Thursday 28 November 2019

بابے اور کومپٹشن


  
اکثر لوگ یہ جاننے کی خواہش مند نظر ضرور آتے ہیں کہ ایک بابا یا الله کا بندہ یا نیک شخص کون ہوتا ہے اور ہوتا بھی ہے کے نہیں؟ - در اصل یہ مسلہ آج کل کا نہیں اس وقت سے ہے جب سے الله نے اپنے انبیا اور نیک بندوں کو بھیجنا شروع کیا - لوگوں  کو تب بھی یقین نہیں آتا تھا کے ایسا بندہ جو بظاھر  اتنا سادہ معصوم اور بے  ضرر بلکہ جھلا سا دکھنے والا انسان کیسے بابا ہو سکتا ہے وہ تو بہت دانائی کا حامل ہوتا ہے جس کی خدمت میں ہم حاضر ہو سکیں کچھ سیکھنے کے لئے - یعنی ہم جیسے اونچی حیثیت کے نفیس لوگ جو خود بہت سمجھدار اور چالاک ہیں ایسے آدمی کے سامنے دست بستہ کیسے کھڑے ہو جائیں

یا پھر ایک ایسا شخس جو خود نفیس لباس اور رہن سہن رکھتا ہو انگریزی بولتا ہو اور ہر طرح کا ماڈرن ساز و سامان رکھتا ہو وہ کیسے بابا ہو سکتا ہے  وہ تو ہمارے جیسا ہی دکھتا ہے - یعنی دونوں  راستے بند

نیکی اچھائی اور بزرگی کی ایسی  کوئی دنیاوی شرط نہیں -  ان بابوں کی  صرف ایک سادہ تعریف یا ڈیفینیشن ہوتی  اور وہ یہ کہ وہ الله کے بناے ہوے اس ضابطہ حیات یا زندہ رہنے کے طریقے کی حدود کے اندر ہمیشہ رہتے ہیں جو اس نے اپنے انبیا کو دے کر بھیجا وہ فریم ورک جس پر عمل کرنے اور حدود میں رہنے کا ہم سب بھی حکم ہے

اس کے لئے کوئی سبز رنگ کا چوغہ گلے میں منکے اور دور دراز کہیں پر جھومپڑا نہیں چاہیے ہوتا نہ ہی کوئی جلالی قسم کا رعب چاہیے ہوتا ہے جسے دیکھ کر لوگ تھر تھر کامپنے لگیں اور بابا اپنے کرشموں کی بارش کرتا رہے جس سے ڈر کے لوگ دور بھاگیں اور خود کو بچاتے پھریں

اللہ کابندہ تو آسانیاں لے کر آتا ہے لوگوں کو ڈراتا اور بھگاتا نہیں قریب لاتا ہے ان سے ماں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے اسے فکر  ہوتی ہے اور دعائیں کرتا ہے بھلائی چاہتا ہے اور لوگ دور دور سے کھنچے چلے آتے ہیں اور اس کے دیدار اور ملاقات کے لئے بے چین رہتے ہیں - اس سے برکت اور فضل حاصل کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر دانائی سیکھتے ہیں کیونکہ بابے کا تو براہ راست سب سے قریبی تعلق ہوتا ہے الله سے جو کائنات میں دانائی کا ممبہ ہے

ہم آتے جاتےاٹھتے بیٹھتے ایسے پیارے نیک لوگ اکثر دیکھتے ہیں جو اپنی سادگی میں گم .. اخلاق اور عبادت کی بڑی منزل پر ہیں لیکن یا تو ہماری تکبرانہ سوچ انکے حضور حاضر ہونے کو کثر  شان سمجھتی ہے کیونکہ وہ تو ایک سادہ سا معمولی سا آدمی ہے جس کو دنیا کا کوئی شوق نہیں  - پھر کہیں کوئی اپنی حیثیت کا نیک آدمی نظرآ بھی جاے تو ہم  یہ سوچ کر رد کر دیتے ہیں کے یہ تو میری طرح کا آدمی ہے اسکو مجھ سے زیادہ کیا ملا ہو گا اور کیا جانتا ہوگا

یہ ہمارا تکبّر ہی ہمیں ہر وقت تقابلی جائزہ لینے پر مجبور کرتا ہے ہم یہ سوچتے ہی نہیں کے مقابلہ کرنا اور کومپی ٹشن ہی در اصل تکبّر ہوتا ہے جس کی سخت  ممانعت ہے کیونکہ یہ نہ صرف تکبّر کی وجہ ہے بلکہ
انسانی تحقیر بھی

ہم اکثر اس مقابلہ بازی میں سوچتے ہی نہیں کے ہم کس خطرناک مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں - آگے سے آگے بڑھنے کی خواہش اور بے تحاشہ حوصلہ افزائی اور ترویج چھوٹی سے چھوٹی بات سے لے کر زندگی کے ہر مرحلے پر بہت ہی زور شور سے کرتے ہیں چاہے وہ پڑوسن سے بہتر کپڑے بنانے کا مقابلہ ہو ..... نت نئی چیزیں اور اسباب اکٹھے کرنے کا شوق ہو یا کسی ساتھی کے پاس بیٹھ کر اپنے بیٹے کی امتحان میں کامیابی کا ذکر کرتے ہوے اس کے کسی رشتے دار کی ناکامی پر بظاھر افسوس

یہ سب انسان کی تحقیر اور اسے خود سے چھوٹا دکھانے کا عمل در اصل تکبر کی علامت ہے جو ہمیں عیب جوئی اور غیبت جیسے لعنت میں بھی مبتلا رکھتی ہے  یہاں تک کے دولت اور حیثیت کی نمود و نمائش سے بھی ہم آس پاس کے لوگوں کی تحقیر سے باز نہیں آتے اور سجھتے ہیں کے یہ معلومات جن کو ہم علم سمجھتے ہیں اور ان کے بلبوتے پر حاصل کردہ کوئی عہدہ یا حیثیت جس کو ہم اپنی محنت اور قابلیت سمجھنے کی شدید غلط فہمی اور گناہ کے مرتقب ہو رہے ہیں وہ تو  دراصل کائنات کے مالک  کی دین ہے- الله کی دی ہوئی قابلیت کی آزماش ہے کہ یہ اپنی قابلیت اور مہارت کو کتنا میرے راستے اور میرے بندوں کی بھلائی کے لئے خرچ کرتا ہے

اور ہم اس قابلیت اور اس سے حاصل کردہ مال و اسباب کے تکبّر کے نشے میں دھت ہو کر خود کو خدا سمجھنے لگتے ہیں اور لوگوں کے درمیان اپنی مرضی کے فیصلے اور مقابلے کی فضا قائم کر کہ مقابلے میں اچھی کارکردگی  پر تعریفیں انعامات سے نوازتے ہیں جو در اصل ہماری نظر میں اچھی کارکردگی ہے اور جو ہماری نظر میں وہ کارکردگی نہیں دکھا سکتے ان کو ناکام اور کمزور قرار دے کر ان کی تحقیر کرتے ہیں

جبکہ اصل میں فرض تو یہ تھا کے ہم سب کو یکساں شعور دیں تا کہ ہر ایک اپنی شخصیت کے مطابق اپنی مخصوص صلاحیت پر بہترین عمل کر سکے کیونکہ الله نا انصافی نہیں کرتا اور سب کو یکساں مقدار میں   عقل اور صلاحیت دی ہے جو ایک ہو بہو ایک جیسی ہرگز نہیں ہو سکتی مگر اہمیت میں کسی طور کم نہیں - بس ہماری سمجھ اور پہچان میں کمی ہے  - ہمارا کام تھا کے اس عطا کردہ صلاحیت کو تلاش کریں اور نکھاریں اور فروغ دیں نہ کہ فیصلہ صادر کر دیں کے اس میں عقل اور صلاحیت کی کمی ہے 

لیکن ہم نے اپنے آرام و آسائش یا فائدے کو دیکھتے ہوہے چھوٹا یا مختصر راستہ بنایا اور  اپنی حیثیت کا غلط استعمال کیا اور لوگوں کو بھی وہی غلط راستہ اختیار کرنے پر لگا دیا

مقابلہ کرنے کی اجازت صرف نیکی میں ہے - نیکی میں سبقت لے جانے کے لئے بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کا حکم ہے کیونکہ نیکی میں آگے نکلنے کے لئے آدمی کو جھکنا پڑتا ہے نہ کہ اکڑنا

ہمارا مسلہ یہ ہے کہ ہم مشورہ لینے اور فیصلے کروانے کا کام  ملکی اداروں پر چھوڑ چکے ہیں یا اسی طرح کے دیگر تنظیموں کے حوالے کر دیتے ہیں اور پھر انہی پر کڑی تنقید بھی کرتے رہتے ہیں نا صرف فیصلوں پر بلکہ ناقص کارکردگی پر بھی  یعنی نقص نکالنا اور نکتہ چینی ہمارا مشغلہ ہے اور ہم در اصل نہ ٹھیک ہونے کے خواہشمند ہیں نہ ٹھیک کرنے کے کیونکہ کام ایسے ہی اچھا نکلتا ہے

یہ مشورہ دینے کا کام اور فیصلہ کرنے کا اختیار ہم نے آجکل انٹرنیٹ اور میڈیا کو بھی  دے دیا ہے کیونکہ انکی ایجاد کی وجہ بھی یہی تھی کے آدمی سہل پسند اور اپنے اصل کام یعنی دانائی تلاش کرنے اور بتدریج اس کو حاصل کرنے سے جان چھڑا لے اور بنی بنائی پکّی پکائی معلومات کو علم و دانائی تسلیم کر لے نہ تحقیق کرے نہ تدبر بس اندھی تقلید-  

جب تک مشورہ کرنے کا کام اور فیصلہ کرنے کا اختیار گھر خاندان یا بستی کے بابوں ، بزرگان اور پیروں کو حاصل رہا ہمیں اس کے لئے کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں تھی - دانائی سے رجوع کرنے کا کام ازل سے عبد تک انسان کی ضرورت ہے اور یہ کام الله نے اپنے نیک  بندوں یعنی بابوں کو دیا ہے جو زبردستی نہیں کرتے دھونس نئی جماتے بس سائل کے رجوع کرنے کے منتظر رہتے اور خاموشی سے دانائی کو پھیلاتے اور فروغ دیتے ہیں  

اور ہم انتظار کرتے ہیں کے کوئی مافوق الفطرت واقعہ رونما ہوگا آسمان سے ایک بابا اترے گا اور سپر مین کی طرح سب کچھ اپنی ہیبت اور طاقت سے ٹھیک کر دے گا - ہم کیوں کوشش کریں بندہ اتنا  بھی نیک نہیں ہونا چاہیے کے دنیا کی بھلائی کا ٹھیکہ اٹھا لے

لیکن یہ نیک بندے یہ اچھے لوگ یہ بابے ہمارے ارد گرد موجود ہوتے ہیں اکثر ملتے بھی ہیں ، لیکن ہم نہیں مانتے تسلیم نہیں کرتے کے ایسا انسان کس طرح میرے فیصلہ کرنے یا مشورے کے قابل ہو سکتا ہے اور تکبّر کا یہ پردہ جو ہمارے اور بابوں کے بیچ قائم ہے یہ ہمیں اسی طرح بے چین اور نا مراد رکھتا ہے - ہم تو بس کے ڈرائیور یا جہاز کے پائلٹ کو مانتے ہیں کے وہ ہمیں اپنی منزل مقصود تک با حفاظت  لے جاے گا ... کبھی اس کا لائسنس چیک نہیں کرتے نہ بینائی پر شبہ ہوتا ہے نہ عقل پر لیکن بابوں کی عقل پر ضرور شبہ رہتا ہے کیونکہ وہ تو نیکی کی بات بتاتے ہیں   

کاشف احمد
اسلام آباد ، پاکستان
٢٨ نومبر ٢٠١٩


No comments: