Wednesday 20 May 2020

خوبصورت ترین شے کو بھی نا پسند کرنے والے

 

دنیا میں ہر  خوبصورت ترین شے کو نا  پسند کرنے والے ہوتے ہیں - آپ کسی بھی ہر دل عزیز ویڈیو یا آرٹیکل یا پھر کوئی بھی شاندار سپیچ یا خطاب انٹرنیٹ پر دیکھ لیں , اس کو  پسند کرنے والوں  کی تعداد چاہے کروڑوں میں ہو لیکن چند لوگ ایسے بھی ضرور ہونگے جو اس نہایت شاندار اور فائدہ مند پوسٹ کو بھی  نا پسند کریں گے اور اس پر  منفی تبصرہ کریں گے


حیرانگی ہوتی ہے کہ ہر اچھی چیز ، انسان یا جگہ کو کوئی نا کوئی ضرور برا کہتا ہے کسی کو آم جیسا پھلوں کا بادشاہ بھی نا پسند ہے تو کوئی چاکلیٹ پسند نہیں کرتا اور کسی نا کسی کو کہیں پر آئس کریم بھی نا پسند ہوتی ہےاسے بد نصیبی نہ کہاجاے تو اور کیا کہا جاے ؟ لوگ جو شاندار نہایت سود مند چیزوں کے فائدوں اور ا علی لذت سے محروم ہیں بد نصیب ہی  تو ہیں 

اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جب لوگ  لگاتار اپنے قویٰ کا استعمال کرنا چھوڑ دیں تو ان میں وہ حس ہی باقی نہیں رہتی جس سے وہ مدھر اور کانوں میں رس گھولنے والی آواز کو محسوس کر سکیں یا کسی نظارے یا ذائقے کا صحیح لطف اٹھا سکیں ہم جانتے ہیں کہ   اگر لمبا عرصہ کسی  جسمانی عضوکا استعمال ترک کر دینے سے وہ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اسی طرح انسان ہونے کی کی جو خاص صلاحیت عطا کی گئی جس کو سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کی صلاحیت   کہا جاتا ہے اسے لمبا  عرصہ درست حد تک استعمال  نہ کیا جاے ، جتنا کے اس کا حق ہے یعنی اگر غور کرنے کو اس گہرائی تک نہ لے  جایا جاے جہاں تخلیق کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور انسان خود سے کوئی فن پارہ تخلیق کرنے لگتا ہے تو اس کی محسوس کرنے  اور  غور کرنے کی طاقت بس سطحی حد تک رہ جاتی ہے جو عام طور بس  دوسرے جانداروں کی سطح کے برابر ہی ہوتی ہے جبکہ انسانی حسیات اور چیز کی باریکیوں پر غور کرنے اور سمجھنے کی صلاحیت دیگر جانداروں سے کہیں زیادہ ہے صرف ظاہری سطح تک نہیں

 

 انسان جب غور کرنے اور سوچنے کی طاقت  سے محروم رہتا ہے ،  چاہے اس کی وجہ کوئی بھی ہو ، وہ اپنے قویٰ کا درست اور بہترین استعمال کرنے سے بھی محروم ہو جاتا ہے - دل مردہ ہو جانے یا بنجر ہو جانے کی وجہ یہی ہے کہ انسان کے پاس سوچنے  اور غور کرنے اور درست راہ اختیار کرنے کی صلاحیت نہیں رہتی ورنہ انسان کو جو دل و دماغ عطا ہوے  ہیں اس کو اپنے ارد گرد ہوتے ہوئے واقعات و مظاھر اور رویے دیکھ کر خود ہی ودرست راہ اختیار کر لینی چاہیے 

 

لیکن ایسا نہیں ہوتا بلکہ    اکثر لوگ اسی سطحی سوچ کے نتیجے میں  اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر بجاے اپنا اخلاقی معیار اور خدمت میں بہتری لانے کے مد مقابل کی کمزوریوں اور کمیوں کو اس کی بہت بڑی برائیاں بتا کر نا پختہ ذہنوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں جو در اصل بذات خود ایک عارضی کامیابی تو ہو سکتی مستقل حل کبھی نہیں اور یہ حربہ در اصل میڈیا کا ایجاد کردہ ہے جو با اثر حکومتی طبقہ کا آلاے کار ہونے کی وجہ سے مخالفین کی کردار کشی کو اپنا اولین فرض سمجھتا ہے

 

لیکن یہ بات کم لوگ جانتے ہونگے کہ کسی کی شخصیت آپ کے بتانے سے ہرگز ظاہر نہیں کی جا سکتی اور نا ہی  کسی  کے کردار کے بارے میں آپ کے خیالات کو حرف آخر تسلیم کیا جاتا ہے کیونکہ کسی بھی شخصیت کو جانچنے کا معیار ہمیشہ سے اس کے ساتھ معاملات اورتعلقات اور واسطہ پڑنے کے تجربات سے متعین ہوتا ہے

 

آپ کسی دکاندار کی ایمانداری دور سے سن کر اس کی دکان پر ایک بار جا تو سکتے ہیں لیکن واسطہ پڑنے کے بعد ہی اس کے کردار کے بارے میں  درست فیصلہ کرتے ہیں - انسان کی شخصیت در اصل زیادہ دیر چھپ کر رہ ہی نہیں سکتی - کیونکہ کوئی کب تک ایمانداری کا ناٹک کر سکے گا ؟ کبھی نا کبھی اس سےتعلق رکھنے والوں کو پتا تو چل جاے گا کہ در اصل کتنا ایماندار اور با اخلاق انسان ہے

انسان ایک جذبات والی مخلوق ہے - یہی فرق ہے ہم میں اور دوسری مخلوقات میں اور جذبات ہی ہم سے دنیا کا ہر کام کرواتے ہیں - آپ لوگوں سے جو رویہ اختیار کرتے ہیں یا ردعمل کا اظہار کرتے ہیں اس کی وجہ بیرونی عوامل سے کہیں زیادہ آپ کی اپنی شخصیت اور کردار ہوتا ہے

 لوگ عام طور پر خود کو اسی طرح سے ظاہر کرتے ہیں جیسا وہ خود کے بارے میں محسوس کرتے ہیں - اس لئے جیسے وہ آپ کی طرف دیکھتے ہیں یا پھر بات کرتے ہیں اس کی وجہ آپ نہیں بلکہ ان کی اپنی شخصیت ہوتی ہے وہ جیسے خود کو سجھتے ہیں ویسے ہی لوگوں سے اکثر  پیش آتے ہیں   اور  یہ ضروری نہیں کے ان کے اپنے بارے میں خیال سو فیصد درست بھی ہو  

بہر حال ان ہی سے مل کر انسان کا کردار بنتا ہے جس کو وہ جتنی بھی کوشش کر کے چھپا نہیں سکتا اور اس کے کردار پر اثر انداز ہونے والے عوامل میں سے  سب سے پر اثر داستان گوئی ہے یعنی کہانی سنانے کا عمل

 

یہ ایک ایسا طاقتور عمل ہوتا ہے جو شخصیت کی بنیاد مضبوط کرتا ہے اور لوگوں کے اپس میں مضبوط اور پائیدار تعلقات  کے قیام میں اہم کردار  ادا کرتا ہے -

 

اب تو کاروباری اور اقتصادی ترقی اور فروغ کے لئے بھی داستان گوئی اور کہانی سنانے کو بہت اہمیت حاصل ہو چکی ہے - کہانی ہمارے دل و دماغ میں جذباتی  محرکات پیدا کرتی ہے اور  ہمدردی، رحم دلی  اور لوگوں کے کام آنے  کا احساس جگا سکتی ہے- اسی لئے بچوں کو پر تشدد پروگرام اور فلموں سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ وہ اس قسم کی کوئی کہانی اور کھیل نہ دیکھیں جس سے  انکی شخصیت پر برا اثر ہو

 

ایک اچھی پر اثر کہانی لوگوں  کو طاقتور مثبت جذبات سے بھرپور شخصیت میں بدل سکتی ہے  جس سے انکا دنیا کو دیکھنے کا انداز یکسر بدل جاتا ہے کیونکہ کہانی کا مختلف موڑ اور واقعات لوگوں  کے دل دماغ پر گہرا اثر ڈالتے ہیں اور ہمارے تخیلات کو تخلیقی عمل تک پہنچتا دیتے ہیں

 

ایک بھرپور اثر انگیز کہانی انسانی محسوسات اور جذبات کو سامنے رکھتے  ہوئے تخلیق کی جاتی ہے جس میں لوگوں کے لئے سبق آموز حقیقت کو پیش کی جاتا ہے جو  جس سے انسانی کردار کی تعمیر میں مدد ملتی ہے

یہی وجہ ہے کہ بچپن سے جو کہانیاں ہم سنتے ہیں چاہے واقعی وہ ایک کہانی کے زمرے میں آتی ہوں یا نہیں پھر بھی وہ ہماری شخصیت کی بنت اور کردار کی تعمیر میں بنیادی حیثیت  کی حامل ہو تی ہیں -کیونکہ واقعات اور حالات اور رویوں سے تو ہر شخص کا واسطہ پڑتا ہے  - جس طرح کے و واقعات اور حالات  سے لوگوں کا شروع سے واسطہ  پڑتا ہے اسی طرح کی ان کی شخصیت اور ان کی پسند اور نا پسند ہو جاتی ہے جو عام تو پر کسی بہت اچھی اور خوبصورت چیز یا انسان کو بھی ناپسند  کر سکتی ہے

 

کاشف احمد

اسلام آباد پاکستان

٢٠-٠٥ -٢٠٢٠


No comments: