Thursday 28 November 2019

بابے اور کومپٹشن


  
اکثر لوگ یہ جاننے کی خواہش مند نظر ضرور آتے ہیں کہ ایک بابا یا الله کا بندہ یا نیک شخص کون ہوتا ہے اور ہوتا بھی ہے کے نہیں؟ - در اصل یہ مسلہ آج کل کا نہیں اس وقت سے ہے جب سے الله نے اپنے انبیا اور نیک بندوں کو بھیجنا شروع کیا - لوگوں  کو تب بھی یقین نہیں آتا تھا کے ایسا بندہ جو بظاھر  اتنا سادہ معصوم اور بے  ضرر بلکہ جھلا سا دکھنے والا انسان کیسے بابا ہو سکتا ہے وہ تو بہت دانائی کا حامل ہوتا ہے جس کی خدمت میں ہم حاضر ہو سکیں کچھ سیکھنے کے لئے - یعنی ہم جیسے اونچی حیثیت کے نفیس لوگ جو خود بہت سمجھدار اور چالاک ہیں ایسے آدمی کے سامنے دست بستہ کیسے کھڑے ہو جائیں

یا پھر ایک ایسا شخس جو خود نفیس لباس اور رہن سہن رکھتا ہو انگریزی بولتا ہو اور ہر طرح کا ماڈرن ساز و سامان رکھتا ہو وہ کیسے بابا ہو سکتا ہے  وہ تو ہمارے جیسا ہی دکھتا ہے - یعنی دونوں  راستے بند

نیکی اچھائی اور بزرگی کی ایسی  کوئی دنیاوی شرط نہیں -  ان بابوں کی  صرف ایک سادہ تعریف یا ڈیفینیشن ہوتی  اور وہ یہ کہ وہ الله کے بناے ہوے اس ضابطہ حیات یا زندہ رہنے کے طریقے کی حدود کے اندر ہمیشہ رہتے ہیں جو اس نے اپنے انبیا کو دے کر بھیجا وہ فریم ورک جس پر عمل کرنے اور حدود میں رہنے کا ہم سب بھی حکم ہے

اس کے لئے کوئی سبز رنگ کا چوغہ گلے میں منکے اور دور دراز کہیں پر جھومپڑا نہیں چاہیے ہوتا نہ ہی کوئی جلالی قسم کا رعب چاہیے ہوتا ہے جسے دیکھ کر لوگ تھر تھر کامپنے لگیں اور بابا اپنے کرشموں کی بارش کرتا رہے جس سے ڈر کے لوگ دور بھاگیں اور خود کو بچاتے پھریں

اللہ کابندہ تو آسانیاں لے کر آتا ہے لوگوں کو ڈراتا اور بھگاتا نہیں قریب لاتا ہے ان سے ماں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے اسے فکر  ہوتی ہے اور دعائیں کرتا ہے بھلائی چاہتا ہے اور لوگ دور دور سے کھنچے چلے آتے ہیں اور اس کے دیدار اور ملاقات کے لئے بے چین رہتے ہیں - اس سے برکت اور فضل حاصل کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر دانائی سیکھتے ہیں کیونکہ بابے کا تو براہ راست سب سے قریبی تعلق ہوتا ہے الله سے جو کائنات میں دانائی کا ممبہ ہے

ہم آتے جاتےاٹھتے بیٹھتے ایسے پیارے نیک لوگ اکثر دیکھتے ہیں جو اپنی سادگی میں گم .. اخلاق اور عبادت کی بڑی منزل پر ہیں لیکن یا تو ہماری تکبرانہ سوچ انکے حضور حاضر ہونے کو کثر  شان سمجھتی ہے کیونکہ وہ تو ایک سادہ سا معمولی سا آدمی ہے جس کو دنیا کا کوئی شوق نہیں  - پھر کہیں کوئی اپنی حیثیت کا نیک آدمی نظرآ بھی جاے تو ہم  یہ سوچ کر رد کر دیتے ہیں کے یہ تو میری طرح کا آدمی ہے اسکو مجھ سے زیادہ کیا ملا ہو گا اور کیا جانتا ہوگا

یہ ہمارا تکبّر ہی ہمیں ہر وقت تقابلی جائزہ لینے پر مجبور کرتا ہے ہم یہ سوچتے ہی نہیں کے مقابلہ کرنا اور کومپی ٹشن ہی در اصل تکبّر ہوتا ہے جس کی سخت  ممانعت ہے کیونکہ یہ نہ صرف تکبّر کی وجہ ہے بلکہ
انسانی تحقیر بھی

ہم اکثر اس مقابلہ بازی میں سوچتے ہی نہیں کے ہم کس خطرناک مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں - آگے سے آگے بڑھنے کی خواہش اور بے تحاشہ حوصلہ افزائی اور ترویج چھوٹی سے چھوٹی بات سے لے کر زندگی کے ہر مرحلے پر بہت ہی زور شور سے کرتے ہیں چاہے وہ پڑوسن سے بہتر کپڑے بنانے کا مقابلہ ہو ..... نت نئی چیزیں اور اسباب اکٹھے کرنے کا شوق ہو یا کسی ساتھی کے پاس بیٹھ کر اپنے بیٹے کی امتحان میں کامیابی کا ذکر کرتے ہوے اس کے کسی رشتے دار کی ناکامی پر بظاھر افسوس

یہ سب انسان کی تحقیر اور اسے خود سے چھوٹا دکھانے کا عمل در اصل تکبر کی علامت ہے جو ہمیں عیب جوئی اور غیبت جیسے لعنت میں بھی مبتلا رکھتی ہے  یہاں تک کے دولت اور حیثیت کی نمود و نمائش سے بھی ہم آس پاس کے لوگوں کی تحقیر سے باز نہیں آتے اور سجھتے ہیں کے یہ معلومات جن کو ہم علم سمجھتے ہیں اور ان کے بلبوتے پر حاصل کردہ کوئی عہدہ یا حیثیت جس کو ہم اپنی محنت اور قابلیت سمجھنے کی شدید غلط فہمی اور گناہ کے مرتقب ہو رہے ہیں وہ تو  دراصل کائنات کے مالک  کی دین ہے- الله کی دی ہوئی قابلیت کی آزماش ہے کہ یہ اپنی قابلیت اور مہارت کو کتنا میرے راستے اور میرے بندوں کی بھلائی کے لئے خرچ کرتا ہے

اور ہم اس قابلیت اور اس سے حاصل کردہ مال و اسباب کے تکبّر کے نشے میں دھت ہو کر خود کو خدا سمجھنے لگتے ہیں اور لوگوں کے درمیان اپنی مرضی کے فیصلے اور مقابلے کی فضا قائم کر کہ مقابلے میں اچھی کارکردگی  پر تعریفیں انعامات سے نوازتے ہیں جو در اصل ہماری نظر میں اچھی کارکردگی ہے اور جو ہماری نظر میں وہ کارکردگی نہیں دکھا سکتے ان کو ناکام اور کمزور قرار دے کر ان کی تحقیر کرتے ہیں

جبکہ اصل میں فرض تو یہ تھا کے ہم سب کو یکساں شعور دیں تا کہ ہر ایک اپنی شخصیت کے مطابق اپنی مخصوص صلاحیت پر بہترین عمل کر سکے کیونکہ الله نا انصافی نہیں کرتا اور سب کو یکساں مقدار میں   عقل اور صلاحیت دی ہے جو ایک ہو بہو ایک جیسی ہرگز نہیں ہو سکتی مگر اہمیت میں کسی طور کم نہیں - بس ہماری سمجھ اور پہچان میں کمی ہے  - ہمارا کام تھا کے اس عطا کردہ صلاحیت کو تلاش کریں اور نکھاریں اور فروغ دیں نہ کہ فیصلہ صادر کر دیں کے اس میں عقل اور صلاحیت کی کمی ہے 

لیکن ہم نے اپنے آرام و آسائش یا فائدے کو دیکھتے ہوہے چھوٹا یا مختصر راستہ بنایا اور  اپنی حیثیت کا غلط استعمال کیا اور لوگوں کو بھی وہی غلط راستہ اختیار کرنے پر لگا دیا

مقابلہ کرنے کی اجازت صرف نیکی میں ہے - نیکی میں سبقت لے جانے کے لئے بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کا حکم ہے کیونکہ نیکی میں آگے نکلنے کے لئے آدمی کو جھکنا پڑتا ہے نہ کہ اکڑنا

ہمارا مسلہ یہ ہے کہ ہم مشورہ لینے اور فیصلے کروانے کا کام  ملکی اداروں پر چھوڑ چکے ہیں یا اسی طرح کے دیگر تنظیموں کے حوالے کر دیتے ہیں اور پھر انہی پر کڑی تنقید بھی کرتے رہتے ہیں نا صرف فیصلوں پر بلکہ ناقص کارکردگی پر بھی  یعنی نقص نکالنا اور نکتہ چینی ہمارا مشغلہ ہے اور ہم در اصل نہ ٹھیک ہونے کے خواہشمند ہیں نہ ٹھیک کرنے کے کیونکہ کام ایسے ہی اچھا نکلتا ہے

یہ مشورہ دینے کا کام اور فیصلہ کرنے کا اختیار ہم نے آجکل انٹرنیٹ اور میڈیا کو بھی  دے دیا ہے کیونکہ انکی ایجاد کی وجہ بھی یہی تھی کے آدمی سہل پسند اور اپنے اصل کام یعنی دانائی تلاش کرنے اور بتدریج اس کو حاصل کرنے سے جان چھڑا لے اور بنی بنائی پکّی پکائی معلومات کو علم و دانائی تسلیم کر لے نہ تحقیق کرے نہ تدبر بس اندھی تقلید-  

جب تک مشورہ کرنے کا کام اور فیصلہ کرنے کا اختیار گھر خاندان یا بستی کے بابوں ، بزرگان اور پیروں کو حاصل رہا ہمیں اس کے لئے کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں تھی - دانائی سے رجوع کرنے کا کام ازل سے عبد تک انسان کی ضرورت ہے اور یہ کام الله نے اپنے نیک  بندوں یعنی بابوں کو دیا ہے جو زبردستی نہیں کرتے دھونس نئی جماتے بس سائل کے رجوع کرنے کے منتظر رہتے اور خاموشی سے دانائی کو پھیلاتے اور فروغ دیتے ہیں  

اور ہم انتظار کرتے ہیں کے کوئی مافوق الفطرت واقعہ رونما ہوگا آسمان سے ایک بابا اترے گا اور سپر مین کی طرح سب کچھ اپنی ہیبت اور طاقت سے ٹھیک کر دے گا - ہم کیوں کوشش کریں بندہ اتنا  بھی نیک نہیں ہونا چاہیے کے دنیا کی بھلائی کا ٹھیکہ اٹھا لے

لیکن یہ نیک بندے یہ اچھے لوگ یہ بابے ہمارے ارد گرد موجود ہوتے ہیں اکثر ملتے بھی ہیں ، لیکن ہم نہیں مانتے تسلیم نہیں کرتے کے ایسا انسان کس طرح میرے فیصلہ کرنے یا مشورے کے قابل ہو سکتا ہے اور تکبّر کا یہ پردہ جو ہمارے اور بابوں کے بیچ قائم ہے یہ ہمیں اسی طرح بے چین اور نا مراد رکھتا ہے - ہم تو بس کے ڈرائیور یا جہاز کے پائلٹ کو مانتے ہیں کے وہ ہمیں اپنی منزل مقصود تک با حفاظت  لے جاے گا ... کبھی اس کا لائسنس چیک نہیں کرتے نہ بینائی پر شبہ ہوتا ہے نہ عقل پر لیکن بابوں کی عقل پر ضرور شبہ رہتا ہے کیونکہ وہ تو نیکی کی بات بتاتے ہیں   

کاشف احمد
اسلام آباد ، پاکستان
٢٨ نومبر ٢٠١٩


Saturday 23 November 2019

فیصلہ



فیصلہ کرنے کی ہمّت ایک بہت انمول تحفہ ہے جو کائنات کے خالق نے انسان کو دیا - یہی وہ واحد خاصیت ہے جو اسے دیگر تخلیقات سے ممتاز بنا کر اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کرتی ہے - کبھی آپ نے آئینے  کے روبرو ہو کر خود سے پوچھا کہ مجھے تو میرا خالق اشرف  المخلوقات کہتا ہے لیکن مجھے یقین کیوں نہیں آتا ؟

بچپن سے ہمیں جن عادات  و خصائل کی مشق کروائی  جاتی ہے ہم بڑے ہو کر انہی عادات کو اپنے عقائد کی حد تک اپنا لیتے ہیں اگر بستر سے نیچے پاؤں سیدھا جوتے میں ڈال کر اترنے کی پکّی عادت ہو تو بچہ بستر پر ہی بیٹھا روتا رہتا ہے کہ جوتا نہیں ہے کیا کروں

بلکل اسی طرح کپڑے بدلنے بال بنانے اور وقت پر کٹوانے کی عادت ہے- اسکول جانے کی عادت ہے پڑھنے کی عادت ہے لیکن ان عادتوں کا کیا ہوگا جو آپ کے بڑوں میں بھی نہیں تھیںاور ارد گرد  کے لوگوں میں بھی نہیں تھیں جیسے جرّت مندی معاشرے کی روش سے الگ بلکہ الٹ رو میں چلنے کی عادت- خاص طور پر وہاں جہاں مخالفت ہو اور سخت ضرورت ہو بہتری اور اصلاح کی - جیسے خاندانی رسم  و رواجات کا طوق گلے سے اتار پھینکنے کی عادت

یہی عادتیں آگے چل کر آدمی کو اشرف المخلوقات یعنی کائنات کے لیڈر اور قائد سے دھیرے دھیرے عوام اور پھر غلام میں تبدیل کرتی ہیں رومی نے کیا خوب فرمایا ہے کہ '' تم تو پروں کے ساتھ پیدا ہوے تھے ، اڑنے کے لئے... تو زمین پر رینگ کیوں رہے ہو ؟

رہ نما قائد یا لیڈر بننے کی صلاحیت کوئی نئی نہیں ہوتی جو بعد میں آدمی کے اندر انسٹال یا نصب کرنی ہوتی ہے یہ پیدائشی صلاحیت ہے جس کو دھیرے دھیرے اس کے  ارد گرد کا ماحول کچل کے رکھ دیتا ہے - میرے ایک بزرگ کہتے تھے کہ سارا کا سارا مسلہ ہمارے خیال کا ہوتا ہے جیسے بچپن میں اکثر سرکس جانے اور اس کے جانوروں کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوتا تھا تو ایک بار میں نے اپنے والد سے پوچھا کے یہ ہاتھی صرف ایک فٹ کے چھوٹے سے کمزور کلے( کھونٹے ) سے بندھا ہوا کھڑا رہتا ہے اگر تھوڑا سا زور لگاے تو کلے کی اتنی اوقات نہیں کے اتنے طاقتور جانور کے سامنے زمین میں گڑا رہے


والد صاحب مسکرا کر کہنے لگے یہ اس کلے کو  نہیں اکھاڑ سکتا کیونکہ بچپن سے جب یہ بہت چھوٹا ہوا کرتا تھا اسی سے باندھا جاتا تھا -تب  اس نے بہت زور لگایا ہوگا مگر اس وقت اس کے بس کی بات نہیں تھی - پھر آخر ہمت ہار کر اس نے مان لیا ار فیصلہ کر لیا کے اب ایسے ہی رہنا ہے…. بندھے ہوے

میرے اسکول کے زمانے کا ایک واقعہ اس موقع پر یاد آ گیا جب اپنے دو دوستوں کے ساتھ اچھل کود اور کھیل کے دوران ہم  ایک درخت پر چڑھ گئے - ہم تین دوست تھے کچھ دیر بعد میں اور ایک دوست نیچے کود گئے لیکن تیسرا دوست جس سے درخت سے اترا بھی  نہیں جا رہا تھا وہ کودنے سے بلکل انکار کر گیا اور گھبرا کر '' میں نہیں کودوں گا ...میں نہیں کودوں گا  چلانے لگا جبکہ درخت کوئی اتنا بھی اونچا  نہیں تھا  جس سے کود کر چوٹ لگنے کا خطرہ ہوتا - لیکن وہ فیصلہ نہیں کر پایا ہمت اور جرّت مندی نہیں دکھا سکا کیونکہ شائد بچپن سے اسکو اسی بات کی عادت تھی

خیال ہی در اصل فیصلہ کرنے میں مدد گار ہوتا ہے یا پھر اس کے مخالف جیسے ہیلن کیلر ایک ایسی عورت تھی جو بینائی اور شنوائی سے محروم پیدا ہوئی تھی - وہ سن نہیں سکتی تھی اس لئے بول بھی نہیں سکتی تھی اور جب تھوڑی بڑی ہوئی تو اپنی ایک قریبی رشتہ  دار خاتون کے بازو کو پکڑ کر کچھ اس طرح سے دبانے لگی جس سے وہ خاتون سمجھ گئی کہ اسے پانی پینا ہے - پھر انہوں نے مل کر ٹٹولنے اور چھو کر بات کرنے کی زبان ایجاد کر لی اور ہیلن ایک نامور ادیب اور شاعرہ کے طور پر جانی جانے لگی - اس نے ایک بار لکھا کہ میں خدا کی بے حد شکر گزار ہوں کے اس نے مجھے بینائی اور سننے کی طاقت کے بغیر پیدا کیا ورنہ  میں اتنی نامور کبھی نہ ہوتی جتنی اب ہوں کیونکہ ایسی بہت سی عورتیں ہیں جو ادیب بھی ہیں اور شاعرہ بھی مگر اتنی نامور نہیں ہو سکیں کیونکے وہ میری طرح اندھی گونگی اور بہری نہیں - محرومی بھی در اصل ایک فضل اور نعمت ہو سکتی ہے اگر ہم خیال پر کابو پا کر درست فیصلہ کر سکیں

ہیلن  نے بھی فیصلہ کر لیا تھا اس خیال کے مخالف سمت سفر کرنے کا جو کہتا تھا کے میں تو اندھی ہوں میں کیسے دیکھے بغیر کام کر سکتی ہوں پھر گونگی بہری بھی - بلکل اسی طرح کوئی بھی عادت ، طور طریقے رہن سہن اختیار کر لینے یا ترک کر دینے کے لئے صرف ہمارے خیالات کو یا تو جھٹکنا پڑتا ہے یا پھر اختیار کرنا پڑتا ہے اس کے لئے بس فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ  میں کن میں سے ہوں ؟ عوام میں سے یا پھر خواص میں سے.. انتظار کرنے والوں میں سے یا پھر انتظار کروانے والوں میں سے.. پھر جن میں سے ہوں ان میں ہی رہنا پڑتا ہے ویسا ہی سوچنا پڑتا ہے - کہتے ہیں اگر حاکم بننا چاہتے ہو تو سب سے پہلے حاکم کی طرح محسوس کرنا سیکھو- خود کو مالک یا حاکم محسوس نہیں  کرو گے ..یقین نہ ہوگا تو کوئی بھی نہیں مانے گا  - 

ورنہ پھر عوام کی طرح رہنا پڑے گا ان خرکار کے گدھوں کی طرح جن کو پورا دن کام میں لانے کے بعد شام کو اپنے ٹھکانے پر لے جا کربس ایک بارانکی ٹانگوں کے نچلے حصّے کے  گرد انگلیوں کو دائرے کی شکل میں ایک چھلا سا بنا کر تھوڑا  کس کے پکڑ  کر  چھوڑ دیتے ہیں اور بیچارہ گدھا پوری رات یہی سمجھتا ہے کہ وہ بندھا ہوا ہے - سرکس کا ہاتھی تو واقعی بندھا ہوا تھا لیکن گدھے کے لئے اس کی ضرورت بھی نہیں - ہم بھی اکثر اپنی سوچ سے اسی طرح بندھے ہوتے ہیں -

ہمارے اکثر خیالات در اصل اسی نوعیت کے ہوتے ہیں جو صرف خوف اور کم ہمّتی کی وجہ سے ہمیں اشرف المخلوقات کے درجے سے نیچے کی مخلوقات میں زندہ رکھتے ہیں - ایک اور بزرگ کا بہت دلچسپ واقعہ یاد آیا گیا جس میں ان کے ایک زخم میں گنگرین کی وجہ سے سے ڈاکٹروں نے مجبوراً انکی ٹانگ گھٹنے سے اوپر تک کاٹ دینے کا فیصلہ کر لیا اور جب انہیں آپریشن کے لئے لے جایا جانے لگا تو کہنے لگے کے میں بیہوشی کا انجکشن نہیں لوں گا آپ اس کے  بغیر آپریشن کریں

ڈاکٹر بہت حیران ہوے اور کہنے لگے کے جناب اعلیٰ حضرت آپ کی ٹانگ کو ران سے کاٹنا ہے معمولی بات نہیں بہت تکلیف دہ اور لمبا عمل ہے - لیکن وہ بزرگ کہنے لگے آپ اپنا کام کریں میں اپنا کام کروں گا کیونکہ نشے کے عالم میں انسان کا رشتہ اللہ سے ٹوٹ جاتا ہے اور میں یہ کسی حال میں برداشت نہیں کر سکتا - بہرحال ڈاکٹروں کو بات مان لینی پڑی اور وہ بزرگ منہ پر کپڑا لئے لیٹے رہے ار پورا آپریشن بغیر کسی مشکل کے ہو گیا

یہ  ایک بہت ہی اعلیٰ درجے کی مثال تھی جس میں فیصلہ کرنے کی ایک عظیم طاقت اور خیال پر کابو رکھنے اور انکو اپنی مرضی کی سمت میں چلانے کی صلاحیت دیکھنے میں آئ - ہم ایسی بلکہ ان سے  بھی بہت بہتر مثالوں سے واقف ہیں جن پر یقین کرنا بھی کئی بار محال ہوجاتا ہے لیکن یہی وہ موجزات ہوتے ہیں جن کو ہماری عقل یعنی اشرف المخلوقات سے نچلے درجے کی عقل سمجھ نہیں پاتی اور ہم صرف اس پر ایمان لانے کے دعوے پر اکتفا کر لیتے ہیں ورنہ ہمارے علاوہ کئی اور لوگ انکو مافوق الفطرت قصّے کہانیاں کہ کر یکسر رد بھی  کر دیتے ہیں -

بڑے اور درست فیصلے کرنے کی طاقت کا انحصار ہمارے خیلات یعنی سوچ پر منحصر  ہوتا ہے اور یہ سوچ ہی ہے جس پر کابو پانے کا ہنر انسان کو اشرف المخلوقات کہلانے کے قابل بناتا ہے جو صرف اور صرف اس ماحول میں رہنے سے ممکن ہے جہاں ارد گرد اشرف المخلوقات موجود ہوں اور ہم ان سے وابستگی کا قائم رکھ سکیں اگر بلمشافہ نہیں تو بلواسطہ ذریعہ اور وسائل سے  بھی ممکن ہے فیصلہ آپ خود کریں -

کاشف احمد
اسلام آباد ، پاکستان
٢٣ نومبر ٢٠١٩



Thursday 21 November 2019

بونگیاں



ہم ذہنی دباؤ اور پریشانی کا حل ڈھونڈتے ہیں ڈپریشن کا علاج کرنے کے لئے نت نئے ٹوٹکے اور حربے تلاش کرتے  رہتے ہیں - کچھ لوگ سمجھتے ہیں غم غلط کرنے کا علاج نشے میں ہے اور کچھ کہتے ہیں کوئی اچھی فل دیکھ لو گانے سن لو یا پھر کوئی اچھی پسندیدہ شاعری پڑھو یا کہانی - یا پھر کوئی نئی یا من پسند ڈش اور پکوان کھا کر آؤ اور سیر پر نکل جاؤ

خوش اور مطمئن رہنا انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے اس کے لئے وہ ہر طریقہ اختیار کرتا ہے کسی نہ کسی طرح بس خوش رہ سکے اطمینان حاصل ہو کیونکہ خوش نہ رہنے کی صورت میں ہی بیماریاں حملہ اور ہو جاتی ہیں جو صرف ذہنی ہی نہیں جسمانی بھی ہوتی ہے اور تحقیق نے ثابت کیا ہے کے ہماری ہر طرح کی بیماری کی اصل وجہ ذہنی آسودگی کا فقدان ہی ہوتا ہے

آسودگی کس کا نام ہے ؟ اور یہ صرف ذہنی آسودگی کیوں کہلاتی ہے ؟ دل کی آسودگی کیوں نہیں ؟ کیا   روحانی اطمینان کے بغیر یہ دونوں  آسودگیاں حاصل ہو جاتی ہیں   

ہماری خوشی اور اطمینان در اصل ہماری اس با ساختگی ، سادگی اور معصومیت میں پنہاں ہے جس کو ہمارے خالق نے ہماری فطرت کا بنیادی عنصر بنا کر ہمیں پیدا کیا یعنی فطرت سلیم یا یوں کہ لیں خالص اور اصل فطرت اور ہم اس اصل فطرت کو ابتدائی فطرت کہنے کے دھوکے میں مبتلا ہو کر سب سے پہلے اس پر کام کرتے ہوے بتدریج اپنے اندر سے معصومیت سادگی اور بے ساختگی کو ختم کرتے ہیں

اشفاق احمد صاحب کی ایک بات ذہن میں اکثر گونجتی ہے کے ہمارا معاشرہ بہت تیزی سے ڈپریشن کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے اور اس کی وجہ ہماری یہی  سوچ ہے جو ظاہری نمود و نمائش کی چکاچوند سے شدید متاثر ہو کر ظاہری اشیا کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتی ہے اور اسی  کو عقلمندی مانتی ہے - یہ مٹیریلسٹک  اپروچ کہلاتی ہے جو یہ سمجھتی ہے کے ہم شائد ان کنکریٹ کی دیواروں کو تعمیر کر کے گھر بنا کر خوشی حاصل کرتے ہیں یا لوہے کی خوبصورت سواریوں کو خرید کر اطمینان حاصل کر لیتے ہیں جو در اصل ہماری نا پختہ سوچ ہے

ہم سمجھتے ہیں کہ  سادگی بھولا پن اور معصومیت تو جاہل گنوار ذہن کی علامات  ہیں '' یار  وہ تو بہت ہی سادہ آدمی ہے '' یا پھر یہ کہتے ہیں کہ  فلاں آدمی تو بلکل ہی بونگا ہے`` - اس کی جگہ چالاکی تیزی اور سمجھداری ہی انسانی کامیابی کی علامت ہے اور سنجیدگی نفاست کی علامت سمجھی جاتی ہے - خوشگوار طبیعت, بات بات پر ہنس دینا اور خوب مذاق کرنا یا بچوں کی طرح منہ بسورنا یا مضحکہ خیز تاثرات اور حرکتیں کرنا نا پختہ , عجیب و غریب اور بے ہودہ بات سمجھتے ہیں لیکن بہت شوق سے مزاحیہ پروگرام اور فلمیں ضرور دیکھتے ہیں

بچوں کے ساتھ بیٹھے ہوں تو ان کی معصوم شرارتوں اوربے ساختہ  رد عمل بہت اچھا لگتا ہے اور ہمت کر کے کبھی کبھی خود پر سے سنجیدگی اور متانت کا خول اتار کر ان کے ساتھ بچے بھی بن جاتے ہیں اور بہت شوق سے ان کو منہ چڑا کر یا مضحکہ خیز شکلیں اور حرکتیں کر کے  بھی دکھاتے ہیں - کبھی یہی حرکات عام زندگی میں اپنے کسی ساتھی، نائب ہمسفر ، برتر اور بڑے کے سامنے کرنے کی ہمّت کر کے دیکھیں یا کم از کم صبح آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر تیار ہوتے ہوے خود کو مضحکہ خیز شکلیں بنا کر دکھائیںتو آپ کو جو بے ساختہ ہنسی آے گی وہ کسی بھی ریسٹورنٹ میں جا کر منہگے کھانے کھا کر نہیں ملتی 

اسی طرح بے تکلف دوستوں میں بیٹھے ہوں تو ہر طرح کی بونگیاں مار لیتے ہیں اور بات بات پر مزاح اور فکرے چست کرتے ہیں یہاں تک کے عجیب و غریب شکلیں بنا کر یا آنکھ کی ابرو سے مضحکہ خیز اشارے کر کے بات بے بات خوب ہنستے ہیں اور طبیعت خوشگوار اور مطمئن ہو جاتی ہے - ہم یہی ڈھونڈھتے ہیں معصومیت سادگی اور بونگا پن اور یہی در اصل ہماری اصل فطرت ہے جو ہمیں خالص اور اصلی انسان بنا کر رکھتی ہے کچھ لگی لپٹی نہیں کوئی بناوٹ نہیں - مگر نا جانے کیوں ہم اسی سے شرماتے اور گھبراتے  ہیں جو در اصل ہمارا اصل ہے

زندگی میں بے ساختگی اور بونگے پن کو قائم  رکھنے سے ہم اپنے اصل کے قریب  رہتے ہیں وہ فطری معصومیت ہی ہماری اصل پہچان ہے جس کو ہمارے لازمی عنصر کے طور پر ہماری ذات کا حصّہ بنا کر الله نے ہمیں زمین پر بھیجا وہ فطرت سلیم جس پر ہر بچہ پیدا ہوتا ہے اور اس کی اسی معصومیت سے سب کو پیار ہوتا ہے اور خوشی ملتی ہے جس میں ذرّہ برابر بھی بناوٹ کی ملاوٹ نہیں ہوتی اور اس کی وہی چھوٹی چھوٹی  بونگیاں  دل کو جیتے رکھتی ہیں

بابے کہتے ہیں اس معصومیت کا حساب آخر دینا ہوگا اور کوئی بھی جنت میں اس بورڈنگ پاس کے بغیر داخل نہیں ہوگا - پوچھا جاے گا کے اس معصومیت اس سادگی بیساختگی  اور خالص انسانیت کا کیا کیا تم   ؟نے... جسے دے کر بھیجا گیا تھا 

اس لئے خواتین و حضرات بے ساختگی ، معصومیت سادگی کے ساتھ ہلکے پھلکے شائستہ مزاح  اور کبھی کبھار خود سے ہی  بونگیاں مارنے سےنا  شرمائیں اور پورے بونگے پن کے ساتھ اپنی ڈپریشن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے ایسا بھگائیں کہ دوبارہ آپ کے آس پاس بھی نظر نہ آ سکے
کاشف احمد
اسلام آباد ، پاکستان
٢١ نومبر ٢٠١٩

Sunday 10 November 2019

مسئلہ سمجھنے کا نہیں .. سمجھ کر انجان بنے رہنے کا ہے



بات کو سمجھ کر بھی انجان بنے رہنے کی خوصورت ادا کبھی ہمارے  معاشرے کی خوبصورتی  ہوا کرتی تھی جب آپس کے قریبی رشتے حیا کی چاشنی  لیے ہوے  اشارتاً کہی گئی کوئی جی کو گدگدانے والی بات یا سرزنش  سن کر خاموشی سے انجان بنے رہنے کے باوجود  اس بات کو اس کے درست تناظر میں تسلیم بھی کر لیا کرتے تھے اور بنا کسی سے کہے شعار بنا لیا کرتے تھے کیونکہ احساس زندہ تھا اور وضح دار لوگ تھے جن میں خاندانی وقار ادب و لحاظ بھی موجود تھا  یہ اس دور کی عکاسی ہے جس میں اخلاقیات تمدن اور روایات کا پاس رکھا جاتا تھا

اور اب یہ بات ہمارے معاشرے میں مغربی اثر کی وجہ سے  بہت عام ہوتی جا رہی ہے کہ لوگ صحیح بات کو سمجھ کر اس سے انجان ہونے کا ناٹک کرتے ہیں صرف اس لیے کے کہیں اس وجہ سے ان کی بنی بنائی دکان خراب نہ ہو جاے - یا پھر انکو مخالف کے سامنے سبکی کا سامنہ نہ کرنا پڑے - جھکنا پڑے یا اپنی شکست تسلیم کرنی پڑ جاے اور لوگوں کے سامنے نیچا ہو نا پڑے

اس کو دوسرے لفظوں میں میسنہ  یا گُھنّا پَن بھی کہتے ہیں جب  لوگ اپنے مفاد یا منفی روش کے خلاف سچی یا کھری بات کسی مجمع یا مجلس میں سن لینے کے بعد صرف خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور سنی ان سنی کر دیتے ہیں - اکثر ایسے اجتماع میں جانے سے  گریز کرتے ہیں کیونکہ انکو تو عادت ہوتی ہے لوگوں کو الگ الگ مل کر ان کے کان بھرنے کی علیحدہ رکھنے کی اور فاصلے قائم رکھنے کی تا کہ علیحدہ علیحدہ سب کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر انکو اپنا مرید بنا کر رکھا جاے جو اپنی کمزوریوں کے ہاتھوں در اصل مرید نہیں مریض اور مجبور ہوتے ہیں

ایسا گُھنّا پَن ان لوگوں میں بھی پایا جاتا ہے جو خود کچھ کر دکھانے اور لوگوں کو اپنا گرویدہ صحیح معنوں میں بنا لینے کے قابل نہیں ہوتے - صرف اپنی مجبوریوں لا چاریوں اور مظلومیت کے اظہار سے خود کو لاڈلا بنانے  کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور لوگوں کے ترس اور  ہمدردی کو پیار اور عزت مان کر گزارہ کرتے ہیں - اسی ترس اور ہمدردی کی خیرات میں ملی ہوئی  سہولتوں   اور گھٹیا فائدوں کے حصول کی خاطر بات کو سمجھ کر بھی نہیں سمجھتے اور انجان بنے رہتے ہیں

ان مسخ شدہ معاشرتی قدروں کا شخسانہ ہمیں آدھے تیتر آدھے بٹیر بنا کر رکھتا ہے جب ضرورت پڑے مغربی اقدار اپنا لو اور جب کام نہ چلے کو مشرقی اقدار کے علمبردار بن جاؤ - کوئی ایک میعار کبھی مت اپناؤ کیونکہ یہ پالیسی کا حصّہ نہیں - خاص طور پر وہ ا علیٰ اقدار اور میعار جو اختیار کرے کا حکم الله کے مامور نے ہمیں دیا انکو  مت اپناؤ یا کم از کم مکمل طور پر تو کبھی بھی مت اپناؤ اور یہ مشہور فقرہ کہو
'' آدمی کو اب اتنا بھی اصولوں کا پابند نہیں ہونا چاہیے ''
'' بندے نو ہن اینا وی چنگا  نہیں ہونا چاہیدا ''

یعنی دوسرے لفظوں میں آدمی کو اب اتنا نیک بھی نہیں ہونا چاہیے اب ہم فلاں بزرگ کی طرح تو نہیں ہو سکتے نہ کہاں ہم اور کہاں وہ عظیم ہستی
کیسا اچھا بہانہ ہے جان چھڑالینے کا - درست اقدار اور اعلیٰ میعار اختیار کرنے سے گریزاں رہنے کا - اور پھر ستم بالاے ستم یہ کہ  اگر کبھی کسی کو اعلیٰ اقدار پر عمل پیرا ہوتا دیکھ لیں تو اسی قسم کے فقرے کسنے سے بھی باز نہیں آتے
 '' توں بڑا مولوی بندہ جا ریاں   ...ہن اینا وی گھر نو مسجد نہیں بنا کے رکھیدہ
یا پھر یہ کے '' مجھے سب پتا ہے اوپر اوپر سے نیک بنے پھرتے ہیں '' - اندر سے کتنے شوقین مزاج ہیں 

اور پھر ایک لمبی تقریر اپنے زندہ رہنے کے متوازن طریقے کو ثابت کرنے کے لئے ....یعنی صحیح بات کو سمجھ کر بھی غلط قرار دینا پھر اس کی حمایت میں لوگوں کو قائل کرنے کی بھی کوشش  کرنا  .. صرف اس لئے کے لوگ ان کی کمزوری ، مجبوری یا ضعیف العمری کے لحاظ میں چپ رہتے ہیں یا کسی اور مجبوری میں جواب نہیں دیتے وہ لگاتار اس کا فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں اور بات کو سمجھ کر بھی انجان بنے رہتے ہیں

کچھ لوگ تو اس سے بھی آگے بڑھ کر  درست بات کو سمجھ کر بھی اسے غلط ثابت کرنے کے پیسے  وصول کرتے ہیں اور اپنی تمام تر صلاحیتیں اسی پہ  صرف کرتے ہیں کہ ہماری اپنی معاشرتی و اخلاقی اقدار جو مستند اور صدیوں پر محیط ہیں وہ سراسر غلط اور فروسدہ ہونے کے علاوہ جاہلانہ ہی نہیں ظالمانہ بھی  ہیں

مشرقی اقدار اور مذہبی عقائد پر سب سے زیادہ تنقید ہمارے اپنے ہی کرتے ہیں جو در اصل اپنی کمزوریوں کے گھٹیا جواز گھڑ کر مغربی مشرکانہ تہذیب و اقدار کے گن گاتے ہوے اپنے ہی معاشرے کو برا بھلا کہنے کے پیسے بٹورتے ہیں اور جان بوجھ کر مغربی تصنیفی اور صحافتی حلقوں اور اداروں کی سوچی سمجھی پالیسی کی حمایت میں صرف پیسے کی خاطر اپنے معاشرے یہاں تک کے مذھبی عقائد کے خلاف زہر اگلنااپنا  شعار بنا لیتے ہیں - یہ بھی   مغربی سامراجی قوتوں کی اس پالیسی کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جتنا اچھا خود یہ مشرقی مصنف اپنے معاشرے کو جانتے ہوے اس کے خلاف لکھ اور بول  سکتے ہیں دوسرا کوئی نہیں لکھ سکتا اور  '' گھر کا بھیدی لنکا ڈھاے'' والی مثال خود  پر صادق لاتے ہوے  سب کچھ سمجھ کر انجان بنے رہتے ہیں  کیونکہ پیسہ کمانا ہوتا ہے

افسوس صد افسوس ایسے صحافیوں اور مصنفین پر جو اپنی قوم، معاشرے اور عقائد کا سودا سستے داموں کر لیتے ہیں - ''کھرا سچ'' اور برائی کو بے نقاب کرنے کے نام پر سستی شہرت تلاش کرتے  ہیں جبکہ ہماری اقدار اور  عقائد ہمیں پردہ پوشی اور صرف نظر کا حکم دیتے ہیں خاص طور پر ان حقائق سے جن کو سامنے لانے سے معاشرہ میں  بےچینی اضطراب بے راہ روی مایوسی اور فتنہ انگیزی کو فروغ ملے
کاشف احمد
اسلام آباد ، پاکستان
٠٩ نومبر ٢٠١٩

Monday 4 November 2019

آگہی رنج بھی ہے راحت بھی


عشق مرہم بھی ہے جراحت بھی
آگہی رنج بھی ہے راحت بھی

اور ہم لکھنے والے دراصل کاغذ پر لہو بکھیرنے والے ہیں جو گہری سوچ اور سمجھ کا مریض ہوتے ہیں-  دھیرے دھیرے بات اور صورتحال کی گہرائی میں اتر  جانے کی الّت اور صلاحیت ایک فکر کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے

فکر جو پریشانی ہرگز نہیں ہوتی کیونکہ پریشان تو سب ہوتے ہیں مگر صرف پریشان ...'' ہاے بیچارہ کتنا مظلوم ..یا.. کتنا ظلم ہوا ہے ...یا پھر ہم بیچارے مظلوم لاچار تو بے باس ہیں ...کیا کرسکتے ہیں ..صرف رونا رو سکتے ہیں اپنی بیماری لاچاری اور بے بسی  کی مظلومیت کا ...یہ بھی نہیں جانتے کے یہ شرک ہے ..الله سے ہمیشہ پرامید رہنا اور مثبت سوچ رکھنا فرض

 اور فکر مندی کچھ کر گزرنے کی تحریک کو کہتے ہیں جیسا کہ حکم ہے کہ جب کچھ غلط ہوتا دیکھو تو ہاتھ سے روکو اگر اس کی طاقت نہ ہو ( مطلب واقعی طاقت نہ ہو کوئی معزوری ہو .. بہانہ نہیں) تو منہ سے روکو  اور اس کی بھی طاقت نہیں تو دل میں برا سمجھو ...اسکو فکر کہتے ہیں

ہم لکھنے والے ہاتھ کی طاقت سے کچھ روکتے ..کچھ جاری کرتے ہیں مگر اس کے لئے گہری سوچ سے کام لینا پڑتا ہے جب تک کچھ گہرا کچھ نیا نہ ملے لکھا نہیں جا سکتا اور اس کے لئے وسیع مطالعہ شرط ہے

گہری سوچ کئی بار رنج میں مبتلا بھی کرتی ہے کیونکہ ہر ایک کی بظاھر نظر آنے والی اپنایت رواداری اور مہمان نوازی بظاھر آدمی کو سمجھ نہیں آتی مگر آگہی رکھنے والے اس کے پس پشت محرکات اور عوامل کو بھامپ لیتے ہیں جس سے رنج کا سامنا بھی ہوتا ہے

اسی طرح راحت ان عوامل اور محرکات سے حاصل ہوتی ہے جن کو دیکھ کر خود کو محفوظ رکھنے یا بہتر بنانے کی تحریک ہوتی ہے جیسے بظاھر اس وقت ملکی حالات میں ایک مذہبی جماعت جو در اصل سیاسی پارٹی ہے یعنی جے یو آئ ، وہ اس وقت آزادی مارچ اور دھرنے کی مدد سے ملک کو ظالم اور جعلی حکمرانوں سے نجات  دلانے کا ڈھونگ رچا کر اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کروانے اور رکاوٹیں پیدا کرنے کا کام کر رہی ہے جس سےعوام کو ہر طرح کی مشکلات کا سامنا ہے

اسی قسم کے لانگ مارچ  اور دھرنے ہم ماضی میں بھی دوسری سیاسی پارٹیوں کی طرف سے دیکھتے آے ہیں جن کے نتیجے میں کم از کم فوری طور پر تو کوئی نجات ملی نہ آزادی البتہ اس کے پس پردہ مقاصد ضرور پورے ہوے جو اب بھی ہونگے

یہ مقاصد ملک کے طول و عرض سے لوگوں کو معمولی معاوضے کے عوض ایک بڑا اجتماع اکٹھا کرنا ہوتا ہے جس کی آڑ میں ہر طرح کا غیر قانونی ڈیوٹی اور ٹیکس سے محفوظ مال اور خام مال بڑے تاجروں تک ملک کے بارڈر سے دارالحکومت تک پنہچایا جاتا ہے کیونکہ یہ بلا روک ٹوک با آسانی جلوس کی آڑ میں پہنچ جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں ٹیکس فری بھاری معاوضہ وصول ہوتا ہے جو منزل مقصود پر پہنچ کر دھرنے کی آڑ میں بیٹھ کر با آسانی مزاکرات  کے بہانے حساب کتاب کر کہ آپس میں تقسیم کر لیا جاتا 
ہے

اس کاروبار بلکہ کالے کاروبار میں ہر سیاستدان حصّہ دار ہے- جو بھی مین سٹریم میں شامل ہے- چاہے حکومت کا ہو حزب اختلاف کا یا کسی پارٹی کا - اس اربوں کے لین دین میں سب حصہ  دار ہوتے ہیں اور بظاھر پڑھی لکھی سمجھدار عوام ٹی وی پر ٹاک شو دیکھتی ہے اور اپنی دانشوری کے ساتھ مظلومیت جھاڑتی ہے اور بے چارے ان پڑھ جاہل غریب عوام کا رونا روتی ہے اور یہ غریب عوام اسی جلوس اور دھرنے میں پیسے کھرے کر رہے ہوتے ہیں - ان میں سے اکثر ان پڑھے لکھے جاہلوں پر ہنس رہے ہوتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ حکومت اور سیاستدان کرپشن کرتے ہیں جبکہ حقیقت میں یہ کرپشن ہی حکومت اورسیاستدان ہوتی ہے جو پوری دنیا میں جمہوریت کے نام پر در اصل یہ کالا کاروبار کرتی ہے

بس فرق صرف یہ ہے کے نام نہاد ترقی یافتہ دنیا میں اسے زیادہ موثر اور اچھے طریقے سے ان پڑھے لکھے جاہلوں سے چھپا لیا جاتا ہے اور جو چھپایا نا جا سکے اسے ہم جیسے ممالک میں آ کر کھلے عام کر لیا جاتا ہے- کیونکہ ہم جیسے ممالک ان کی نو آبادیآت ہی تو ہیں  براہ راست نا سہی بلواسطہ ان جاگیرداروں  اور سرمایا داروں پر نوازشات کے ذریعہ سہی- جو پہلے براہ راست نو آبادیآت کے نظام میں اپنی ہی قوم سے غدّاری  کے عوض جاگیردار بنے اب انہی کی نسلیں بلواسطہ خدمت کا فرض ادا کر رہی ہیں - یہی غدار آج بھی نا صرف یہ کالا کاروبار کرتے  ہیں بلکہ اپنے آقاؤں سے پوری وفادری کرتے ہوے ملک کی اصل دولت یعنی قدرتی ، معدنی یہاں تک کے زرعی ذخائر بھی ان ہنگاموں اور سیاسی ڈراموں کی آڑ میں میڈیا کی مدد سے پڑھے لکھے جاہلوں کو مصروف رکھ کر دھیرے دھیرے اپنے مغربی آقاؤں اور رشتہ داروں کے حوالے کرتے رہتے ہیں


کاشف احمد
اسلام آباد پاکستان
٤ نومبر ٢٠١٩