Saturday 25 May 2019

کوتاہ نظری کہاں ہے بھلا ..

ابن الہیثم نے سائنسی طریقے اور اصول وضح کئے جن سے آج بھی کسی شے کو جانچا جاتا ہے انکو باباۓ مناظریات ( یا آپٹکس)  مانا جاتا ہے
جابر بن حیان کو  باباۓ کیمیا(یعنی کیمسٹری ) مانا جاتا ہے 
فاطمہ الفہری نے دنیا کی پہلی درسگاہ (یونیورسٹی) کی بنیاد رکھی جس کی صنعتی انقلاب میں  بگاڑی ہوئی  شکل کا استعمال آج بھی جاری ہے


 یہودی,عیسائی اور مغرب سے  متاثر  دنیا  اتنی تنگ نظر ہے کہ مسلمان سائنسدانوں کی سات سو سالوں کی خدمات یکسر نذر انداز کرتی ہے جن خدمات اور ایجادات سے وہ خود بھی مستفید ہوے سیکھے اور اتنی مادی ترقی ممکن بنا سکے ,اس کو جان بوجھ کر نئی نسل کے ذہنوں سے اتار پھینکنا چاہتے ہیں- احسان فراموشی بے ہسی اور سفاکی کی یہ بھی ایک نہایت تکلیف دہ 



صرف مسلمانوں کی موجودہ ظاہری حالت کا بہانہ بنا کر ہر قسم کے الزامات کا رخ ان کی طرف کر رکھا ہے اور اپنے بڑے بڑے نقص ظلم اور نا انصافیاں, مسلمانوں کی کمزوریوں کو ضرورت سے زیادہ نمایاں کرنے کے شور اور آنکھیں چندھیا دینے والی خبروں کی زد پر رکھ کر لوگوں کا دھیان اپنے آپ سے ہٹا کر رکھنے میں کافی حد تک کامیاب ہیں- جبکہ مسلمانوں کی حالت اتنی بھی ناگفتہ بہ نہیں جتنی یہ مغربی اور ہمارے مغرب زدہ میڈیا کی پالیسی ہے جسکو یہ لگاتار لوگوں کہ ذہنوں میں ٹھونسنے کا کام چغلی کرنے والی فتنہ انگیز عورتوں کی طرح جاری رکھے ہوے  ہیں 


المیہ یہ کہ  یہ برائی ہمارے ہاں بہت بنیادی خاندانی اکائی تک سرایت کر چکی ہے  خاص طور پر ہماری عورتیں جو میڈیا سے بہت جلد اثر پکڑتی ہیں اس صیہونی چالاکی میں خوب تربیت یافتہ ہو چکی  ہیں اور اپنے خاندانی حریفوں اور اور دیگر نا پسندیدہ لوگوں پراپنی بھرپور جانبدارانہ روش اور اور فتنہ انگیزی کی میڈیا سے سیکھی ہوئی  یہی  ترکیبیں آزماتی  نظر آتی ہیں جس سے خاندان کی بنیادی اکائی تباہ ہو کر رہ جاتی ہے 


اسی مغربی اور صیہونی سوچ کی تقلید میں ہمارے نام نیہاد لیڈراور عوام  بھی اسی کام پر لگے ہوۓ ہیں - اپنی شخصییت کے جھول یہاں تک کے اپنے خاندان اور چہیتوں کی عیاشیاں, رنگ رلیاں’ بڑی بڑی چوریاں, بے راہ رویاں اور بدعنوانیاں ڈھامپ کر رکھنے کی کوشش میں مخالفین کی معمولی معمولی غلطیوں کا شوراتنا زیادہ اور اتنی اونچی سطح تک  مچایا جاتا ہے کہ لوگوں کی راۓ انکے حریفوں اور مخالفین کےبارے  میں انتہائی بری ہو جاتی ہے اور کوئی ان کی اور ان کے خاندان, قریبی ساتھیوں اور من پسند لوگوں  کی  بے ھودگیوں بے حیایوں, رنگ رلیوں اور بد عنوانیوں کی طرف دھیان تک نہیں دے پاتا- اس لئے بہت مزے سے ان کی اپنی, اور ان کے اپنے خاندان اور چہیتوں کی یہی روش اسی طرح سے جاری رہتی ہے


یہی منفی سوچ معاشرتی سطح پر پھیلے ہونے کی وجہ سے  نئی نسل انتہائی متذبذب اور پریشان ہو کر باغیانہ رویہ اختیار کرنے  پر مجبور ہو جاتی ہے جس کا نتیجہ انتہا پسندی کی صورت میں نمودار ہو رہا ہے اور نو جوان یا تو بندوک اٹھا لیتا ہے یا خودکشی پر مجبور ہو جاتا ہے یا کم از کم کسی ذہنی مرض کا شکارتو لازمی ہوتا ہے جب گھر میں اسے انتہائی سفاکانہ حد تک اپنے چہیتوں کے لئے جانبدارانہ رویہ اورفتنہ انگیزی دکھائی دیتی ہے اور باہر درسگاہوں اور پورے معاشرے میں اسی قسم کی سوچ کی ترویج اور عمل ہر سطح پر ہوتا ہوا نظر آتا ہےتو اس کے پاس رہ فرار کے علاوہ اور کوئی رہ اختیار کرنا نا ممکن نہیں رہتا- انتہا پسندی راہ  فرار کا ہی تو نام ہے- آزمائش اور ابتلا سے گھبرا کر شارٹ کٹ تلاش کرنا آسانی سے نجات حاصل کرنے کی خاطر نا جائز راستے اختیار کر لینا اسی کو کہتے ہیں 

یہ سب اس اندھی تقلید کا نتیجہ ہے جسے آج کی مسلمان اکثریت ترقی اور روشن خیالی کے نام پر تیزی سے اختیار کرتی چلی جا رہی ہے اور اسی تیزی سے خود کو صیہونیوں اور یہود سے مزید مشابہ کر رہی ہے 

Monday 6 May 2019

جینے دو

ڈاکٹر اور بلا نام کے بینڈ  کا ایک گانا اسی نام سے ، ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے آگاہی اور اس کے برے اثرات پر توجہ دلانے کے لئے بنیا گیا تھا مگر کیا ماحولیاتی آلودگی کوڑا کرکٹ اور  شور کا ہی نام ہے ؟

کیا ماحولیاتی آلودگی میں زہریلی فتنہ انگیز , منفی  بات چیت اور کوششیں شامل نہیں؟ غیبت چغلی بدظنی اور چالاکی اس زمرے میں نہیں آتی ؟ کیا وہ لوگ جو کسی نہ کسی طور پر ان زہریلی نیتوں اور کوششوں سے بچے ہوے ہیں ان کا کوئی حق نہیں کہ انکو بھی جینے دیا جاے؟ فتنہ انگیزی کو قتل سے زیادہ شدید جرم قرار دیا گیا ہے کیا یہ سب فتنہ انگیزی کے زمرے میں نہیں آتا؟ 

یا بس صرف بناوٹی  رشتے اور تعلقات کی بہتات اور اکثریت کی وجہ سے وہ چند خالص اور اصلی لوگ اور ان کے تعلقات بھی اسی طرح کے زہر آلود ماحول میں جینے کے لئے مجبور رہیں ؟

آخر کب تک ہم بناوٹی ماں باپ بہن بھائی میاں بیوی اور رشتے دار بنے رہنے والوں کے ساتھ بناوٹی تعلق نبھاتے جائیں؟ بناوٹ کی اس  دنیا میں  کوئی کسی کا ہوتا نہیں بس بہن بھائی, ماں باپ, میاں بیوی, خالہ ماموں, چچا چچی.  پھوپھی پھوپھا بنے رہتے ہیں  ... ہوتے نہیں 

بلکل ویسے ہی جیسے نوکری پرافسر اور ماتحت بنے ہوتے ہیں اور علیحدگی میں ایک دوسرے کی چغلی اور غیبت سے رہ نہیں سکتے کیونکہ ماں نے سکھایا تھا بیٹا پڑھ لکھ کرڈاکٹر انجنیئر یا بڑا 
افسر ضرور بن جانا ہونا نہیں خبردار کہیں اے سب ہو نا جاویں صرف بن کے رہنا ہے 

بلکل اسی طرح ہر تعلق ہر رشتہ ہر رتبہ اور مرتبہ رکھتے ہیں اور نبھاتے ہیں جبکہ بابے کہ گئے تھے

پتر صرف بنی نہ ... ہو جاویں

کیونکہ جو بنے نہیں رہتے تھے, ہو گئے تھے,  ان کے نام نامور ڈاکٹر انجینیروں افسروں اور ماہرین میں شمار ہوتے ہیں اور انگلیوں پر گنے جاتے ہیں- یہاں تک ہم ان عظیم ماؤں بہنوں بیٹیوں باپوں بھائیوں دادا دادی چچا اور ماموں کو بھی تاریخ میں بہت اچھی طرح جانتے تھے جو بنے ہوے نہیں تھے ہو گئے تھے-  بہت کم ہوتے ہیں جو اس بناوٹ کے سیلاب اور مصنوئی پن کی آلودگی سے بچ جاتے ہیں اور عظیم لوگ کہلاتے ہیں 

بس ان ہی میں سے وہ نیک اور دانا لوگ بھی ہوتے ہیں جو نیک اور دانا صرف بنے ہوے نہیں ہوتے.... خدارا ! انکو  اس زہریلی سوچ, منفی باتوں , فتنہ انگیزی , چالاکی اور غیبت کی ماحولیاتی آلودگی سے بچا لیں اور جینے دیں نشو نما پانے دیں  کیونکہ  یہی چند خالص وجود تو ان مردہ لوگوں کی دنیا میں زندہ بچے ہیں 

جینے دو بھئی جینے دو..... خدارا!.. جینے دو