Sunday 21 June 2020

میں تعلیم کے نہیں اسکول ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے خلاف ہوں

ان نام نہاد تعلیمی اداروں کے خلاف ہوں جو تعلیم کے نام پر کاروبار چلاتے ہیں علم بیچتے ہیں- وہ اسکول کالج اور یونیورسٹیاں جو انسان کو انسان کی جگہ فیکٹری کارکن ایک غلام بنا کر اس کی سوچ کو محدود اور تخلیقی صلاحیت سے محروم کر رہی ہیں

تخلیق ، ، فن جمالیاتی ذوق حساسیت ، جوش اور جذبہ  جو غیر ممکن کو ممکن میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور تخلیق انسان کا بنیادی عنصر ہے اور پیدائشی طور پر انسان کی فطرت میں رکھا جاتا ہے یہ ادارے تعلیم کے نام پر انسان کو ان سب طاقتوں سے محروم کرنے میں لگے ہوئے ہیں

میں ہی نہیں ہر قابل قدر شخصیت  کا یہ کہنا ہے چاہے وہ ونسٹن چرچل ہو ، آئنسٹائن ہو یا پھر بل گیٹس ، سٹیو جابز  ، ماہر فیوچرسٹ الون ٹافلر،  سائمن سینک  یا پھر اس دور کے سب سے بڑے ماہر تعلیم اور اس شعبہ  میں انقلاب برپا کر  دینے والے سر کین رابن سن جنہوں نے اپنے شہرہ آفاق ٹیڈ ٹاکس اور دیگر تقاریر اور تحریکات سے دنیا کو تعلیم کی اصل روح سے روشناس کروایا ہے

تعلیم بنا تربیت کے بالکل  نہ مکمّل بلکہ خطرناک ہو جاتی ہے جیسے آدھا سچ تباہ کن ہو جاتا ہے بالکل  اسی طرح جیسے ایک نہایت اثر انگیز تقریر کسی شعلہ بیان کے منہ سے نکل کر تباہی پھیلا سکتی ہے وقتی جوش تو پیدا کر سکتی ہے لیکن دائمی اثر اور کامیابی اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک اس شعلہ بیانی کے ساتھ تقریر کرنے والے کا اپنا کردار  اور عمل بھی شامل نہ ہو جس کے اثر سے لوگ تقلید کر سکیں اور تربیت یافتہ ہو سکیں

اسی لیے میں کہتا ہوں کہ موٹی ویشن  یعنی کسی کام کی تحریک پیدا کرنا بالکل  ویسے ہوتا ہے جیسے آپ کسی کو برائی پر اکسا کر خود بیچ میں سے نکل جاتے ہیں کیونکہ آپ نے درست طریقہ کار اختیار کرنے کی تربیت نہیں دی اور مستقل طور پر اچھا کام اپنا لینے کا راستہ نہیں دکھایا جو صرف اور صرف آپ کے طرز عمل سے سیکھا جا سکتا ہے کیونکہ لوگ آپ کی نصیحت سے نہیں آپ کی  شخصیت سے سیکھتے ہیں اور اس کے نمایاں پہلو سے اثر لیتے ہیں اور تقلید کرتے ہیں کیونکہ کوئی بھی اپنی شخصیت کو زیادہ دیر چھپا نہیں سکتا یا بناوٹ سے زیادہ دیر کام نہیں چلا سکتا ہے کیونکہ کب تک وہ وقت کی پابندی ، سچائی اصول پسندی کا ناٹک ہر ایک کے  سامنے ہر وقت کر سکتا ہے ؟ کبھی نہ کبھی تو بھانڈا پھوٹ ہی جاتا ہے اور ساری شعلہ بیانی اور چرب زبانی دھری کی دھری رہ جاتی ہے - موٹی ویشن نہیں انسپریشن اصل چیز ہوتی ہے 


جتنی بھی کوشش کر لیں جتنا بھی کسی کے دماغ میں ٹھونس دیں اور وہ جتنے اچھے نمبر بھی لے آے وہ ایک اچھا انسان اور بہترین پیشہ ور ماہر نہیں بن سکتا جب تک آپ کے طرز عمل اور کردار کا اس پر اثر قائم نہ ہو اور آپ سے مستقل طور پر وابستہ رہے اور اس بات پر فخر کرے اور لوگوں کو بتا سکے کہ وہ ایک ایسے اتالیق اور استاد سے وابستہ ہے جس نے اس کی شخصیت بدل کر رکھ دی اور اب وہ صرف انجینئر ، ڈاکٹر یا کسی اور فن کا ماہر بنا نہیں واقعی ایک ماہر ہو گیا ہے وہ بس بنا ہوا نہیں ہے واقعی اچھا انسان اور ماہر فن بھی ہے

 

میں اسی لئے چاہتا ہوں کے آپ جب اپنے بچے کو کسی ادارے کے حوالے کریں تو بہت اچھی طرح تسلی کر لیں کہ وہ ادارہ اور اس کی انتظامیہ اور خاص طور پر وہاں تعلیم دینے والے لوگ واقعی وہی ہیں جس کا وہ دعوی کرتے ہیں -ان سے پوچھیں کہ  ان کے طالب علم اور شاگرد اچھے نمبر لینے کے علاوہ کس کس جگہ پر عملی میدان میں مصروف ہیں اور کتنا نام پیدا کیا ہے - کیونکہ کسی تعلیمی ادارے کی اصل اہمیت اور قدر اسی بات سے ہو سکتی ہے کے وہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے اس میدان میں کیسی کارکردگی دکھا رہے ہیں جس کی تعلیم حاصل کی ہے

پھر سب سے بڑھ کر یہ کے وہاں تعلیم دینے والوں کا اپنا تعلیمی اور عملی معیار کیسا ہے کتنے نامور یا کم از کم مستند ہیں اور کتنا خود کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھے ہوے ہیں اور اس کے لئے باقاعدہ ریفرشر کورس کتنے کرتے ہیں اور کتنی تحقیق کر رہے ہیں کتنے بااخلاق اور قابل بھروسہ ہیں اور اس بات پر کتنا زور دیتے ہیں کہ  بچوں میں بنیادی اخلاق کی تربیت کتنی ہے اور اگر نہیں ہے تو اس پر کتنا زور دیتے ہیں کیونکہ سب جانتے  ہیں کہ ایک با اخلاق قابل بھروسہ اورمعتبر  شخص ہی دراصل زندگی کے ہرشعبہ میں  عقلمندی اور امیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے اور اگر ایک تعلیمی ادارے میں ہمدردی سچائی ، وفاداری ، ادب لحاظ حفظ مراتب  ، ملنساری ، مہمان نوازی، وقار، رواداری ، جیسے بنیادی اخلاق موجود نہیں تو ان پر زور کیسے  دیا جا سکتا ہے

اپنے بچوں کو ایسے ادارے اور افراد کے حوالے کرنا کہاں کی عقلمندی ہے  جس میں بنیادی تعلیمی معیار اور جدید مستند اور محفوظ ترین ہونے کے علاوہ بچوں کی شخصیت کے نکھار کی بجاے اسے مسخ کئے جانے کا خطرہ ہو اور وہ اپنی بنیادی انسانی خواص احساسات ، جذبات اور صلاحیتوں سے محروم ہو جاے وہ بھی پیسے خرچ کر کے

آپ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وہاں کوئی خطرناک سرگرمی یا اس پر اکسانے والا ماحول تو نہیں ؟ اور اگر ہے تو وہاں کے استاد اور انتظامیہ کیا انتظام کر رہے ہیں ؟کیونکہ ایک لمبے عرصے سے اب تو ہر تعلیمی ادارے میں بےچینی الجھن پریشانی اور دباؤ کی فضا طالب علموں کو انتہا پسندی کی طرف لے جا رہی ہے جس کا نتیجہ نشہ، ، خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعیات اور دہشت گردی کی صورت میں نکل رہا ہے اور حکومت ، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ہائر  ایجو کشن کمیشن کی سر توڑ کوششیں بھی بار آور ثابت نہیں ہو رہیں یہاں تک کہ ان تعلیمی اداروں کا اپنا میعار اتنا گر چکا ہے کہ ملکی امتحانوں جیسا کہ سی ایس ایس اور دیگر پیشہ وارانہ امتحانوں میں انہی اداروں کے فارغ التحصیل نو جوان ٢ فیصد سے زیادہ کامیاب نہیں ہو رہے

لیکن اس کا حل کیا  ہے ؟ خاص طور پر جو لوگ اب ان اداروں میں تعلیم پر مجبور ہو چکے ہیں وہ کیا کریں ؟ اس کا حل صرف یہ ہے کہ اپنے بچے کو شروع ہی سے مستند اور معتبر ماہر کی  نگرانی و سرپرستی فراہم کرنے کی کوشش کریں خود بھی اپنے ماحول میں پیشہ ورانہ طور پر مستند افراد کو شامل کریں جو بااخلاق اور معتبر ہوں اور ہر مرحلے میں آپکی اور آپ کے بچوں کی رہنمائی کر سکیں ایسا کوئی بھی ہو سکتا ہے ضروری نہیں کہ  اس کے لئے آپ کو بہت دور تک رسائی کرنی پڑے پیسہ خرچ   ہو  مشکل اور تردد کا سامنا کرنا پڑے- یقیناً اگر کوئی قریبی رشتہ دار نہیں تو دور کا جاننے والا ضرور ہوگا جس کو اگر آپ اپنے روزانہ کے معمول میں نہ سہی مگر باقاعدگی سے اپنے سماجی تعلق میں شامل کر سکتے ہیں - اپنی سماجی سرگرمیاں اور رابطے اچھی شخصیت اور با کردار افراد میں رکھئے جو اپنے فن کے ماہر ہوں اور اگر ممکن نہ ہو تو کیرئر کونسلر یعنیپیشہ اختیار  کرنے اور کامیابی سے چلنے کے ماہرین سے رابطہ کریں اور ان کی مدد حاصل کریں

اپنی اولاد کی اہمیت اور قدر پہچانئےان کا  صحیح معنوں میں خیال اور دھیان رکھنا بے حد ضروری ہے -   بہتر اور محفوظ مستقبل کی خاطر آپ کو تردد اور قربانی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آپ سے اس کے بارے  میں ضرور پوچھا جاے گا - کسی چیز، شخص اور کام  کی اصل قدر و قیمت بہت کم لوگ ہی  جانتے ہیں کیونکہ آج کی مادی دنیا میں ہمارا دھیان اور خیال بلکہ ترجیح کچھ اور ہو گئی ہے

کہتے ہیں اپنی وفات سے قبل، ایک والد نے اپنے بیٹے سے کہا،" میری یہ گھڑی میرے والد نے مجھے دی تھی۔ جو کہ اب 200 سال پرانی ہو چکی ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ یہ میں تمھیں دوں کسی سنار کے پاس اسے لے جاؤ اور ان سے کہو کہ میں اسے بیچنا چاہتا ہوں۔ پھر دیکھو وہ اس کی کیا قیمت لگاتا ہے۔"

 

بیٹا سنار کے پاس گھڑی لے گیا۔ واپس آ کر اس نے اپنے والد کو بتایا کہ سنار اسکے 25 ہزار قیمت لگا رہا ہے، کیونکہ یہ بہت پرانی ہے۔

والد نے کہا کہ اب گروی رکھنے والے کے پاس جاؤ۔ بیٹا گروی رکھنے والوں کی دکان سے واپس آیا اور بتایا کہ گروی رکھنے والے اس کے 15 سو قیمت لگا رہے ہیں کیونکہ یہ بہت زیادہ استعمال شدہ ہے۔

اس پر والد نے بیٹے سے کہا کہ اب عجائب گھر جاؤ اور انہیں یہ گھڑی دکھاؤ۔ وہ عجائب گھر سے واپس آیا اور پرجوش انداز میں والد کو بتایا کہ عجائب گھر کے مہتمم نے اس گھڑی کے 8 کروڑ قیمت لگائی ہے کیونکہ یہ بہت نایاب ہے اور وہ اسے اپنے مجموعہ میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔

اس پر والد نے کہا،" میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ صحیح جگہ پر ہی تمھاری صحیح قدر ہو گی۔ اگر تم غلط جگہ پر بے قدری کئے جاؤ تو غصہ مت ہونا۔ صرف وہی لوگ جو تمھاری قدر پہچانتے ہیں وہی تمھیں دل سے داد دینے والے بھی ہوں گے۔ اسلئے اپنی قدر پہچانو، اور ایسی جگہ پر مت رکنا جہاں تمھاری قدر پہچاننے

والا نہیں۔"

غور کیجیے

 

کاشف احمد

اسلام آباد پاکستان 

No comments: