Friday 10 January 2020

ریچھ کی طرح مت بھینچ



کسی کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے کا کام اپنی بد ترین شکل میں تب سامنے آتا ہےجب ہم اسے بھی پتا نہیں لگنے دیتے کے اس سے کس طرح کا فائدہ اٹھا  رہے ہیں اور کیسے اس کی شخصیت کو مسخ کر رہے ہیں کیونکہ وہ تو کمزور نہ سمجھ اپنی مجبوری کا مارا ہوا بس یہ چاہتا ہے کے اس کی ضرورت جلد سے جلد کسی نہ کسی طرح پوری ہو جاے اور ہم چاہتے ہیں کے ساری عمر یہ ہمارا محتاج بن کر رہے ہمارے ارد گرد چکر لگاتا رہے اور دیوانہ بنا رہے

جیسے ایک نشہ بیچنے والا چاہتا ہے کے ہمیشہ اس کا گاہک اسی کا پکّا گاہک بنا رہےاس لئے  پہلے اسے مفت میں نشہ فراہم کرتا ہے بہلا پھسلا کر راضی کرتا ہے کہ  اسی میں اس کی نجات ہے اور ہر تاویل اور  دلیل سے خطرناک برائی کو اچھائی میں بدل دیتا ہے  یہاں تک کے خود بھی نہیں جانتا کے وہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے کسی دوسرے کو شکار بنا رہا اور لوگوں کے سامنے خود کو اس کا سب سے بڑا ہمدرد ثابت کرنے میں لگا رہتا ہے اور اپنی اس ضرورت کو پورا کرنے کی خاطر خود کو بھی ایک مہان ہمدرد سمجھ رہا ہوتا ہے دراصل خود کو بھی بیوقوف بنا رہا ہوتا ہے

یہ نشہ صرف ایک موذی نشہ نہیں  ہوتا ہے ایسے بہت سے اور نشے بھی ہیں-  جیسے دولت کا نشہ طاقت کا نشہ توجہ اور سستی آسان شہرت کا نشہ یہاں تک کے پیار کا نشہ جس میں انسان خود تو کوئی محنت نہیں کرنا چاہتا وقت دینا نہیں چاہتا سیدھا راستہ لمبا اور کٹھن ہونے کی وجہ سے نا ممکن مان کر شارٹ کٹ تلاش کرتا ہے کے شائد کوئی خاص انگوٹھی کوئی قیمتی قمیض  یا پرفیوم یا پھر کوئی خاص طرح کا ڈرنک یا کھانا اسے لوگوں کی توجہ اور تحسین کے قابل بنا کر ہر دل عزیز بنا دے گا اور جب ایسا نہیں ہوتا تو کسی ایک پر ہی اکتفا کر لیتا ہے جو اس کی کمزوری بھانپ کر اس کی طلب دیکھ کر چپکے سے اپنے پاس بلا کر اس کی کمزوری کا علاج اس گھٹیا نشے میں دکھا کر اپنا رسیا بنا لیتا ہے جس سے دونوں کا ہی کام چل جاتا ہے


ہر دل عزیز ہونا اور آنکھ کا تارا ہونا صرف کسی ایک خاص شخص کے لئے کیوں؟  وہ بھی کسی دوسرے کو پتا لگے بغیر ؟ - آدمی اگر ہر دل عزیز اور پسندیدہ ہوتا ہے تو ہر جگہ ہوتا ہے ہر ایک کو پسند آتا ہے نہ کہ صرف ایک خاص شخص کو بس  مائیں بھی اکثر ایسی ہی خطرناک عادت کی مالک ہوتی ہیں وہ اپنے بچے کو اتنا سر چڑھا لیتی ہیں اتنا لاڈ پیار اتنی توجہ دیتی ہیں کے ان کی برائی بھی نظر انداز کر دیتی ہیں کمزوری کو بھی معصومیت کہتی ہیں اور قوت فیصلہ اور حوصلہ کی کمی کو بھی ان کی سادگی کہ کر لوگوں کو مجبور کرتی ہیں کے ان کی طرح ان کے بچے کو سر پر چڑھا لیا جاے مگر جب یہی بچہ زندگی کے اصل امتحان میں بری طرح فیل ہو جاتا ہے جب اسے خود اپنی ذمہ داری نبھانی ہوتی ہے اور جواب دینے پڑتے ہیں اور وہ ماں ان کی جگہ یہ کام نہیں کرسکتی تو وہ وہ بری طرح ٹوٹ جاتا ہے - تباہ ہو ہو جاتا ہے  اور بیماری کا شکار ہو کر کئی بار مستقل بستر سے لگ جاتا ہے   

یا پھر زمانے کی نا انصافی ظلم اور سفاکی کو مورد الزام ٹھہرا کر بندوق  اٹھا لیتا ہے جو یا تو دوسرے معصوموں کی موت کی وجہ بنتی ہے یا پھر صرف اپنی موت کی- اور ہم پھر بھی اس کی وجہ نہیں جانتے کہ یہ شخص در اصل دنیا کا سامنا کرنے کے قابل نہیں چھوڑا گیا  تھا - بچپن سے اسے بہت آسانی سے پیار توجہ اور آسائش ملنے کا عادی بنا دیا گیا - شروع سے ہی اس کو نازک مزاجی اور شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ بغیر قابلیت  کے ملتے رہے اور اس کی طبیعت میں نازک مزاجی اور حساسیت حد سے زیادہ بڑھ گئی اور اس پر بھی انکو مزید سرپر  بیٹھا کر رکھا گیا یہاں تک کے جب کسی سمجھدار شخص نے انکو مضبوطی اور جوانمردی کا سبق دینے کے لئے تھوڑی مشکل اور سختی کا تجربہ کروانا چاہا تو وہی ماں اور وہی نشہ لگانے والے بھاگے آے اس کو بچانے اور بلکل اس ریچھ کی طرح کس کے سینے سے لگا لیا جس نے اپنے بچے کو اسی طرح بھینچ کر مار ہی ڈالا تھا
کاشف احمد
اسلام آباد پاکستان
١٠ جنوری ٢٠١٩

No comments: