Tuesday 30 June 2020

کامیابی کی عمارت کا تیسرا ستون

 

آپ اکثر سنتے ہونگے کہ بظاہر بہت کامیاب دکھائی دینے والے لوگ جن کے پاس طاقت اور پیسے کی کمی نہیں ہوتی وہ بھی ایک خالی پن بےچینی اور اضطراب کا شکار رہتے ہیں - کچھ کرنے کو نہیں ملتا کیونکہ سب کچھ تو حاصل کر لیا اور نیا کیا کریں

 دنیا کے دولت مند اور طاقتور ترین ملکوں میں جہاں مادی خوشحالی کی شرح بہت بلند ہوتی جا رہی ہے وہاں مایوسی اتنی بڑھ چکی ہے کہ یورپ میں خودکشی کی سالانہ سطح میں 45 فیصد اضافہ ہو چکا ہے

 اس کی کیا وجہ ہے ؟  ، بظاھر تو مغربی ممالک کے لوگ اتنے خوشحال ہیں پھر خوش کیوں نہیں ؟ جب کہ غربت کے با وجود تیسری دنیا کے ممالک میں خوشی کا تناسب کہیں اوپر ہے - حال ہی میں اقوام متحدہ کے ایک سروے کے مطابق پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں خوشی کے تناسب میں سب سے اوپر ہے

 عجیب بات لگتی ہے ...یہی بات نروس بریک ڈاؤن تک پہنچنے کے بعد آریانا ہوفنگٹن نے اپنے سمتھ کالج کے خطاب  میں کہی جب انہوں نے شدید ذہنی دباؤ سے ہلکان  ہو کر کئی راتیں جاگنے کی وجہ سے اپنی توانائی ختم ہو جانے کے بعد اچانک ایک دن گر جانے اور شدید چوٹیں آجانے کے بعد دریافت کی

 آریانا کا شمار دنیا کی کامیاب ترین خواتین میں ہوتا ہے وہ امریکا کے  مقبول اور کامیاب ترین جریدے ہف پوسٹ کی مالک ہونے کے علاوہ میڈیا کی کامیاب ترین شخصیت مصنف اور دانشور بھی ہیں - وہ کہتی ہیں کہ اس تلخ ترین تجربے کے بعد بستر پر لیٹے کافی دن انہوں نے اس بات پر غور کیا کہ آخر کونسی چیز ہے جس کی انکے اور ان جیسے بظاہر کامیاب ترین لوگوں کے پاس  شدید کمی ہے

اور انہوں نے آخر دریافت کیا کہ کامیابی کا مطلب پچھلی کئی صدیوں سے ہم نے سکیڑ کر بس پیسے اور طاقت تک محدود کر رکھا ہے جبکہ  کامیابی کی اس عمارت کے صرف یہ دو ہی ستون نہیں ہوتے ایک تیسرا ستون جسے ہم یکسر نظر انداز کرتے چلے آئے ہیں جو در اصل ہماری اصل خوشحالی کا راز یعنی ہماری الہام و وجدان کی صلاحیت ہمارے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے کی طاقت ہے جس سے ہم علم و ہنر سے کہیں آگے بڑھ کر  اپنے لئے ایک گہری دانائی حاصل کرتے ہیں جس کے بغیر ہمیں اطمینان حاصل نہیں ہو سکتا  

وہ اپنی مشہور زمانہ کتاب '' تھرائو'' میں مزید لکھتی ہیں کہ کامیابی کی عمارت طاقت اور پیسے کے صرف دو ستونوں پر زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی ادھر ادھر جھولتی رہتی ہے اور آخر ایک دن دھڑام سے نیچے گر جاتی ہے جیسا میرے ساتھ ہوا - جب تک یہ تیسرا ستون شامل نہ کیا جاے کامیابی کی عمارت مضبوطی سے اپنی جگہ قائم نہیں کی جا سکتی

 الہام و وجدان جس کو انگریزی میں '' انٹوی شن''  کہا جاتا ہے ہمارے ضمیر کو تندرست و توانا رکھنے اور اس کو موثر رکھ سکنے  کا نام ہے جو ہمیں اندرونی آگاہی سے روشناس کرواتا ہے اور اصل دانائی کا حامل کرتا ہے- جس کے لئے ایک ہی بہترین ذریعہ ہے ''مراقبہ یا استغراق - ''اسی لئے آج کے دور کے کامیاب ترین سربراہان اور کاروباری افراد باقاعدہ طور پر استغراق  اور مراقبہ کرے لگے  ہیں جن میں نمایاں افراد بل گیٹس ، مارنی ابرےمسن جو رئیل اسٹیٹ کی دنیا کا بڑا نام ہے ، نینسی سلوموویٹز جو ای ایم اے کی سربراہ ہیں ، رامانی ائیر جو دنیا کے ایک بہت بڑے مالیاتی ادارے دی ہارٹ فورڈ فنانشل کے چیئرمین اور سی ای او رہ چکے ہیں اور پھر رسل سمنز جو ڈیف جیم ریکارڈز کے کاخالق ہیں .....ہیں شامل ہیں

 ان کے علاوہ بہت سے اور کامیاب ترین اور اپنے شعبے کے ماہر ترین لوگ کہتے ہیں کے ان سے اسی ذہنی دباؤ کی وجہ سے کئی بار بہت مہلک غلطیاں سرزرد ہوتی رہی ہیں یہاں تک کے دنیا کے بڑے تھنک ٹینک بھی یہ فاش غلطیاں کرنتے ہیں جیسے

 لوگوں سے میل جول اور بات چیت میں برا رویہ اختیار کر لینا

 لوگوں سے ایک پائدار مضبوط تعلق قائم رکھنے میں ناکامی

 خود کو اکثر نا قابل پہنچ بنا لینا

 اپنی فطری استعداد بڑھانے پر توجہ نہ دینا

 باقاعدگی  سے کارکردگی کا تجزیہ  نہ کرنا

 جذبات و احساسات کا بلکل لحاظ نہ کرنا  

 تنازعات کی صورت میں  نہایت غیر موثر انداز میں برتاؤ کرنا

 بہتر تبدیلی کے بر وقت فیصلے نہ کرنا ..جس  کی وجہ سے کوئی بھی ادارہ تباہ ہو جاتا ہے

 لوگوں کو خدشات و خطرات سے منع کرنا اور  ہمت دکھانے سے روکنا

 لوگوں کی بہترین  کارکردگی کی اصل وجہ پیسے کو سمجھنا جبکہ اس کی اصل وجہ عزت ، حوصلہ افزائی اور ستائش ہوتی ہے

 لوگوں پر منتظم بن کر انہیں بے جا کنٹرول کرنے کے اوچھے ہتھکنڈے آزمانا بجائے ایک رہنما کی طرح اپنی مثال قائم کرنے حوصلہ دینے اور جوش و جذبہ پیدا کرنے کے ..لوگ اس قسم کے منتظمین سے شدید نفرت  کرتے ہیں جو انکو انسان کی جگہ مشین یا جانور سمجھتے ہیں

 یہی وہ فاش غلطیاں ہیں جن کا شکار ہو کر اکثر سربراہان اور کاروباری  مالکان اپنے کاروبار کو بھی تباہ کر لیتے ہیں اور آخر نروس بریک ڈاون کا شکار ہو جاتے ہیں جس کا حل آخر آریانا ہوفنگٹن نے دریافت کیا اور اب دنیا کے بہت سے دوسرے بڑے سربرہان اور بڑے کاروبار کے مالکان نے اپنا لیا ہے جسے خود کو ایک بڑی دانائی کی  طاقت کے ممبہ سے منسلک کر کے اپنے الہام و وجدان کی صلاحیت کو بڑھاتے ہوے علم و ہنر کو دانائی میں تبدیل کرنا کہتے ہیں جسے دوسرے الفاظ میں مراقبہ اور عبادت بھی کہا جاسکتا ہے

  

 

کاشف احمد

اسلام آباد ، پاکستان 

2 comments:

Unknown said...

I totally agree with you Kashif. Balance and focus is the essence of life. A very good article!
Farhat Zaman

Kashif Ahmed said...

Thank you so much