Saturday 22 June 2019

احساس

احساس کس کو کہتے ہیں ؟ کیا کبھی کسی کو  یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ میں ہوں نہ فکرکیوں کرتے ہو ؟ سب ٹھیک ہو جاے گا انشا الله میں سب سمبھال لوں گا - کبھی کسی کی امید جگانے کی سکون قائم رکھنے کی کوشش عارضی طور پر نہیں مستقل طور پرکی ؟ جیسے  اپنی عادت میں شامل ہو صرف دعاؤں اور الله کے فضل کی امید رکھتے ہوے کرتے ہوۓ ایک شعار کی طرح ؟

اس لئے نہیں کے کسی طرح آگے نکل جاؤں اس سے  بیچارہ بنا کر اپنا زیر احسان مجبور لاچار اور کمزور ہونے کا احساس بڑھا کر لوگوں میں اپنے بڑے پن کو ثابت کرنے کے لئے- بظاھر حوصلہ افزائی ہمدردی اور دکھ اور فکر کا اظھار کبھی براہ راست یا بلواسطہ.. کے دیکھو بیچارہ کتنا مجبور اور اور مظلوم ہے.. کوئی مدد نہیں کرتا لو میں کروں مدد.. اور جیب سے نوٹ نکال کر دے دیا اور سمجھا کے میں نے بچارے کی مشکل آسان کردی-

کہتے ہیں نیکی یہ نہیں کہ بھوکا سوال کرے تو جیب سے نوٹ نکال کر دے دو .. نیکی یہ ہے کے تم خود بھی اتنے ہی بھوکے ہونے کے باوجود دوسرے کے سوال کرنے پر اس کی پوری حاجت روائی کرو مکمل دلجوئی کے ساتھ

کبھی اس مزے ، اس خوشی کو محسوس کیا جو کسی کو آرام پنھچاتے رہنے  ، درد کم کر دینے راحت پونھچانے سے ملتی ہے؟ جب اس درد زدہ انسان کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ دکھائی دیتی ہے ؟ یہی تو دنیا سے بہت تیزی سے کم ہوتا چلا جا رہا ہے

ہم کہتے ہمیں احساس ہے مگر کیا یہ احساس ہےکہ جیسے ہماری پسند کا خیال رکھا جانا ضروری ہے اسی طرح کسی اور کی پسند بھی ہو سکتی ہے-  جو شائد ہم سے یکسر مختلف اور عجیب بھی ہوسکتی ہے ؟ یہ بھی تو ہوسکتا ہے نا کے کسی کو ہماری کوئی پسند بہت عجیب دکھائی دیتی ہو اور سوچتا ہو کیسی عجیب بیہودہ پسند ہے ؟

اور اس سے بڑھ کر یہ کے ہم چاہتے ہیں کوئی ہمارے سامنے ناپسندیدہ بات یا حرکت نا کرے نا ہمیں کچھ ناپسندیدہ کرنے پر مجبور کرے نا کچھ نا پسندیدہ استعمال کرنے یا کھانے پینے کو دے مگر خود کبھی خیال نہیں کرتے کے ہماری کس حرکت سے کسی کے جذبات مجروح ہو گئے کس تعلق کس رجحان اور کس کام نے کسی کو اندر سے مستقل  طور پر توڑ کر رکھ دیا- کیونکہ ہم سمجھتے ہی نہیں کے کسی اور کو کچھ ایسا ہوسکتا ہے جو ہمیں نہیں ہوتا

سولومن جزائر کا نام تو سنا ہی ہوگا آپ نے- نہیں تو گوگل کر کے دیکھ لیں - وہاں جب کسی تعمیر کی خاطر کوئی بڑا درخت آڑے آ جاتا ہے توقدیم  روایت کی پاسداری کرتےہوۓ وہاں کے لوگ اس درخت کو کاٹنے کی بجاے اس کے گرد گھیرا ڈال کر اسکو خوب برا بھلا کہتے ہیں سلواتیں سناتے  ہیں کوستے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ درخت صرف ٣٠ دن میں سوکھ کر مرجاتا ہے - آگے آپ خود سمجھدار ہیں ہم تواپنی اولادوں تک کو نہیں بخشتے ، کوسنے دینے برا بھلا  کہنے یہاں تک کےزد کوب کرنے اور اپنی خود ساختہ مجبوریوں لاچاریوں اورخود دعوت دئیے ہوۓ مظالم کی کہانیاں دوستی کے نام پر سنا سنا کر اندر سے توڑنے پر مجبور کرنے سے باز نہیں آتے- جانتےبوجھتے ہوۓ ان معصوموں کو لوگوں کے سامنے تماشا بن ڈالنے سے باز نہیں آتے جنکو دنیا میں لانے کے ہم ذمہ دار اور جوابدہ ہیں انکا اسی طرح جسمانی اور روحانی قتل جاری رکھتے ہیں

کسی کی امیدوں خواہشوں تکلیفوں کا احساس کرنا, حوصلہ افزائی تعریف کرنا, دل کھول کر شاباشی دینا, غلطی ہوجانے پر دلجوئی کرنا, شکریہ ادا کرنا, مبارک باد دینا, خطا معاف کردینا اگر عادی مجرم نا ہو, ورنہ اصلاح کی کوشش کرنا, مثبت سوچ کے ساتھ تعمیری تنقید کرنا اور حل تجویز کرنا کیا- یہ سب خالق حقیقی کے نو انسان اور نظام ہستی کی تخیق پر یقین کا نام نہیں؟ ذرا سا وقت نکال کر سوچئیے گا ضرور!!! -

No comments: