Monday 20 January 2020

چسکا اور محبت


بہت سی اور قدروں اور اصطلاحات کی طرح محبت بھی اپنے اصلی معنی سے محروم ہوتی جا رہی ہے - لوگ چسکے کو محبت کا نام دینے لگے ہیں - جیسے کسی اچھی ڈش یا گانے کو سن کر آئ لّو دس سونگ کہ دیتے ہیں جس کا مطلب ہرگز محبت نہیں ہوتا بس چسکا ہوتا ہے - اسی طرح انسانوں کے ساتھ رہنے کا چسکا ہوتا ہے - در اصل ہمیں ان سے نہیں ان سے وابستہ چیزوں اور ان کی وجہ سے حاصل ہونے والے فائدوں اور لذّتوں کا چسکا ہوتا ہے اور در اصل یہی وہ ضرورت ہوتی ہے جس کے پورا ہونے کی وجہ سے سے ہم کہتے ہیں آئ لّو دس گائے

ورنہ اگر کبھی اس شخص سے وابستہ چیزوں اور لوگوں کو الگ کر کے دکھا جاے تو اس شخص میں کوئی ایسے بات نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اسے وقت دیا جاے یا اس کی عزت کی جا سکے یا اسے کسی بھی طرح کی اہمیت دی جاے کیونکہ  اس کی شخصیت اور خوبیوں سے کوئی سروکار تھوڑی ہے کس کے پاس اتنا فالتو وقت ہے جو انسان کو سمجھے اور اس کی شخصیت تو سراہے خاص طور پر ایسے انسان کی جو غلطیوں پر روک ٹوک اور سرزنش بھی کر لیتا ہو اور ایک پختہ سوچ کا مالک  ہو جس کو کوئی بیہودہ اور کھوکھلا شوق بھی نہ ہو جیسے آج کل کے مغرب اور سوشل میڈیا زدہ ذہنوں کا ہوتا ہے - پھر اوپر سے وہ انسنیت کی بقا اور بھلائی کا لا حاصل راگ الاپتا رہتا ہو تو اور بھی زیادہ جھکی اور بورنگ محسوس ہونے لگتا ہے

محبت پیار اور یہاں تک کے عشق جیسے نایاب اور مقدس اصطلاحات کے معنی مغرب سے متاثر ذہنوں میں اسی لئے مسخ ہو کر رہ گئے ہیں - بزرگان اور بابے تو محبت کا معنی یہ کرتے ہیں کہ جب کسی کی محبت میں تو خود سے محبت کرنا چھوڑ دیتا ہے تب تجھے محبت ہوتی ہے نہ کہ اپنی ضرورت مجبوری اور چسکے کو پورا کرنے کے لئے اپنی ذات کے فائدے کی خاطر کہے کے مجھے تجھ سے محبت ہے

بلکل اسی طرح حقیقی محبت اور عشق حقیقی کا معنی بزرگان کی نظر میں یہ ہیں کہ جب تو پوری انسانیت سے اتنی محبت کرے کے خود سے محبت کرنا چھوڑ کر ان کی بھلائی اور خدمت میں لگ جاۓ تو یہ عشق حقیقی ہوتا ہے جیسے ہر بڑے انسان نے کیا اور ہر الله کے پیارے کا شیوہ رہا

وہ ساری انسانیت کی بھلائی کے کام میں اتنے سرشار اور اتنے وقف رہتے تھے اور رہتے ہیں کہ انکو اپنی کوئی پرواہ نہیں رہتی جیسے ایدھی صاحب نے جب میٹھادر سے ایک ڈسپنسری اور ایک ایمبولینس سے انسانیت کی بھلائی اور خدمت کا پودا لگایا تھا جو آج ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

آج  ان ایمبولینسز کا نیٹ ورک تقریباً دو ہزار تک پہنچ چکا ہے جبکہ کراچی سے خیبر تک بلکہ ملک سے باہر بھی  ایدھی سینٹرز موجود ہیں۔ فاونڈیشن نے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ترقی کی ہے۔ اسلامی دنیا میں ایدھی فاؤنڈیشن ہر مصیبت اور مشکل وقت میں اہم مدد فراہم کرتی ہے۔ جہاں امداد اور نگرانی ایدھی بزات خود متاثرہ ممالک میں جا کر کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ فاونڈیشن جن ممالک میں کام کر رہی ہے ان میں سے چند نام افغانستان، عراق، چیچنیا، بوسنیا، سوڈان، ایتھوپیا اور قدرتی آفت سماٹرا اندامان کے زلزلہ (سونامی) سے متاثرہ ممالک کے ہیں۔

اگست 2006ء کو بلقیس ایدھی اور کبریٰ ایدھی کی جانب سے ایدھی انٹرنیشنل ایمبولینس فاؤنڈیشن کے قیام کااعلان کیا گیا۔ جس کے تحت دنیا کے امیریاغریب ہویا دنیا کا کوئی بھی ملک امریکا، یو کے، اسرائیل، شام، ایران، بھارت، بنگلہ دیش ہوں میں یہ ایمبولینس بطور عطیہ دی جا رہی ہے اورانہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان ایمبولینس کو 5 سال تک استعمال کرنے کے بعد فروخت کرکے اس کی رقم خیراتی کاموں میں استعمال کریں۔

 لاوارث اور گمشدہ بچوں کو سنبھالنے سے لے کر ڈسپنسریاں، نرسنگ ہومز، شیلٹر ہومز، میت خانے اور لاوارث افراد کی تدفین کے لیے قبرستان ان سب کی بنیاد عبدالستار ایدھی اپنی زندگی میں ہی ڈال گئے تھے۔

انسانوں کی خدمت کے علاوہ جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے اسپتال کا قیام غرض کے خلق خدا کی خدمت کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جو ایدھی صاحب  کی دسترس میں نہ ہو۔

سنہ 1966 میں عبد الستار ایدھی کی جیون ساتھی بننے والی بلقیس ایدھی جب بھی اپنے شوہر کو یاد کرتی ہیں تو ان کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھتا ہے۔ انکو فخر ہے ایک ایسے شخص کی شریک حیات ہونے پر جس کو اصل محبت یعنی عشق حقیقی کا ادرک تھا یہاں تک کہ اس خدمت کی خاطر شروع شروع میں حالات اتنے خراب تھے کے کہا کرتے تھے '' چلو بلقیس میرے ساتھ بھیک مانگنے چلو، میں ان سے کہتی مجھے بھیک مانگنا اچھا نہیں لگتا تو وہ مجھ سے کہتے ارے یہ کوئی بری بات نہیں ہے اس سے انسان میں عاجزی آتی ہے۔'

یہ وہ عظیم انسان تھا جس نے انسانوں کی محبت میں ہر طرح کی تذلیل بھی گوارا کر رکھی تھی اور میری آنکھوں دیکھا واقعہ ہے جب ایدھی صاحب ایک تقریب میں الحمرا لاہور میں مدعو تھے اور کافی دیر تک پہنچے نہیں تو لوگ شور سن کر الحمرا سے باہر نکلے تو وہ سامنے سے گزرنے والی لاہور کی مصروف ترین شاہراہ کے بیچوں بیچ اپنی جھولی پھیلاے بیٹھے تھے اور گاڑیوں کا رش لگا ہوا تھا ان کے پاس اور لوگ پیسے ہی پیسے دیتے جا رہے تھے اور روتے بھی جاتے تھے اس عظیم انسسان کی انسانیت سے انتہائی محبت کا عاجزانہ اظہاردیکھ کر آج بھی میں خود پر قابو نہیں پا سکتا جب یہ منظر ذہن میں گھومتا ہے

عبدالستار ایدھی کی تیسری برسی پر وائس آف امریکہ کی ٹیم جب بلقیس ایدھی سے خصوصی بات چیت کرنے میٹھادر کے مرکزی دفتر پہنچی تو وہ ایدھی صاحب کے اس دفتر میں بیٹھی تھیں جہاں کبھی عبدالستار ایدھی آنے والوں کا استقبال کیا کرتے تھے
ایدھی صاحب کی وفات کے بعد سے ایدھی فاؤنڈیشن کو درپیش چیلنجز کے سوال پر بلقیس ایدھی نے کہا کہ انھیں کسی مسئلے کا سامنا نہیں، ایدھی صاحب اتنا کچھ کر کے جا چکے ہیں کہ اگر کوئی مسئلہ آ بھی جائے تو مسئلہ نہیں لگتا۔ بقول ان کےوہ روشنی کا مینار تھے سب کچھ بنا کر دے گئے۔ ہم نے بس اسے سنبھالنا ہے۔

ایک وہ بھی وقت تھا جب ایدھی صاحب نے اس عظیم کام کی بنیاد رکھی اور بظاھر ایک ناقابل یقین معمولی اور بے وقعت سی شے نظر آتی تھی - عورتیں عام طور پر ایسے موقع پر ساتھ دینے کی بجاے ایسے کاموں سے دور ہی رہنے کا مشورہ دیتی ہیں اور جب مرد باز نہ آے تو برا بھلا کہنے اور لعن تعان بھی کرتی ہیں کیونکہ عورت عارف دنیا ہے اور مرد اگر عارف مولا نہ ہو تو ساری عمر اس کی غلامی سے نہیں بچ سکتا - اور ایدھی صاحب عارف مولا تھے اسی لئے مولا نے انکو نیک اور انسان دوست جیون ساتھی عطا فرمایا جس نے ہر قدم پر ان کا بھروسہ اور یقین قائم رکھا اور بھرپور ساتھ دیا
اسی لئے تو ہمارے آقا و مولا فرماتے ہیں اور  حدیث حسن صحیح ہے۔(باب شوہر پر عورت کے حقوق کے بیان میں جلد دوم، جامع الترمذی ، یہ دنیا ساری کی ساری پونجی ہے (برتنے کی چیز ہے)لیکن ساری دنیا میں سب سے بہترین قیمتی چیز نیک و صالح عورت ہے۔ ۔(باب نیک اور صالح عورت کا بیان، سنن صحیح و نسائی صحیح ،جلد دوم حدیث نمبر ۳۲۴۰)آقا ﷺ نے فرمایا : جس عورت نے اس حال میں انتقال کیا کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہواور خوش ہوتووہ جنت میں داخل ہوگی۔(ترمذی)

ایدھی صاحب مزاج کے کیسے تھے اس پر پرانی باتوں کو یاد کرتے ہوئے بلقیس صاحبہ نے ایک قصہ سنایا۔

''ایک بار میں نے ایدھی صاحب سے پوچھا کہ پاگل خانے میں مرد اتنی بڑی تعداد میں کیوں آتے ہیں؟ تو وہ ہنس کر کہنے لگے کہ تم عورتیں اظہار کر لیتی ہو، اپنے دل کا حال کسی کو کہہ لیتی ہو اپنا غم بانٹ لیتی ہو۔ مرد ایسا نہیں کر پاتا اپنے اندر رکھتا ہے اور پھر اس کا انجام اسی صورت میں سامنے آتا ہے۔''

اتنی گہری سمجھ اور ادراک رکھنے والے عظیم انسان کو نہ صرف انسانیت کے دکھوں کا علم تھا بلکہ ان دکھوں اور بیماریوں کے محرکات کا بھی پورا دراک تھا جب انسان ضبط کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو وہ بیماری بن کر ظاہر ہونے لگتا ہے - ذہنی دباؤ ہے در اصل ہر طرح کی بیماری کی اصل وجہ بنتا ہے

گزرے وقتوں کا ایک اور قصہ بیان کرتے ہوئے بلقیس ایدھی صاحبہ نے بتایا کہ ایک بار ایدھی صاحب کسی لاوارث میت کی وصولی کے لیے اندرون پنجاب سفر پر نکلے۔ راستے میں انھیں کچھ ڈاکووں نے پکڑ لیا، جو کچھ ان کے پاس تھا ان سے لوٹ لیا۔ لیکن جب انھیں معلوم ہوا کہ وہ عبدالستار ایدھی ہیں تو ان سے معافیاں مانگنے لگے، ہاتھ چومے اور سو روپے چندے کے طور پر دیتے ہوئے کہا ''بابا ہم جانتے ہیں کہ جب ہم مریں گے تو، تو ہی ہو گا جو ہمیں دفنائے گا، کیونکہ ہمارے اپنے تو نہیں آئیں گے۔''

بلقیس ایدھی نے کہا کہ ایدھی صاحب کی شخصیت ہر خاص و عام کے لیے باعث عزت رہی۔ جب کراچی میں امن و امان کا مسئلہ درپیش تھا۔ تو کئی لاوارث لاشیں ہمارے رضاکار اٹھا کر لایا کرتے تھے۔ ہم لواحقین کا ایک ماہ تک انتظار کرتے اور پھر تدفین کر دیتے۔

بلقیس ایدھی خود بھی ایک طویل عرصے تک نرسنگ کے شعبے سے وابستہ رہی ہیں، اب بھی میٹھادر کے میٹرنٹی ہوم میں کام کرنے والی نرسوں کے ساتھ ان کا وقت گزرتا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ شیلٹر ہومز میں بزرگوں اور عورتوں کی تعداد میں اضافے پر انھوں نے کہا کہ اب معاشرے میں برداشت ختم ہو چکی ہے۔ جب بوڑھے والدین کو نفسیاتی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں اور اس کا علاج جو ویسے ہی مہنگا ہے تو اولاد مہنگے علاج کی بجائے انھیں ہمارے پاس چھوڑ جاتی ہے۔ یہاں تک کے کی ایسے لوگ بھی گھریلو بد سلوکی سے تنگ ا کر شدید ذہنی دباؤ کی حالت میں ایدھی شیلٹر کا رخ کر رہے ہیں جن میں بڑی تعداد ایسے افراد کی ہوتی ہے جو معاشرتی قدروں اور درست رویوں کے فقدان کی وجہ سے بیماریوں کا شکار ہو کر گھر اور خاندان چھوڑ دیتے ہیں

ان کے بقول، کئی عورتیں اور مرد  گھر کی لڑائیوں سے تنگ آ کر پناہ لینے آ جاتے  ہیں جنھیں ہم سمجھاتے ہیں تو اکثر واپس لوٹ بھی لوٹ جاتے ہیں۔ لیکن اس کی وجہ در اصل وہی غیر مشرقی سوچ ہوتی ہے جو مغربی اقدار سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کا بے جا اور غیر مستند سرپرستی کے بغیر استعمال اور سب سے بڑھ کر مغربی طرز تعلیم کا بے تحاشہ پھیلاؤ اور اعتقاد کی حد تک عمل درآمد ہے

جس کا نتیجہ چسکے اور نشے کی عادت اور محبت پیار اور انسانی جذبات کا استحصال ہوتا ہے اور لوگوں کا مزاج چیزوں سے پیار کرنا  اور لوگوں کا استعمال کرنا بن جاتا ہے جو صرف ذاتی مفاد اور انفرادی مقاصد کے حصول تک محدود ہو کر ہر طرح کے دنیاوی فوائد کے گرد گھومنے لگتا ہے


کاشف احمد
اسلام آباد ، پاکستان
٢٠ جنوری ٢٠٢٠



No comments: