Tuesday 5 May 2020

کچھ چیزیں دور سے ہی اچھی لگتی ہیں



کچھ چیزیں  جتنی دور سے اچھی لگتی ہیں قریب جا کر  ان کے ساتھ رہ کر کچھ وقت بتا کر ان میں وہ بات نہیں رہ جاتی  - جیسے چاند کو دور سے دیکھنے پر ہے وہ خوبصورت نظر  آتا ہے لیکن قریب جا کر اس میں وہ بات نہیں رہتی

ایسے ہی کبھی کبھی  بس کچھ چیزیں ہی نہیں لوگ اور جگہیں بھی ہوتی ہیں - لیکن یہ ضروری نہیں کہ قریب سے دیکھنے پر کوئی برائی سامنے آ  جاتی ہے یا کچھ غلط ہو جاتا ہے بس شائد ہماری بصیرت اس کے مطابق نہیں ہوتی یا پھر وہ ہمارے لئے نہیں بنا ہوتا جو دور سے بہت  جاذب نظر اور حسین لگتا ہے

کبھی کبھی ہم دور کے ڈھول سہانے  والی مثال کا بھی تجربہ کر لیتے ہیں اور اکثر قریب جا کر جب وہ ویسا نہیں سنائی دیتا جیسا دور سے بھلا لگا کرتا تھا تو اس ڈھول کا قصور سمجھ بیٹھتے ہیں یا پھر بیچارے ڈھولچی کا - جبکہ نا تو یہ قصور ڈھول  کا ہے نا ڈھولچی کا یہ تو بس ہماری سننے کی صلاحیت   ہوتی ہے جو ایک خاص دوری سے اسے مدھر محسوس کر رہی ہوتی ہے اور قریب سے وہی مدھر  آواز ہمیں بری لگنے لگ جاتی ہے کیونکہ  ہماری سننے کی صلاحیت اتنے قریب سے اسی آواز کو ویسے محسوس نہیں کر پاتی

اس میں کچھ غلط ہرگز نہیں ہوتا بس ہم سمجھ نہیں پاتے کہ کبھی کبھی فاصلہ اور صورت حال ہمارے لئے خاص معنی رکھتی ہے جس طرح ہماری شخصیت منفرد تخلیق کی گئی ہے اسی طرح کے لوگ چیزیں اور جگہیں ہمیں راس آتی ہیں بلکل اسی طرح جیسے ہمیں زمین پر رہنے کے لئے تخلیق کیا گیا ہے اور ہم زمین کے مخصوص ماحول اور حالات میں ہی زندہ رہ سکتے ہیں ویسے ہی ہمیں خوش اور مطمئن زندگی کے لئے اپنی شخصیت سے مطابقت رکھنے والے حالات درکار ہوتے ہیں

اس میں کسی جگہ ، شخص یا چیز کا قصور کم ہی ہوتا ہے - ضروری  تو نہیں کہ بظاہر کسی  ہمارے طرح کے انسان کو جو راس آ گیا ہو وہ ہمیں بھی راس آ جاے - یہی تو فرق ہوتا اور یہی انفرادیت ہے اور یہی اس  خالق کائنات  کی تخلیقات کا حسن ہے کہ اس نے ہر ایک انسان کی شخصیت کے مطابق اس کے حالات لوگ اور چیزیں تخلیق کی ہیں

یا یوں کہ لیجئے کے ہمیں کچھ خاص طرح کی چیزوں ، لوگوں اور جگہوں کے لئے تخلیق کیا ہے - ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کتنا خود کو ان  چیزوں لوگوں اور جگہوں کے مطابق  تیار کر سکتے ہیں  جن سے ہمیں واسطہ پڑتا ہے یہ وہ صلاحیت ہوتی ہے جس کو گیلی مٹی کی صلاحیت کہتے ہیں

یہ گیلی مٹی جس سے انسان کے تخلیق ہوئی ہے اس کی خصوصیت میں جذب کرنے، لچک  اور ڈھلنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور جتنا زیادہ یہ صلاحیت ہوتی ہے اتنا زیادہ ہی وہ انسان کہلانے کے قابل ہوتا ہے -  کچھ لوگوں میں یہ صلاحیت بلکل نہیں ہوتی کچھ میں تھوڑی اور کچھ میں جذب کرنے ، لچک اور ڈھل جانے کی صلاحیت بہت زیادہ بھی ہوتی ہے  

لیکن ضروری نہیں کے انسان کسی چیز کو قریب  سے دیکھ کر اس میں وہ بات محسوس نہ کرے اور اسے یکسر ترک کر کے آگے بڑھ جاے- ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کے بس دوبارہ سے وہی فاصلہ قائم کر کے وہی  خوبصورتی  برقرار رکھے جیسے پہلے ہوا  کرتی تھی

بس اس بات کا بروقت فیصلہ کر لینا ہی دانائی کہلاتی ہے کہ یہ چیز دور دور سے ہی اچھی رہے گی اور یہ قریب جا کر بھی حسین نظر آئے گی  یا پھر اور بھی زیادہ خوبصورت لگنے لگے گی

لیکن یہ بھی تو بہت اچھی بات ہے کے ہر چیز ایسی نہیں ہوتی بس کچھ ہی چیزیں دور سے اچھی لگتی ہیں اور قریب جا کر وہ بات نہیں رہتی شائد اسی لئے اکثر لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں اپنی سمجھ بوجھ اور دانائی کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر اس چیز ، رشتے , تعلق یا جگہ کو قصور وار ٹھہراتے ہیں

جیسے لوگ جب کسی جگہ کی چکاچوند سے متاثر ہو جانے کی وجہ سے ہر ممکن کوشش کرنے کے بعد وہاں پہنچ جاتے  ہیں اور پھر کچھ عرصہ وہاں گزار لینے  کے بعد محسوس کرتے ہیں کہ جیسا وہ سمجھتے تھے کہ وہ جگہ بہت اچھی ہوگی اور زندگی کو مزید خوبصورت اور کامیاب بنا ڈالے گے ویسا ہرگز نہیں ہے  یا پھر وہ جگہ اتنی بھی اچھی  نہیں  جتنا سوچا تھا

وہ خواب جب بظاھر  پورے ہو جاتے ہیں، جن کو لے کر اتنا لمبا سفر کیا تھا تو ویہ حقیقت آشکار  ہوتی ہے  کہ  ان خوابوں  کی جتنی قیمت چکائی  ہے  ضرورت سے  کہیں زیادہ تھی- بلکل ویسے ہی کوئی تعلق یا پھر رشتہ جو بہت چاؤ سے قائم کیا ہوتا ہے  اس کے ساتھ وقت گزارنے کے بعد   لگتا ہے کہ در اصل وہ ویسا نہیں تھا جیسے  دور سے دکھتا تھا  یا پھر ویسا  نہیں رہا جیسا سوچ کر وہ تعلق  قائم کیا  تھا

در اصل زندگی بے نقص  اور بالکل مکمل ہونے کا نام نہیں یہ تو اپنی نا مکمل حیثیت میں  ہی خوشی خوشی قبول کر لینے کا نام ہے اور اس خاص طرح کے ادھورے پن کو ساتھ لے کر چلنے اور اسی سے  لطف اٹھانے کا فن سیکھ لینے کا نام بھی ہےلیکن یہ ادھورا پن بس کچھ خاص طرح ہی ہو تو بہتر ہے جسے ساتھ لیکر چلا جا سکتا ہو - یہاں شخصیت کے جھول یا کردار کے ادھورے پن کا ذکر نہیں ہو رہا

اس سب کے بر عکس ایسا بھی تو ممکن ہے کہ دور سے بظاہر غیر خوشنما معمولی چیز جس میں کوئی چکا چوند  بھی نہ  ہو ، قریب سے دیکھنے پر اچھی لگنے لگے -  بظاہر  پہلی بار میں کچھ تکلیف دہ  سمجھے جانے والے نئے  ذائقے در اصل لذیذ ثابت ہونے لگیں - کچھ لوگ جو پہلے قابل توجہ یا دلچسپ محسوس نہ ہوتے ہوں  وہ  قریب جانے پر اچھے لگنے لگیں جیسے ایک بار گھر میں بجلی کی خرابی کے ساتھ  جب انٹرنیٹ بھی بند ہو گیا تو بچوں نے کچھ وقت گھر والوں کے ساتھ گزار کر دوستوں کو حیران ہو کر بتایا کے یار میں گھر والوں کے ساتھ بیٹھا رہا اور وہ تو کافی اچھی لوگ ہیں 

جب ایک نا پختہ ذہن یا کوئی بچہ کسی ذائقے سے نا واقف ہوتا ہے  تو اسے ہم نئے  ذائقوں اور لذّتوں سے متعارف کرونے کے لئے کافی جتن کرتے ہیں تاکہ اسے اعلی لذتوں اور اس کی عمر کے مطابق خوراک کی عادت ہو سکے - اسی طرح نئی چیزوں اور جگہوں کا سیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے بالکل ویسے ہی اگر ہمیں اچھے اخلاق و آداب سے متعارف نہ کروایا جاے، نیکی کی عادت نہ ڈالی جاے تو شخصیت کا ادھورا پن اورکردار   کی کمی بہت تکلیف دہ اور کبھی تو نا قابل برداشت ہو جاتی ہے
کاشف احمد
اسلام آباد پاکستان
٠٥-٠٥ -٢٠٢٠

No comments: