Saturday 23 November 2019

فیصلہ



فیصلہ کرنے کی ہمّت ایک بہت انمول تحفہ ہے جو کائنات کے خالق نے انسان کو دیا - یہی وہ واحد خاصیت ہے جو اسے دیگر تخلیقات سے ممتاز بنا کر اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کرتی ہے - کبھی آپ نے آئینے  کے روبرو ہو کر خود سے پوچھا کہ مجھے تو میرا خالق اشرف  المخلوقات کہتا ہے لیکن مجھے یقین کیوں نہیں آتا ؟

بچپن سے ہمیں جن عادات  و خصائل کی مشق کروائی  جاتی ہے ہم بڑے ہو کر انہی عادات کو اپنے عقائد کی حد تک اپنا لیتے ہیں اگر بستر سے نیچے پاؤں سیدھا جوتے میں ڈال کر اترنے کی پکّی عادت ہو تو بچہ بستر پر ہی بیٹھا روتا رہتا ہے کہ جوتا نہیں ہے کیا کروں

بلکل اسی طرح کپڑے بدلنے بال بنانے اور وقت پر کٹوانے کی عادت ہے- اسکول جانے کی عادت ہے پڑھنے کی عادت ہے لیکن ان عادتوں کا کیا ہوگا جو آپ کے بڑوں میں بھی نہیں تھیںاور ارد گرد  کے لوگوں میں بھی نہیں تھیں جیسے جرّت مندی معاشرے کی روش سے الگ بلکہ الٹ رو میں چلنے کی عادت- خاص طور پر وہاں جہاں مخالفت ہو اور سخت ضرورت ہو بہتری اور اصلاح کی - جیسے خاندانی رسم  و رواجات کا طوق گلے سے اتار پھینکنے کی عادت

یہی عادتیں آگے چل کر آدمی کو اشرف المخلوقات یعنی کائنات کے لیڈر اور قائد سے دھیرے دھیرے عوام اور پھر غلام میں تبدیل کرتی ہیں رومی نے کیا خوب فرمایا ہے کہ '' تم تو پروں کے ساتھ پیدا ہوے تھے ، اڑنے کے لئے... تو زمین پر رینگ کیوں رہے ہو ؟

رہ نما قائد یا لیڈر بننے کی صلاحیت کوئی نئی نہیں ہوتی جو بعد میں آدمی کے اندر انسٹال یا نصب کرنی ہوتی ہے یہ پیدائشی صلاحیت ہے جس کو دھیرے دھیرے اس کے  ارد گرد کا ماحول کچل کے رکھ دیتا ہے - میرے ایک بزرگ کہتے تھے کہ سارا کا سارا مسلہ ہمارے خیال کا ہوتا ہے جیسے بچپن میں اکثر سرکس جانے اور اس کے جانوروں کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوتا تھا تو ایک بار میں نے اپنے والد سے پوچھا کے یہ ہاتھی صرف ایک فٹ کے چھوٹے سے کمزور کلے( کھونٹے ) سے بندھا ہوا کھڑا رہتا ہے اگر تھوڑا سا زور لگاے تو کلے کی اتنی اوقات نہیں کے اتنے طاقتور جانور کے سامنے زمین میں گڑا رہے


والد صاحب مسکرا کر کہنے لگے یہ اس کلے کو  نہیں اکھاڑ سکتا کیونکہ بچپن سے جب یہ بہت چھوٹا ہوا کرتا تھا اسی سے باندھا جاتا تھا -تب  اس نے بہت زور لگایا ہوگا مگر اس وقت اس کے بس کی بات نہیں تھی - پھر آخر ہمت ہار کر اس نے مان لیا ار فیصلہ کر لیا کے اب ایسے ہی رہنا ہے…. بندھے ہوے

میرے اسکول کے زمانے کا ایک واقعہ اس موقع پر یاد آ گیا جب اپنے دو دوستوں کے ساتھ اچھل کود اور کھیل کے دوران ہم  ایک درخت پر چڑھ گئے - ہم تین دوست تھے کچھ دیر بعد میں اور ایک دوست نیچے کود گئے لیکن تیسرا دوست جس سے درخت سے اترا بھی  نہیں جا رہا تھا وہ کودنے سے بلکل انکار کر گیا اور گھبرا کر '' میں نہیں کودوں گا ...میں نہیں کودوں گا  چلانے لگا جبکہ درخت کوئی اتنا بھی اونچا  نہیں تھا  جس سے کود کر چوٹ لگنے کا خطرہ ہوتا - لیکن وہ فیصلہ نہیں کر پایا ہمت اور جرّت مندی نہیں دکھا سکا کیونکہ شائد بچپن سے اسکو اسی بات کی عادت تھی

خیال ہی در اصل فیصلہ کرنے میں مدد گار ہوتا ہے یا پھر اس کے مخالف جیسے ہیلن کیلر ایک ایسی عورت تھی جو بینائی اور شنوائی سے محروم پیدا ہوئی تھی - وہ سن نہیں سکتی تھی اس لئے بول بھی نہیں سکتی تھی اور جب تھوڑی بڑی ہوئی تو اپنی ایک قریبی رشتہ  دار خاتون کے بازو کو پکڑ کر کچھ اس طرح سے دبانے لگی جس سے وہ خاتون سمجھ گئی کہ اسے پانی پینا ہے - پھر انہوں نے مل کر ٹٹولنے اور چھو کر بات کرنے کی زبان ایجاد کر لی اور ہیلن ایک نامور ادیب اور شاعرہ کے طور پر جانی جانے لگی - اس نے ایک بار لکھا کہ میں خدا کی بے حد شکر گزار ہوں کے اس نے مجھے بینائی اور سننے کی طاقت کے بغیر پیدا کیا ورنہ  میں اتنی نامور کبھی نہ ہوتی جتنی اب ہوں کیونکہ ایسی بہت سی عورتیں ہیں جو ادیب بھی ہیں اور شاعرہ بھی مگر اتنی نامور نہیں ہو سکیں کیونکے وہ میری طرح اندھی گونگی اور بہری نہیں - محرومی بھی در اصل ایک فضل اور نعمت ہو سکتی ہے اگر ہم خیال پر کابو پا کر درست فیصلہ کر سکیں

ہیلن  نے بھی فیصلہ کر لیا تھا اس خیال کے مخالف سمت سفر کرنے کا جو کہتا تھا کے میں تو اندھی ہوں میں کیسے دیکھے بغیر کام کر سکتی ہوں پھر گونگی بہری بھی - بلکل اسی طرح کوئی بھی عادت ، طور طریقے رہن سہن اختیار کر لینے یا ترک کر دینے کے لئے صرف ہمارے خیالات کو یا تو جھٹکنا پڑتا ہے یا پھر اختیار کرنا پڑتا ہے اس کے لئے بس فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ  میں کن میں سے ہوں ؟ عوام میں سے یا پھر خواص میں سے.. انتظار کرنے والوں میں سے یا پھر انتظار کروانے والوں میں سے.. پھر جن میں سے ہوں ان میں ہی رہنا پڑتا ہے ویسا ہی سوچنا پڑتا ہے - کہتے ہیں اگر حاکم بننا چاہتے ہو تو سب سے پہلے حاکم کی طرح محسوس کرنا سیکھو- خود کو مالک یا حاکم محسوس نہیں  کرو گے ..یقین نہ ہوگا تو کوئی بھی نہیں مانے گا  - 

ورنہ پھر عوام کی طرح رہنا پڑے گا ان خرکار کے گدھوں کی طرح جن کو پورا دن کام میں لانے کے بعد شام کو اپنے ٹھکانے پر لے جا کربس ایک بارانکی ٹانگوں کے نچلے حصّے کے  گرد انگلیوں کو دائرے کی شکل میں ایک چھلا سا بنا کر تھوڑا  کس کے پکڑ  کر  چھوڑ دیتے ہیں اور بیچارہ گدھا پوری رات یہی سمجھتا ہے کہ وہ بندھا ہوا ہے - سرکس کا ہاتھی تو واقعی بندھا ہوا تھا لیکن گدھے کے لئے اس کی ضرورت بھی نہیں - ہم بھی اکثر اپنی سوچ سے اسی طرح بندھے ہوتے ہیں -

ہمارے اکثر خیالات در اصل اسی نوعیت کے ہوتے ہیں جو صرف خوف اور کم ہمّتی کی وجہ سے ہمیں اشرف المخلوقات کے درجے سے نیچے کی مخلوقات میں زندہ رکھتے ہیں - ایک اور بزرگ کا بہت دلچسپ واقعہ یاد آیا گیا جس میں ان کے ایک زخم میں گنگرین کی وجہ سے سے ڈاکٹروں نے مجبوراً انکی ٹانگ گھٹنے سے اوپر تک کاٹ دینے کا فیصلہ کر لیا اور جب انہیں آپریشن کے لئے لے جایا جانے لگا تو کہنے لگے کے میں بیہوشی کا انجکشن نہیں لوں گا آپ اس کے  بغیر آپریشن کریں

ڈاکٹر بہت حیران ہوے اور کہنے لگے کے جناب اعلیٰ حضرت آپ کی ٹانگ کو ران سے کاٹنا ہے معمولی بات نہیں بہت تکلیف دہ اور لمبا عمل ہے - لیکن وہ بزرگ کہنے لگے آپ اپنا کام کریں میں اپنا کام کروں گا کیونکہ نشے کے عالم میں انسان کا رشتہ اللہ سے ٹوٹ جاتا ہے اور میں یہ کسی حال میں برداشت نہیں کر سکتا - بہرحال ڈاکٹروں کو بات مان لینی پڑی اور وہ بزرگ منہ پر کپڑا لئے لیٹے رہے ار پورا آپریشن بغیر کسی مشکل کے ہو گیا

یہ  ایک بہت ہی اعلیٰ درجے کی مثال تھی جس میں فیصلہ کرنے کی ایک عظیم طاقت اور خیال پر کابو رکھنے اور انکو اپنی مرضی کی سمت میں چلانے کی صلاحیت دیکھنے میں آئ - ہم ایسی بلکہ ان سے  بھی بہت بہتر مثالوں سے واقف ہیں جن پر یقین کرنا بھی کئی بار محال ہوجاتا ہے لیکن یہی وہ موجزات ہوتے ہیں جن کو ہماری عقل یعنی اشرف المخلوقات سے نچلے درجے کی عقل سمجھ نہیں پاتی اور ہم صرف اس پر ایمان لانے کے دعوے پر اکتفا کر لیتے ہیں ورنہ ہمارے علاوہ کئی اور لوگ انکو مافوق الفطرت قصّے کہانیاں کہ کر یکسر رد بھی  کر دیتے ہیں -

بڑے اور درست فیصلے کرنے کی طاقت کا انحصار ہمارے خیلات یعنی سوچ پر منحصر  ہوتا ہے اور یہ سوچ ہی ہے جس پر کابو پانے کا ہنر انسان کو اشرف المخلوقات کہلانے کے قابل بناتا ہے جو صرف اور صرف اس ماحول میں رہنے سے ممکن ہے جہاں ارد گرد اشرف المخلوقات موجود ہوں اور ہم ان سے وابستگی کا قائم رکھ سکیں اگر بلمشافہ نہیں تو بلواسطہ ذریعہ اور وسائل سے  بھی ممکن ہے فیصلہ آپ خود کریں -

کاشف احمد
اسلام آباد ، پاکستان
٢٣ نومبر ٢٠١٩



No comments: