Thursday 21 November 2019

بونگیاں



ہم ذہنی دباؤ اور پریشانی کا حل ڈھونڈتے ہیں ڈپریشن کا علاج کرنے کے لئے نت نئے ٹوٹکے اور حربے تلاش کرتے  رہتے ہیں - کچھ لوگ سمجھتے ہیں غم غلط کرنے کا علاج نشے میں ہے اور کچھ کہتے ہیں کوئی اچھی فل دیکھ لو گانے سن لو یا پھر کوئی اچھی پسندیدہ شاعری پڑھو یا کہانی - یا پھر کوئی نئی یا من پسند ڈش اور پکوان کھا کر آؤ اور سیر پر نکل جاؤ

خوش اور مطمئن رہنا انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے اس کے لئے وہ ہر طریقہ اختیار کرتا ہے کسی نہ کسی طرح بس خوش رہ سکے اطمینان حاصل ہو کیونکہ خوش نہ رہنے کی صورت میں ہی بیماریاں حملہ اور ہو جاتی ہیں جو صرف ذہنی ہی نہیں جسمانی بھی ہوتی ہے اور تحقیق نے ثابت کیا ہے کے ہماری ہر طرح کی بیماری کی اصل وجہ ذہنی آسودگی کا فقدان ہی ہوتا ہے

آسودگی کس کا نام ہے ؟ اور یہ صرف ذہنی آسودگی کیوں کہلاتی ہے ؟ دل کی آسودگی کیوں نہیں ؟ کیا   روحانی اطمینان کے بغیر یہ دونوں  آسودگیاں حاصل ہو جاتی ہیں   

ہماری خوشی اور اطمینان در اصل ہماری اس با ساختگی ، سادگی اور معصومیت میں پنہاں ہے جس کو ہمارے خالق نے ہماری فطرت کا بنیادی عنصر بنا کر ہمیں پیدا کیا یعنی فطرت سلیم یا یوں کہ لیں خالص اور اصل فطرت اور ہم اس اصل فطرت کو ابتدائی فطرت کہنے کے دھوکے میں مبتلا ہو کر سب سے پہلے اس پر کام کرتے ہوے بتدریج اپنے اندر سے معصومیت سادگی اور بے ساختگی کو ختم کرتے ہیں

اشفاق احمد صاحب کی ایک بات ذہن میں اکثر گونجتی ہے کے ہمارا معاشرہ بہت تیزی سے ڈپریشن کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے اور اس کی وجہ ہماری یہی  سوچ ہے جو ظاہری نمود و نمائش کی چکاچوند سے شدید متاثر ہو کر ظاہری اشیا کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتی ہے اور اسی  کو عقلمندی مانتی ہے - یہ مٹیریلسٹک  اپروچ کہلاتی ہے جو یہ سمجھتی ہے کے ہم شائد ان کنکریٹ کی دیواروں کو تعمیر کر کے گھر بنا کر خوشی حاصل کرتے ہیں یا لوہے کی خوبصورت سواریوں کو خرید کر اطمینان حاصل کر لیتے ہیں جو در اصل ہماری نا پختہ سوچ ہے

ہم سمجھتے ہیں کہ  سادگی بھولا پن اور معصومیت تو جاہل گنوار ذہن کی علامات  ہیں '' یار  وہ تو بہت ہی سادہ آدمی ہے '' یا پھر یہ کہتے ہیں کہ  فلاں آدمی تو بلکل ہی بونگا ہے`` - اس کی جگہ چالاکی تیزی اور سمجھداری ہی انسانی کامیابی کی علامت ہے اور سنجیدگی نفاست کی علامت سمجھی جاتی ہے - خوشگوار طبیعت, بات بات پر ہنس دینا اور خوب مذاق کرنا یا بچوں کی طرح منہ بسورنا یا مضحکہ خیز تاثرات اور حرکتیں کرنا نا پختہ , عجیب و غریب اور بے ہودہ بات سمجھتے ہیں لیکن بہت شوق سے مزاحیہ پروگرام اور فلمیں ضرور دیکھتے ہیں

بچوں کے ساتھ بیٹھے ہوں تو ان کی معصوم شرارتوں اوربے ساختہ  رد عمل بہت اچھا لگتا ہے اور ہمت کر کے کبھی کبھی خود پر سے سنجیدگی اور متانت کا خول اتار کر ان کے ساتھ بچے بھی بن جاتے ہیں اور بہت شوق سے ان کو منہ چڑا کر یا مضحکہ خیز شکلیں اور حرکتیں کر کے  بھی دکھاتے ہیں - کبھی یہی حرکات عام زندگی میں اپنے کسی ساتھی، نائب ہمسفر ، برتر اور بڑے کے سامنے کرنے کی ہمّت کر کے دیکھیں یا کم از کم صبح آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر تیار ہوتے ہوے خود کو مضحکہ خیز شکلیں بنا کر دکھائیںتو آپ کو جو بے ساختہ ہنسی آے گی وہ کسی بھی ریسٹورنٹ میں جا کر منہگے کھانے کھا کر نہیں ملتی 

اسی طرح بے تکلف دوستوں میں بیٹھے ہوں تو ہر طرح کی بونگیاں مار لیتے ہیں اور بات بات پر مزاح اور فکرے چست کرتے ہیں یہاں تک کے عجیب و غریب شکلیں بنا کر یا آنکھ کی ابرو سے مضحکہ خیز اشارے کر کے بات بے بات خوب ہنستے ہیں اور طبیعت خوشگوار اور مطمئن ہو جاتی ہے - ہم یہی ڈھونڈھتے ہیں معصومیت سادگی اور بونگا پن اور یہی در اصل ہماری اصل فطرت ہے جو ہمیں خالص اور اصلی انسان بنا کر رکھتی ہے کچھ لگی لپٹی نہیں کوئی بناوٹ نہیں - مگر نا جانے کیوں ہم اسی سے شرماتے اور گھبراتے  ہیں جو در اصل ہمارا اصل ہے

زندگی میں بے ساختگی اور بونگے پن کو قائم  رکھنے سے ہم اپنے اصل کے قریب  رہتے ہیں وہ فطری معصومیت ہی ہماری اصل پہچان ہے جس کو ہمارے لازمی عنصر کے طور پر ہماری ذات کا حصّہ بنا کر الله نے ہمیں زمین پر بھیجا وہ فطرت سلیم جس پر ہر بچہ پیدا ہوتا ہے اور اس کی اسی معصومیت سے سب کو پیار ہوتا ہے اور خوشی ملتی ہے جس میں ذرّہ برابر بھی بناوٹ کی ملاوٹ نہیں ہوتی اور اس کی وہی چھوٹی چھوٹی  بونگیاں  دل کو جیتے رکھتی ہیں

بابے کہتے ہیں اس معصومیت کا حساب آخر دینا ہوگا اور کوئی بھی جنت میں اس بورڈنگ پاس کے بغیر داخل نہیں ہوگا - پوچھا جاے گا کے اس معصومیت اس سادگی بیساختگی  اور خالص انسانیت کا کیا کیا تم   ؟نے... جسے دے کر بھیجا گیا تھا 

اس لئے خواتین و حضرات بے ساختگی ، معصومیت سادگی کے ساتھ ہلکے پھلکے شائستہ مزاح  اور کبھی کبھار خود سے ہی  بونگیاں مارنے سےنا  شرمائیں اور پورے بونگے پن کے ساتھ اپنی ڈپریشن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے ایسا بھگائیں کہ دوبارہ آپ کے آس پاس بھی نظر نہ آ سکے
کاشف احمد
اسلام آباد ، پاکستان
٢١ نومبر ٢٠١٩

No comments: