Friday 27 March 2020

یہ چھوٹے موٹے سادہ سے لوگ


ہم پر کب یہ حقیقت آشکار ہوگی کے مان لینے قبول کا کر لینے اور کبھی کبھی زندگی کو گزرانے نہیں جی لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں
ہم اتنے ڈھیٹ اور اکڑ فوں سے بھرپور ہیں کے کسی نچلے درجے کے انسان یا معمولی حیثیت رکھنے والے شخص یا پھر کم عمر کی بات کو پہلے سے ہی اس کی نا سمجھی اور غلطی تصور کر کے یا تو نظر انداز کر دیتے ہیں یا پھر سرے سے سنتے ہی نہیں اور ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں
زیادہ شور کرے تو کوئی مصروفیت یاد آ جاتی ہے فون جیب سے نکل آتا ہے یا اگر کوئی کم عمر نا سمجھ ہو تو ڈانٹ کر چپ کروا دیتے ہیں زیادہ سے زیادہ کوئی بہلاوا دے کر جان چھڑا لیتے ہیں
کوئی لاکھ کہتا رہے کے تھوڑی فرصت ہمارے لئے بھی نکال لو کبھی کام چھوڑ کر ہمارے ساتھ وقت گزارو مگر ہم بہت ہی اہم اور مصروف نظر آنے   کا ناٹک نہ کریں تو کوئی ہمیں ایک بڑی ہستی یا ا علیٰ درجے کی شخصیت کیسے تسلیم کرے گا؟
ہمارے کسی کو اہمیت دینے اس کی بات سن لینے پھر اس پر غور کرنے اور آخر عمل کرنے کے بھی اپنے ہی کچھ معیار ہیں ... کہنے والا کس عمر کا ہے؟ اس کی مالی حیثیت کیسی ہے  ؟ دیکھنے میں کیسا ہے یا پھر کتنا با اثر اور با اختیار ہے اس بات کا تعین  کرتا ہے کے ہم اس کی بات سن لیں اور برداشت بھی کر لیں پھر غور کریں اور شائد اتنا اھم ہو کے عمل بھی کر لیں
لیکن یہ سب کچھ بھی ہم تب ہی کرتے ہیں جب بات ہمارے مطلب کی ہو یا اس میں کوئی مادی فائدہ مل رہا ہو یا پھر کم از کم کوئی الو سیدھا ہوتا نظر آ رہا ہو ورنہ ہم کیوں سنیں کسی ایرے غیرے کی بات ہماری تو ناک ہی اتنی اونچی ہے کے وہاں تک شائد ہی کسی کی بات پہنچ پاے

یہاں تک کے الله کے کسی فرستادے کی بات پر بھی سو تاویلیں حجتیں اور تنقید جس کو بہت اچھی طرح سے شروع سے جانتے بھی تھے کہ سچا کھرا اور دیانتدار اتنا ہے کے روۓ زمین پر ایسا کوئی نہیں پھر بھی کہتے تھے کے الله کو تجھ جیسا بے حیثیت انسان ہی ملا ہمیں ہدایت دینے کے لئے ؟ اگر الله ہمیں فلاں معجزہ دکھا دے تو شائد ہم مان جائیں یا پھر خود ہم سے ہمکلام ہو جاے آخر ہم صاحب حیثیت ہیں اور اونچی شان ہے معاشرے  میں وہ براہ راست ہمیں کیوں ہدایت نہیں دیتا
پھر جب وہ تمام جہانوں کا ملک جلال میں آ جاتا ہے اس تکبر اور انا کی حد ہو جاتی ہے اور قدرتی آفات سے ان
ا علیٰ درجے کے قابل اور طاقتور ترین لوگوں  کی اصل اوقات ان کے اور دنیا کے سامنے لاتا ہے تو پھر بہت
 فرصت ہو جاتی ہے انکو انسانیت کی خدمت پر غور کرنے سوچنے اور زندگی کو گزارنے کی بجاے جینے کی اور ہر مصروفیت کو بالاے طاق رکھ کر وہ سب کر گزرنے کی جس کا ان کے پاس کبھی وقت نہیں ہوتا تھا
لیکن مانتے پھر بھی نہیں انتظار کرتے ہیں کہ کب یہ عذاب ٹلے اور کب وہ واپس اپنی پرانی نہج پر جا سکیں بس فلحال کسی طرح جان چھوٹ جاے کوئی جگاڑ ہو جاے کوئی بہلاوا کوئی رشوت لگ جاے کسی طرح بس یہ عذاب بھی قابو میں آ جاے بس
ہماری تکبر اور انا کی بلندی اتنی زیادہ ہے کے ہمیں صرف اپنی پسند کے مطابق کوئی اس قابل نظر آتا ہے جسے ہم اس قابل سمجھیں کے اس کو وقت دے سکیں واقعی اس کے ہو سکیں کچھ مانگنے سے زیادہ عطا کر سکیں یہ دیکھے بغیر کے بدلے میں وہ ہمارے لئے کیا کر سکتا  ہے ہم بھی اس کے کام آ سکیں خوشی دے سکیں توجہ اور پیار دے سکیں صرف اس لئے کے یہی تو ہمیں انسان بناتا ہے ایک ایسا انسان جس کو اشرف المخلوقات کی تمام خوبیوں کے ساتھ پیدا کیا گیا جن میں سب سے بڑی اور بنیادی خوبی اس کی معصومیت اور خالص جذبات تھے

بابے کہتے ہیں جب انسان الله کے پاس جاے گا تو وہ کہے گا کے جنت میں جانے کے لئے ایک ہی چیز مجھے واپس کرو اور اندر چلے جاؤ - اور وہ چیز معصومیت اور اخلاص ہے جسے میں نے تمہیں دے کر دنیا میں بھیجا اور تم فطرت سلیم پر پیدا ہوئے
اور انسان کہے گا وہ تو پتا نہیں کہاں رہ گئی میں تو اب بہت عقلمند سمجھدار اور چالاک ہو گیا ہوں معصومیت کا میرے  پاس کیا  کام ؟ وہ تو میں بس کبھی کبھی چھوٹے بچوں سادہ لوح  گنواروں اور جانوروں میں تھوڑی دیر اپنی دل پشوری اور تفریح کے لئے دیکھتا ہوں اور ہنستا ہوں کہ کتنا سادہ اور بے وقوف ہے جو آج کے دور میں اتنا خالص اور معصوم ہے اور ان چھوٹے موٹے سے لوگوں کو بس چھوٹا موٹا ہی دے دلا کر آ جاتا ہوں چاہے وقت ہو یا پھر مال ان کی حیثیت کے حساب سے ان سے سلوک روا رکھتا ہوں
اور وہ دونو جہاں کا ملک کہے گا کہ پھر تو جنت میں نہیں جا سکتا تیرے پاس تو وہ بنیادی عنصر وہ لازمی خصوصیت ہی نہیں رہی جو انسان کو انسان بناتی ہے وہ خالص جذبات وہ معصومیت
اور وہ دونوں جہاں کا مالک کہے گا کہ پھر تو جنت میں نہیں جا سکتا تیرے پاس تو وہ بنیادی عنصر وہ لازمی خصوصیت ہی نہیں رہی جو انسان کو انسان بناتی ہے وہ خالص جذبات وہ معصومیت - جنت تو صرف خالص لوگوں کی ہے جو معصوم اور پیارے ہیں
کاشف احمد
اسلام آباد پاکستان
٢٧- ٠٣ -٢٠١٩

No comments: