Tuesday 3 November 2020

فن گفتگو کو اب باتیں بنانا کہتے ہیں

  

خالق کائنات کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ایک عمدہ قول کسی بڑے دانا کا ہے کہ انسان کی زندگی کا منشاء یہ ہے کہ اس کے تمام قوٰی اور جذبات نہایت روشن اور شگفتہ ہوں اور ان میں باہم نا مناسبت اور تناقص واقع نہ ہو بلکہ تمام قوٰی اور جذبات مل کر ایک کامل اور نہایت متناسب مجموعہ ہوں

 

گفتگو آدمی کے کردار اخلاق اور شخصیت کی آئینہ دارہوتی ہے۔ ایک خوبرو و خوش لباس شخص سقراط کے پاس آکر خاموش بیٹھ گیا۔سقراط نے اس آدمی سے کہا کہ کچھ بات کرو تاکہ تمہاری شخصیت کا اندازہ لگا یا جا سکے۔ انسان اپنی گفتگوکے پردے میں چھپا رہتا ہے اسے اس کی گفتگو سے پہچانا جاتا ہے۔ گفتگو ایک باقاعدہ فن ہے۔کس سے، کب، کہاں اورکیسے بات کی جائے یہ سلیقہ نہ صرف  انسان کی شخصیت کی پہچان بلکہ اس میں وقاراور نکھار پیدا کرتاہے۔آج گلوبلائزیشن کے دور میں ہر محکمہ ا ور ادارہ ایسے افرادکی تلاش میں ہے جو بہتر گفتگو کی صلاحیتوں اور مہارتوں سے لیس  ہیں۔آئے دن اس تلاش میں اضافہ ہی ہوتا جارہاہے

 

روزمرہ کی زندگی میں گفتگو ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعہ آدمی نہ صرف مختلف مسائل کا خوش اسلوبی سے سامنا کرسکتا ہے بلکہ دوسروں کے دلوں کو مسخر بھی کرسکتا ہے۔ گفتگو سے دوسروں کو اپنے وجود کا احساس دلاتا ہے۔گفتگو کا فن اور مہارت مجموعی طورپر آدمی کی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہے

 

مقاصد پر مبنی تدریسی سرگرمیاں انجام دینے سے قبل والدین اور اساتذہ بچوں میں چند بنیادی صلاحیتوں ومہارتوں کو فروغ دیں جیسا کہ ذیل میں ایسی چند بنیادی مہارتوں کا ذکر کیا گیا ہے جس کا حصول موثر اور دل پذیر گفتگو کے لئے  شخص کے لئے ضروری ہے کیونکہ ایک خوبصورت معاشرہ  اسی سے تشکیل پاتا ہے

 

(1)

 اپنا علم،معلومات،تخیل اور مطلوبہ پیغام کو دلچسپ،متاثر کن اور قابل فہم انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت کواپنانے

کے لئے اس فن کے ماہر گردانے جانے والے ادیبوں ، مصنفین اور مقرروں  کو پڑھیں اور سننے کی عادت ڈالیں کیونکہ سنے اور غور  کئے بغیر  حاضر جوابی  کو اختیار کرنا بدتمیزی کہلاتی ہے - اس کے لئے ادبی محفلوں اور مشاعروں کے ساتھ ساتھ  آج کل انٹرنٹ کی مدد سے ادبی شاہکار پروگرام اور ڈرامے بہت موثر  ثابت ہوتے ہیں

(2)

مستحکم ا ورپراثرا بلاغ کی برقراری کے لئے سوچ سمجھ کربات چیت کرنے کی صلاحیت بے حد ضروری ہے اس کے فروغ کو ممکن بنائیں اور بزرگوں کی گفتگو کے انداز پر غور کریں اور سیکھنے کی کوشش کریں

(3)

اپنی گفتگو کی جانچ پرکھ اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے آگہی کی خاطر شائستہ اور موثر گفتگو کرنے والوں کی صحبت اخیتار کرنے کے علاوہ علاوہ خرابیوں کو دور کرنے کی صلاحیت و مہارت کے فروغ کو یقینی بنائیں

(4)

گفتگو کے دوران مناسب جسمانی حرکات،سکنات اور اشاروں کے بہتر استعمال کی صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش کریں جو کہ سامع کے اندر جوش و ولولہ پیدا کرتی ہے


 

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جب نو جوان اور اکثر لوگ بھی جب  اپنے خیالات یا نظریات کوواضح اور متاثرکن انداز میں پیش کرنے میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں یا جب وہ اس کیفیت کا باربار سامنا کرتے ہیں تو نہ صرف  ان کی خوداعتماد ی مجروح ہوجاتی ہے بلکہ وہ بالغ . پختہ, سنجیدہ مزاج شخصیت کے حامل افراد کی محفل سے کترانے لگتے ہیں - دوسروں کو متاثر کرنے کی ان کی خواہش شکست و ریخت کا شکار ہوجاتی ہے۔ گفتار کی رفتار، محویت اور اختیار کردہ طرز تکلم جوگفتگو کی کامیابی کی اساس ہوتی ہیں سے نوجوانوں بلکہ کئی پختہ عمر کے لوگوں  کو واقف کروانا بے حد ضروری ہوتا ہے تاکہ ان کی گفتگو میں شائستگی اور تاثیر پیدا ہوسکے

 

کامیاب گفتگو کے فن کے فروغ کے لئےان افراد کو گفتگو کی مہارتوں سے لیس کرنے کے علاوہ انھیں ان کی گفتگو سے پیداشدہ صورتحال کا جائزہ لینے کی صلاحیت سے بھی متصف کرنا ضروری ہوتاہے۔ لوگوں میں جب بچپن سے ہی اس طرح جائزہ کیصلاحیت جاگزیں ہوجاتی ہے تو وہ گفتگو کو موثراور بہتر بنانے والے عوامل کو اپنی گفتگو کا حصہ بنانے لگتے ہیں اور ان باتوں سے اعراض و اجتناب کرنے لگتے ہیں جو گفتگو کی شائستگی  تاثیر اورادب و لحاظ  میں خرابی پیدا کرتے ہیں۔بچوں میں مذکورہ صلاحیتیں مندرجہ ذیل عوامل کے حصول سے ممکن ہوتی ہیں

(1)

گفتگو صاف واضح اور قابل فہم ہواور اس کے لئے والدین اور اساتذہ  کی اپنی گفتگو کا انداز اور میعار اچھا ہونا بے حد ضروری ہے

(2)

زمان(وقت)،مکان، حفظ مراتب اور مخاطب کا خاص خیال رکھیں۔گفتگو کے ماہرین دوران گفتگو مخاطب کے موڈ اور باڈی لینگویج  کا خاص خیال رکھتے ہیں

(3)

خوداعتمادی سے کام لیں گفتگو میں اعتماد اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب بات کرنے والے کے پاس کامل معلومات کا وافرذخیرہ ہو۔گفتگو ایک فن ہے اور اس فن میں وہ مہارت حاصل کرتے ہیں جن کا مطالعہ اور سوچ وسیع ہوتی ہے۔کسی بھی موضوع پر موثر گفتگو یا اظہار خیال کے لئے زندگی کے ہر شعبے سے کماحقہ واقفیت بے حد ضروری ہوتی ہے

(4)

فن گفتگو میں مہارت پیداکرنےسے باہمی تعلقات میں خوشگواری پیدا ہوتی ہے جس کے لئے غورو خوص(دھیان) سے سماعت(سننے)کافن اور چہرے کے تاثرات کے ساتھ جسمانی حرکت سکنات کا بہترین استعمال  بہت اہم ہے

 

شرکاء گفتگو بات چیت سے اس وقت لطف و حظ اٹھاتے ہیں جب موضوع پر سیر حاصل دلچسپ اور اطمینان بخش گفتگو کی جائے۔ والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں اور نوجوانوں کو شعور و آگہی سے متصف کردیں کہ وہ دوران گفتگو حد درجہ احتیاط اور مہذب و معتبر انداز سے گفتگو کریں کیونکہ اکثر لوگ ان کے ’وہ کیا کہتے ہیں‘ اور ’وہ کیسے کہتے ہیں‘ سے ان کی شخصیت کا اندازہ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اساتذہ اپنی نگرانی میں کمرۂ جماعت میں گفتگو کے لئے سازگار ماحول کی تخلیق کرتے ہوئے باآسانی طلبہ کو گفتگو پر مائل کرسکتے ہیں۔دوران گفتگو طلبہ اکثر چاپلوسی،خوشامد پسندی اور بحث و تکرار سے کام لیتے ہیں جن پر نظر رکھنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔اساتذہ طلبہ کوخوش مزاجی سے،اپنے طرز عمل, آداب اورحرکات وسکنات سے باخبررکھتے ہوئے بہتر گفتگو انجام دینے کی ترغیب دے سکتے ہیں ۔ دوران گفتگوبچوں اور نوجوانوں  کی رہبری کی جائے کہ وہ اپنے افکار و خیالات کو دلچسپ انداز میں مربوط طریقے سے ایسے پیش کریں کہ گفتگو کی روانی میں کوئی خلل پیدا نہ ہو۔ ہرگزان کے گفتگو کو موثربنانے کے فن کو شک و شبہ کی نگاہ سے نہ دیکھیں۔اساتذہ طلبہ میں عزم،حوصلہ اور اعتماد پیدا کرتے ہوئے ان کے ذہنوں میں فن گفتگو کی اہمیت و افادیت کو جاگزیں کریں۔

 

 خصوصاً اساتذہ کی تحریک سے ترغیب پاکر ہی نوجوان گفتگو کو موثر بنانے والی مہارتوں اور انداز سے خود کو آراستہ ہوکر اپنی گفتگو سے مخاطب و سامع کومتحیر و مرعوب کردیتے ہیں 

Tuesday 22 September 2020

فراخ دلی ، قبولیت اور وابستگی

  

وابستگی  ایک  بنیادی  انسانی  وصف  ہی نہیں ، انسان کی اہم  ترین  ضرورت بھی ہے -  جب بھی دو انسان ملتے  ہیں  وہ صرف  دو انسان ہی نہیں  ہوتے  اپنے  ساتھ اپنی  اپنی  دو دنیاؤں  کا سفر وابستگی   اور اپنے ساتھ جڑے  ہوئے رشتوں  کا اثر بھی ساتھ لئے  ہوتے ہیں - یہی  سب کچھ مل کر  ان کے درمیان ایک نئے  رشتے  کی بنیاد  فراہم کرتا  ہے جو اچھا ، برا عارضی  یا مستقل  ہو سکتا ہے

 

انسانی رشتوں کی خوبصورتی  اور پائیداری  کا دارومدار ان کی  فراخ دلی  قبولیت  کی استطاعت  اور وابستگی کی مضبوطی  کی صلاحیت  پر منحصر ہوتی ہے - دنیا  جہاں کے ماہرین  قدیم یونانی دور سے لے کر آج تک  یہ مانتے ہیں کہ انسان  خوشی  کی تلاش  میں ہے  جو  اطمینان  قلب  کا ایک لازمی حصہ ہے - اور یہی خوشی مضبوط اور پائیدار  رشتوں  کی وجہ سے ہوتی ہے اور رشتے صرف   جذبوں کی آبیاری  سے نشو نما  پا کر  ایک تن آور درخت بنتے  ہیں -   ان جذبوں   میں اگر  حاصل کرلینے  کے جذبے  کی جگہ  بانٹ دینے  اور عطا کرنے  کا جذبہ  کارفرما ہو تو  انسان کو جو دائمی خوشی حاصل  ہوتی ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں

یہ بانٹ دینے ، عطا کردینے  اور فراخدلی  کا جذبہ   صرف مادی اشیا میں  ہی نہیں  جذبوں میں بھی  ضروری  ہے صرف  کسی گداگر  کو کچھ نوٹ  تھما  دینے  سے کام نہیں چلتا  کبھی اس کے پاس رک کر  اس کی بات پوری سن کر اس کا مسلہ  حل کرنا  اصل نیکی ہوتی ہے  ورنہ  اپنی دانست  میں تو لوگ گاڑی میں سے نوٹ پھینک  کر بھی  فوری  اور انسٹینٹ  نیکی  حاصل کر کے چلتے  بنتے ہیں - یعنی اللہ  کا نیکی حاصل کرنے کا بھی جیسے  کوئی ڈرائیو تھرو  بنا ہوا  ہو  جیسے  مکڈونلڈ  یا کے ایف سی  کا ہوتا ہے –

 

محبت حاصل کرنے سے زیادہ بانٹی جاے ، توجہ  حاصل کرنے سے زیادہ اگر دی جاے  اور کشادہ  دلی  حاصل کرنے کی بجاے  اس سے  دوسروں کو  پنپنے  اور ترقی کرنے  کا موقع  دیا جاے  اور اپنے  جذبوں اور  وابستگی کا اظہار اپنے انداز میں ظاہر کرنے کا موقع دیا  جاے  تو  وقتی نہیں دائمی خوشی  اور اطمینان حاصل  ہوتا ہے

اور اس سے کہیں  بڑھ کر یہ خوشی  اور اطمینان تب حاصل  ہوتا ہے جب انسان اپنی  ذات  اور  خاندان  سے بڑھ  کر ارد گرد  کے ماحول میں پورے خلوس  سے ، صاف دل ہو کر  فراخدلی کے ساتھ  یہ جذبے  تقسیم  کرتا  چلا  جاتا 

 

مغربی  دنیا  کو اگر مادی  دنیا  کہا جاے تو غلط نہیں ہوگا - یہ مادہ پرستی  حاصل کرلینے  کےگرد گھومتی  ہے . مقابلہ  کرنے اور آگے نکل جانے  کی  دوڑ کو تیز سے تیز کر دینے  پر لگے رہنے کے دوران  انسان کی  بنیادی  جبلت  سے اسے  دور لے جاتی ہے  - وہی جبلت  جس کو  فراخ دلی کے ساتھ  قبول  کر کے وابستہ  رہنے  کا نام دیا جاتا ہے -  اب یہ فراخ دلی   رشتوں  کی قبولیت  اور مضبوط وابستگی  ہو یا پھر  چیزوں  اور جگہوں   کے حصول اور استعمال پر مبنی ہو یہ ہمیں  لوگوںسے پیار کرنا  ان سے وابستہ  رہنا  اور چیزوں اور جگہوں کا درست استعمال  کرنے میں  مدد دیتی ہے جو  انسانوں  کی فلاح  و بہبود  اور درست سمت میں  ترقی  کرواتی ہے  اور یہ صرف ذہنی نہیں قلبی اور  روحانی سیرابی  و سرشاری فراہم کرتی ہے  جو در اصل  کامیابی  کہلاتی ہے  

 

جبکہ مادہ  پرستی  کی دوڑ  انسان  کو صرف چیزوں سے پیار  اور لوگوں کا استعمال  سکھاتی  ہے -بانٹنے  اور عطا  کر دینے کی بجائے   حاصل کر لینا  اور کسی  قسم کا بے لوث تعلق نہ رکھنا  اور خود کو زیادہ وقت غیر جانبدار  رکھنے  کا درس دیتی ہے - اسی لئے  بہت سے مغرب زدہ  ذہن ملکیت  اور تصرف  حاصل کرنا اور خود کو مصروف , لا تعلق اور غیر وابستہ ظاہر کرنے کو کامیابی اور بڑ ائی کا  راستہ سمجھتے  ہیں جبکہ یہ غیر  انسانی رویے   ہیں 

محرومی  در اصل  چیزوں  اور  جگہوں ، زمین  اور عالی شان عمارتوں کی نہیں  ہوتی  جو انسان کو سب کچھ حاصل  کرنے کی دوڑ  میں اندھا بھگاتی چلی جاتی ہے - محرومی  جذبوں  کی بھی ہوتی ہے  جو انسان کو  کٹھور ، بد دماغ  ، بے حس  ظالم  اور سفاک بنا  ڈالتی ہے - عزت اور تکریم  کی کمی  انسان کو بد تمیز بناتی ہے ، پیار کی کمی  آدمی کو خشک  اور بے حس  بنا دیتی ہے  اور توجہ کی کمی انسان کو اپنے آپ کو لا تعلق  اور مصروف  ظاہر کرنے پر مجبور کرتی ہے - کوئی بھی شخص  پیدائشی طور  پر خشک  مزاج  ، بے حس  اور مشکل  نہیں ہوتا نہ ہی کوئی شخص  فنون لطیفہ ، آرٹ  ,  خوبصورتی ، رعنائ اور دلکشی  کو نا پسند  کرتا ہے - یہی محرومی  ہوتی ہے جو بچپن سے اس کی عادت اطوار اور مزاج کو  تشکیل دیتی ہے  اور اس کے  اصل  انسانی  جذبات کو پنپنے نہیں دیتی


 

اسی لئے آج کے دور کے مالی طور پرکامیاب  ترین لوگ   اکثر  ذہنی سکون سے محروم ہونے کے بعد  اعصابی تناؤ  اور  کئی بار تو  ذہنی  بیماریوں  کا شکار  ہو جاتے ہیں - یہی حال امریکہ  کی مشہور  مصنف  اور ایک بڑے جریدے  حف  پوسٹ  کی مالک آریانہ  ہفنگٹن  کا ہوا  جب وہ اچانک  نروس بریک  ڈاون کا شکار ہو کر ہسپتال پہنچ گیں اور آخر  اپنی  مشہور  کتاب ''تھرایو '' جو  انہوں نے ہسپتال  میں ہے لکھنا شروع  کی ، اس بات کا اعتراف کیا کہ کامیابی  صرف پیسہ  اور طاقت  حاصل کرنے کا نام نہیں -  کامیابی   کے صرف دو نہیں  تین ستون ہوتے ہیں  یعنی ، پیسہ ، طاقت  اور دانائی

 

یعنی کامیابی  کی عمارت  صرف  پیسے  اور طاقت کے دو ستونوں  پر کھڑی نہیں  رہ سکتی  اس کا ایک تیسرا ستون  بھی ہوتا ہے   اور وہ ہے دانائی

دانائی ہی وہ تیسرا  ستون ہے  جس کا  اکثر  لوگوں کو بالکل  پتا نہیں  اور یہی سب سے اہم  ستون  ہوتا ہے  جس کے بغیر ، صرف  دو ستون پر  کامیابی  کی عمارت    کبھی کھڑی  نہیں رہ سکتی  یا کم از کم زیادہ دیر تو ہرگز نہیں - دانائی کو اکثر لوگ علم  سمجھتے  ہیں  جبکہ  یہ دو یکسر مختلف  چیزیں  ہوتی ہیں - علم  آپکو  کمانے  کا ذریعہ  اور طریقہ  سکھاتا  ہے چاہے وہ پیسہ  ہو ، طاقت  ،شہرت یا پھر  کچھ اور -  مگر  دانائی  آپ کو زندگی بنانے  کا طریقہ  سکھاتی  ہے ، نہ صرف اپنی  بلکہ  دوسروں  کی بھی اور آپ سمجھ  جاتے ہیں کہ آپ کی اصل  بڑ ائی  اور کامیابی  آپ سے وابستہ  لوگوں   کی بہتری ، بڑ ائی  اور کامیابی  میں ہے کیونکہ آپ کے ارد گرد کا ماحول  جب ترقی  یافتہ ، فراخدل ، کشادہ سوچ رکھنے  والا ، جگہ دینے  والا ، بانٹنے  اور عطا کرنے والا اور خوش دلی  سے قبول  کرنے والا  ہوگا  تو آپ کی ترقی  بھی  دائمی  ہوگی
  

Thursday 6 August 2020

ربا ربا مینہ برسا ، .....بنجر دل نے.... پانڑ یں لا

 

یہاں کامیابی  کا ایک راز ہے  بس ....مزہ

لوگوں کو مزہ چاہیے ...انکو مزہ دو 

بہتر زندگی گزارنا مت سکھاؤ

جاہلوں میں رہنے سے آدمی کی زندگی عذاب ہوجاتی ہے - جہالت سے فرار حاصل کرنا ہی در اصل نجات ہے  کیونکہ ایک جاہل سے بحث کرو گے تو وہ تمہیں اپنے ساتھ   اپنے جہالت  کے گٹر  میں اتار لے جاے گا  اور تم لاکھ کوشش کر لو بچ نہیں پاؤ  گے - یا پھر ذہنی مریض بن کر باقی زندگی گزارنی پڑے گی اگر زندہ بچ گئے

 

ڈگری دراصل اس بات کا ثبوت ہوتی ہے کہ کسی شخص نے کتنی جماعتیں پڑھ رکھی ہیں تاہم کسی بھی ڈگری میں یہ نہیں لکھا جاتا کہ امتحان پاس کرنے کے بعد اس شخص کو ”با شعور“ بھی سمجھا جائے ۔تعلیم یافتہ اور با شعور ہونے میں اتنا ہی فرق ہے جتنا ان پڑھ اور جاہل ہونے میں۔جس طرح یہ ضروری نہیں کہ بی اے پاس شخص با شعور بھی ہوبالکل اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ رسمی تعلیم سے نابلد شخص جاہل ہو۔

 

کیا علم والے  اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں ؟ لیکن نصیحت صرف عقلمند لوگ ہے حاصل کرتےہیں - بے شعور لوگوں میں باشعور انسان اس طرح ہوتا ہے جیسے صحرا کی ریت میں پانی- اسی لیے ہمیشہ  سے ہدایت  کی جاتی ہے کہ جاہلوں  سے مت الجھا کرو - اور ایسے لوگوں  سے کنارہ کشی اخیتار کرو جو کسی نہ کسی بہانے علم و شعور اور ہدایت  کے خلاف  باتیں کریں اور اس کا مذاق اڑائیں یا پھر حکمت سے ان کادور دور کا واسطہ بھی نہ ہو اور لغو گوئی دنیا داری اور صرف چیزوں ، لوگوں یا پھر معمولی  اور سطحی گفتگو   کرنا ان کا معمول ہو

 زیادہ تر لوگ صرف مزیدار کہانی ، خبر اور گفتگو پسند کرتے ہیں جس میںلچھےدار باتیں بنا بنا کر کچھ سنسنی کچھ مزاح چاہےوہ بیہودہ  ہی کیوں نہ ہو ، شامل ہو - انہیں اس کے علاوہ ذرا سا بھی  سنجیدہ یا تھوڑا بہت بھی  شعور جگانے والا موضوع  پسند نہیں ہوتا - مجبوراً اگر ایسی کسی جگہ بیٹھنا پڑ جاے تو کچھ دیر تو شائد بہت تحمل اور خوش اخلاقی  کا مظاہرہ  کریں لیکن زیادہ دیر ان سے ایسی صورت حال اور ایسا شخص برداشت نہیں ہوتا اور کسی نہ کسی بہانے کھسک  جانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور ایسا کچھ ہو نہ سکے تو اآس پاس کے جاہلوں  سے بات شروع کر دیتے ہیں یا پھر جیب سے فون یا کچھ اور نکال کر بظاھر مصروف نظر آنے  لگتے ہیں یا پھر بہت غور سے سننے کا بہانہ کر کے اپنے مطلب کی کسی سوچ میں گم ہو جاتے ہیں - کچھ لوگ تو اونگھنے اور سونے سے بھی گریز نہیں کرتے 

لیکن یہی لوگ ایک باشعور  شخص  سے امید رکھتے ہیں کے وہ انکو پوری تفریح اور مزہ فراہم کرے اور ان کی بے سروپا لغو گفتگو اور حرکتوں میں پوری دلچسپی  لے اور بھرپور ساتھ دے - جب یہ باشعور شخص زیادہ  دیر  ایسا نہ کرسکے تو اس کے خلاف  ہر طرح کا جاہلانہ حربے کا استعمال ہوتا ہے  اور گھٹیا دلائل  کا استعمال  کر کے  آخر کار جہالت کے گڑھے میں اتا ر لیا جاتا ہے-یہاں تک کا اگر وہ کوئی تھوڑا بہت  علم رکھنے والا اور ذرا سا بھی با شعور انسان ڈھونڈھ کر اس سے گفتگو کرنے میں وقت صرف کرنے لگے تو ان جاہلوں کو کھٹکنے لگتا ہے  -پھر اس کی کسی نہ کسی بات یا عادت یا چال چلن پر اعتراض  ڈھونڈھ کر اس کی کردہ رکشی کرنے کا پرانا حربہ  استعمال  کیا جاتا ہے جو سب زمانوں کے جاہلوں  نے ہر باشور اور دانا انسان کے ساتھ کیا - کیونکہ اعتراض کرنا تو دنیا کا سب سے آسان کام ہے اور یہ اعتراض دنیا  کے بہترین انسانوں پر بھی کئے گئے ،یہاں تک کہ مکمل ترین شخصیت کے حامل انسان کو بھی نہیں چھوڑاگیا ، بلکہ اب تک نہیں چھوڑا جاتا

 

اسی لئے جاہلوں سے کنارہ کشی اخیتار کرنے کی ہدایت ہے کیونکہ علم و شعور کے بیج  بنجر  ,  پتھر دلوں اور منجمد قسم کے دماغوں پر پھنکنے کا صرف نقصان ہوتا ہے - ان بیش  قیمت بیجوں کی اہمیت صرف زرخیز اور نرم دلوں اور غیر منجمد فعال ذہنوں کو ہی معلوم ہوتی ہے اور وہی ان کے اصل حقدار ہیں

 

کاشف  احمد ،
 اسلام آباد ، پاکستان 

Sunday 2 August 2020

ہم بحیثیت قوم شرمندہ کیوں ہیں ؟

 سامراجیت کے علمبردار اور ان کے اتحادی ایک عرصے سے نو آبادیاتی  نظام کو دنیا کے سادہ لوح  انسانوں پر مسلط  کرتے کرتے آخر جب اس کو براہ راست  مزید نہیں چلا سکے تو کوئی نیا حربہ ڈھونڈنے لگے  جس سے بلواسطہ  طور پر اس نظام کو جاری رکھا جاے اور بظاھر بہت  ہی  کارآمد اور فلاحی دکھائی دینے والے نظام کے پیچھے ان کا سامراجی چہرہ چھپا رہے - اس کے لئے انہیں اپنے سامراجی اور نو آبادیاتی حصہ داروں اور مددگاروں کی مدد اور پراپیگنڈہ بھی درکار رہا جس سے وہ دنیا کی آبادی کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہیں- اور یہ دھول اتنی مہارت سے جھونکی جاتی رہی ہے کہ  ہم آج تک یہ سوچ ہی نہیں سکے کے ہمیں در اصل دوستی کے نام پر دشمنی  کر کے بھی خود ہی کو قصور وار ثابت کیاجانا در اصل ایک چال ہے جس کے نتیجے میں ہم خود  سے ہی ناراض اور شرمندہ رہتے  آے ہیں


بدقسمتی ہے کہ انیس سو اکہتر سے لے کر اب تک ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ملک ٹوٹ گیا لیکن ہماری جھوٹی انا آج بھی قائم ہے، ملک ٹوٹ گیا، ملک بنانے والے روتے روتے آنسو بہاتے دنیا سے چلے گئے لیکن ہم ملک سنبھالنے اور بزرگوں کے خواب کو تعبیر دینے کے بجائے دو دو اینٹ کی مسجد بنانے میں مصروف ہیں۔ تقسیم کے وقت ہمیں ہندوؤں اور سکھوں نے لوٹا تقسیم کے بعد ہم اپنوں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں۔ تقسیم کے وقت ہمیں غیر مسلموں نے مذہب کے نام پر کاٹا آج اپنے ہی مذہب کے نام پر ایک دوسرے کو کاٹ رہے ہیں، تقسیم کے وقت ہجرت کرنے والوں پر مظالم ڈھائے گئے آج اپنے ملک میں گھر سے نکلتے ہیں تو راستے میں لٹ جاتے ہیں راستے میں بچتے ہیں تو گھر واپسی پر زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم ہو چکے ہوتے ہیں۔ تقسیم کے وقت کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمنوں نے ہجرت کے وقت دشمنی نبھائی اور آج بھی انکی طرف سے دشمنی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ دشمن آج بھی ہمارے پیچھے ہیں اب وہ سرحد پار سے ہی کارروائیاں نہیں کرتا بلکہ ہمارے اندر بھی اس کے نمائندے موجود ہیں جو وقتاً فوقتاً کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ یہ ملک میں سیاسی عدم استحکام، انتشار، دہشت گردی سمیت دیگر مسائل میں بھی ان دشمنوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ کلبھوشن جادھو اسکی بڑی مثال ہے۔ انیس سو اکہتر کے بعد دوہزار سولہ میں دشمن نے ہمارے مستقبل پر حملہ کر کے ایک مرتبہ پھر دشمنی نبھائی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے ان سانحات سے کیا سیکھا ہے۔ کیا ہم دشمنوں کا مقابلہ اس شدت کے ساتھ کر رہے ہیں جس شدت سے حملے ہو رہے ہیں یا پھر ہم مصلحتوں کا شکار ہیں، تقسیم ہیں اور اپنے اپنے مفادات کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ دشمن پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔

 

ان لوگوں سے پوچھیں جو پاکستان کے لیے سب کچھ لٹا کر یہاں پہنچے، جو بے سروسامانی کے عالم میں پاکستان پہنچے، جنہوں نے خون کے دریا عبور کیے، جنہوں نے عزتوں کی پامالی برداشت کی، جنہوں نے گھر بار چھوڑا، گردنیں کٹوائیں، معصوم بچوں کے لاشے دیکھے۔ افسوس وہ نہ رہے جنہوں نے اس ملک کو قائم کرنے میں حصہ ڈالا، ان کے بعد جو آئے ہیں انکی بھوک ہی ختم نہیں ہو رہی، کوئی عزت اور شہرت کا بھوکا ہے تو کوئی دولت کا بھوکا ہے۔ کسی کو حکومت کا لالچ ہے تو کوئی جاگیریں بنانا چاہتا ہے۔ اس دوڑ میں کسی کو ملک کی فکر ہے نہ قوم کی۔ سرمایہ داروں کو اپنی سرمایہ کاری عزیز ہے تو جاگیر داروں کو جاگیر سے محبت ہے اور سیاست دانوں کو صرف اپنی حکومت سے غرض ہےاور ان کے دیکھا دیکھی ہمارا قومی مزاج بھی اسی طرح کا خود غرض اور لالچی ہو گیا ہے - ہر ایک کو بس اپنی یا زیادہ  سے زیادہ اپنے خاندان کی فکر ہے - اپنا کام چلتا ، بھاڑ میں جاے جنتا  ہی اصل پالیسی بن کر رہ گئی ہے ۔ اسی دوڑ میں ملک دولخت ہوا، اندرونی طور پر ہم تقسیم در تقسیم ہوتے چلے گئے، صلاحیتوں کے اظہار کے یکساں مواقع ناپید ہوتے گئے، پیسہ مطمع نظر بن گیا، رواداری کہیں دور بہت پیچھے رہ گئی، بزرگوں کی قربانیوں کو بھلا دیا گیا، آزادی کی قدر و قمیت کو نظر انداز کر دیا گیا، میرٹ اور انصاف کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ سطحی صلاحیتوں کے حامل افراد کا ریاستی وسائل پر قبضہ ہوا اور آج اس کے تباہ کن نتائج ہم بھگت رہے ہیں۔ ملک قرضوں میں جکڑا گیا، ہزاروں ارب کے قرضوں میں پھنسے ہوئے، امپورٹ خطرناک حد تک بڑھ گئیں اور ایکسپورٹ خطرناک حد تک کم ہوتی چلی گئیں۔ ہم نے اداروں کی تعمیر کیا کرنا تھی ہم تو انسانوں کی تعمیر میں ہی ناکام رہے۔ ہم نے بیرونی دشمن کا سامنا کیا کرنا ہے ہم تو اپنے اندر کے دشمن کا مقابلہ نہیں کر پائے۔ آسان پیسے کے پیچھے بزرگوں کی قربانیوں کو بھلایا تو وقتی آسائش کے لیے اپنی نسلوں کا مستقبل گروی رکھ دیا۔ ستم یہ ہے کہ آج بھی اسی راستے پر دوڑے چلے جا رہے ہیں۔

 

ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہمارا ملک تھا ہم اسے سنبھالنے میں ناکام رہے، دوسرا بڑا اثاثہ ملک کے نوجوان تھے آج تک وہ آگے بڑھنے کے لیے سمت کے متلاشی ہیں، ملک ٹوٹ گیا اور ہمارا نوجوان انتہا پسند ہوتا جا رہا ہے یا و خودکشی کر رہا ہے یا دشمن کے بہلاوے میں آ کر نشے کی لعنت میں مبتلا ہو گیا ہے چاہے وہ مروجہ قسم کا پینے یا سونگھنے کا نشہ ہو یا پھر سوشل میڈیا کا  نشہ ، کام ایک ہی کر رہا ہے ، بے حس  اور سفّاک معاشرتی اقدار اور اخلاق کا باغی بنا رہا ہے , اس سے بڑی ناکامی کیا ہو سکتی ہے کہ ہم خود سے ہی شرمندہ ہیں ۔ ملک ٹوٹنے جیسے بڑے سانحے سے بھی ہم سبق حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ ہم اپنے دشمن کو ہی نہیں پہچان سکے اور نہ ہی اس کی وجہ دشمنی کی تہہ تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکے باوجود اس کے کہ ہمیں ہمارے بزرگوں، مفکرین اور دانشوروں نے بار بار اپنی تحریروں اور ادبی بیٹھکوں میں یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ ملک کو دو لخت کرنے کے وقت سے لے کر اب تک دشمن ہماری صفوں میں اتحاد ، یگانگت  اور محبت کا خاتمہ چاہتا ہے اور اس کے لئے ہر حربہ استعمال کر رہا ہے چاہے وہ  منفی

نفرت انگیز تحریریں ہوں ، یا تقریر ، یا پھر میڈیا   کے ذارئع سے ہمارے اخلاق اور اقدار کی پامالی  اور ان کے خلاف جھوٹی آزادی کے نام پر بد دلی  اور نفرت جگانے کا کام ہو یا پھر جعلی ویب سائٹس  سے منفی پراپرگنڈا جو قومی تشخص  کو مسخ کر دیتا ہو اور جو ہمیں  اپنے آپ سے ہی شرمندہ کرتا رہے یا پھر فرقہ وارانہ فسادات اور دہشت گردی  ہو سب ہمارے دشمن کی ہی ناپاک چالیں ہیں مگر ہم نہیں مانتے نہ دشمن کو پہچانتے ہیں - ملک  کو دو لخت کرنا سب سے بڑا سبق اور مثال تھی لیکن ہم آج بھی اسی دشمن کے آگے بچھے بچھے جاتے ہیں دوستی کے راستے تلاش کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے ازلی دشمن کے ساتھ مقابلہ کی تیاری کرنے کے بجائے آپس میں الجھ الجھ کر وقت ضائع کیا ہے۔ دوسری طرف دشمن اپنی طاقت میں اضافہ اور ہمیں نقصان پہنچانے میں مصروف ہے ۔ مسئلہ کشمیر کو صرف پاکستان کا مسئلہ سمجھنے کا خمیازہ مسلم امہ کو بھگتنا ہو گا اور اس مسئلے پر بھارتی جارحیت کے خلاف اپنے ردعمل کو صرف بیانات تک محدود کرنے کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہو گا۔ کشمیر لاک ڈاون سقوط ڈھاکہ کے بعد دشمن کا دوسرا بڑا وار ہے۔ بابائے قوم نے اسے شہ رگ قرار دیا تھا۔ ہمارا ازلی دشمن شہ رگ پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے اور ہم اس انتظار میں ہیں کب انسانی حقوق کی تنظیموں کا دبائو بڑھے گا اور بھارت کشمیر سے انسانیت سوز کرفیو اور لاک ڈاؤن کا خاتمہ ہو گا۔ کیا ایسا ممکن ہے؟؟؟؟

 


حالیہ  وبا کے پھیلاؤ  نے تو یہ بات پوری  طرح  ثابت کر دی ہے کہ دشمن صرف ہمارا ہی نہیں پوری دنیا کا دشمن ہے - جو گزشتہ  تین صدیوں سے کبھی کسی بہانے سے جنگ مسلط کر کے فوائد حاصل کرتا رہا ہے تو کبھی معاشی بحران اور کساد بازاری مسلط کر کے  دنیا کو تباہی اور اقتصادی بدحالی پر مجبور کرتا آیا ہے - یہ وبائیں بھی کوئی قدرتی آفت نہیں بلکہ خود ساختہ بیماریوں  میں سے ایک ہے جو  گزشتہ  صدی  میں سوائن فلو  کے نام سے پھیلی جا چکی ہے - اسی جیسی اور بھی کی مہلک بیماریاں حیاتیاتی ہتھیاروں  کے طور پر کام کرتی آئی  ہیں


اس بار اس وبا کو پھیلانے کا مقصد انسانوں کو آپس  کے میل جول سے روک کر ان کی ذہنی اور روحانی موت  کو ممکن بنانا ہے-انسان ایک معاشرتی  حیوان ہے اور اس کی ذہنی اور روحانی ترقی اور نشونما  کا دارومدار انسانوں سے میل جول پر منحصر  ہے  اور بہت سے لوگ جو مقید رہنے کے عذاب کو جھیل نہ پائیں ان کی موت تو اس بیماری کے حملے سے ہی ہو تی جا رہی ہے - دراصل انسانوں کو ٹیکنالوجی ، انٹرنیٹ اور مشینوں  پر انحصار کرنے اور انہی پر اپنی زندگی کا دارو مدار رکھنے پر مجبورکرنے  کا اس سے بہتر طریقہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا  کہ ان کو وبا سے خوفزدہ کر دیا جاے جو باہمی میل جول سے  پھیلتی ہے تاکہ وہ ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل  دنیا  کے عادی بن کر  ایک تو انسانی اقدار اور آداب معاشرت  سے دور ہو ہو جائیں اور پھر  مردم بیزاری  کی وجہ سے ان میں کسی قسم کی تخلیقی صلاحیت باقی نہ رہے  اور وہ بھی ایک بہترین غلام یعنی مشین  کی طرح سوچنے  اور کام کرنے لگیں - بے حس  اور جذبات سے عاری جن کو کچھ

بھی کر گزارنے اور سامنا کرنے سے فرق نہیں پڑتا - پھر اس سے سب سے بڑا فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کے انسان کو با آسانی  ٹریک کیا جاسکتا ہے اور ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا سکتی ہے  کیونکہ ایک تو وہ بہت شوق سے ٹیکنالوجی اپنا کر موبائل فون اور دوسری ایسی ڈیوائسوں  سے با آسانی  ٹریک ہوتا ہی رہتا ہے لیکن اب  ڈیجیٹل  چپ  کی مدد سے آدھا  انسان  اور آدھا مشین  بننے  کے شوق میں اور آسانی سے ٹریک  ہونے لگے گا اور مستقل طور پر ہر کام مشین اور انٹرنیٹ  کے استعمال  سے کرنے کی وجہ سے مکمل طور پر نظر میں رہے گا - جس سے ان کی دلچسپیاں ، پسند  نا پسند  اور شوق معلوم کر  کے اسے ایک بہت اچھا گاہک اور اپنی مرضی کے مطابق خریدار  بنایا جا سکتا ہے لیکن اس کو محفوظ  معاشرے  اور سیکورٹی میں آسانی کا نام دے کر میٹھی گولی  دے دی جاے گی

اس کے لئے مصنوعی  خطرناک  اور نفرت انگیز حالات  کا ڈھونگ بھی کافی عرصے سے اسی لئے رچایا جا رہا  ہے  تاکہ سب اپنے آپ کو غیر محفوظ ہی محسوس کرتے رہیں اور آسانی سے ہر ننی ٹیکنالوجی سیکورٹی کے نام پر تسلیم کر کے اپنا لیں

 

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کب تک اپنے ازلی دشمن کو نظر انداز کرتے رہیں گے اور خود کو ہی قصور وار قرار دیتے جائیں گے - کب تک ہم خود کو کوستے رہیں گے برا بھلا کہیں گے اور پاکستانی ہونے پر شرمندہ رہیں  گے جو دشمن چاہتا  ہے ، کب تک اس کی حقیقت سے آنکھیں چراتے رہیں گے۔ ہم اپنے سب سے بڑے دشمن کو جتنی جلدی جان لیں اور وجہ دشمنی کو سمجھ جائیں گے اتنا ہی ہمارے لیے بہتر ہو گا۔


اور ہمیں جدید ٹیکنالوجی اور آلات کا درست استعمال  کرنا بھی سمجھ میں آ جاے  گا جو ہماری معاشرتی  اقدار اور عقائد کے مطابق ہو اور انہی کی ترویج  و اشاعت  میں مدد گار اور ہم آہنگ ہو - ایسا تبھی ممکن ہوگا جب ہم خود سے اور اپنے لوگوں انکی زبان و ثقافت  اور عقائد پر شرمندہ ہونے کی بجانے واقعی پیار کرنا سکھ لیں گے اور ان کو  فخر سے اپنا کر اسی کو پنا شعار بنا لیں  گے  چاہے میڈیا اور  اس سے متاثرہ  ذہن اور سامراجی سوچ کے حامی اس کے خلاف اکسانے پر  کتنا بھی زو ر  لگائیں  ہم یہ چیلنج  قبول کریں گے اوراس سوچ کا بھرپور  مقابلہ کریں گے



کاشف ، احمد  اسلام آباد ، پاکستان 

Thursday 23 July 2020

بہترین حالات

 

ضروری نہیں ہوتا کہ جیسے حالات ، رہن  سہن کا بہترین انداز اور سہولیات آپ کے لئے  ایک آئیڈیل  زندگی ہو ویسے ہی  ہر ایک کے لئے ہو - ہم جو معیار زندگی بہترین سمجھتے  ہیں اور جس کی تگ و دو  کرنے میں لگے رہتے ہیں ، وہ جب حاصل ہو جاتا ہے تو سمجھ آتی ہے کہ یہ تو وہ نہیں جس کا خیال اور تصوّر  مجھے بہترین لگتا تھا

 

بہترین ماحول اور طرز زندگی ہر ایک کے لئے الگ الگ ہو سکتا ہے - یہ اور بات ہے کہ آجکل کی اکثریت کو جس طرح کی سوچ کے دھارے میں پرو دیا گیا ہے وہ ایک ہی طرح کا طرز زندگی اپنے لئے آئیڈیل  سمجھنے لگی ہے جبکہ ایسا ہرگز  نہیں  ہے

 

بہترین طرز زندگی دراصل آپ کے ارد گرد بہترین لوگوں  کی موجودگی سے بنتا ہے - باقی تمام سہولیات اور مادی چیزیں ثانوی درجہ رکھتی ہیں  یا یوں کہ لیں کے بس ایک عمل انگیز  کی طرح ہوتی ہیں - اگر آپ کے ارد گرد چاہنے والے اور آپ کی سوچ سے ہم آہنگ لوگ یا کم از کم ایک شخص بھی موجود رہے تو ارد گرد کا ماحول خود بخود خوبصورت اور آرام  دہ  ہوجاتا  ہے

 

یہ کوئی ناقابل قبول حقیقت ہرگز نہیں کہ انسان اپنی سوچ سے قریب کے لوگوں  میں رہ سکتا ہے اور اس کے لئے مختلف یا نچلے درجے کی سوچ اور ترجیحات کے حامل لوگوں میں زیادہ دیر رہنا مشکل ہو جاتا ہے - سوچنے کی بات ہے کہ آپ ایک جددید پر آسائش  گھر میں صرف اپنے نوکروں چاکروں  کے ساتھ کتنا وقت گزار سکیں گے  جن کی سوچ ہانڈی روٹی گاڑی کے پیٹرول اور پودوں  کے لئے کھاد اور بیج سے باہر نکلتی ہی نہیں


 

بالکل اسی طرح آپ کے علمی اور تفریحی  ذوق کے مطابق اگر ایک بھی شخص نہ ملے تو بہت مشکل ہو جاے گی - اسی لئے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر کوئی شخص مشکل نظر آتا ہے یا اس کی گفتگو بورنگ  محسوس ہوتی ہے اور اس کی پسند نا پسند عجیب ہے یا آپ سے یکسر مختلف تو پھر اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ، شائد اس کا ذوق ترقی کر گیا ہے یا کم از کم اس سمت میں نہیں جہاں آپ اور لوگوں کی اکثریت کا ذوق  تفریح  و آرام ہے

 

ہوسکتا  ہے  سر کے درد کے لئے بہت سارے لوگوں کو  اسپرین  کی گولی  ہی فائدہ مند ہو - لیکن کیا کبھی  ایسا نہیں  ہو سکتا  کہ کوئی ایسا بھی ہو جسے اسپرین  سے کوئی فائدہ نہ ہوتا ہو بلکہ الٹا اس کا ری ایکشن  ہو جاتا  ہو

 

ایسے شخص کو کیا آپ سمجھانے بیٹھ جائیں گے  کہ ''دیکھو اسپرین سے سب  کو فائدہ ہو تا ہے - تمہیں کیا مسلہ ہے'' ؟ یا پھر اس کا علاج تلاش کریں گے ؟ ہو سکتا ہے کوئی الرجی ہو یا پھر کوئی اور بات کہتے ہیں  مصور جو دیکھتا ہے وہ کینوس پر اتار دیتا ہے اور لوگوں  کا کسی چیز، صورت حال یا حالات میں  حساس  ہونا اور گہرائی میں سوچنا کوئی مسلہ یا بیماری نہیں  انکے انسان ہونے یا انسانیت   کی علامت ہے  -پکاسو کہتا تھا کہ ہر انسان  پیداشی  طور پر تخلیقی صلاحیتوں  کے ساتھ پیدا ہوتا ہے , فنکار ہوتا ہے ، لیکن بعد کے حالات  پر منحصر  ہے کہ اس کے ساتھکا کچھ پیش آتا ہے  اور وہ فنکار رہتا بھی ہے کہ نہیں - ایک مصور جو دیکھتا ہے کینوس پر اتر دیتا ہے  اور ایک   مصنف  جو محسوس کرتا ہے کاغذ پر اتار دیتا ہے - خوبصورتی در اصل آنکھ میں ہوتی ہے نظارے میں نہیں - بصیرت  در اصل شاہکار تخلیق  کرتی ہے اور احساسات و جذبات  دل کی عکاسی  کرتے ہیں جو مصنف کے محسوس کرنے کے اندازکی وجہ سے کاغذ پر منتقل ہوتے ہیں - لوگ اکثر کہتے ہیں  ہمت سے کام لو ، مضبوط بنو ، مشکل حالات اور لوگوں کا سامنا کرنا سیکھو ، وغیرہ وغیرہ - لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا  کے یہ سب کرنا کیسے ہے 

نصیحت ایک ایسی شے ہے جو اکثر ضائع ہو جاتی ہے ، عقلمندوں کو اس کی ضرورت نہیں ہوتی اور بیوقوف اس پر عمل نہیں کرتے - لیکن ہم مفت کی نصیحت  اور مشورہ ضرور دیتے ہیں - کئی  بار تو بہت زور دے کر بہت اچھی لفاظی اور شعلہ بیانی سے کام لے کر ولولہ انگیز تقریر کر کے وقتی جوش بھی پیدا کرتے ہیں کے اٹھو اور کر دکھاؤ - لیکن یس صرف وقتی جوش ہوتا ہے جو اس وقت کچھ دیرکے لئے تو اثر کرتا ہے مگر  کچھ ہی عرصے میں ختم ہو جاتا ہے  کیونکہ ماہرین نفسیات  اور دماغی سخت کے ماہر سائنسدان بتاتے ہیں کہ  ہمارا  دماغ بناہی اس طرز پر ہے کہ ہمیں تکلیف اور خطرے سے محفوظ رکھے اور کوئی بھی کام جس میں ذرا سی بھی تکلیف ہو اس سے باز رہنے پر ا زور دیتا ہے

 

اس لئے اکثر یہ نصیحت اور شعلہ بیانی ضائع ہو جاتی ہے یا زیادہ دیر اثر نہیں دکھاتی

 

ضروری نہیں کے جو بات اب تک آپ نے نہیں سنی  وہ ہوئی ہی نہیں  یا ہو ہی کیسے سکتی ہے ؟ یا اگر کوئی ایسا شخص  کبھی دیکھا نہیں جس کا  ذوق ، پسند  نا پسند لوگوں  سے یکسر مختلف ہو سکتا ہے تو اسے ایسا نہیں ہونا  چاہیے - اپنے اندر گنجائش پیدا کریں اور موقع دیا کریں خود کو ان لوگوں  اور باتوں کو سمجھنے اور جاننے  کا جو آج تک کبھی دیکھی نا  سنی - اسی کو دراصل علم حاصل کرنا  کہتے ہیں  جس کے لئے چین تک جانے کا حکم ہے - کیونکہ نئی بات اور نیا شخص ہمیشہ غلط ہی نہیں ہوا کرتے - جب تک کچھ نیا اور مختلف  نہیں ہوگا ، سیکھیں گے کیسے ؟  دماغ پر زور دے کر بتائیں وہ آخری بار کب تھی بھلا ، جب آپ  نے کچھ بالکل نیا کیا  تھا ، پہلی بار ؟


 

کاشف  احمد

اسلام آباد ، پاکستان 


Monday 20 July 2020

معجزے یوں بھی ہوتے ہیں


لندن میں، آپریشن سے دو گھنٹے پہلے مریض کے کمرے میں ایک نرس داخل ہوئی اور وہاں کمرے میں رکھے ہوئے  گلدستے کو سنوارنے اور درست کرنے لگ گئی

 

ایسے میں جبکہ وہ اپنے پورے انہماک کے ساتھ اپنے اس  کام میں مشغول تھی، اس نے اچانک ہی مریض سے پوچھ لیا سر کونسا ڈاکٹر آپ کا آپریشن کر رہا ہے؟

 

مریض نے نقاہت کی حالت میں نرس کو دیکھے بغیر ہی اچاٹ سے لہجے میں کہا ڈاکٹر جبسن

نرس نے حیرت  کے ساتھ ڈاکٹر کا نام سنا اور  اپنا کام چھوڑتے ہوئے مریض سے قریب ہو کر  پوچھا سر کیا واقعی ڈاکٹر جبسن نے آپ کا آپریشن کرنا قبول کر لیا ہے؟

مریض نے کہا جی میرا آپریش وہی کر رہے ہیں

نرس نے کہا بہت ہی عجیب بات ہے مجھے یقین نہیں آ رہا

مریض نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا مگر اس میں ایسی کونسی عجیب بات ہے؟

نرس نے کہا دراصل اس ڈاکٹر نے اب تک ہزاروں آپریشن کیئے ہیں ان کے آپریشن میں کامیابی کا تناسب سو فی صد ہے ان کی شدید مصروفیت کی بناء پر ان سے وقت لینا انتہائی دشوار کام ہوتا ہے میں اسی لیئے حیران ہو رہی ہوں کہ آپ کو کس طرح ان سے وقت مل گیا ہے؟

مریض نے ایک طمانیت کے ساتھ نرس سے کہا بہرحال یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے ڈاکٹر جبسن سے وقت ملا ہے اور وہی میرا آپریشن کر رہے ہیں

نرس نے ایک بار اپنی بات دہراتے ہوئے کہا کہ یقین جانیئے میری حیرت ابھی تک برقرار ہے کہ اس دنیا کا سب سے اچھا ڈاکٹر آپ کا آپریشن کرے گا  

اس گفگتگو کے بعد مریض کو آپریشن تھیٹر  پہنچایا گیا، مریض کا کامیاب آپریشن ہوا اور اب مریض بخیروعافیت ہنسی خوشی اپنی زندگی گزار رہا ہے۔

 

ایک بات جو بتانے والی ہے وہ یہ ہے کہ مریض کے کمرے میں آنے والی عورت کوئی عام  نرس نہیں بلکہ اسی ہسپتال کی ایک ماہر نفسیات لیڈی  ڈاکٹر تھی جس کا کام مریضوں کو ذہنی اور نفسیاتی طور پر آپریشن کیلیئے کچھ ایسے طریقے سے تیار اور مطمئن کرنا تھا  جس کی طرف مریض کا شک بھی نہ جا سکے اور اس بار اس لیڈی ڈاکٹر نے اپنا کام مریض کے کمرے میں رکھے گلدستے کو سنوارتے سنوارتے کر دیا تھا اور مریض کے دل و دماغ میں یہ بات بہت ہی خوبصورتی سے بٹھا دی تھی کہ جو ڈاکٹر اس کا آپریشن کرے گا وہ دنیا کا مشہور اور کامیاب ترین ڈاکٹر ہے جس کا ہر آپریشن ایک کامیاب آپریشن ہوتا ہے اور ان سب باتوں سے مریض بذات خود ایک مثبت انداز میں بہتری کی طرف لوٹ آیا۔

 

فیس  بک  کی یہ نا معلوم تحریر بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے  - آج  علم نے ثابت کیا ہے کہ مریض شعوری طور جتنا مضبوطی کے ساتھ مرض پر قابو پانے کا عہد کر لے وہ اپنے مرض کو پچھاڑ کر ہی رہتا ہے نہ صرف امراض کو ، بلکہ کوئی بھی انسان  عہد کر لے تو وہ اپنی زندگی کے ہر مسئلے پر قابو پا سکتا ہے

 

تعریف ، حوصلہ افزائی   اور بھروسہ دلانا  ایک ایسا عمل ہے جس سے وہ کچھ ممکن ہو جاتا ہے جو بظاھر نا ممکن نظر آ رہا ہوتا ہے - اور یہ  مستند اور ثابت شدہ حقیقت  ہے کہ اس کا اثر نا صرف انسانوں اور جانوروں پر ہوتا ہے بلکہ درخت  پودے یہاں تک کے پانی پر بھی بہت اثر ہے - اسی طرح اس کا الٹ اثر منفی تبصرہ ، حوصلہ شکنی ، عیب تراشی   اورکسی کی کردار کشی  سے  ہوتا ہےاور ایک اچھا ہنر مند انسان بھی  ناکارہ ہو کر رہ جاتا ہے  جو شائد کسی وقتی مشکل یا رکاوٹ کا شکار ہو   وہ بالکل  ہی حوصلہ چھوڑ دیتا ہے  -  اسی لیے حکم ہے کہ لوگوں  سے اچھی بات کرو خوشخبری  سناؤ  اور نفرتیں نہ پھیلاؤ

کاشف  احمد 

اسلام آباد  پاکستان