Sunday 10 November 2019

مسئلہ سمجھنے کا نہیں .. سمجھ کر انجان بنے رہنے کا ہے



بات کو سمجھ کر بھی انجان بنے رہنے کی خوصورت ادا کبھی ہمارے  معاشرے کی خوبصورتی  ہوا کرتی تھی جب آپس کے قریبی رشتے حیا کی چاشنی  لیے ہوے  اشارتاً کہی گئی کوئی جی کو گدگدانے والی بات یا سرزنش  سن کر خاموشی سے انجان بنے رہنے کے باوجود  اس بات کو اس کے درست تناظر میں تسلیم بھی کر لیا کرتے تھے اور بنا کسی سے کہے شعار بنا لیا کرتے تھے کیونکہ احساس زندہ تھا اور وضح دار لوگ تھے جن میں خاندانی وقار ادب و لحاظ بھی موجود تھا  یہ اس دور کی عکاسی ہے جس میں اخلاقیات تمدن اور روایات کا پاس رکھا جاتا تھا

اور اب یہ بات ہمارے معاشرے میں مغربی اثر کی وجہ سے  بہت عام ہوتی جا رہی ہے کہ لوگ صحیح بات کو سمجھ کر اس سے انجان ہونے کا ناٹک کرتے ہیں صرف اس لیے کے کہیں اس وجہ سے ان کی بنی بنائی دکان خراب نہ ہو جاے - یا پھر انکو مخالف کے سامنے سبکی کا سامنہ نہ کرنا پڑے - جھکنا پڑے یا اپنی شکست تسلیم کرنی پڑ جاے اور لوگوں کے سامنے نیچا ہو نا پڑے

اس کو دوسرے لفظوں میں میسنہ  یا گُھنّا پَن بھی کہتے ہیں جب  لوگ اپنے مفاد یا منفی روش کے خلاف سچی یا کھری بات کسی مجمع یا مجلس میں سن لینے کے بعد صرف خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور سنی ان سنی کر دیتے ہیں - اکثر ایسے اجتماع میں جانے سے  گریز کرتے ہیں کیونکہ انکو تو عادت ہوتی ہے لوگوں کو الگ الگ مل کر ان کے کان بھرنے کی علیحدہ رکھنے کی اور فاصلے قائم رکھنے کی تا کہ علیحدہ علیحدہ سب کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر انکو اپنا مرید بنا کر رکھا جاے جو اپنی کمزوریوں کے ہاتھوں در اصل مرید نہیں مریض اور مجبور ہوتے ہیں

ایسا گُھنّا پَن ان لوگوں میں بھی پایا جاتا ہے جو خود کچھ کر دکھانے اور لوگوں کو اپنا گرویدہ صحیح معنوں میں بنا لینے کے قابل نہیں ہوتے - صرف اپنی مجبوریوں لا چاریوں اور مظلومیت کے اظہار سے خود کو لاڈلا بنانے  کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور لوگوں کے ترس اور  ہمدردی کو پیار اور عزت مان کر گزارہ کرتے ہیں - اسی ترس اور ہمدردی کی خیرات میں ملی ہوئی  سہولتوں   اور گھٹیا فائدوں کے حصول کی خاطر بات کو سمجھ کر بھی نہیں سمجھتے اور انجان بنے رہتے ہیں

ان مسخ شدہ معاشرتی قدروں کا شخسانہ ہمیں آدھے تیتر آدھے بٹیر بنا کر رکھتا ہے جب ضرورت پڑے مغربی اقدار اپنا لو اور جب کام نہ چلے کو مشرقی اقدار کے علمبردار بن جاؤ - کوئی ایک میعار کبھی مت اپناؤ کیونکہ یہ پالیسی کا حصّہ نہیں - خاص طور پر وہ ا علیٰ اقدار اور میعار جو اختیار کرے کا حکم الله کے مامور نے ہمیں دیا انکو  مت اپناؤ یا کم از کم مکمل طور پر تو کبھی بھی مت اپناؤ اور یہ مشہور فقرہ کہو
'' آدمی کو اب اتنا بھی اصولوں کا پابند نہیں ہونا چاہیے ''
'' بندے نو ہن اینا وی چنگا  نہیں ہونا چاہیدا ''

یعنی دوسرے لفظوں میں آدمی کو اب اتنا نیک بھی نہیں ہونا چاہیے اب ہم فلاں بزرگ کی طرح تو نہیں ہو سکتے نہ کہاں ہم اور کہاں وہ عظیم ہستی
کیسا اچھا بہانہ ہے جان چھڑالینے کا - درست اقدار اور اعلیٰ میعار اختیار کرنے سے گریزاں رہنے کا - اور پھر ستم بالاے ستم یہ کہ  اگر کبھی کسی کو اعلیٰ اقدار پر عمل پیرا ہوتا دیکھ لیں تو اسی قسم کے فقرے کسنے سے بھی باز نہیں آتے
 '' توں بڑا مولوی بندہ جا ریاں   ...ہن اینا وی گھر نو مسجد نہیں بنا کے رکھیدہ
یا پھر یہ کے '' مجھے سب پتا ہے اوپر اوپر سے نیک بنے پھرتے ہیں '' - اندر سے کتنے شوقین مزاج ہیں 

اور پھر ایک لمبی تقریر اپنے زندہ رہنے کے متوازن طریقے کو ثابت کرنے کے لئے ....یعنی صحیح بات کو سمجھ کر بھی غلط قرار دینا پھر اس کی حمایت میں لوگوں کو قائل کرنے کی بھی کوشش  کرنا  .. صرف اس لئے کے لوگ ان کی کمزوری ، مجبوری یا ضعیف العمری کے لحاظ میں چپ رہتے ہیں یا کسی اور مجبوری میں جواب نہیں دیتے وہ لگاتار اس کا فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں اور بات کو سمجھ کر بھی انجان بنے رہتے ہیں

کچھ لوگ تو اس سے بھی آگے بڑھ کر  درست بات کو سمجھ کر بھی اسے غلط ثابت کرنے کے پیسے  وصول کرتے ہیں اور اپنی تمام تر صلاحیتیں اسی پہ  صرف کرتے ہیں کہ ہماری اپنی معاشرتی و اخلاقی اقدار جو مستند اور صدیوں پر محیط ہیں وہ سراسر غلط اور فروسدہ ہونے کے علاوہ جاہلانہ ہی نہیں ظالمانہ بھی  ہیں

مشرقی اقدار اور مذہبی عقائد پر سب سے زیادہ تنقید ہمارے اپنے ہی کرتے ہیں جو در اصل اپنی کمزوریوں کے گھٹیا جواز گھڑ کر مغربی مشرکانہ تہذیب و اقدار کے گن گاتے ہوے اپنے ہی معاشرے کو برا بھلا کہنے کے پیسے بٹورتے ہیں اور جان بوجھ کر مغربی تصنیفی اور صحافتی حلقوں اور اداروں کی سوچی سمجھی پالیسی کی حمایت میں صرف پیسے کی خاطر اپنے معاشرے یہاں تک کے مذھبی عقائد کے خلاف زہر اگلنااپنا  شعار بنا لیتے ہیں - یہ بھی   مغربی سامراجی قوتوں کی اس پالیسی کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جتنا اچھا خود یہ مشرقی مصنف اپنے معاشرے کو جانتے ہوے اس کے خلاف لکھ اور بول  سکتے ہیں دوسرا کوئی نہیں لکھ سکتا اور  '' گھر کا بھیدی لنکا ڈھاے'' والی مثال خود  پر صادق لاتے ہوے  سب کچھ سمجھ کر انجان بنے رہتے ہیں  کیونکہ پیسہ کمانا ہوتا ہے

افسوس صد افسوس ایسے صحافیوں اور مصنفین پر جو اپنی قوم، معاشرے اور عقائد کا سودا سستے داموں کر لیتے ہیں - ''کھرا سچ'' اور برائی کو بے نقاب کرنے کے نام پر سستی شہرت تلاش کرتے  ہیں جبکہ ہماری اقدار اور  عقائد ہمیں پردہ پوشی اور صرف نظر کا حکم دیتے ہیں خاص طور پر ان حقائق سے جن کو سامنے لانے سے معاشرہ میں  بےچینی اضطراب بے راہ روی مایوسی اور فتنہ انگیزی کو فروغ ملے
کاشف احمد
اسلام آباد ، پاکستان
٠٩ نومبر ٢٠١٩

No comments: