Sunday 14 June 2020

وتایو فقیر


سندھ میں کئی صدیوں پہلے ایسا لوک کردار گزرا ہے جو آج سندھ لوک ادب کا اہم حصہ ہے اور اس کی حکایتیں، کہاوتیں اور قصے کہانیاں سندھی معاشرے میں ضرب الامثال بن چکی ہیں۔ اس میں اپنا ایک الگ مزاج رکھنے والا وتایو فقیر ہے، جن کی ظرافت کے چرچے سندھ کے کونے کونے میں آج بھی لوگ دل چسپی سے سنتے ہیں۔ وتایو فقیر ایک لازوال کردار ہے، جس نے اپنی ظرافت اور محبت کی خوشبو سے سندھ کے کونے کونے کو معطر کیا ہے۔

یہ وہ فقیرانہ شخصیت ہے جس نے لوگوں کو اپنی مجذوب کیفیت میں بھی لوگوں کو محبت، امن اور عقلمندی کا درس دیا۔ وتایو فقیر نے اپنی روز مرہ زندگی میں اپنی کہانیوں اور قصوں سے سندھ کے لوگوں کو فیض پہنچایا۔ خاص طور پر سندھ کے بڑے اہل علم وتایو فقیر کی کہانیوں سے مستفید ہوئے۔ وتایو فقیر کوئی بھکاری نہیں تھے۔ یہاں فقیر سے مراد ہے صوفی، درویش، دنیا داری سے بے نیاز شخص۔ نفس کو نیچا دکھانے کے لیے وہ طرح طرح کی تدابیر اپناتے تھے۔

جس طرح ترکی کا ملا نصیر الدین اپنے گدھے پر سفر کرتے کرتے لطیف پیرائے سے حکمت اور رمز کے موتی لٹاتا تھا۔ اسی طرح سندھ کا وتایو فقیر بھی گاؤں گاؤں گدھے پر گھومنے والا ایک جیتا جاگتا کردار تھا۔ ایسا کردار جو خدا سے لاڈ بھی کرتا ہے اور جھگڑتا بھی ہے

اس کے علاوہ وتایو فقیر کو شیخ چلی اور بیربل سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ کچھ لوگ وتایوفقیر کے وجود کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک وتایو فقیر ایک خیالی کردار ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وتایو فقیر کا وجود تھا۔ اس کی مثال اس کی باتیں، حرکات و سکنات، حکایتیں اور قصہ کہانیاں آج تک زبان زد خاص و عام ہیں۔

 

وتایو فقیر کے چند قصے قارئین کے لیے پیش خدمت ہیں

  ایک رات جب شدید ٹھنڈ تھی۔ وتایو کی ماں نے وتایو سے کہا، کہ تم رب کے بہت قریب ہو ۔ تم خدا سے کہو کہ وہ جہنم سے تھوڑی سی آگ ہمیں دے دے ، جس سے ہم جیسے غریب لوگ اس شدید سردی سے اپنا بچاو کر سکیں ۔ وہ تمہاری بات نہیں ٹالے گا

اس پر وتایو نے اپنی ماں سے کہا

ماں ! جہنم میں آگ نہیں ہے ۔ وہاں جو بھی جائیگا اپنی آگ ساتھ لے کر جائے گا

 

اللھم اجرنی من النار ۔

وتایو فقیر صوفی، درویش تھے، نفس کو نیچا دکھانے کے لیے وہ طرح طرح کی تدابیر اپناتے تھے۔ ایک دفعہ دسترخوان پر مختلف اقسام کے طعام سجائے گئے۔ مشروب، مٹھائیاں، پھل وغیرہ۔ وتایو فقیر اپنے نفس سے مخاطب ہوئے بتا نفس تجھے کیا کھانا ہے۔ تجھے کیا پینا ہے؟ دیکھ لے دنیا بھر کے طعام تیرے آگے سجے ہوئے ہیں۔ مشروب، پھل اور مٹھائیاں ہیں، بتا تجھے کیا چاہیے۔ وتایو فقیر نے جیب سے سوکھی روٹی کا ٹکڑا نکالتے، پانی میں بھگوکر نوالہ منہ میں ڈالتے اور کہتے جاتے’’کھا میرے نفس کھا، اس سے لذیذ کھانا تو نے آج تک نہیں کھایا ہوگا، کھا سوکھی روٹی کھا۔‘‘ ایک روز نفس نے وتایو فقیر سے کہا ’’عید آنے والی ہے، تو مجھے قیمتی کپڑے پہنا۔‘‘ وتایو فقیر قیمتی ملبوسات لے آئے اور ویرانے کی طرف

نکل گئے

راستے میں انہیں ایک مسکین چرواہا ملا، وتایو فقیر نے ایک لباس چرواہے کو دے دیا، نفس چیخ پڑا ’’یہ کیا کررہے ہو وتایو!‘‘ وتایو نے اسے جواب نہیں دیا۔ ویرانے کی طرف جاتے ہوئے انہیں جو بھی خستہ حال ملا اسے ایک جوڑا لباس دیتے گئے۔ حتیٰ کہ وتایو فقیر کے پاس کپڑے کا صرف ایک جوڑا رہ گیا جو انہوں نے نے پہن لیا۔ نفس نے ہنس کر کہا ’’میں سمجھ رہا تھا کہ تم کپڑوں کا آخری جوڑا بھی کسی غریب کو دے دوگے چلو تم نے میری ایک خواہش تو پوری کی ہے۔‘‘ نفس کی بات سن کر وتایو فقیر رک گئے۔

جوڑا بھی کسی غریب کو دے دوگے چلو تم نے میری ایک خواہش تو پوری کی ہے۔‘‘ نفس کی بات سن کر وتایو فقیر رک گئے۔ انہوں نے ادھر ادھر دیکھا۔ انہیں پھٹے پرانے کپڑوں میں ایک مجذوب دکھائی دیا۔ وتایو نے اپنے تن سے قیمتی لباس اتارا اور مجذوب کو پہنا دیا اور مجذوب کے پھٹے پرانے کپڑے خود پہن لیے

 وتایو فقیر کے گاؤں میں شادی کی تقریب تھی۔ وہ بھی شادی کی دعوت میں جا پہنچے۔ انہیں دیکھ کر میزبانوں نے کہا فقیر آپ باہر بیٹھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وتایو فقیر پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ میزبانوں نے انہیں اندر جانے سے روکتے ہوئے کہا کہ اندر خاص مہمان ہیں۔ وتایو فقیر نے کہا کہ مجھے دعوت دی گئی ہے، میں کیوں اندر نہ جاؤں، مگر انہیں اندر نہیں جانے دیا گیا۔ وتایو فقیر واپس آئے اور دھوبی کے پاس پہنچے، اس سے کہا، ’’آج کوئی نئے صاف کپڑوں کا جوڑا تو دو، مجھے ایک دعوت میں جانا ہے۔‘‘

دھوبی نے ایک اچھا نیا جوڑا نکال کر انہیں دے دیا۔ اب وتایو فقیر نیا جوڑا اور پگڑی پہن کر اسی شادی دوبارہ پہنچ گئے۔ سب نے استقبال کیا۔ اب جب کھانا لگا تو تب سب لوگ کھانا کھارہے تھے مگر وتایو فقیر نے سارا کھانا کپڑوں پر گرادیا اور ساتھ کہتے گئے،’’میرے کپڑوں کھانا کھاؤ اور کھاؤ۔‘‘ یہ منظر سب لوگ حیرانی سے دیکھ رہے تھے۔ وہ وتایو کے پاس آئے اور کہا کہ جناب! آپ کپڑوں کو کیوں کھانا کھلارہے ہیں؟ یہ کپڑے کھانا نہیں کھاتے۔ تب وتایو فقیر زور زور سے ہنسے اور کہنے لگے،’’میں تو پہلے بھی آیا تھا لیکن آپ لوگوں نے مجھے اندر نہیں آنے دیا اور واپس بھیج دیا۔ اب میں انہی کپڑوں کی وجہ سے تو اندر آیا ہوں اسی لیے ان کپڑوں کو کھانا کھلارہا ہوں۔ مگر یہ کھانے کھاتے ہی نہیں اب انسان کی عزت تو نہیں ہے عزت ان کپڑوں کی ہے۔‘‘

 ایک بار وتایو فقیر مسجد میں وعظ کی مجلس میں بیٹھے تھے۔ مولوی صاحب کہہ رہے تھے کہ رزق کا وعدہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے، وہ اپنے مخلوق کو ہر حالت میں روزی پہنچاتا ہے۔ وتایو اچانک اٹھے اور جنگل کی جانب چل دیے۔ بڑے سے درخت پر چڑھ کر بیٹھ گئے اور سوچا کہ میرے نصیب میں جو رزق ہے وہ تو یہیں مل جائے گا۔ دو دن اور ایک رات گزر گئی، دوسری رات ہونے کو آئی تو درخت کے نیچے شکاریوں کے ایک گروہ نے آکر ڈیرا لگایا، کھانا پکایا اور کھانے سے قبل انھوں نے اپنے نوکر سے کہا کہ ایک پلیٹ قریبی گاؤں میں جاکر کسی مسکین کو دے کر آؤ، پھر سب کھانا کھاتے ہیں۔ یہ دیکھ کر وتایو سے رہا نہ گیا اور انہوں نے کھانسنا شروع کردیا۔ شکاریوں نے وتایو کو نیچے بلایا اور پوچھا کہ کیا بھوکے ہو؟ اس پر وتایو نے کہا کہ دو دن سے کچھ نہیں کھایا۔ شکاریوں نے مسکین والی پلیٹ وتایو کو دی اور وتایو نے اپنا پیٹ بھرا۔ واپس اپنے گاؤں پہنچے تو ماں نے پوچھا تم کہاں غائب تھے؟ بولے، دیکھنے گیا

تھا کہ مولوی صاحب سچ بول رہے ہیں یا جھوٹ؟ ماں نے پوچھا پھر کیا دیکھا؟ وتایو فقیر بولے بول تو سچ رہا تھا لیکن کھانسنا پڑا۔ تب جاکر پیٹ کی آگ بجھی

ایک مرتبہ خربوزے بیچنے والا آواز لگاکر لوگوں کو متوجہ کررہا تھا۔ وتایو کا بھی دل خربوزہ کھانے کو چاہا۔ انہوں نے اﷲ کے نام پر خربوزہ مانگا تو بیچنے والے نے ایک چھوٹا سا خراب اور پُھسپھُسا خربوزہ دے دیا۔ وتایو نے پھر جیب سے ایک پیسے کا سکہ نکال کر دیا تو اس نے دوسرا اچھا سا بڑا اور میٹھا خربوزہ اٹھاکر دیا۔ وتایو نے دونوں دانے ہتھیلیوں پر رکھ کر ہاتھ اوپر اٹھائے اور آسمان کی طرف منہ کرکے بولے،’’اپنے نام پر ملا ہوا خربوزہ دیکھ اور ایک پیسے میں خریدا ہوا خربوزہ بھی دیکھ۔ ایک پیسے کی قدر دیکھ اور اپنے نام کی بھی قدر دیکھ۔‘‘

وتایو فقیر ایک مقام سے گزر رہے تھے جہاں کسی دولت مند نے ضرورت مندوں کے لیے بڑے پیمانے پر طعام کا بندوبست کر رکھا تھا۔ میزبان نے فقیر کے فقر، درویشی کو دیکھ کر فیصلہ کیا کہ کھانے کی تقسیم اسی بزرگ کے ہاتھوں سے ہو۔ وتایو نے لوگوں سے پوچھا کہ کھانا خدا کے طریقے سے بانٹوں یا انسانوں کی طرح؟ لوگوں نے فوراً جواب دیا ’’خدا کے طریقے سے بانٹو۔‘‘ سیکڑوں لوگ مجمع میں کھانے کے منتظر تھے۔ وتایو نے کھانا بانٹنا شروع کیا۔ انہوں نے کھانے سے بھری ایک پلیٹ ایک شخص کو تھمائی، چند کو آدھی پلیٹ کھانا دیا، ایک کے حوالے باقی تمام دیگیں کردیں۔ کسی کو دھکے دیے تو کسی کو ڈانٹا بھی اور کسی کو تو کھانا دینے سے صاف انکار کردیا۔ جب کھانا ختم ہوگیا تو لوگوں نے ان سے شکایت کی کہ یہ کیا طریقہ ہے یہ کیسی تقسیم ہے لوگ بھوکے رہ گئے ہیں۔ وتایو مسکرائے اور بولے ’’میں نے پوچھا تو تھا تقسیم انسانی طریقے سے کروں یا خدا کے طریقے سے؟ میں نے وہی کیا جو آپ لوگوں نے کہا تھا۔ آپ لوگوں نے کہا تھا خدا کے طریقے سے۔ مجھے تو خدا کا یہی طریقہ نظر آتا ہے۔ یعنی خدا کسی کو کم دیتا ہے کسی کو زیادہ دیتا ہے۔ کسی کو دھکے ملتے ہیں تو کسی کو کچھ بھی نہیں ملتا۔ اب مجھ سے کیسی شکایت۔‘‘ یہ کہا اور مسکراتے ہوئے اپنے راستے پر چل دیے

 

[ایکسپرس نیوز کی ایک کہانی سے اقتباس ]

 

کاشف احمد

اسلام آباد پاکستان 

2 comments:

Unknown said...

Subhan Allah. Thank you very much Kashif Sahib for soul provoking write up. Jazak Allah kaseeran. Kia khoob samjha Watayo ny Allah aur insaan ko. Bohot Aala!

Kashif Ahmed said...

Thank you so much I agree