Thursday 23 July 2020

بہترین حالات

 

ضروری نہیں ہوتا کہ جیسے حالات ، رہن  سہن کا بہترین انداز اور سہولیات آپ کے لئے  ایک آئیڈیل  زندگی ہو ویسے ہی  ہر ایک کے لئے ہو - ہم جو معیار زندگی بہترین سمجھتے  ہیں اور جس کی تگ و دو  کرنے میں لگے رہتے ہیں ، وہ جب حاصل ہو جاتا ہے تو سمجھ آتی ہے کہ یہ تو وہ نہیں جس کا خیال اور تصوّر  مجھے بہترین لگتا تھا

 

بہترین ماحول اور طرز زندگی ہر ایک کے لئے الگ الگ ہو سکتا ہے - یہ اور بات ہے کہ آجکل کی اکثریت کو جس طرح کی سوچ کے دھارے میں پرو دیا گیا ہے وہ ایک ہی طرح کا طرز زندگی اپنے لئے آئیڈیل  سمجھنے لگی ہے جبکہ ایسا ہرگز  نہیں  ہے

 

بہترین طرز زندگی دراصل آپ کے ارد گرد بہترین لوگوں  کی موجودگی سے بنتا ہے - باقی تمام سہولیات اور مادی چیزیں ثانوی درجہ رکھتی ہیں  یا یوں کہ لیں کے بس ایک عمل انگیز  کی طرح ہوتی ہیں - اگر آپ کے ارد گرد چاہنے والے اور آپ کی سوچ سے ہم آہنگ لوگ یا کم از کم ایک شخص بھی موجود رہے تو ارد گرد کا ماحول خود بخود خوبصورت اور آرام  دہ  ہوجاتا  ہے

 

یہ کوئی ناقابل قبول حقیقت ہرگز نہیں کہ انسان اپنی سوچ سے قریب کے لوگوں  میں رہ سکتا ہے اور اس کے لئے مختلف یا نچلے درجے کی سوچ اور ترجیحات کے حامل لوگوں میں زیادہ دیر رہنا مشکل ہو جاتا ہے - سوچنے کی بات ہے کہ آپ ایک جددید پر آسائش  گھر میں صرف اپنے نوکروں چاکروں  کے ساتھ کتنا وقت گزار سکیں گے  جن کی سوچ ہانڈی روٹی گاڑی کے پیٹرول اور پودوں  کے لئے کھاد اور بیج سے باہر نکلتی ہی نہیں


 

بالکل اسی طرح آپ کے علمی اور تفریحی  ذوق کے مطابق اگر ایک بھی شخص نہ ملے تو بہت مشکل ہو جاے گی - اسی لئے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر کوئی شخص مشکل نظر آتا ہے یا اس کی گفتگو بورنگ  محسوس ہوتی ہے اور اس کی پسند نا پسند عجیب ہے یا آپ سے یکسر مختلف تو پھر اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ، شائد اس کا ذوق ترقی کر گیا ہے یا کم از کم اس سمت میں نہیں جہاں آپ اور لوگوں کی اکثریت کا ذوق  تفریح  و آرام ہے

 

ہوسکتا  ہے  سر کے درد کے لئے بہت سارے لوگوں کو  اسپرین  کی گولی  ہی فائدہ مند ہو - لیکن کیا کبھی  ایسا نہیں  ہو سکتا  کہ کوئی ایسا بھی ہو جسے اسپرین  سے کوئی فائدہ نہ ہوتا ہو بلکہ الٹا اس کا ری ایکشن  ہو جاتا  ہو

 

ایسے شخص کو کیا آپ سمجھانے بیٹھ جائیں گے  کہ ''دیکھو اسپرین سے سب  کو فائدہ ہو تا ہے - تمہیں کیا مسلہ ہے'' ؟ یا پھر اس کا علاج تلاش کریں گے ؟ ہو سکتا ہے کوئی الرجی ہو یا پھر کوئی اور بات کہتے ہیں  مصور جو دیکھتا ہے وہ کینوس پر اتار دیتا ہے اور لوگوں  کا کسی چیز، صورت حال یا حالات میں  حساس  ہونا اور گہرائی میں سوچنا کوئی مسلہ یا بیماری نہیں  انکے انسان ہونے یا انسانیت   کی علامت ہے  -پکاسو کہتا تھا کہ ہر انسان  پیداشی  طور پر تخلیقی صلاحیتوں  کے ساتھ پیدا ہوتا ہے , فنکار ہوتا ہے ، لیکن بعد کے حالات  پر منحصر  ہے کہ اس کے ساتھکا کچھ پیش آتا ہے  اور وہ فنکار رہتا بھی ہے کہ نہیں - ایک مصور جو دیکھتا ہے کینوس پر اتر دیتا ہے  اور ایک   مصنف  جو محسوس کرتا ہے کاغذ پر اتار دیتا ہے - خوبصورتی در اصل آنکھ میں ہوتی ہے نظارے میں نہیں - بصیرت  در اصل شاہکار تخلیق  کرتی ہے اور احساسات و جذبات  دل کی عکاسی  کرتے ہیں جو مصنف کے محسوس کرنے کے اندازکی وجہ سے کاغذ پر منتقل ہوتے ہیں - لوگ اکثر کہتے ہیں  ہمت سے کام لو ، مضبوط بنو ، مشکل حالات اور لوگوں کا سامنا کرنا سیکھو ، وغیرہ وغیرہ - لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا  کے یہ سب کرنا کیسے ہے 

نصیحت ایک ایسی شے ہے جو اکثر ضائع ہو جاتی ہے ، عقلمندوں کو اس کی ضرورت نہیں ہوتی اور بیوقوف اس پر عمل نہیں کرتے - لیکن ہم مفت کی نصیحت  اور مشورہ ضرور دیتے ہیں - کئی  بار تو بہت زور دے کر بہت اچھی لفاظی اور شعلہ بیانی سے کام لے کر ولولہ انگیز تقریر کر کے وقتی جوش بھی پیدا کرتے ہیں کے اٹھو اور کر دکھاؤ - لیکن یس صرف وقتی جوش ہوتا ہے جو اس وقت کچھ دیرکے لئے تو اثر کرتا ہے مگر  کچھ ہی عرصے میں ختم ہو جاتا ہے  کیونکہ ماہرین نفسیات  اور دماغی سخت کے ماہر سائنسدان بتاتے ہیں کہ  ہمارا  دماغ بناہی اس طرز پر ہے کہ ہمیں تکلیف اور خطرے سے محفوظ رکھے اور کوئی بھی کام جس میں ذرا سی بھی تکلیف ہو اس سے باز رہنے پر ا زور دیتا ہے

 

اس لئے اکثر یہ نصیحت اور شعلہ بیانی ضائع ہو جاتی ہے یا زیادہ دیر اثر نہیں دکھاتی

 

ضروری نہیں کے جو بات اب تک آپ نے نہیں سنی  وہ ہوئی ہی نہیں  یا ہو ہی کیسے سکتی ہے ؟ یا اگر کوئی ایسا شخص  کبھی دیکھا نہیں جس کا  ذوق ، پسند  نا پسند لوگوں  سے یکسر مختلف ہو سکتا ہے تو اسے ایسا نہیں ہونا  چاہیے - اپنے اندر گنجائش پیدا کریں اور موقع دیا کریں خود کو ان لوگوں  اور باتوں کو سمجھنے اور جاننے  کا جو آج تک کبھی دیکھی نا  سنی - اسی کو دراصل علم حاصل کرنا  کہتے ہیں  جس کے لئے چین تک جانے کا حکم ہے - کیونکہ نئی بات اور نیا شخص ہمیشہ غلط ہی نہیں ہوا کرتے - جب تک کچھ نیا اور مختلف  نہیں ہوگا ، سیکھیں گے کیسے ؟  دماغ پر زور دے کر بتائیں وہ آخری بار کب تھی بھلا ، جب آپ  نے کچھ بالکل نیا کیا  تھا ، پہلی بار ؟


 

کاشف  احمد

اسلام آباد ، پاکستان 


Monday 20 July 2020

معجزے یوں بھی ہوتے ہیں


لندن میں، آپریشن سے دو گھنٹے پہلے مریض کے کمرے میں ایک نرس داخل ہوئی اور وہاں کمرے میں رکھے ہوئے  گلدستے کو سنوارنے اور درست کرنے لگ گئی

 

ایسے میں جبکہ وہ اپنے پورے انہماک کے ساتھ اپنے اس  کام میں مشغول تھی، اس نے اچانک ہی مریض سے پوچھ لیا سر کونسا ڈاکٹر آپ کا آپریشن کر رہا ہے؟

 

مریض نے نقاہت کی حالت میں نرس کو دیکھے بغیر ہی اچاٹ سے لہجے میں کہا ڈاکٹر جبسن

نرس نے حیرت  کے ساتھ ڈاکٹر کا نام سنا اور  اپنا کام چھوڑتے ہوئے مریض سے قریب ہو کر  پوچھا سر کیا واقعی ڈاکٹر جبسن نے آپ کا آپریشن کرنا قبول کر لیا ہے؟

مریض نے کہا جی میرا آپریش وہی کر رہے ہیں

نرس نے کہا بہت ہی عجیب بات ہے مجھے یقین نہیں آ رہا

مریض نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا مگر اس میں ایسی کونسی عجیب بات ہے؟

نرس نے کہا دراصل اس ڈاکٹر نے اب تک ہزاروں آپریشن کیئے ہیں ان کے آپریشن میں کامیابی کا تناسب سو فی صد ہے ان کی شدید مصروفیت کی بناء پر ان سے وقت لینا انتہائی دشوار کام ہوتا ہے میں اسی لیئے حیران ہو رہی ہوں کہ آپ کو کس طرح ان سے وقت مل گیا ہے؟

مریض نے ایک طمانیت کے ساتھ نرس سے کہا بہرحال یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے ڈاکٹر جبسن سے وقت ملا ہے اور وہی میرا آپریشن کر رہے ہیں

نرس نے ایک بار اپنی بات دہراتے ہوئے کہا کہ یقین جانیئے میری حیرت ابھی تک برقرار ہے کہ اس دنیا کا سب سے اچھا ڈاکٹر آپ کا آپریشن کرے گا  

اس گفگتگو کے بعد مریض کو آپریشن تھیٹر  پہنچایا گیا، مریض کا کامیاب آپریشن ہوا اور اب مریض بخیروعافیت ہنسی خوشی اپنی زندگی گزار رہا ہے۔

 

ایک بات جو بتانے والی ہے وہ یہ ہے کہ مریض کے کمرے میں آنے والی عورت کوئی عام  نرس نہیں بلکہ اسی ہسپتال کی ایک ماہر نفسیات لیڈی  ڈاکٹر تھی جس کا کام مریضوں کو ذہنی اور نفسیاتی طور پر آپریشن کیلیئے کچھ ایسے طریقے سے تیار اور مطمئن کرنا تھا  جس کی طرف مریض کا شک بھی نہ جا سکے اور اس بار اس لیڈی ڈاکٹر نے اپنا کام مریض کے کمرے میں رکھے گلدستے کو سنوارتے سنوارتے کر دیا تھا اور مریض کے دل و دماغ میں یہ بات بہت ہی خوبصورتی سے بٹھا دی تھی کہ جو ڈاکٹر اس کا آپریشن کرے گا وہ دنیا کا مشہور اور کامیاب ترین ڈاکٹر ہے جس کا ہر آپریشن ایک کامیاب آپریشن ہوتا ہے اور ان سب باتوں سے مریض بذات خود ایک مثبت انداز میں بہتری کی طرف لوٹ آیا۔

 

فیس  بک  کی یہ نا معلوم تحریر بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے  - آج  علم نے ثابت کیا ہے کہ مریض شعوری طور جتنا مضبوطی کے ساتھ مرض پر قابو پانے کا عہد کر لے وہ اپنے مرض کو پچھاڑ کر ہی رہتا ہے نہ صرف امراض کو ، بلکہ کوئی بھی انسان  عہد کر لے تو وہ اپنی زندگی کے ہر مسئلے پر قابو پا سکتا ہے

 

تعریف ، حوصلہ افزائی   اور بھروسہ دلانا  ایک ایسا عمل ہے جس سے وہ کچھ ممکن ہو جاتا ہے جو بظاھر نا ممکن نظر آ رہا ہوتا ہے - اور یہ  مستند اور ثابت شدہ حقیقت  ہے کہ اس کا اثر نا صرف انسانوں اور جانوروں پر ہوتا ہے بلکہ درخت  پودے یہاں تک کے پانی پر بھی بہت اثر ہے - اسی طرح اس کا الٹ اثر منفی تبصرہ ، حوصلہ شکنی ، عیب تراشی   اورکسی کی کردار کشی  سے  ہوتا ہےاور ایک اچھا ہنر مند انسان بھی  ناکارہ ہو کر رہ جاتا ہے  جو شائد کسی وقتی مشکل یا رکاوٹ کا شکار ہو   وہ بالکل  ہی حوصلہ چھوڑ دیتا ہے  -  اسی لیے حکم ہے کہ لوگوں  سے اچھی بات کرو خوشخبری  سناؤ  اور نفرتیں نہ پھیلاؤ

کاشف  احمد 

اسلام آباد  پاکستان 

Friday 10 July 2020

بات کا بتنگڑ

شہزادہ چارلس اور لیڈی ڈیانا کا چھوٹا بیٹا پرنس ہیری ہے جسے ابتدائی تعلیم کے بعد بورڈنگ سکول میں بھیجا گیا جہاں اس کے داخلے کیلئے ایڈمشن ٹیسٹ پاس کرنا ضروری تھی، چنانچہ اس نے ٹیسٹ کی تیاری کی اور بمشکل پاس کرکے ایٹن کالج میں داخلہ لے سکا۔

2003 میں اس نے دو اے لیولز مکمل کئے، آرٹ میں گریڈ بی حاصل کیا اور جغرافیہ میں گریڈ ڈی سے بمشکل پاس ہوا۔ اس کا رحجان  آرٹ کے مضامین کی نسبت سپورٹس میں زیادہ تھا ۔ اس کی ٹیچر نے اس کی رپورٹ میں لکھا تھا کہ وہ ایک کمزور سٹوڈنٹ ہے  اور ایسا لگتا ہے کہ ایٹن کالج نے اسے پاس ہونے میں مدد دی ہے۔

پرنس ہیری کی ٹیچر کی جانب سے جب یہ کمنٹس رپورٹ پر لکھے گئے تو کالج انتظامیہ نے فوری طور پر ان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ  انہوں نے پرنس ہیری کو پاس ہونے میں کوئی مدد نہیں دی۔ تاہم کالج کے بورڈ آف گورنرز نے ایک کمیٹی بنا کر معاملے کی تحقیقات کا فیصلہ کیا۔

اس کمیٹی نے تین ہفتے کام کرکے پتہ لگایا  کہ پرنس ہری کو اگرچہ امتحانات میں کسی قسم کی مدد نہیں ملی، تاہم اسے اے لیول پاس کرنے کیلئے  جو پراجیکٹ دیا گیا تھا، اس پر پراجیکٹ کی تکمیل میں چند ٹیچرز نے اسے مشورے یا ٹپس دی تھیں جو کہ روایات کے خلاف تھیں، چنانچہ  ان ٹیچرز کو وارننگ جاری کی گئی اور انہوں نے اپنے اس فعل کی معافی بھی مانگی۔

کالج سے فارغ ہونے کے بعد پرنس ہیری نے ایک سال آسٹریلیا میں مویشی فارم پر گزارا جہاں اس نے کیٹل فارمنگ کی بنیادی ٹریننگ حاصل کی اور اس کے ساتھ ساتھ گولف میں بھی حصہ لیا جس کیلئے وہ پہلے سے سیلیکٹ ہوچکا تھا۔

 

آسٹریلیا سے واپسی پر 2005 میں پرنس ہیری نے رائل ملٹری اکیڈیمی میں داخلہ لیا۔دوسال کی ٹریننگ کے بعد لیفٹنٹ بن گیا۔

2006 میں اس کی رجمنٹ کو عراق بھیجنے کا اعلان ہوا تو عوامی سطح پر بحث شروع ہوگئی کہ کیا برطانیہ کے شہزادے کو عراق کی جنگی محاذ پر بھیجنا درست ہوگا؟ برطانیہ کی وزارت دفاع نے بیان جاری کیا کہ پرنس ہیری اگر خود جانے سے انکار کردے تو اسے اپنا ملٹری کیرئیر ترک کرنا ہوگا۔ پرنس ہیری نے عوامی مطالبے کے برخلاف عراق جانے کو ترجیح دی اور اعلان کیا کہ اگر اسے اگلے مورچوں  پر نہ بھیجا گیا تو وہ احتجاجاً ملٹری چھوڑ دے گا۔

 

پرنس ہیری کا اگلا مشن افغانستان تھا جہاں وہ دو مرتبہ ڈپلائی کیا گیا۔ پہلی مرتبہ خفیہ طور پر 20 ہفتوں کیلئے، اور دوسری مرتبہ چھ ماہ  کیلئے۔

2015 میں پرنس ہیری نے ملٹری چھوڑ نے کا فیصلہ کرلیا۔

2018 میں ہیری نے امریکی اداکارہ میگھن مرکل سے لو میرج کر لی۔ پرنس ہیری اور اس کی بیوی میگھن ایک سال تک شاہی خاندان کے ساتھ رہے لیکن انہیں لگا کہ وہ اپنے فیصلے کرنے میں آزاد نہیں ہیں، چنانچہ اس سال کے آغاز میں پرنس ہیری نے اعلان کیا کہ وہ برطانوی شاہی خاندان کو چھوڑ کر ایک عام انسان کی طرح زندگی گزارے گا۔ چنانچہ وہ اپنی تمام سہولیات چھوڑ کر اپنی بیوی کے ساتھ پہلے کینیڈا منتقل ہوا، پھر وہاں سے امریکہ چلے گئے۔

 

آج کی خبر کے مطابق پرنس ہیری اور اس کی بیوی ابھی تک مالی طور پر مشکلات کا شکار ہیں اور وہ اپنے پلان کے مطابق ابھی تک مالی طور  انڈی پینڈنٹ نہیں ہوسکے۔

برطانوی شاہی خاندان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ پرنس ہیری کی مدد کرنا بھی چاہیں تو نہیں کرسکیں گے کیونکہ ایک تو پرنس ہیری ان سے  مدد نہیں لے گا، دوسرا شاہی خاندان کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ امریکہ میں مقیم شاہی جوڑے کے اخراجات اٹھاسکیں۔

خبر کے مطابق پرنس ہیری ابھی تک اپنے باپ شہزادہ چارلس کی پرسنل انکم سے ادھار لے رہا ہے جو کہ وہ عنقریب اپنے باپ کو واپس  کردے گا۔حال ہی میں پرنس ہیری کے ساتھ ایک امریکی تنظیم نے معاہدہ کیا ہے جس کے تحت وہ سال میں پچاس کے قریب  اداروں میں لیکچر دے گا جن کا موضوع سماجی بہتری ہوگی۔ اس کے عوض اسے ایک ملین ڈالر ملے گا جس سے پرنس ہیری  کی مالی مشکلات کم ہوسکیں گی۔


یہ ہیں حالات اس شاہی خاندان کے جو دنیا کا سب سے قدیم اور سب سے زیادہ ممالک پر حکمران رہا۔

فیس بک کی اس نامعلوم تحریر کو در اصل آگے کوئی اور ہی رنگ دیا گیا ہے 

لیکن  

دنیا میں ایسا ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں اور کسی بھی سطح کے لوگوں میں ایسا ہو سکتا ہے - لیکن اگر ہم چاہیں تو اس کو بات رہنے دیں چاہیں تو بات کا بتنگڑ بنا کر  اپنوں کا جینا بھی دو بھر کردیں , جو لوگ  ہمیشہ سے،عام رواج سے ہٹ کر  تھوڑا عجیب نظر آنے اور عجیب طرح سے پیش آنے والے کے ساتھ کرتے ہیں - جیسے اگر کوئی کسی عام طور پر رائج تعلیمی نظام میں خاص کارکردگی نہ دکھا سکے تو وہ ایک کمزور ذہن اور نچلے درجے کا شاگرد اور انسان ہوا یا اگر وہ اگر کسی خاندان یا خاص  طرح کے لوگوں میں نہیں رہ سکتا تو وہ ایک تکیلف دہ شخصیت کا مالک ہے یا پھر اگر اس کی پیسہ کمانے کی صلاحیت دوسروں سے مختلیف اور تھوڑی عجیب ہے، اس لئے اپنے خاص طرح کے فن کو منوانے میں تھوڑی دقعت ہو سکتی ہے  تو وہ ایک     نکما شخص ہوا  اور اس کو  بجاے ہمت افزائی اور ساتھ دینے کے لعن تعن سے  کسی قابل نہ چھوڑا  جاے- یہ وہی خاص رویہ ہے جو گلیوں کے گنوار شرارتی بچوں کا ہوتا ہے جب وہ کوئی کتا یا بلی دیکھ لیں تو اس کے پیچھے لگ کر اسے ڈراتے اور پتھر مار مار کر مار مار کر مار ہی  دیتے ہیں  کیونکہ انکو شائد وہ خود سے مختلف اور عجیب لگتا ہے اور کمزور بھی ہوتا ہے ورنہ طاقتور اور ڈراونا ہو تو کبھی قریب بھی مت جائیں   - ایسا  وہ بظاھر مخبوط الحواس  دکھنے والے شخس کے ساتھ بھی کرتے ہیں جس سے شائد ان کی اپنی کچلی ہوئی اناکوبھی  تسکین مل جاتی ہے  -   ایسے میں  مجھے ایک صوفی بزرگ کی کافی کا ایک شاندار مصرع  یاد  آ رہا ہے   '' چھوڑ میری خطا......چھوڑ میری خطا....تو  تو پاگل نہیں ...


کاشف احمد ، اسلام آباد پاکستان