Monday 4 November 2019

آگہی رنج بھی ہے راحت بھی


عشق مرہم بھی ہے جراحت بھی
آگہی رنج بھی ہے راحت بھی

اور ہم لکھنے والے دراصل کاغذ پر لہو بکھیرنے والے ہیں جو گہری سوچ اور سمجھ کا مریض ہوتے ہیں-  دھیرے دھیرے بات اور صورتحال کی گہرائی میں اتر  جانے کی الّت اور صلاحیت ایک فکر کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے

فکر جو پریشانی ہرگز نہیں ہوتی کیونکہ پریشان تو سب ہوتے ہیں مگر صرف پریشان ...'' ہاے بیچارہ کتنا مظلوم ..یا.. کتنا ظلم ہوا ہے ...یا پھر ہم بیچارے مظلوم لاچار تو بے باس ہیں ...کیا کرسکتے ہیں ..صرف رونا رو سکتے ہیں اپنی بیماری لاچاری اور بے بسی  کی مظلومیت کا ...یہ بھی نہیں جانتے کے یہ شرک ہے ..الله سے ہمیشہ پرامید رہنا اور مثبت سوچ رکھنا فرض

 اور فکر مندی کچھ کر گزرنے کی تحریک کو کہتے ہیں جیسا کہ حکم ہے کہ جب کچھ غلط ہوتا دیکھو تو ہاتھ سے روکو اگر اس کی طاقت نہ ہو ( مطلب واقعی طاقت نہ ہو کوئی معزوری ہو .. بہانہ نہیں) تو منہ سے روکو  اور اس کی بھی طاقت نہیں تو دل میں برا سمجھو ...اسکو فکر کہتے ہیں

ہم لکھنے والے ہاتھ کی طاقت سے کچھ روکتے ..کچھ جاری کرتے ہیں مگر اس کے لئے گہری سوچ سے کام لینا پڑتا ہے جب تک کچھ گہرا کچھ نیا نہ ملے لکھا نہیں جا سکتا اور اس کے لئے وسیع مطالعہ شرط ہے

گہری سوچ کئی بار رنج میں مبتلا بھی کرتی ہے کیونکہ ہر ایک کی بظاھر نظر آنے والی اپنایت رواداری اور مہمان نوازی بظاھر آدمی کو سمجھ نہیں آتی مگر آگہی رکھنے والے اس کے پس پشت محرکات اور عوامل کو بھامپ لیتے ہیں جس سے رنج کا سامنا بھی ہوتا ہے

اسی طرح راحت ان عوامل اور محرکات سے حاصل ہوتی ہے جن کو دیکھ کر خود کو محفوظ رکھنے یا بہتر بنانے کی تحریک ہوتی ہے جیسے بظاھر اس وقت ملکی حالات میں ایک مذہبی جماعت جو در اصل سیاسی پارٹی ہے یعنی جے یو آئ ، وہ اس وقت آزادی مارچ اور دھرنے کی مدد سے ملک کو ظالم اور جعلی حکمرانوں سے نجات  دلانے کا ڈھونگ رچا کر اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کروانے اور رکاوٹیں پیدا کرنے کا کام کر رہی ہے جس سےعوام کو ہر طرح کی مشکلات کا سامنا ہے

اسی قسم کے لانگ مارچ  اور دھرنے ہم ماضی میں بھی دوسری سیاسی پارٹیوں کی طرف سے دیکھتے آے ہیں جن کے نتیجے میں کم از کم فوری طور پر تو کوئی نجات ملی نہ آزادی البتہ اس کے پس پردہ مقاصد ضرور پورے ہوے جو اب بھی ہونگے

یہ مقاصد ملک کے طول و عرض سے لوگوں کو معمولی معاوضے کے عوض ایک بڑا اجتماع اکٹھا کرنا ہوتا ہے جس کی آڑ میں ہر طرح کا غیر قانونی ڈیوٹی اور ٹیکس سے محفوظ مال اور خام مال بڑے تاجروں تک ملک کے بارڈر سے دارالحکومت تک پنہچایا جاتا ہے کیونکہ یہ بلا روک ٹوک با آسانی جلوس کی آڑ میں پہنچ جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں ٹیکس فری بھاری معاوضہ وصول ہوتا ہے جو منزل مقصود پر پہنچ کر دھرنے کی آڑ میں بیٹھ کر با آسانی مزاکرات  کے بہانے حساب کتاب کر کہ آپس میں تقسیم کر لیا جاتا 
ہے

اس کاروبار بلکہ کالے کاروبار میں ہر سیاستدان حصّہ دار ہے- جو بھی مین سٹریم میں شامل ہے- چاہے حکومت کا ہو حزب اختلاف کا یا کسی پارٹی کا - اس اربوں کے لین دین میں سب حصہ  دار ہوتے ہیں اور بظاھر پڑھی لکھی سمجھدار عوام ٹی وی پر ٹاک شو دیکھتی ہے اور اپنی دانشوری کے ساتھ مظلومیت جھاڑتی ہے اور بے چارے ان پڑھ جاہل غریب عوام کا رونا روتی ہے اور یہ غریب عوام اسی جلوس اور دھرنے میں پیسے کھرے کر رہے ہوتے ہیں - ان میں سے اکثر ان پڑھے لکھے جاہلوں پر ہنس رہے ہوتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ حکومت اور سیاستدان کرپشن کرتے ہیں جبکہ حقیقت میں یہ کرپشن ہی حکومت اورسیاستدان ہوتی ہے جو پوری دنیا میں جمہوریت کے نام پر در اصل یہ کالا کاروبار کرتی ہے

بس فرق صرف یہ ہے کے نام نہاد ترقی یافتہ دنیا میں اسے زیادہ موثر اور اچھے طریقے سے ان پڑھے لکھے جاہلوں سے چھپا لیا جاتا ہے اور جو چھپایا نا جا سکے اسے ہم جیسے ممالک میں آ کر کھلے عام کر لیا جاتا ہے- کیونکہ ہم جیسے ممالک ان کی نو آبادیآت ہی تو ہیں  براہ راست نا سہی بلواسطہ ان جاگیرداروں  اور سرمایا داروں پر نوازشات کے ذریعہ سہی- جو پہلے براہ راست نو آبادیآت کے نظام میں اپنی ہی قوم سے غدّاری  کے عوض جاگیردار بنے اب انہی کی نسلیں بلواسطہ خدمت کا فرض ادا کر رہی ہیں - یہی غدار آج بھی نا صرف یہ کالا کاروبار کرتے  ہیں بلکہ اپنے آقاؤں سے پوری وفادری کرتے ہوے ملک کی اصل دولت یعنی قدرتی ، معدنی یہاں تک کے زرعی ذخائر بھی ان ہنگاموں اور سیاسی ڈراموں کی آڑ میں میڈیا کی مدد سے پڑھے لکھے جاہلوں کو مصروف رکھ کر دھیرے دھیرے اپنے مغربی آقاؤں اور رشتہ داروں کے حوالے کرتے رہتے ہیں


کاشف احمد
اسلام آباد پاکستان
٤ نومبر ٢٠١٩


No comments: