Friday 13 March 2020

محرومی کی بیماری

محرومی ایک ایسے شدید بیماری ہے جس کا نقصان  خود سے زیادہ لوگوں کو پہنچتا ہے - جب انسان ایک لمبا عرصہ احساس محرومی میں گزارے تو اس کا دل چاہتا ہے کے ہر چیز ہر جذبہ ہر احساس اسے ملے جس کے لئےبرسوں ترستا رہنے سے اس کے اندر شدید اشتہا اور بھوک جاگ گئی ہے
وہ ساری چیزیں اسے چاہیے ہوتی ہیں جو ان آسودہ حال لوگوں کو حاصل ہوتی ہیں وہ سارے لاڈ پیار وہ عیش و آرام وہ چونچلے وہ سب کا خیال رکھنا پوچھنا نخرے اٹھاے جانا سب چاہیے ہوتا ہے پھر جی بھر کے یہ سب ملنے کے بعد وہ شائد خود بھی اس معاملے میں فراخ دلی اور دریا دلی دکھا پائیں لیکن یہ پیاس بجھنے کا نام نہیں لیتی

پھر یہ احساس اور بھی شدت اختیار کر جاتا ہے جب ایک بار آسودگی کی زندگی گزار کر اچانک کسی وجہ سے محرومی کی زندگی گزارنی پڑے وہ بھی ایک لمبا عرصہ

بچے خاص طور پر شدید ذہنی دباؤ کی وجہ سے اکثر بہت ہے خطرناک شخصیت اختیار کر لیتے ہیں اور ہر طرح سے خود کو اس قابل  بنا کر رکھتے ہیں جس سے بظاھر وہ بہت جاذب نظر ہونہار اور با ادب دکھائی دیں اور لوگ ، خاص طور پر وہ لوگ جن تک ان کو رسائی حاصل کرنی ہو ان کو اپنی جانب ایک خاص طرح کی کشش سے کھینچ کر اپنا مقصد پورا ہونے کے بعد غیر ضروری کھلونے کی طرح ایک طرف رکھ کر یا پھینک کر اگلے اس سے زیادہ پر کشش کھلونے کی طرف نکل جاتے ہیں

عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ بظاھر نظر آنے  والی تمام خوبیاں جن کا مقصد صرف دوسروں کو اپنا مداح بنا کر ان کے وسیلے سے وہ سب چیزوں اور جگہوں تک رسائی حاصل کرنا ہوتا ہے جن سے محرومی کا شدید احساس بچپن سے رہا ہوتا ہے پھر اس سے اگلا وسیلہ پھر اس سے اگلا شخص

بلکل ان خطرناک پہاڑی سدا بہار پھولوں  کی طرح جو حسین اور خوشبودار ہوتے ہیں مگر اندر سے انتہائی خطرناک قاتل ان  کا نام کلمیا لاٹفولیا ہے جس کو چھو لینے سے ہی انسان کی حرکت قلب بند ہو جاتی ہے - اسی طرح سے کئی اور اقسام کے پھول اور پودے دنیا بھرمیں پاے جاتے ہیں جو دیکھنے اور سونگھنے میں بہت ہی پیارے ہوتے ہیں مگر در اصل بہت خطرناک

محرومی کی یہ بیماری آدمی کو غلط   فیصلے کرنے پر مجبور کر دیتی ہےیہ بیماری اکثر  معاشی بدحالی اور سخت اور بے رحم ماحول میں لمبا عرصہ رہنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے -یہ بات مشہور ماہر نفسیات ایلس جی والٹن   جو انسانی رویوں کی نیورو سائنس کی ماہر سمجھی جاتی ہیں نے اپنے ایک آرٹیکل میں بتائی جو شکاگو بوتھ ریویو میں شایع ہوا 

وہ لکھتی ہیں کہ محرومی کی زندگی گزارنے والے لوگوں کی زندہ رہنے کی ترجیحات اور اقدار بہت مختلف ہوتی ہیں اور وہ انہی کی وجہ سے اپنے اور لوگوں کے بارے میں فیصلے کرتے ہیں اور مسائل کے حل کو مختلف انداز میں دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں اور ان میں سب کچھ حاصل کرنے کی طلب بہت  زیادہ ہوتی ہے

یہ لوگ اسی مقصد کے حصول کے لئے کسی بھی  طریقہ اور حد سے آگے گزر جانے کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کے لئے وقتی طور پر خود کو ہر دل عزیز بنا لینے کی ہر ممکن کوسش میں لگے رہتے ہیں اور یہ وقتی کوشش لمبے عرصے تک بھی جاری رہ سکتی ہے جب تک ان کا اصل مقصد حاصل نہ ہو جاے یا پھر ان کا بھانڈا نہ پھوٹ جاے

 وہ عام انسانی جذبوں اور احساسات کو صرف اپنے مفاد کے حصول کا ذریعہ  سمجھتے ہیں اور اسی سے تسکین حاصل کرتے ہیں ان میں احساس ندامت رحم دلی دلجوئی وفاداری اور پیار جیسے جذبات یا تو دم توڑ چکے ہوتے ہیں یا پھر اتنے دب چکے ہوتے ہیں کے ان کا خالص  اظہار ان کے لئے نہ ممکن ہوتا ہے

ان کا واحد علاج آسودہ حال پختہ شخصیت اور مثبت سوچ کے حامل اچھے افراد کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزرانے میں ہے جن کے زیر  اثر رہ کر ان کو زندگی کا روشن اور درست پہلو سمجھ میں آنے لگتا ہے اور ان کی اپنی شخصیت میں مثبت تبدیلی اور نکھار پیدا ہوتا ہے ورنہ یہ اپنی طرح کے لوگوں میں رہنے سے اور بھی زیادہ خطرناک ہو جاتے  ہیں اور اس کا نقصان سب سے زیادہ آئندہ نسلوں کے نہ پختہ ذہنوں کو پہنچتا ہے جو ان کی شخصیت کے پوشیدہ خطرناک پہلو کو بھانپ نہیں پاتے اور انکو اپنا خیر خواہ اور ہمدرد سمجھتے ہیں جو انکا بظاھر اوڑھا  ہوا لبادہ ہوتا ہے جس کے یہ اتنے عادی ہو جاتے ہیں کے خود بھی نہیں جانتے کے وہ کتنا خطرناک کام کر رہے ہیں
کاشف احمد
اسلام آباد پاکستان
١٣ مارچ ٢٠٢٠

No comments: