Monday 7 October 2019

منفی سوچ زندگی کو کیسےبرباد کرتی ہے


  جیسا کہ میں نے اپنے پہلے شائع شدہ  مضمون میں سٹیو ریزو  کے نہایت  دلچسپ آرٹیکل کا ذکر کیا تھا  جو منفی سوچ اور رویہ کہ  زندگی پرتباہ کن اثرات پر بہت دلچسپ انداز سے  لکھا گیا ہے 

وہ کہتے ہیں میں ایک منفی خیالات کی حامل خاتون  کو جانتا ہوں جو کئی سال ایک خوبصرت جگہ پر چھٹیاں منانے کے لئے پیسہ جمع کرنے کے بعد آخر وہاں پنہچیں تو لگاتار بارش ہوتی رہی اور اس کی چھٹیاں برباد ہو کر رہ گئیں

یہ بات بہت غور طلب ہے کے جب آپ منفی سوچ والے دماغ کے مالک ہوتے ہیں تو جتنا بھی اچھا آپ کی جانب آتا نظر آے اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ برا ضرور ہوگا- اس کو نفسیات کی زبان میں ایور سنڈروم کہا جاتا ہے جس میں انسان اپنے آپ کو گہری کھائی میں گرا ہوا محسوس کرتا ہے کیونکہ ایسا مریض اکثر علاج سے اس قدر کتراتا ہے کہ مستقل نظر انداز کر کے رکھتا ہے اور ڈپریشن ہی اس کی مستقل بیماری ہوتی ہے جس کو وہ ایک عام  سی نارمل بات سمجھ کر زندگی  گزارتا  رہتا ہے اور اسے ذہنی بیماری تسلیم ہی نہیں کرتا - خود بھی تکلیف میں رہتا ہے اور اپنے ارد گرد اپنے پیاروں کو بھی مستکل اذیت اور پریشانی میں رکھتا ہے جو آخر کار خود مریض بننے لگتے ہیں

اس خاتون کی حالت دیکھ کر مجھے ونی دا پووہ میں مشہور کردار یاد آنے  لگا جو پووہ کا دوست ایک گدھا ہے جو  ہر وقت اپنی اگلی بد قسمتی کا منتظر رہتا ہے اور یہی خود کلامی کرتا رہتا ہے-  مجھے یقین ہے اگر ان خاتون کا کبھی اچانک پچاس لاکھ کا انعام نکل آیا  تو کہیں گی '' مجھے یقین ہے میرے ساتھ یہی ہونا ہے ، اب حکومت اس میں سے پچیس لاکھ تو ٹیکس کاٹ لے گی اور میرے  ہاتھ آدھے پیسے ہی لگیں گے ''.. ایسے میں دل کرتا ہے آدمی ان کے سر کے پیچھے ایک چپت لگا کر کہے '' بس بھی کرو اب ''...جب یہی خاتون اپنی چھٹیوں سے لوٹیں تو پوری تفصیل سے اپنی دکھ بھری کہانی تکلیف دہ جزیات کے ساتھ سنانے لگیں

اف میرے خدا ! تمہیں اندازہ ہے ہم کب سے ان چھٹیوں کے لئے پیسے جمع کر رہے تھے ؟ اور آپ تو مجھے اتنے عرصے سے جانتے ہیں نہ .. آپکو تو پتا ہی ہے کہ جب بھی کبھی کسی کے ساتھ  کچھ غلط ہونا ہوتا ہے تو وہ  میرے ساتھ ہی ہوتا ہے - بچپن سے میرے ساتھ یہی ہوتا آیا ہے - کیا آپ مانو گے کہ ہماری تمام چھٹیوں کے دوران بارش ہوتی رہی - مجھے پہلے ہی سوچ لینا چاہیے تھا کہ ایسا ہی ہوگا - میں کب کچھ اچھا ہونے کی امید لگانا بند کروں گی ؟ میرا بھائی پچھلے سال چھٹیوں پر اپنی بیوی کے ساتھ گیا تھا اور دونوں بہت خوش واپس آے بہت اچھا وقت گزرا ان کا - میری بہن ابھی دو ہفتے قبل فیملی کے ساتھ چھٹیاں گزار کر آئ ہے اور بہت ہی اچھا تجربہ رہا ساری فیملی کا - مگر ہمارے نصیب میں یہ نہیں - وہ دکھ سے سر ہلاتے ہوے میری جانب ہمدردی طلب انداز سے دیکھتی رہیں - بہت مشکل سے ان کی یہ تکلیف دہ  زہر انگیزی کا عمل برداشت ہو سکا - کاش وہ اور ان جیسے اور لوگ اندازہ کر سکیں کہ یہ حرکت سننے والوں پر کس قدر گراں گزرتی ہے اور کتنا ذہنی دباؤ پیدا کرتا ہے

میں یہ سوچتا ہوں کے جو لوگ لگاتار ایسے ہی ماحول  میں زندگی بسر کرنے پر مجبور رہتے ہیں وہ کیسے ذہنی اور جسمانی صحت کو برقرار سکتے ہیں؟ - میں اس کو ماحولیاتی آلودگی  میں سب سے زیادہ خطرناک مانتا ہوں جس میں یہ زہریلا اظہار خیال مسلط کرنے والے قابل رحم ہونے سے زیادہ قابل سزا قرار دینے چاہییں بلکل اس طرح سے جیسے دیگر ماحولیاتی آلودگیوں کے ذمہ دار افراد کو قابل سزا قرار دیا جاتا  ہے

سیدھی بات یہ ہے کہ بارش نے انکی چھٹیاں برباد ہرگز نہیں کیں - اس بربادی کی اصل  وجہ لگاتار منفی اور زہریلی سوچوں کی بارش تھی جو ان کے ذہن میں ہوتی رہی - اسی وجہ سے وہ خود کو مجبور لاچار اور بیچارہ ظلم کا شکار سمجھتی رہیں - یہ انکی موسم کے بارے میں منفی سوچ تھی جس نے انکے منفی رویہ اور پہلے سے موجودزہریلی  عادت سے ملکر ان کی چھٹیاں تباہ و برداد کر ڈالیں

ہاں اگر موسم اچھا ہوتا تو ہوسکتا تھا کہ  وہ اچھا محسوس کرتیں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور اپنی تمام تر توانائی کو صرف غلط طرف صرف کرتی رہیں اور کچھ اچھا سوچنے اور کرنے کا خود کو  موقع ہی نہیں دیا جس سے ان حالات میں بھی کچھ اچھا کیا جاسکتا تھا - ایسی سوچ کے ساتھ کچھ بھی اچھا کرنا بلکل نہ ممکن ہو جاتا ہے

اگر آپ ارد گرد اور باہر کے حالات سے  اپنی خوشی کا تعین کر کے خود کو اس سے مضبوطی سے باندھ  لیتے ہیں تو آپ کے اندر کا قدرتی طور پر عطا کردہ سکون قلب شکست و ریخت کا شکار ہونے لگتا ہے کیونکہ آپ اپنی خوشی کو بیرونی حالات سے مشروط کرلیتے ہیں جو آپ کے اختیار میں بلکل نہیں ہوتے - جبکہ عقلمندی یہ ہوتی ہے کہ خود کو بیرونی حالات کی مطابقت میں تیار رکھنا چاہیے - جیسے بارش کی وجہ سے کوئی کام نہیں روکتا لوگ چھتری بھی استعمال  کرتے  ہیں اور برساتی بھی- گھر بیٹھ کر بارش کو نہیں کوستے

لیکن جب آپ ایسا کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور اپنی خوشی کو بیرونی حالات اور لوگوں سے مشروط کر لیتے ہیں تو پھر آپ پرایور سنڈروم  حملہ آورہو جاتا ہے اور اس طرح کے سوچیں  جنم لیتے ہیں

میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟
میری زندگی بہت ہی بری ہے
 مجھے آج بستر میں ہی رہنا چاہیے تھا
یہ کبھی ہو ہی نہیں  سکتا
میں کس کو بوقوف بنا رہا ہوں؟

اس قسم کی سوچ بھروسے اور یقین کی کمی کو ظاہر کرتی ہے اور الله کی بنائی ہوئی کائنات اور اس کی کامل تخلیق اور کارساز ہستی پر سے ایمان کے اٹھ جانے کی دلیل ہے - جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کے آپ کائنات کی اتنی اچھی اور شاندار نعمتوں سے لطف اندوز ہونے اور ان پرالله کا  شکر گزار ہونے سے محروم ہو جاتے ہیں - ان سب نعمتوں سے بھرپور لطف اندوز ہونا اور خوش ہونا ان کی تعریف کرنا ہی تو دراصل شکر گزاری ہے

یاد رکھیے! سوچیں خود بخود پیدا نہیں ہو جاتیں انکو ہم خود تخلیق کرتے ہیں اس لئے ہم انہیں کنٹرول بھی کر سکتے  ہیں اور قابو بھی اور قابو کرنے کا مطلب ختم کر دینا ہرگز نہیں ہوتا- جیسے پابندی کا مطلب بھی رکاوٹ ہرگز نہیں ہوتا ایک مخصوص ماحول یا راستے پر درست سمت میں گامزن کرنے کا نام پابندی جسے انگریزی میں چینلائی زیشن  بھی کہتے ہیں اور رسٹرکشن بھی - ان دونوں الفاظ کا مطلب منع کردینا یا یکسر بند کر دینا نہیں

اس خاتون نے اپنی سوچوں سے  ایسا ذہنی رجحان پیدا کرلیا تھا جس سے منفی جذبات تخلیق ہونے لگے جس کے نتیجے میں ویسی ہی غلط اور منفی جسمانی حرکات اور سکنات اور رد عمل سامنے آیا اور آپ کو یہ جان لینے کے لئے ڈاکٹر ہونا ضروری نہیں کہ ان کے دل کی رفتار غیر مناسب اور معدہ بھی سخت ہو گیا ہوگا جس کے نتیجے میں ان کی طبیعت بھی خراب ہونے لگ گئی ہوگی -ایسا اکثر خوف اور جذباتی کیفیت میں ہو جاتا ہے اور مستقل ایسا ہوتا رہے تو اس کا نتیجہ بیماری کی صورت میں سامنے آتا ہے

یہ سب نفسیاتی اثرات ان کی جسمانی حالت بھی ابتر سے ابتر بنا تے رہتے ہیں اور جب بھی وہ اپنی ان چھٹیوں کا ذکر چھیڑتی ہونگی ان کی حالت اور خراب ہونے لگ جاتی ہوگی - ہر ناقابل قبول صورتحال  جس سے اچانک سامنا ہو, اس پر خود حاوی ہو جانے کی بجاے اس صورت حال کو خود پر سوار ہونے دینا ہی در اصل ان کی ذہنی نا پختگی کو ظاہر کرتا ہے جو مناسب اور مستند تربیت سے با آسانی ٹھیک بھی ہو سکتی ہے 

لیکن اگر ارد گرد کوئی یہ بات نہ سمجھ پاۓ اور وہی حالت برقرار رہے تو یہ ایک سنو بال افیکٹ کی طرح بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس کا اثر ذہنی اور جسمانی بیماری کی شکل اختیار کر کے مستقل طور پر زندگی اجیرن بنا دیتا ہے- نا صرف اس مصیبت کا شکار افراد کی زندگی تباہ ہوتی ہے بلکہ ان نا سمجھ لوگوں کی  بھی جو اپنی طرف سے ان کے ہمدرد بن کر ان کی دکھ بھری رودداد پرصرف اظہار افسوس کرتے ہیں اور انکو مزید شہ دے کر بیمار سے بیمار تر کرتے چلے جاتے ہیں- ساتھ میں خود بھی اور دوسروں کو بھی منفی جذبات کی اس کھائی میں گرا دیتے ہیں جس سے ایک بیمار خاندان اور پھر بیمار معاشرہ جنم لیتا ہے جو مایوس اور نہ شکر گزار ہونے کی وجہ سے تباہی کا شکار رہتا ہے

اس لئے بجاے اس کے کہ اس بات پر توجہ مرکوز کی جاتی رہے کہ برا اور تکلیف دہ کیا ہے؟ اور کتنا زیادہ ہے, صورتحال کو  ایسی نظر سے دیکھنا ضروری ہے جس  میں مثبت پہلو پر توجہ مبذول ہو سکے اور مشکل کو بہتری اور سلجھنے کی طرف لے جایا سکے - ہر بری سے بری نظر آنے  والی صورتحال کا علاج ہوتا ہے- اس کا پختہ غیر متزلزل یقین ہونا ضروری ہے  پرامید رہنا ہی ہمارا فرض ہے اور مایوسی کفر ہے

فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہیں پرامید رہ کر صحت مند اور کامیاب زندگی یا پھر مایوسی اور نہ امیدی کے ساتھ منفی پہلو دیکھتےہوے خود کو حقیقت پسندی کی غلط فہمی میں مبتلا رکھ کر اپنی اوراپنے پیاروں کی بربادی اور تباہی ؟ یہی فیصلہ کرنے کا اختیار الله نے ہمیں دے کر بھیجا ہے

یاد رکھنا چاہیے کے اس کائنات کے خالق نے ہر طرح کی کامیابی کا طریقہ بھی ہمیں بتا رکھا ہے فیصلہ ہمارے پاس ہے کے ہم پوری طرح اس کامیابی کے نسخے پر عمل کرتے ہیں یا صرف اتنا ہی جتنا ہمیں بظاھر اچھا لگتا ہے- بچوں کی طرح میٹھی دوائی ٹھیک ہے کڑوی دوائی رہنے دو چاہے بعد میں سرجری کی ضرورت پڑے اور زیادہ تکلیف سے گزرکر سہی راستہ اختیار کرنا پڑے - مکمّل طور پر نسخے پر کابند ہونا پڑتا ہے اسی لئے حکم ہوا کہ ‘’دین میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ’’- دین کو صرف اتنا ہی اختیار نا کرو جتنا تمہیں پسند ہے ، نا ہی صرف دین کے اس حصّے کا پرچار کرو جو تمہاری پسند اور فائدے کے مطابق ہے اور باقی چھپا لو-  ورنہ تباہی کا شکار رہو گے

منفی سے مثبت رجحانات پر آنے کا بتدریج عمل صبر آزما ہوتا ہے جس پر ثابت قدمی درکار ہوتی ہے اور اس کے مفید موثر اور مستند اور آسان طریقے میں گزشتہ آرٹیکل میں قارئین کی خدمت میں پیش کر چکا ہوں جن پر مکمّل طور پر عمل پیرا ہوکر صحت و تندرستی کے ساتھ ایک خوش خرم زندگی حاصل کرنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں 


کاشف احمد
اسلام آباد پاکستان
٦ اکتوبر ٢٠١٩


No comments: