Tuesday 16 May 2017

دائمی اطمینان


مجھے دعا ملی، الله خوش رکھے
میں نے کہا الله آپ کو بھی خوش رکھے
لیکن مجھے تو خوشی نہیں چائیے
تھوڑی حیرانگی سے سوال کیا گیا
وہ کیوں؟
بھلا خوشی کس کو نہیں چاہیے ہوتی
 مجھے تو بس اطمینان چاہیے .....میں نے جواب دیا
کیونکہ خوشی بھی اطمینان کا ہی ایک جزو ہے
اور اطمینان کل
یاد رکھو جس کام، جگہ ، چیز یا تعلق میں دائمی اطمینان نہیں وہ سہی نہیں
عارضی سکوں ، قرار تو اکثر مل جاتا ہے مگر یہ سب عارضی ہوتا ہے جس کے بعد وہی اضطراب ..
دائمی تو بس اطمینان ہوتا ہے
اور اطمینان حاصل ہوتا ہے تو  بس بابوں سے، قربان میں اپنے سب بابوں پہ
الحَمْد لله 

                                                                          Omnibus

Saturday 13 May 2017

دنیاوی مخلوق

دنیا کا یہ اصول ہے کہ جہاں آپ کچھ دینے کے لیے جائیں جہاں آپ کا نوازنے والا ہاتھ ہویا جہاں آپ مالک ہوں بڑےہوں - وہاں کہ لوگ آپ کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالیں کیونکے آپ ان کو نوازنے لگے ہیں .. وہ نہیں

آپ صرف اس جگہ خود کو دوسروں کے حساب سے ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں سے آپ کو کچھ حاصل ہونے کی امید ہوتی ہے یا کچھ فائدہ - جیسے ملازمت یا کاروبار یا کسی خدمت کے بدلے میں کوئی انعام یا تعریف یا ترقی

اور اگر ایسا نہ ہو کہ نہ ہو یعنی لوگ آپ کے مطابق خود کو نہ ڈھال سکیں اس کہ با وجود کے دینے والا ہاتھ آپ کا ہے آپ مالک ہیں تو آپ وہ جگہ چھوڑ دیتے ہیں یا لوگوں کو وہاں سے چلے جانے پر مجبور کر دیتے ہیں

دوسری طرف اگر آپ کو کہیں کوئی فائدہ نظر نہ آے اور کچھ ملنے کی امید نہ ہو تو آپ وہاں جانا پسند نہیں کرتے اور مجبوراً جانا پڑ بھی جاے تو خود کو وہاں کے مطابق کبھی نہیں ڈھالتے با مجبوراً جتنا ہو سکے ڈھل جانے والا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں اداکاری کرتے ہیں 


مگر یہ سب اصول تو دنیا کے اصول ہیں کیا آپ دنیاوی مخلوق ہیں جو کبھی کبھی روحانی تجربات سے گزرتی ہے؟ یا پھر آپ اصل میں روحانی مخلوق ہیں جو دنیاوی تجربے سے گزر رہی ہے؟ فیصلہ آپ خود کریں

کبھی خود کو ان کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جہاں آپ کچھ دینے والے ہیں اور فائدہ پونھچانے آے ہیں ؟ یا کبھی اس جگہ بھی گئے جہاں سے کوئی فائدہ ملنے کی امید نظر نہ آتی ہو ؟ یا اگر گئے بھی تو وہاں جا کر خود کو وہاں کے مطابق ڈھالنے کا سوچا ؟

اصل انسان تو وہ ہے جو اس جگہ ضرور جاے جہاں کوئی فائدہ نظر نہ آتا ہو اور اس انسان کو ضرور عزت دے جس سے اسے کسی فائدے کی امید نہ ہو - عزت دینا یہ نہیں ہوتا کے آپ کسی سے اس طرح ملنے گئے جیسے احسان کیا ہو اور جا اکر نخرے دکھاتے رہے کہ اف کتنی گرمی ہے ٹائم بہت کم ہے صاحب بنے بیٹھے رہے - عزت دینا یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص خود کو آپ کے سامنے چھوٹا محسوس نہ کرے گھل مل جانا ویسا ہی نظر آنا جیسے وہ سب ہیں یہاں تو آپ کو جب تک الگ سے کوئی کرسی یا اسٹیج نہ ملے تو کسی کو ملنے نہیں جاتے

آپ کو تو دوسروں سے الگ ممتاز نظر آنا چاہیے نہ - تا کہ پتا لگے سب کو کہ آپ نے عزت بخشی ہے اور اگر کوئی ایسا نہ کرتا ہو لوگوں میں رچ بس جاتا ہو سادہ پرخلوص واقعی نظر انے لگے تو شک ہو جاتا ' بھائی یہ کوئی بڑی گیم لگتی ہے '
کیونکہ یہ دنیا کا اصول ہے....... دنیا کا .......اور آپ دنیاوی مخلوق ہیں

Tuesday 9 May 2017

By accident

No one is sent by accident to anyone ~A Course in Miracles ☼ Whatever relationships you have attracted in your life at this moment, are precisely the ones you need in your life at this moment. There is a hidden meaning behind all events, and this hidden meaning is serving your own evolution. ~ Deepak Chopra
زندگی میں کوئی بھی حادثاتی طور پر نہیں ملتا یہ موجزات کا کا سفر ہے - یاد رکھو جو بھی اس لمحہ  تمہاری زندگی میں شامل ہے اس کی تمھیں اشد ضرورت ہے ہر صورت حال  کہ پیش آنے کی ایک انجانی وجہ ہوتی ہے اور یہ وجہ تمہاری شخصیت کی  نمو کاکام کر رہی ہے
Omnibus


Thursday 4 May 2017

بھوک

بھوکا کبھی نہیں جھجھکتا نہ پوچھتا ہے نہ ہی پیاسا  کبھی جھجکتا یا سوچتا ہے شرط صرف واقعی بھوکا پیاسا ہونے کی ہوتی ہے 
لوگوں کی ایک قسم وہ بھی ہوتی ہے جو اتنی نا سمجھ ہے کہ جن کو  پتہ ہی  نہیں چلتا کہ  بھوک لگی ہے یا پیاس- بس چھوٹےسے بچے کی طرح روتے رہتے ہیں پریشان بے چین بے سکون زندگی ہونے کے با وجود بھی سمجھ نہیں آتی کے انکو پیاس لگی ہے یا بھوک 
 اور یہ پیاس اور بھوک اپنی اصل پہچان کی ہوتی ہے اصل انسان بن جانے کی پیاس اور بھوک جو صرف اور صرف دانائی ملنے سے بنتا ہے ادراک ملنے سے ورنہ یہ خالی خولی کی علمیت کسی کام کی نہیں ہوتی صرف علم بے چینی پیدا کرتا ہے
پریشانی اضطراب جب تک دانائی اور ادراک حاصل نہ ہو

اور ادراک ملتا ہے علم کو عمل میں بدل دینے سے علم کا عملی اظہار کرنے اور نمونہ بن جانے سے 

بار بار کا عمل بار بار کا عملی اظہار علم کو دھیرے دھیرے دانائی اور ادراک میں بدل دیتا ہے وقت لگتا ہے اور پھر انسان دانائی حاصل کر کے اپنی پیاس اور بھوک مٹا تا چلا جاتا ہے تسکین کہ اس سفر میں اور آگے بڑھتا اور نشو نما پاتا ہے بڑاہو جاتا ہے صرف بوڑھا نہیں ہوتا 

 تسکین  کہ اس سفر کو آسان بنا نے اور رفتار تیز کرنے کی  خاطر بہت جتن  کرنے لگتا ہے اور آخر خالق کو اس کی اس کوشش اس جستجو پہ  پیار آ جاتا ہے اور وہ ایک رہ نما بھیجتا ہے رہنما وہ روحانی رشتہ قائم کرتا ہے کہ جس کی بدولت دانائی اور ادراک تیزی سے اس کو ملنے لگتی ہے وہ طریقے وہ عمل سکھاتا ہے جس سے دانائی کا سفر سہل اور تیز رفتار ہو جاتا ہے اور انسان سہی سمت میں سفر کرنے لگتا ہے 

یہ روحانی رشتہ انسان کو اوپر ہی اوپر لے جاتا ہے کیونکہ  باپ تو انسان کو اوپر سے دنیا میں نیچے لاتا ہے اور روحانی باپ ادراک اور دانائی سے اوپر لے جاتا ہے اور انسان صرف بوڑھا نہیں بڑا ہو جاتا ہے ....بڑا انسان  

سوچو غور کرو کیا بےچینی محسوس ہوتی ہے ؟ بے سکونی اطمینان کا نہ ہونا دانائی کی بھوک اور ادراک کی ؛ پیاس ہے اور اس کو مٹانے کا صرف ایک راستہ ہے..... عمل