Monday 16 September 2019

انکو مت روکو یہ بہت ضروری '' بتیاں'' دیکھ رہے ہیں

ہمارے دیسی ماحول میں جب کوئی پینڈو نیا نیا شہر آتا ہے تو شہر کی چکاچوند آنکھوں کو خیرا کر دینے والی ہوتی ہے اور یہ پینڈو  اتنا مسحور ہو جاتا ہے کے کچھ او کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتا کسی اور پر دھیان نہیں رہتا اور پھر شہر کی رعنائیاں اور حسن دیکھنے میں اس قدر مشغول ہو جاتا ہے کہ سب کچھ بھول جاتا ہے- یہاں تک کے جو بتیاں دکھانے شہر لایا اس کی بھی اوقات نہیں رہتی ان بتیوں ، آزادیوں اور تفریح کے آگےکیونکہ ایسا پینڈو اکثراپنی اوقات اور آپے سے باہر رہتا ہے 

 میری مراد صرف دیسی اور پسماندہ  ماحول سے شہر آنے تک محدود نہیں بلکہ یہ شہر ملک کے اندر والے ہی نہیں ملک سے باہر والے بھی ہیں جہاں ایک پسماندہ علاقے سے جانے والے پینڈو ہی ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثر بہت دیر تک پینڈو ہی رہتے ہیں چاہے اوپر سے کتنے بھی مہذب اور مقامی شہری بنتے پھریں بہت ہے کم ایسے ہیں جو تہذیب و تمدّن کو اصل میں اپنا پاتے ہیں 

یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کے دیسی ہونا پینڈو اور گنوار ہونا  نہیں ہوتا دیسی ہونا تو ایک کلچر اور ثقافت کو اپنا کر رکھنے اور اس پر فخر کرنے کا نام ہے- یہاں ذکر صرف ان پینڈووں کا ہے جن کو دیکھ کر وہ مثال یاد آ جاتی ہے -'' کوا چلا ہنس کی چال.. اپنی چال بھی بھول گیا'' 

ایسے پینڈو کے بہت سے لطیفے بھی مشہور ہیں جو اپنی سادگی اور شعور کی کمی کا شکار ہو کر شہر میں پیدا ہوکر جوان ہونے والوں کے تمسخر کا نشانہ بنتے ہیں-  مگر بیچارے کھسیانے اس کے باوجود اپنی سی ہر کوشش سے باز نہیں آتے کے کسی بھی طرح وہ بھی مقامی لوگوں میں شمار ہونے لگیں- بلکہ انکی کوشش تو یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح خود کو مقامی لوگوں سے بھی بہتر ثابت کریں اور اس کوشش کی تبع آزمائی وہ اس شہر میں نۓ انے والے پینڈو افراد پر بھرپور آزماتے ہیں '' نواں آیاں آئیں سوہنیا'' کا مشہور ڈائلاگ کچھ اسی طرف اشارہ کرتا ہے ..شائد کسی پرانے متاثر شہر ، جس کو آزادی اور تفریح کی غلط فہمی ختم ہو جانے کے بعد کسی تازہ تازہ پینڈو کی آمد پر یہ کہنے کا موقع ملا ہو 

مگر ستم ظریفی بلکہ تکلیف دہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ پرانے پینڈو ان نۓاور تازہ ہجرت کرنے والے پینڈووں کے سامنے تو تیس مار خان اور پھر شہر اوراسکی روشن  بتیوں کے مستند عالم بن جاتے ہیں مگر اپنی اس شاندار کامیابی کی خوشی میں یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ شہر کے جم پل یعنی پیدائشی اورمقامی لوگ پینڈو نہیں جو ان کی استادی کا دم بھرنے لگ جائیں گے ...وہ اپنے ان جونیئر پینڈو افراد کی استادی کرنے کے زعم میں کئی بار مقامی شہریوں  کو بھی اپنی استادی کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے اور یہ لطیفے اکثر بن جاتے ہیں 

ایک شہر میں پیدا ہوکر جوان ہونے والے مقامی شخص ںے جب ایک پینڈو کو لنچ کے لئے ایک ماڈرن ریسٹورینٹ میں دعوت دی تو وہ اپنے ساتھ اپنے بعد  شہر آے ہوے پینڈو کو بھی اپنے ساتھ لے آیا- شائد اس لئے کے بیچارے نۓ انے والے پر اپنے شہر پر مکمل اتھارٹی ہونے کا ثبوت دے سکے مگر بیچارہ خود بھی پہلی بار ایسے شاندار ریسٹورینٹ میں آیا تو حیران پریشان ہو گیا-  آخر کھانے کی میز پر میزبان ، جو مقامی ہونے کی وجہ سے پینڈو کی خصلت سے واقف تھا جان بوجھ کر میز پر پڑے ہوے ذرا مختلف رنگ اور ڈیزائن کے پیپر نیپکن پر جان بوجھ کر نمک مرچ چھڑک کر تھوڑا سے کھانے کا ڈرامہ کیا توپرانے والے  پینڈو ںے فوری تقلید کی مگر جب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اپنے ساتھ والے پینڈو کو چپکے سے کہنے لگا '' نا کھائیں اوے پھکا ای 

خیر میرا مقصد مذاق اڑانا ہرگز نہیں بس اتنا کہنا ہے کہ  دنیا کی چکا چوند سے متاثر بیسچارے پینڈو جو صرف بتیاں دیکھتے رہ جاتے ہیں اور جو اصل کام کرنے دنیا میں اتے ہیں اسے بھول جاتے ہیں- یا اگر یاد بھی رہے تو مصروف بہت ہوتے ہیں-  کبھی کبھی بتیاں دیکھنے اور دنیا کی چکاچوند سمیٹنے سے فرصت ملے تو وہ اصل کام بھی کر لیتے ہیں جس کے لئے دنیا میں بھیجا گیا تھا- مگر پنجابی اصطلاح کے مطابق '' مغروں لان '' والے انداز میں جلدی جلدی جان چھڑا کر واپس اپنے بتیاں دیکھنے کے کام میں لگ جاتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ اس بتیاں دیکھنے کے کام کا انتظام کرنے میں اور وہ سب کچھ کمانے اور سمیٹنے میں لگ جاتے ہیں جس سے زیادہ سے زیادہ بتیاں دیکھی جا سکیں صرف آزادی اور تفریح کے لئے 

دنیا میں آئے تھے ان سب انتظامات صلاحیتوں اور ٹیکنالوجی  کو اپنے اصل مقصد اور کام میں صرف کرنے اور بھول گئے یا ''میسنے'' بن گئے اور ساری تدبیریں اور  پلاننگ کرتے ہیں بس اپنی آزادی اور تفریح کے لئے- نا صرف اپنی صلاحیتیں تدبیریں اور سکیمیں اس میں صرف کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی زور شور سے اسی کی تلقین کرتے ہیں اور تربیت دیتے ہیں اور کچھ تو ایسے ہیں جو نمونہ ایسا پیش کرتے ہیں کے بس اوپر اوپر  سے کبھی کبھی اصل مقصد اور کام کرتے ہوے بھی نظر آؤ اندر سے نہیں- اوپر اوپر سے بہت تن دہی سے '' لک بزی ڈو نتھنگ'' انداز میں کاغذ کالے کرتے بڑی بڑی تقریریں جھاڑتے ہوے اپنے اصل کام کرنے کی نمائش کرتے نظرآتے ہیں- اندر سے بس آزادی تفریح اور بتیاں دیکھںے کے شیدائی اور اسی کے انتظام میں مگن-

یہ تو ایسے ہی ہوا نہ  کہ کاروبار کے مالک اور خالق ںے  اپنے ملازم کو کسی کام سے دوسرے شہر بھیجا اور سارا خرچہ اور انتظام بھی دینے کا وعدہ کیا اگر کام سہی سہی کر کے آے-  مگر ملازم بیچارہ پینڈو وہاں جا کر شہر کی چکا چوند میں ایسا مگن ہوا کہ اصل کام چھوڑ ہی دیا 

مالک ںے  بار بار یاددلانے والے بھی بھیجے جو اس کا پیغام لے کر آتے رہے اور یاد دلاتے رہے کہ اے بندے اے ملازم تو اصل میں کس کام سے آیا تھا اور اب کیا کر رہا ہے یہاں؟  مالک تک کو بھول گیا جس ںے بھیجا تھا اور جس کے پاس واپس بھی جانا ہے ؟ حد تو یہ کے تھوڑے بہت نہیں ایک لاکھ چوبیس ہزار یاد دلانے والے آے مگر بہت سارے ملازم ابھی تک پینڈو کے پینڈو ہی رہے صرف بتیاں دیکھنے ، آزادی اور تفریح کرنے میں مگن اور ہر ایک پر یہ ثابت کرنے میں مشغول کے وہ پینڈو نہیں ہیں اور اسی دوڑ میں آگے سے آگے تیز سے تیز اور  شارٹ کٹ لگاتے ہوے نا صرف دوسرے پیچھے رہ جانے والے یا نۓ آنے والے پینڈو وں کے سامنے اندھوں میں کانے راجے بنےرہنے کو اصل کامیابی سمجھتے ہیں بلکہ اس خوشفہمی کا شکار بھی ہو جاتے ہیں کے وہ باشعور اور دونوں آنکھیں رکھنے والوں کو بھی اپنی چالاکی سے مات دے سکتے ہیں 

یہ پینڈو ملازم تو بہت قابل ہو گیا ...پڑھ لکھ گیا عالم فاضل ہو گیا اور نام رکھ لیا قاضی- سمجھدار ہو گیا - وہ ان  دقیانوسی باتوں میں کیسے آ جاۓ اتنی آسانی سے ؟ یہ لوگ شہر میں آ کر اسی کی رعنائیوں اور خوبصورتیوں کو ہی کامیابی سمجھتے  ہیں اور مقامی دنیاوی لوگوں کی شاطرانہ چالوں کو علم و ہنر اور عقلمندی سمجھ بیٹھے ہیں- انہی کی تقلید میں اندھا دھن بھاگے چلے جا رہے ہیں -جانتے بوجھتے ہوے ‘’گھنے اور میسنے’’ بن کر غلط کو سہی اور سہی کو غلط کہتے چلے جاتے ہیں اور اس پر فخر محسوس کرتے ہیں اور پیچھے رہ جانے والے پینڈو وں  کو بھی یہی سبق رٹاتے ہیں    

میں سوچتا ہوں کب تک ....اور کتنی عمر چاہیے انکو یہ بات سمجھنے میں کہ یہ  کرنے کیا آے تھے اور کر کیا رہے ہیں- سنا تھا کہ چالیس سال بعد آدمی میں پختگی اور شعور آ جاتا ہے مگر یہاں تو شوققینی کی کوئی انتہا ہی  نظر نہیں آتی ہر عمر کا پینڈو ہے یہاں جس کا بتیوں کا شوق ہی ختم نہیں ہوتا- اور اگر کچھ کہنے کی یا سمجھانے کی کوشش کروکہ ’’ بس کرو ہن کنی دیر بتیاں ویکھی جاؤ گے اصل کم ول وی آ جاؤ’’ تو پنجے جھاڑ کر چڑھ دوڑتے ہیں '' ساہنو سمجھا ریا ایں؟  اے دن وی آنا سی ہن؟

اس لئے بس ان پینڈووں  کو نا چھیڑو یہ بتیاں دیکھنے والے بے حد ضروری کام میں انتہائی مصروف ہیں 

No comments: