سندھ
میں کئی صدیوں پہلے ایسا لوک کردار گزرا ہے جو آج سندھ لوک ادب کا اہم حصہ ہے اور
اس کی حکایتیں، کہاوتیں اور قصے کہانیاں سندھی معاشرے میں ضرب الامثال بن چکی ہیں۔
اس میں اپنا ایک الگ مزاج رکھنے والا وتایو فقیر ہے، جن کی ظرافت کے چرچے سندھ کے
کونے کونے میں آج بھی لوگ دل چسپی سے سنتے ہیں۔ وتایو فقیر ایک لازوال کردار ہے،
جس نے اپنی ظرافت اور محبت کی خوشبو سے سندھ کے کونے کونے کو معطر کیا ہے۔
یہ
وہ فقیرانہ شخصیت ہے جس نے لوگوں کو اپنی مجذوب کیفیت میں بھی لوگوں کو محبت، امن
اور عقلمندی کا درس دیا۔ وتایو فقیر نے اپنی روز مرہ زندگی میں اپنی کہانیوں اور
قصوں سے سندھ کے لوگوں کو فیض پہنچایا۔ خاص طور پر سندھ کے بڑے اہل علم وتایو فقیر
کی کہانیوں سے مستفید ہوئے۔ وتایو فقیر کوئی بھکاری نہیں تھے۔ یہاں فقیر سے مراد
ہے صوفی، درویش، دنیا داری سے بے نیاز شخص۔ نفس کو نیچا دکھانے کے لیے وہ طرح طرح
کی تدابیر اپناتے تھے۔
جس
طرح ترکی کا ملا نصیر الدین اپنے گدھے پر سفر کرتے کرتے لطیف پیرائے سے حکمت اور
رمز کے موتی لٹاتا تھا۔ اسی طرح سندھ کا وتایو فقیر بھی گاؤں گاؤں گدھے پر گھومنے
والا ایک جیتا جاگتا کردار تھا۔ ایسا کردار جو خدا سے لاڈ بھی کرتا ہے اور جھگڑتا
بھی ہے
اس
کے علاوہ وتایو فقیر کو شیخ چلی اور بیربل سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے۔ قابل ذکر بات
یہ ہے کہ کچھ لوگ وتایوفقیر کے وجود کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک
وتایو فقیر ایک خیالی کردار ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وتایو فقیر کا وجود
تھا۔ اس کی مثال اس کی باتیں، حرکات و سکنات، حکایتیں اور قصہ کہانیاں آج تک زبان
زد خاص و عام ہیں۔
وتایو
فقیر کے چند قصے قارئین کے لیے پیش خدمت ہیں
ایک رات جب شدید ٹھنڈ
تھی۔ وتایو کی ماں نے وتایو سے کہا، کہ تم رب کے بہت قریب ہو ۔ تم خدا سے کہو کہ
وہ جہنم سے تھوڑی سی آگ ہمیں دے دے ، جس سے ہم جیسے غریب لوگ اس شدید سردی سے اپنا
بچاو کر سکیں ۔ وہ تمہاری بات نہیں ٹالے گا
اس
پر وتایو نے اپنی ماں سے کہا
ماں
! جہنم میں آگ نہیں ہے ۔ وہاں جو بھی جائیگا اپنی آگ ساتھ لے کر جائے گا
اللھم
اجرنی من النار ۔
وتایو فقیر صوفی، درویش تھے، نفس کو نیچا دکھانے کے لیے وہ طرح طرح کی تدابیر اپناتے تھے۔ ایک دفعہ دسترخوان پر مختلف اقسام کے طعام سجائے گئے۔ مشروب، مٹھائیاں، پھل وغیرہ۔ وتایو فقیر اپنے نفس سے مخاطب ہوئے بتا نفس تجھے کیا کھانا ہے۔ تجھے کیا پینا ہے؟ دیکھ لے دنیا بھر کے طعام تیرے آگے سجے ہوئے ہیں۔ مشروب، پھل اور مٹھائیاں ہیں، بتا تجھے کیا چاہیے۔ وتایو فقیر نے جیب سے سوکھی روٹی کا ٹکڑا نکالتے، پانی میں بھگوکر نوالہ منہ میں ڈالتے اور کہتے جاتے’’کھا میرے نفس کھا، اس سے لذیذ کھانا تو نے آج تک نہیں کھایا ہوگا، کھا سوکھی روٹی کھا۔‘‘ ایک روز نفس نے وتایو فقیر سے کہا ’’عید آنے والی ہے، تو مجھے قیمتی کپڑے پہنا۔‘‘ وتایو فقیر قیمتی ملبوسات لے آئے اور ویرانے کی طرف
نکل گئےجوڑا
بھی کسی غریب کو دے دوگے چلو تم نے میری ایک خواہش تو پوری کی ہے۔‘‘ نفس کی بات سن
کر وتایو فقیر رک گئے۔ انہوں نے ادھر ادھر دیکھا۔ انہیں پھٹے پرانے کپڑوں میں ایک
مجذوب دکھائی دیا۔ وتایو نے اپنے تن سے قیمتی لباس اتارا اور مجذوب کو پہنا دیا
اور مجذوب کے پھٹے پرانے کپڑے خود پہن لیے
وتایو فقیر کے گاؤں
میں شادی کی تقریب تھی۔ وہ بھی شادی کی دعوت میں جا پہنچے۔ انہیں دیکھ کر میزبانوں
نے کہا فقیر آپ باہر بیٹھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وتایو فقیر پھٹے پرانے کپڑے پہنے
ہوئے تھے۔ میزبانوں نے انہیں اندر جانے سے روکتے ہوئے کہا کہ اندر خاص مہمان ہیں۔
وتایو فقیر نے کہا کہ مجھے دعوت دی گئی ہے، میں کیوں اندر نہ جاؤں، مگر انہیں اندر
نہیں جانے دیا گیا۔ وتایو فقیر واپس آئے اور دھوبی کے پاس پہنچے، اس سے کہا، ’’آج
کوئی نئے صاف کپڑوں کا جوڑا تو دو، مجھے ایک دعوت میں جانا ہے۔‘‘
دھوبی
نے ایک اچھا نیا جوڑا نکال کر انہیں دے دیا۔ اب وتایو فقیر نیا جوڑا اور پگڑی پہن
کر اسی شادی دوبارہ پہنچ گئے۔ سب نے استقبال کیا۔ اب جب کھانا لگا تو تب سب لوگ
کھانا کھارہے تھے مگر وتایو فقیر نے سارا کھانا کپڑوں پر گرادیا اور ساتھ کہتے گئے،’’میرے
کپڑوں کھانا کھاؤ اور کھاؤ۔‘‘ یہ منظر سب لوگ حیرانی سے دیکھ رہے تھے۔ وہ وتایو کے
پاس آئے اور کہا کہ جناب! آپ کپڑوں کو کیوں کھانا کھلارہے ہیں؟ یہ کپڑے کھانا نہیں
کھاتے۔ تب وتایو فقیر زور زور سے ہنسے اور کہنے لگے،’’میں تو پہلے بھی آیا تھا
لیکن آپ لوگوں نے مجھے اندر نہیں آنے دیا اور واپس بھیج دیا۔ اب میں انہی کپڑوں کی
وجہ سے تو اندر آیا ہوں اسی لیے ان کپڑوں کو کھانا کھلارہا ہوں۔ مگر یہ کھانے
کھاتے ہی نہیں اب انسان کی عزت تو نہیں ہے عزت ان کپڑوں کی ہے۔‘‘
تھا
کہ مولوی صاحب سچ بول رہے ہیں یا جھوٹ؟ ماں نے پوچھا پھر کیا دیکھا؟ وتایو فقیر
بولے بول تو سچ رہا تھا لیکن کھانسنا پڑا۔ تب جاکر پیٹ کی آگ بجھی
ایک
مرتبہ خربوزے بیچنے والا آواز لگاکر لوگوں کو متوجہ کررہا تھا۔ وتایو کا بھی دل
خربوزہ کھانے کو چاہا۔ انہوں نے اﷲ کے نام پر خربوزہ مانگا تو بیچنے والے نے ایک
چھوٹا سا خراب اور پُھسپھُسا خربوزہ دے دیا۔ وتایو نے پھر جیب سے ایک پیسے کا سکہ
نکال کر دیا تو اس نے دوسرا اچھا سا بڑا اور میٹھا خربوزہ اٹھاکر دیا۔ وتایو نے
دونوں دانے ہتھیلیوں پر رکھ کر ہاتھ اوپر اٹھائے اور آسمان کی طرف منہ کرکے
بولے،’’اپنے نام پر ملا ہوا خربوزہ دیکھ اور ایک پیسے میں خریدا ہوا خربوزہ بھی
دیکھ۔ ایک پیسے کی قدر دیکھ اور اپنے نام کی بھی قدر دیکھ۔‘‘
[ایکسپرس نیوز کی ایک کہانی سے اقتباس ]
کاشف احمد
2 comments:
Subhan Allah. Thank you very much Kashif Sahib for soul provoking write up. Jazak Allah kaseeran. Kia khoob samjha Watayo ny Allah aur insaan ko. Bohot Aala!
Thank you so much I agree
Post a Comment