہرت یا پھر  کچھ اور -  مگر  دانائی  آپ کو زندگی بنانے  کا طریقہ  سکھاتی  ہے ، نہ صرف اپنی  بلکہ  دوسروں  کی بھی اور آپ سمجھ  جاتے ہیں کہ آپ کی اصل  بڑ ائی  اور کامیابی  آپ سے وابستہ  لوگوں   کی بہتری ، بڑ ائی  اور کامیابی  میں ہے کیونکہ آپ کے ارد گرد کا ماحول  جب ترقی  یافتہ ، فراخدل ، کشادہ سوچ رکھنے  والا ، جگہ دینے  والا ، بانٹنے  اور عطا کرنے والا اور خوش دلی  سے قبول  کرنے والا  ہوگا  تو آپ کی ترقی  بھی  دائمی  ہوگی