Thursday 3 October 2019

صحت مند اور کامیاب زندگی مثبت سوچ سے ممکن ہے - ایک مستند تحقیق

  ڈاکٹر ٹریوس بریڈبری اپنے ایک لکنڈان آرٹیکل میں اس تحقیق پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوے لکھتے  ہیں کہ  مثبت سوچ اور طرز زندگی نہ صرف خوش و خرّم رہنے کا راز ہوتا ہے بلکہ یہ صحتمند اور تندرست اور توانا رہنے کے لئے بھی لازمی ہے

ہماری سب ہے بیماریوں کی وجوہات در اصل غیر صحت مندانہ طرز زندگی نہیں ، ہماری منفی سوچ اور اس پر مبنی ہمارے طور طریقے اور ان کا بے جا اظہار اور پھیلاؤ ہوتا ہے - منفی سوچ اور اس کے نتیجے میں طرز عمل  نہ صرف ہمارے اپنے لئے انتہائی نقصان دہ ہوتا ہے بلکہ یہ ہمارے  ارد گرد رہنے والوں کو بھی شدید ذہنی کشمکش کا شکار کر دیتا ہے جس کا  نتیجہ ان کی بیماریوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے

اسی لیے ہمیں اپنا ایک اچھا اور مخلص دوست ہونا چاہیے کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو ہم با آسانی اپنے شدید دشمن بن جاتے ہیں اور اچھا دوست در اصل دوست کی بھلائی ہر قیمت پر چاہتا ہے نہ کہ پریشانی اور بیماری

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن..... اپنا تو بن

جب ہمیں نقصان یا کسی صدمے اور مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو اکثر یہ نصیحت سننے کو ملتی ہے کہ مثبت رویہ رکھو یا پھر یہ دانشمندانہ مشورہ کہ گلاس آدھا بھرا ہوا ہے یا آدھا خالی ہے یہ تمہاری سوچ پر منحصر ہے - ایسا رویہ خاص طور پر ایسے حالات میں غیر سنجیدہ یا پھر غیر حقیقت پسندانہ ہی لگتا ہے کیونکہ ایسے صورت حال میں مثبت سوچنا ایک خیالی پلاؤ یا پھر خوش فہمی محسوس ہوتی ہے

مثبت رویہ اختیار کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہوتی ہے کہ ہمارا دماغ  خطرات پر توجہ رکھنے اور دفع کے لئے تیار رہنے کے لئے سب سے زیادہ کام کرتا ہے- ہماری ذہنی ساخت ہر صورت میں ہمارے تحفظ اور آرام کو ترجیح دینے لئے بنی ہے- یہ مدافعانہ اور اپنی بقا کو ہر صورت ممکن بنانے کا طریقہ کار شروع کے انسانوں کے لئے بہت کر آمد تھا جب وہ شکار کرنے اور چیزیں اکٹھا کرنے کے کام سے گزر بسر کیا کرتے تھے - وہ اپنا ہر دن اس بات کے شدید خطرے میں گزارتے  تھے کہ  آس پاس سے ہی کوئی انکو جان سے مار ڈالے گا

مگر یہ لاکھوں سال پہلے کا زمانہ تھا-  آج کل اس نوعیت کا طرز عمل اور حکمت عملی صرف منفی اور زہریلی  سوچ اور مایوسی کو جنم دیتی ہے جو ہمارے دماغ کے  اس فرسودہ  رجحان کو ظاہر کرتی ہے جو اس وقت تک خطرات اور برائی کو کرید کرید کر ڈھونڈتا ہے جب تک وہ مل نہیں جاتی - اس خطرناک رجحان پر سٹیو  ریزو کے بہت ہی دلچسپ آرٹیکل کی یاد آتی ہے جس میں انہوں نے بہت تفصیل سے ثابت کیا ہے کہ یہ  رجحان کیسے آپ کی زندگی کو تباہ و برباد کرتا ہے - اس آرٹیکل  پر آئندہ تحریر میں بات کریں گے

اس وقت یہ سمجھنا لازمی ہے کہ یہ منفی رجحانات جو برائی اور خطرات کی تلاش میں ہمہ وقت سرگرداں رہتے ہیں وہ ان خطرات اور برائیوں کو کئی گناہ بڑھا چڑھا دیتے ہیں اور  حالات  کو مزید برا ظاہر کرتے ہیں- در اصل یہ دفاعی نظام صرف اس وقت سہی کام کرتا ہے جب کوئی خطرہ بلکل سامنے واقعی موجود ہوتا ہے ورنہ جب خطرے سے کہیں پہلے صرف سنی سنائی باتوں پر عمل کرتے ہوے اس فرسودہ طریقہ پر دماغ کو عمل کرنے دیا جاے تو یہ زندگی کو اجیرن بنا  دیتا ہے جس کے تباہ کن نتائج  نکلتے ہیں

دنیا میں کئی مستند تحقیقوں نے  ثابت کیا ہے کے منفی اور تکلیف دہ سوچ رکھنے والے ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں جس کی تعداد مثبت اور رجاعیت پسند یعنی آپٹی مسٹ لوگوں  سے کہیں زیادہ ہے جو ان کے مقابلے میں خوش خرم اور صحت مند زندگی گزارتے ہیں

ایک بہت مشہور امریکی ماہر نفسیات مارٹن سلگمن نے اپنی طویل اور موثر تحقیق سے یہ ثابت کیا  ہے کہ ڈپریشن کے شکار مریض وہی لوگ ہوتے ہیں جن کی سوچ  منفی اور تکلیف دہ ہوتی ہے اور ان کی توجہ برائی اور خطرات پر مرکوز رہنے والے فرسودہ دماغی رجحانات پر مبنی  ہوتی ہے اور وہ اس بات کو حقیقت پسندی کا نام دیتےہوے اس کو اپنی ہی ناکامی اور برائی سمجھتے ہیں-  جبکہ مثبت سوچ رکھنے والے آپٹی مسٹ لوگ ناکامیوں کو بہتری پیدا کرنے والے تجربات اور سیکھنے کا فائدہ مند عمل تسلیم کرتے ہیں جس سے وہ خود کو مزید بہتر بناتے ہیں

جسمانی صحت پر تحقیق کے دوران ڈاکٹر سلگمن نے ڈارٹمن اور مشیگن یونیورسٹی پچیس( ٢٥)  سے پینسٹھ ( ٦٥   )  سال کے لوگوں کی زندگی  کا تفصیلی  مطالعہ کرنے کے بعد ثابت کیا کہ  منفی سوچ اور رجحانات رکھنے والے مثبت سوچ رکھنے والوں سے کہیں زیادہ صحت کی خرابی اور جسمانی امراض کا شکار ہوتے ہیں اور بہت تیزی سے بوڑھے ہوتے ہیں

سلگمن کی تحقیق مزید توثیق صحت پر  مشہور اور مستند تحقیقی ادارے میو کلینک نے بھی کی جب انہوں نے ثابت کیا  کہ مثبت سوچ رکھنے والے آپٹی مسٹ لوگوں میں دل کے امراض کی شرح منفی سوچ والے لوگوں کے مقابلے بہت  ہی کم ہے - اگرچہ یہ بات پوری طرح سے دریافت کرنے میں ابھی وقت لگے کے منفی سوچ اور رجحان کس طرح صحت پر برا اثر چھوڑتے ہیں لیکن یہ بات ثابت شدہ ہے کے منفی سوچ جسم کے مدافعتی نظام کو کمزور کر دیتی ہے اور اس پر علاج کا اثر  نہیں ہوتا یا پھر بہت سست اور تھوڑا اثر ہوتا ہے

منفی سوچ کے جسمانی اور ذہنی صحت پر شدید نقصان دہ اثرات کو سامنے رکھتےہوے ڈاکٹر سلگمن نے اپنی تحقیق کو مزید آگے بڑھایا اور اس کے انسانی کارکردگی پر اثرات پر بھی تحقیق کی اور یہ بات سامنے آئ کہ انشورنس جیسے مشکل کام کے سیلز مین جو مثبت سوچ کے مالک تھے انہوں نے منفی سوچ رکھنے والوں کے مقابلے میں سینتیس ( ٣٧ ) فیصد زیادہ پویلسیاں فروخت کیں جبکہ منفی سوچ کے حامل سیلز من تو ملازمت  کے  پہلے سال نوکری چھوڑنے کا سوچنے لگے تھے

ڈاکٹر سلگمن نے مثبت سوچ اور آپٹیمزم پر دنیا میں سب سے زیادہ تحقیق اور مطالعہ کر رکھا ہے وہ کہتے ہیں کہ منفی سوچ کے دماغی رجحانات کو تھوڑی کوشش اور درست معلومات سے مثبت سوچ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اور تحقیق نے وہ بھی ثابت کیا ہے کہ  آسان اور سادہ تکنیکی مدد سے لوگ اپنی منفی سوچ کو مثبت بنا کر مستقل بنیادوں  پر خوش و خرم اور صحت مند زندگی گزار سکتے  ہیں

میرا ماننا ہے کہ ماہرین کی مدد کے ساتھ بہت ضروری ہے کہ یقین اور  بھروسہ  قائم رکھا جاے جس کی کمی انسان کو منفی سوچ کی جانب لے جاتی ہے اور طرح طرح کو خوف میں مبتلا کر کے بزدل اور کمزور بنا دیتی ہے - یقین اور بھروسہ دار اصل ایمان کی کی پہلی سیڑھی ہوتے  ہیں اور انسان جب  ایمان تک پہنچ کر  اس پر  مضبوطی سے کاربند ہوتا ہے تو وہ  خود کو با آسانی منفی رجحانات اور سوچوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے کیونکہ مثبت ہونا اچھائی اور نیکی کی علامت ہے اور الله ہمیں اسی کی ہدایت دیتا ہے

 ہمارے دماغ کو در اصل تھوڑی سی مدد درکار ہوتی ہے تا کہ وہ   اندر کی اس منفی آوازکو  شکست دے سکے  جو منفی سوچ کو آپ پر حاوی کرتی ہے - آپ ان 2  آسان طریقوں سے اپنے دماغ کو مثبت سوچنے کے لئے تیار کر سکتے ہیں

)  حقیقت کو  افسانے سے الگ کرنا
سب سے پہلے یہ سیکھنا ضروری ہے کہ اپنی توجہ مثبت سوچ پر مرکوز رکھنے کے لئے  منفی سوچ کو شروع ہوتے ہی کیسے روکا جا سکتا ہے - جتنا آپ منفی سوچ کو دماغ میں گھومنے دیتے ہیں اتنا ہی اسے طاقتور  بنا دیتے ہیں - ہماری زیادہ تر منفی سوچیں صرف سوچیں ہوتی ہیں ..حقیقت نہیں

جب یہ لگنے لگے کہ آپ اپنی منفی سوچ پر یقین کرنے لگے ہیں تو آپ کے اندر کی آواز کو آپ سے کہنا چاہیے '' رکو اور اور ان سب سوچوں کو لکھنا شروع کرو''. آپ لکھ ڈالیں ہاں واقعی سب کچھ لکھ دیں اور جب ایک بار آپ تھوڑا خود پر قابو پانے کے بعد جو کچھ بھی  آپ نے لکھا ہے غور سے پڑھ کر دیکھیں تو آپ کو سمجھ آنے لگے گا کہ  ان میں سے کچھ بھی حقیقت نہیں ...الفاظ جیسے ''نہ ممکن''، ''ہرگز نہیں'' یا پھر ''بہت ہی برا'' کچھ بھی نہیں

کیا آپ ہمیشہ چابیاں بھول جاتے ہیں ؟ ایسا بلکل نہیں ..ہو سکتا ہے اکثر بھول جاتے ہوں گے- مگر ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا اور زیادہ تر آپ کو یاد رہتا ہے - کیا آپ کو اپنی مشکل کا کبھی کوئی حل نہیں مل سکتا ؟ اگر آپ واقعی اتنے مجبور ہیں تو کیا ایسا نہیں ہے کہ آپ کسی کی  مدد لینے کے لئے کترا رہے ہیں ؟ یا پھر سوچا ہی  نہیں کہ  کوئی اس قابل ہوگا ؟ اگر یہ ایک ایسی مشکل ہے جس کو کوئی حل نہیں کارسکتا یا آپ  کسی سے ذکر نہیں کرسکتے تو پھر کیوں دیوار سے سر پھوڑتے جا رہے ہیں ؟ الله پر یقین کا یہی تو ثبوت ہوتا ہے کہ جب سب طرف سے ناممکن ہو جاے تو بس پھر واقعی حل نکل آے گا کیونکہ یہ صرف الله کے ہاتھ میں ہے-  اور وہی اصل میں وسیلے بھی پیدا کرتا ہے اور وسیلے کی جانب راہ دکھاتا ہے  - وہی سب سے بڑی حکمت اور دانائی رکھتا ہے.. ہم نہیں

مثبت پہلو کی دریافت اور شناخت کرنا 2
اب جبکہ آپ کو ایک بہترین طریقہ منفی سوچ سے بچنے کا مل چکا ہے تو  یہ وقت ہے اپنے دماغ کو مثبت سوچ  اور آپٹیمزم پر مرکوز رکھنے کا- ویسے تو یہ قدرتی طور پر بتدریج کوشش کرتے رہنے سے ہوتا ہے اور آپ کو پوری ہمت سے کوشش کر کے خود کو مثبت باتوں اور واقعیات پر قائم رکھنا ہوتا ہے - مگر ایسا کرنا اس وقت  آسان ہوتا ہے جب  ارد گرد  کا ماحول اچھا ہو اور سب کچھ ٹھیک چل رہا ہو-  لیکن ایسا کرنا بہت مشکل ہو جاتا  ہوتا ہے جب صورتحال بگڑی ہوئی ہو اور حالات خراب ہونے لگیں

ایسے میں فوری طور پر اپنی توجہ اس دن ہونے والی کسی اچھی بات پر مرکوز کریں اور اگر اس دن ایسا کچھ نہ ہوا ہو تو اس سے پہلے کسی دن یا پچھلے ہفتے جب کچھ اچھا ہوا ہو- چاہے کتنا بھی معمولی لگے اپنی توجہ اور دھیان اس طرف کریں- اسی طرح  کسی آنے والے شاندار وقت کو سوچ کر بھی خود کو منفی سوچ سے بچایا جا سکتا ہے

لیکن سب سے بہترین حل فوری  طور پر الله کے حضور حاضر ہو جانا ہے آدھی پریشانی تو اس حاضری کی تیاری میں ہی بھول جاتی ہے جب آدمی تفصیلی وضو کر کے نماز کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے اور نوافل میں خوب دل کا بوجھ ہلکا کر لیتا ہے

کاشف احمد
اسلام آباد پاکستان
٣ اکتوبر ٢٠١٩

No comments: